Jasarat News:
2025-07-07@06:58:09 GMT

خواجہ آصف صاحب! آپ پاکستان کے وفاقی وزیر ہیں

اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ایران پر اسرائیل کے حملوں کے بعد پاکستان، سعودی عرب، ترکیہ سمیت بیش تر بڑے اسلامی ملکوں نے ایران کی حمایت کا اعلان کیا ہے جبکہ امریکا، جرمنی، فرانس سمیت غیر اسلامی ملکوں نے اسرائیل کی حمایت کی ہے یا خاموشی اختیار کی ہے، بھارت واحد ملک ہے جہاں اسرائیل کے حق میں ریلی نکالی گئی ہے۔ اسی طرح شنگھائی تعاون تنظیم کے تمام ارکان نے ایران اسرائیل جنگ میں ایران کی حمایت کا اعلان کیا ہے لیکن صرف بھارت واحد رکن ہے جس نے ایران کی حمایت نہیں کی؛ ایس سی او کے مشترکہ اعلامیے میں اسرائیل کے حملے کو بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی سنگین خلاف ورزی اور علاقائی اور عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دیا گیا ہے، بھارت نے ایس سی او کی یکجہتی کو توڑ دیا اور ایک علٰیحدہ بیان جاری کیا جس میں اسرائیل کی مذمت تک نہیں کی گئی۔
وہ جو ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ یہود و ہنود آپس میں دوست ہیں یہ مسلمانوں کے ساتھ دشمنی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، اس کا عملی مظاہرہ آج ہم عالمی سطح پر دیکھ رہے ہیں جس دن سے اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا ہے حسب روایت پاکستانی سیاست دانوں، مذہبی رہنماؤں، سماجی لیڈروں نے بیانات دینے شروع کر دیے ہیں کہ امت مسلمہ متحد ہو جائے، مسلم ممالک نے اتحاد نہ کیا تو سب کی باری آئے گی، عالمی برادری اسرائیل کو جارحیت سے باز رکھے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ مطالبے کس سے کیے جاتے ہیں، عالمی برادری کہاں رہتی ہے، اس میں کون کون شامل ہے، ان لایعنی مطالبوں کا کیا کبھی کوئی اثر ہوا ہے جو آج ہو جائے گا یا یہ بیانات دے کر ہم اپنی ذمے داری سے سبک دوش ہو جاتے ہیں، پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایران پر اسرائیلی حملے کی مذمت کی اور کہا کہ مسلم دنیا متحد نہ ہوئی تو سب کی باری آئے گی، اس وقت لازم ہے
کہ کچھ اقدامات کیے جائیں، اسرائیل نے یمن، ایران، فلسطین کو ٹارگٹ بنایا ہوا ہے۔ اسلامی دنیا میں اس کے خلاف اس طرح آواز نہیں اُٹھ رہی جس طرح باقی دنیا میں اُٹھ رہی ہے، غیر مسلموں کے ضمیر جاگ رہے ہیں لیکن مسلمانوں کے ضمیر نہیں جاگے، خواجہ آصف صاحب سب سے مضبوط اسلامی ملک پاکستان کے وزیر دفاع ہیں انہیں بتانا چاہیے کہ اسلامی ملکوں کے اتحاد کے لیے پاکستانی حکومت نے اب تک کیا اقدامات کیے ہیں یہ ممالک خود بخود تو متحد نہیں ہوں گے۔ کسی نہ کسی کو تو اس کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی، ہر اسلامی ملک سے رابطہ کرنا ہوگا، انتشار کے نقصانات اور اتحاد کے فوائد سے آگاہ کرنا ہوگا، افسوس ہے کہ پاکستانی وزیر اس طرح بیانات دیتے ہیں کہ گویا بھول گئے ہوں کہ وہی حکومت ہیں اور جو مطالبہ وہ کر رہے ہیں ان پر عمل کرنا انہی کی ذمہ داری ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے رائٹرز نے خبر جاری کی ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو قتل کرنے کے اسرائیلی منصوبے کو ویٹو کر دیا اور اسرائیل کو قتل کے اقدام سے روک دیا ہے۔ اسرائیلی حکومت کی جانب سے امریکی صدر کو یہ اطلاع دی گئی تھی کہ انہیں ایرانی سپریم لیڈر کو قتل کرنے کا موقع ملا ہے، اسرائیل اپنے حملوں میں علی خامنہ ای کے مشیر علی شمخانی، فوج کے سربراہ میجر جنرل باقری، پاسداران انقلاب کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی، میجر جنرل غلام علی، کمانڈر ایرو اسپیس فورس بریگیڈیئر جنرل عامر علی ایرانی انٹیلی جنس کے سربراہ بریگیڈیئر جنرل غلام رضا محرابی، سربراہ آپریشنز بریگیڈیئر جنرل مہدی ربانی اور 9 سے زائد ایٹمی سائنس دانوں کو شہید کر چکا ہے اس لیے رائٹرز کی مذکورہ خبر پر بھی یقین کیا جا سکتا ہے۔ اس تمام صورتحال سے واضح ہوتا ہے کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد ایران میں کس سطح تک سرایت کر چکی ہے، اسرائیلی جاسوس یقینا اسرائیلی شہری تو نہیں ہوں گے ایرانی شہریوں کو ہی جاسوس بنایا گیا ہوگا ایرانی شہری اتنے بڑے پیمانے پر اسرائیلی جاسوس بننے کے لیے کیسے راضی ہوئے اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہمیں اس خطے کے ممالک کا جائزہ لینا ہوگا۔ انتہائی بدقسمتی ہے کہ پورے خطے میں صرف ایک جمہوری ملک ہے اور وہ اسرائیل ہے باقی تمام ملکوں میں یا تو بادشاہت ہے یا بدترین آمریت قائم ہے، ایران میں انتخابات ہوتے ہیں لیکن وہاں بھی سخت جابرانہ نظام ہے، گزشتہ برسوں میں اس جبر کے خلاف کئی تحریکیں (صحیح یا غلط) اُٹھیں ان سب کو ریاستی طاقت کے ذریعے کچل دیا گیا۔ جمہوری ملکوں میں عوام یا کسی خاص طبقے کو کچھ شکایات ہوتی ہیں تو وہ آواز اُٹھا سکتے ہیں، حکومتیں ان کی شکایات پر غور کرتی ہیں ان کے مسائل حل کرتی ہیں لیکن پھر بھی ان کے مسائل حل نہ ہوں تو وہ چار پانچ سال بعد انتخابات میں اس حکومت کو بدل سکتے ہیں لیکن غیر جمہوری ممالک میں ہر مسئلے کو بے رحمانہ طاقت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، لوگوں کو ڈرا دھمکا کر، جیلوں میں ڈال کر یا قتل کر کے یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ مسئلہ حل ہو گیا حالانکہ مسئلہ حل نہیں ہوتا زیر زمین چلا جاتا ہے جو پہلے سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے جن لوگوں کی شکایات نہ حکومت سننے کو تیار ہو نہ انہیں عدالتوں سے انصاف مل رہا ہو پھر وہ دشمن ایجنسیوں کا آسان شکار ہوتے ہیں ایرانی حکومت اور دیگر تمام اسلامی ممالک کو اس سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کے اس بیان کہ ’’سب کی باری آئے گی‘‘ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک یہ بات طے شدہ ہے کہ ایران اسرائیل جنگ میں اسرائیل ایران کو ملیا میٹ کر دے گا اور پھر کسی دوسرے اسلامی ملک پر چڑھ دوڑے