Express News:
2025-08-15@21:48:31 GMT

حکمت کی واپسی

اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT

بیسویں صدی تک گھوڑے قوموں‘ معاشروں اور قبیلوں کا سب سے بڑا اثاثہ ہوتے تھے‘ جس ملک کے پاس اچھی نسل کے گھوڑے ہوتے تھے‘ وہ ملک فوجی اور معاشی لحاظ سے دوسرے ملکوں سے بہت آگے ہوتا تھا‘ اس زمانے میں سپہ گری تین فنون کا مجموعہ ہوتی تھی‘ گھوڑا‘ تلوار اور نیزہ‘ جس شخص کو یہ تینوں ہینڈل کرنا آ جاتے تھے‘ وہ مرد میدان کہلاتا تھا اور جو ان میں کورا ہوتا تھا‘ لوگ اسے زنان کہتے تھے‘ تاتاریوں کے پورے انقلاب کی بنیاد گھوڑے تھے‘ چنگیز خان دنیا کا پہلا جرنیل تھا جس نے اپنے سپاہیوں کو چلتے گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر سونے اور دوڑتے گھوڑے کی پیٹھ سے تیر چلانے کی ٹریننگ دی‘ تاتاری سپاہی مسلسل سفر کرتے تھے‘ یہ آرام کے لیے نہیں رکتے تھے۔

 یہ گھوڑی کے دودھ کی لسی پیتے تھے اور گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے سو جاتے تھے‘ گھوڑا بھاگتے بھاگتے مر جاتا تھا تو یہ اس کی گردن کاٹ کر اس کا خون دوسرے گھوڑے کو پلاتے اور چھلانگ لگا کر اس پر بیٹھ جاتے تھے یوں وہ ایک ماہ کا سفر دس دن میں طے کر لیتے تھے‘ تاتاریوں سے پہلے تیر چلانے کے لیے بھی گھوڑا روکنا پڑتا تھا لیکن چنگیز خان نے دوڑتے گھوڑے سے تیر چلانے کی تکنیک ایجاد کر لی‘ اس تکنیک اور اس اسپیڈ نے تموجن کو خان اعظم چنگیز خان بنا دیا چناںچہ دنیا میں اگر گھوڑا نہ ہوتا تو شاید چنگیز خان بھی نہ ہوتا‘ آج سے اڑھائی ہزار سال قبل ہندوستان میں گھوڑا‘ افیون‘ ستون اور پائجامہ نہیں ہوتا تھا‘ یہ چاروں چیزیں سکندر اعظم نے یہاں متعارف کرائیں‘ یونانی فوج گھوڑوں پر بیٹھ کر ہندوستان میں داخل ہوئی‘ ہندوستانیوں کے لیے گھوڑا نیا تھا اور یونانیوں کے لیے ہاتھی چناںچہ پورس کے ہاتھی گھوڑوں کو دیکھ کر پسپا ہو گئے اور سکندر کے گھوڑوں نے ہاتھی دیکھ کر ہمت ہار دی‘ امریکا میں بھی گھوڑا نہیں ہوتا تھا‘ یہ جانور ہسپانوی تاجر لے کر امریکا پہنچے‘ یورپی رائفل اور گھوڑے یہ دو ہتھیار تھے جنھوں نے امریکا کے قدیم باشندوں ریڈ انڈینز کا صفایا کر دیا لیکن پھر ایک رات اسپین کے مہم جوؤں کے دو سو گھوڑے کھل گئے۔

 یہ گھوڑے ریڈ انڈینز کے ہتھے چڑھ گئے‘ ریڈ انڈینز چند ماہ میں گھڑ سواری سیکھ گئے اور اس کے بعد انھوں نے گوروں کی مت مار دی‘ عربی لوگ بھی گھوڑوں کے معاملے میں بہت حساس ہوتے تھے‘ یہ اسے آسمانی تحفہ سمجھتے تھے‘ یہ لوگ گھوڑے کے معاملے میں کس قدر ’’عصبیت پسند‘‘تھے‘ آپ اس کا اندازہ معراج کے واقعہ سے لگا لیجیے‘ نبی اکرمؐ نے جب فرمایا‘ میںرجب کی ستائیسویں شب کو اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے لیے عرش پر گیا تھا تو لوگوں نے آپؐ کی سواری براق کو دنیا کا تیز ترین گھوڑا قرار دے دیا‘ دنیا بھر میں آج بھی جب براق کی تصویر بنائی جاتی ہے تو مصور گھوڑے کے ساتھ دو پر لگا دیتا ہے اور یوں گھوڑا براق بن جاتا ہے‘ عربی گھوڑے دنیا کے بہترین گھوڑے سمجھے جاتے تھے‘ یہ جنگوں میں کام یابی کی ضمانت ہوتے تھے‘ حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دور میں طائف میں جنگی گھوڑوں کا پہلا اصطبل بنایا‘ یہ دنیا میں عربی گھوڑوں کا پہلا فارم تھا۔