گا، خواجہ آصف کو یاد رکھنا چاہیے قدرت نے کچھ نہ کچھ آپشنز سب کے لیے رکھے ہوتے ہیں، اسرائیل کے پاس دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی، ہتھیار اور ساز و سامان ہے لیکن اس کی آبادی بہت کم ہے جو اس کے لیے بہت ہی قیمتی ہے، چند لوگ بھی مرجائیں تو وہاں صف ماتم بچھ جاتی ہے، ایران میں صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے ایرانی طویل عرصے سے بین الاقوامی پابندیوں کا مقابلہ کر رہے ہیں اس لیے ان کے پاس جو کچھ ٹیکنالوجی ہے وہ ان کی اپنی ہے امریکا یا دیگر ترقی یافتہ ممالک کی جدید ترین ٹیکنالوجی اس کے پاس نہیں ہے لیکن اس کی آبادی اسرائیل کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے اور یہ وہ آبادی ہے جو عراق (جسے امریکی آشیرباد بھی حاصل تھی) سے آٹھ سال تک جنگ لڑ چکی ہے یقینا اس وقت انقلاب نیا نیا تھا، لوگوں میں بہت جوش و خروش اور اتحاد تھا لیکن اس وقت ایرانی فوج کے تتر بتر ہو چکی تھی اس صورتحال میں بھی ایران آٹھ سال تک جنگ لڑتا رہا اور اگر جیتا نہیں تو ہارا بھی نہیں تھا، اب انقلاب پرانا ہو گیا ہے وہ جوش و خروش بھی نہیں لیکن اب ایران کی منظم فوج ہے، تمام ادارے مضبوط و متحرک ہیں اس لیے ایران اسرائیل کے لیے تر نوالہ ثابت نہیں ہوگا۔
ایران پر اسرائیلی حملے یقینا قابل مذمت ہیں لیکن اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں شیعہ سنی اتحاد نمایاں ہو کر سامنے آیا ہے، عوامی سطح پر یہ اتحاد ہمیشہ رہتا ہے لیکن اوپر کی سطح پر کچھ لوگ انتشار و افتراق کی بات کرتے رہتے ہیں اس وقت پورے ملک میں مسلمانوں کے اتحاد کی باتیں ہو رہی ہیں اللہ کرے یہ اتحاد و اتفاق مستقل بنیادوں پر قائم ہو جائے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اسرائیل کے اسلامی ملک پاکستان کے خواجہ ا صف نے ایران ایران کی ہیں لیکن کی حمایت ہے لیکن رہے ہیں لیکن اس ایران ا کے لیے

پڑھیں:

پاکستان اور معاہدہ ابراہیمی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ہمارے تجزیہ کار دوست کہتے ہیں کہ بے شک پاکستانی حکمران انتہائی سفاک، بے حس اور ظالم ہیں، وہ پاکستانی قوم کو زندہ رہنے کی ذرا سی سہولت دینے کو تیار نہیں ہیں اور خود عوام کے ادا کردہ ٹیکسوں کے بل پر اپنی تنخواہوں میں کئی سو گنا اضافہ اور بے تحاشا مراعات حاصل کررہے ہیں لیکن یہ سب کچھ عالمی اسٹیبلشمنٹ کے ’’گریٹر گیم‘‘ کا حصہ ہے۔ وہ نہیں چاہتی کہ پاکستانی عوام دو وقت کی روٹی کے شیطانی چکر سے باہر آئیں اور اپنے ملک کے خلاف عالمی سازش کو روکنے کے لیے احتجاج کا حصہ بنیں۔ اس کام میں آئی ایم ایف بھی پاکستانی حکمرانی کی سہولت کاری کررہا ہے۔ اسے ارکان پارلیمنٹ، وزیروں اور مشیروں کی تنخواہوں میں کئی سو گنا اضافے پر تو کوئی اعتراض نہیں البتہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فی صد اضافہ بھی اسے گوارا نہیں۔ ہمارے دوست کہتے ہیں کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ نے بھارت کے ذریعے پاکستان کے کان مروڑنے کی کوشش کی تھی وہ پاکستان کو تین چار دن تک اپنی جارحیت کا نشانہ بناتا رہا، امریکا نے اس موقع پر اعلان کیا کہ وہ اس لڑائی میں دخل نہیں دے گا۔ دونوں ملک لڑ بھڑ کر خود ہی صلح کرلیں گے لیکن جب پاکستان نے جوابی کارروائی کی اور صرف پونے چار گھنٹے کی فضائی کارروائی کے ذریعے بھارت کے حواس ٹھکانے لگا دیے تو امریکا اچھل کر درمیان میں آگیا اور امریکی صدر ٹرمپ نے جنگ رکوا دی۔ مقصد بھارت کو مزید نقصان سے بچانا تھا۔ جنگ بندی کے فوراً بعد پاکستان کے آرمی چیف کا شکریہ ادا کرنے کے لیے امریکا بلالیا۔ اسے زبردست پروٹوکول دیا گیا اور امریکی صدر نے اس کے ساتھ بات چیت میں دو گھنٹے صرف کیے۔ اس بات چیت کا فوری نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان نے صدر ٹرمپ کو امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد کردیا۔ حالانکہ یہ وہی امریکی صدر ہے جو غزہ میں بے گناہ فلسطینیوں کے قتل عام میں اسرائیل کے ساتھ برابر کا شریک رہا ہے جس نے غزہ میں سیز فائر کی قرار دادوں کو ایک نہیں سات مرتبہ ویٹو کیا ہے، جسے امن کا دشمن قرار دیا جائے تو غیر مناسب نہ ہوگا۔
ہمارے دوست کہتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ جو کچھ بھی ہورہا ہے یا پاکستان حالات کے دبائو میں آکر کچھ بھی کررہا ہے وہ عالمی اسٹیبلشمنٹ کے اس ’’گریٹر گیم‘‘ کا حصہ ہے جس کا مقصد ’’عظیم تر اسرائیل‘‘ کی راہ ہموار کرنا ہے۔ اس کے لیے ’’معاہدہ ابراہیمی‘‘ کا ڈراما رچایا جارہا ہے عالمی اسٹیبلشمنٹ تمام اہم مسلمان ممالک کو اس معاہدے کے حصار میں لانا چاہتی ہے۔ عرب ممالک اس معاہدے پر آمادہ ہیں، کوئی دن جاتا ہے کہ وہ اس معاہدے پر دستخط کرکے اسرائیل کو تسلیم کرلیں گے۔ پاکستان پر بھی کام ہورہا ہے، وزیر دفاع خواجہ آصف کے منہ سے کبھی کبھی سچی بات نکل جاتی ہے انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ جب سب عرب ممالک اسے تسلیم کرلیں گے تو پاکستان کیسے الگ رہ سکے گا۔ یعنی پاکستان کا معاہدہ ابراہیمی پر دستخط کرنا اور اسرائیل کو تسلیم کرنا عربوں کے تسلیم کرنے سے مشروط ہے اور مستقبل میں اس کے واضح آثار نظر آرہے ہیں۔ ان حالات میں ہماری داخلی سیاست کا جمود بھی ٹوٹتا نظر نہیں آتا۔ کہا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے نمائندوں نے جیل میں عمران خان سے کئی بار مذاکرات کیے ہیں لیکن وہ کسی ڈیل یا ڈھیل پہ آمادہ نہیں ہیں۔ وہ عدالتوں کے ذریعے مقدمات لڑ کر باہر آنا چاہتے ہیں لیکن عدالتوں کا جو حال ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ رہی پی ٹی آئی کی وہ لیڈر شپ جو جیل سے باہر ہے اسے عمران خان کی رہائی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ اگر رہا ہوجاتے ہیں تو یہ لیڈر شپ بالکل مائنس ہوجائے گی جبکہ یہ مائنس نہیں ہونا چاہتی۔
ہر دوسرے دن جیل سے عمران خان یہ پیغام جاری کرتے ہیں کہ وہ ڈیل نہیں کریں گے بس یہی پیغام سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کا اثاثہ ہے۔ رہی تحریک چلانے کی بات تو وہ محض ہوائوں میں ہے۔ عالمی سطح پر پاکستان جس ’’گریٹ گیم‘‘ کا حصہ بن رہا ہے اس میں بھی خان کی رہائی کا امکان صفر نظر آتا ہے۔ عمران خان اسرائیل کو تسلیم کرنے کے خلاف ہیں جبکہ ماضی میں ان کی سبک دوشی کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے۔
ان دنوں ایک افواہ یہ بھی پھیلی ہوئی ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ کی مدت پانچ سال سے بڑھا کر دس سال کرنے پر غور ہورہا ہے۔ اس افواہ نے پوری قوم میں سراسیمگی پھیلا دی ہے۔ ابھی تو قوم کے اندر یہ اُمید موجود تھی کہ آئین کے مطابق پانچ سال کے بعد انتخابات ہوں گے تو اسے اپنی مرضی کے نمائندے چننے کا موقع ملے گا اگرچہ پچھلے عام انتخابات میں قوم نے جو نمائندے چنے تھے انہیں حکومت بنانے کا موقع نہیں دیا گیا لیکن پھر بھی اسے امید تھی کہ شاید آئندہ ایسا نہ ہوسکے لیکن موجودہ پارلیمنٹ میں توسیع کی افواہ نے اس اُمید کا بھی گلا گھونٹ دیا ہے۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہوگیا تو ملک میں جمہوریت کی لاش تعفن دینے لگے گی اور اسے ٹھکانے لگانا دشوار ہوجائے گا۔ ابھی ملک میں ساون نہیں شروع ہوا لیکن پری مون سون بارشوں نے ہی کہرام برپا کر رکھا ہے۔ سیر و سیاحت کو آئے ہوئے ایک خاندان کے اٹھارہ افراد سوات میں سیلابی ریلے کی نذر ہوگئے ہیں۔ کے پی کے حکومت نے ان افراد کو بچانے کے لیے تو کوئی قدم نہیں اٹھایا لیکن اب اظہار افسوس کے لیے چھلانگیں لگاتی پھر رہی ہے۔ سیلابی پانی کو ندی نالوں میں ڈالنے کے لیے جو سیلابی نالے بنائے جاتے ہیں وہ عام دنوں میں کچرے سے بھر دیے جاتے ہیں اور برسات سے پہلے ان کی صفائی نہیں کی جاتی۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بارش ہوتی ہے تو پانی گلیوں میں جمع ہو کر گھروں میں داخل ہوجاتا ہے۔ اب بارشیں ہورہی ہیں تو شہریوں کو ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے۔

 

متعلقہ مضامین

  • ایران اسرائیل جنگ بندی کے بعد یمن پر صہیونی حملوں کا آغاز، بندرگاہوں پر بمباری
  • ملک ہے تو ہم ہیں، ایک ٹولہ اسرائیل اور بھارت کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے، امیر مقام
  • ایرانی بیلسٹک میزائلوں نے جنگ میںکتنے اسرائیلی فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا، برطانوی اخبارنےا ندر کی بات بتادی
  • اسرائیل کی دھمکیاں قابلِ قبول نہیں، ہتھیار نہیں ڈالیں گے، سربراہ حزب اللہ
  • رہبر انقلاب اسلامی ایران اسرائیل جنگ کے بعد پہلی مرتبہ منظر عام پر آگئے
  • بھارت کیساتھ اسرائیل تھا، چین اور ترکیہ ہمارے دوست، جنگ خود لڑی: خواجہ آصف
  • خواجہ آصف نے خیبرپختونخوا میں حکومت کی تبدیلی کا اشارہ دیدیا
  • اسرائیل کے سوا کوئی بھارت کے ساتھ نہ کھڑا ہوا، یہ اس کی اصل ہار ہے،خواجہ آصف
  •  اسرائیل کی دہشت گردی کے خلاف ایران کی مدد کی، اسحاق ڈار
  • پاکستان اور معاہدہ ابراہیمی