 ان جیسے فارم بعد ازاں دنیا بھر میں قائم ہوئے اور ان فارموں کے گھوڑے جنگوں میں کام یابی کے ضامن بنے‘ عربی ادب کا ایک تہائی حصہ گھوڑوں پر مشتمل ہے‘ آپ آج بھی عربی ادب کی کوئی پرانی کتاب کھول لیجیے‘ آپ کو اس کے ہر صفحے پر گھوڑے کا ذکر ملے گا‘ عربی زبان کے بارے میں کہا جاتا ہے‘ اس سے اگر گھوڑوں کا تذکرہ نکال دیا جائے تو پیچھے صرف حروف تہجی رہ جائیں گے‘ میں عربی زبان کو تین حوالوں سے دنیا کی مقدس ترین زبان سمجھتا ہوں‘ یہ وہ زبان ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ آخری بار انسان سے مخاطب ہوا‘ دوسرا‘ یہ وہ زبان ہے جو ہمارے وہ نبیؐ بولتے تھے جن کی آن اور شان پر ہم اپنی جان قربان کر سکتے ہیں اور تیسری خوبی‘ یہ دنیا کی وہ زبان ہے جو کائنات کی کسی چیز کو بے نام نہیں رہنے دیتی‘ یہ ہر چیز کو لفظوں کا لباس دے دیتی ہے‘ عربی کے بعد یہ خوبی فرنچ زبان میں ہے۔

 شاید اسی لیے فرنچ کو سفارت کاری کی زبان سمجھا جاتا ہے کیوںکہ اس میں بھی عربی کی طرح کوئی ابہام نہیں ہوتا‘ اس میں بھی گھوڑا صرف گھوڑا نہیں ہوتا‘ یہ سفید‘ سیاہ‘ مشکی‘ چھوٹا‘ بڑا‘ موٹا‘ باربرداری‘ سواری اور جنگی گھوڑا ہوتا ہے‘ عربی زبان کس قدر گہری اور بلیغ ہے‘ آپ اس کا اندازہ صرف ایک لفظ سے لگا لیجیے‘ وہ لفظ ہے حکمت‘ عرب گھوڑے کی لگام کو حکمت کہتے تھے‘ یہ لوگ گھوڑے کو طاقت کی علامت سمجھتے تھے‘ ان کا خیال تھا‘ لگام اس طاقت کو قابو میں رکھتی ہے‘ یہ نہ ہو تو گھوڑا اپنے سوار اور سامنے موجود لوگ دونوں کو روند ڈالے چناںچہ عرب لگام کے استعمال کو حکمت کہتے تھے۔

معاشرے بھی اتھرے گھوڑے ہوتے ہیں‘ ان کے نتھنوں میں اگر حکمت کی لگام نہ ہو تو یہ بھی خود کو اور دوسروں کو روند ڈالتے ہیں‘ ادب‘ مصوری اور موسیقی یہ تینوں معاشروں کی حکمت ہوتی ہیں‘ معاشروں کی یہ لگام جتنی مضبوط ہو گی‘ ان کی طاقت اتنی ہی قابو میں رہے گی‘ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ پاکستان میں فنون لطیفہ کے زوال پر تحقیق کرلیں‘ آپ چند لمحوں میں ملک میں موجود عدم برداشت کی وجوہات تک پہنچ جائیں گے‘ ملک میں جب نثر‘ شاعری‘ مصوری‘ تھیٹر‘ موسیقی اور قوالی تھی تو اس وقت معاشرے میں امن‘ برداشت اور سکون بھی تھا لیکن جب ملک میں فنون لطیفہ سکڑنے لگے تو پھر دہشت گردی‘ عدم برداشت‘ بدامنی اور بے سکونی میں بھی اضافہ ہونے لگا‘ یہ ایک ایسا ملک تھا جس میں عطاء اللہ شاہ بخاریؒ جیسے خطیب موچی دروازے میں پوری پوری رات خطاب کرتے تھے اور جلسہ گاہ کے بالکل سامنے شرابی شراب خانے میں بیٹھ کر شغل مے کرتے تھے اور جلسے میں موجود کوئی شخص ان گناہ گاروں کے خلاف نعرہ لگاتا تھا اور نہ ہی یہ شرابی باہر نکل کر مولویوں کو مولوی کہتے تھے۔

 یہ ایک ایسا معاشرہ تھا جس میں ہمارے علماء کرام لاکھ لاکھ لوگوں کو ساتھ لے کر مرزا غلام احمد قادیانی کے گاؤں قادیان چلے جاتے تھے‘ گاؤں میں پہنچ کر ختم نبوت پر تقریر کرتے تھے اور لوگ قادیانیوں کو گالی تک دیے بغیر واپس لاہور آ جاتے تھے اور یہ ایک ایسا ملک تھا جس میں فیض احمد فیض جیسے لبرل کمیونسٹ بھی تھے اور مولانا مودودی جیسے مذہبی اسکالر بھی اور یہ دونوں خوف ناک اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کی بے انتہا عزت کرتے تھے‘ مولانا مودودی نے پوری زندگی فیض صاحب کو گالی دی اور نہ ہی فیض صاحب کے منہ سے مودودی صاحب کے خلاف کوئی فقرہ نکلا لیکن پھر فنون لطیفہ کو زوال آیا اور یہ زوال اپنے ساتھ طالبانائزیشن‘ فرقہ واریت اور دہشت گردی کا بھوت لے آیا‘ آج حالت یہ ہے‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں فوج کے بغیر ربیع الاول اور محرم کے مہینے گزارنا مشکل ہوتے ہیں۔

 امراء ان مقدس اسلامی مہینوں میں اپنی اور اپنے خاندان کی جان بچانے کے لیے غیر اسلامی ملکوں کی طرف نکل جاتے ہیں‘ یہ کیوں ہوا اور کیسے ہوا؟ یہ حکمت کی اس کمزور ہوتی لگام کی وجہ سے ہوا جو معاشرے جیسے اتھرے گھوڑے کو قابو رکھتی ہے‘ دہشت گردی اور فنون لطیفہ دونوں ’’سی سا‘‘ کا تختہ ہوتے ہیں‘ فنون لطیفہ کی سائیڈ جب بھی زمین کی طرف آئے گی تو دہشت گردی‘ بدامنی اور بے سکونی کی سائیڈ آسمان کی طرف اٹھے گی اور جب بھی دہشت گردی کی سائیڈ نیچے زمین کی طرف بڑھے گی تو فنون لطیفہ اوپر اٹھ جائیں گے اور یہ وہ حقیقت ہے جسے یورپ ہم سے پانچ سو سال پہلے سمجھ گیا تھا چناںچہ ان لوگوں نے سو سو سال لمبی جنگوں میں بھی قلم‘ کتاب‘ برش‘ آواز اور وائلن کو مرنے نہیں دیا اور یہ ان کی وہ حکمت تھی جس نے آج یورپ کو یورپ بنا دیاجب کہ ہم معاشرے کو جنگ کے بغیر وہاں لے گئے جہاںہم کالموں میں فلم‘ موسیقی‘ پینٹنگ اور مجسموں کا ذکر کرتے ہوئے شرماتے ہیں اور جہاں ہمارے کالم نگار بھائی اپنی جان بچانے کے لیے آیات اور احادیث کا سہارا لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

 ہمارا بس نہیں چلتا ورنہ ہم قائداعظم اور علامہ اقبال کی تصویروں پر داڑھی لگا دیں اور فاطمہ جناح اور بیگم رعنا لیاقت علی خان کو برقعہ پہنا دیں‘ ہم نے آج فیصلہ کرنا ہے‘ ہمیں دہشت زدہ پاکستان چاہیے یا پھر قائداعظم اور علامہ اقبال کا وہ پرامن اوربرداشت سے لبریز پاکستان جس میں ملک کے پہلے گورنر جنرل کی حلف برداری کی تقریب کے ابتدائی کارڈ کراچی کی ہندو‘ پارسی اور آغا خانی کمیونٹی کو جاری ہوئے تھے اور جس میں علامہ اقبال جیسے عظیم مسلم مفکر نے عیسائیوں کی درس گاہ مرے کالج میں تعلیم حاصل کی تھی اور جس کا پہلا قومی ترانہ کسی مسلمان نہیں بلکہ جگن ناتھ آزاد جیسے ہندو شاعر نے لکھا تھا‘ ہمیں اس بے لگام اتھرے معاشرے میں حکمت واپس لانی ہو گی ورنہ اسے وہ افغانستان بنتے دیر نہیں لگے گی جس میں افغان گلوکاراؤں کو سنگسار کر دیا جاتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: فنون لطیفہ نہیں ہوتا چنگیز خان کہتے تھے جاتے تھے ہوتا تھا ہوتے تھے کرتے تھے جاتا ہے میں بھی تھے اور کا پہلا پر بیٹھ تھا جس اور یہ کی طرف

پڑھیں:

پاکستان، امریکہ کا کالعدم بی ایل اے دیگر دہشت گرد گروپوں کیخلاف مؤثر حکمت عملی بنانے پر اتفاق

اسلام آباد (خبر نگار خصوصی+ اپنے سٹاف رپورٹر سے+ نوائے وقت رپورٹ+ آئی این پی) پاکستان نے امریکہ کی جانب سے کالعدم بی ایل اے اور مجید بریگیڈ کو بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا خیر مقدم کیا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے امریکی حکومت کے فیصلے پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور مجید بریگیڈ کو بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرنا خوش آئند ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے 18 جولائی 2024ء کو مجید بریگیڈ کو کالعدم قرار دیا تھا۔ بی ایل اے/ مجید بریگیڈ متعدد دہشت گرد حملوں میں ملوث رہی ہے۔ جعفر ایکسپریس اور خضدار بس حملے بی ایل اے/ مجید بریگیڈ کی کارروائیاں تھیں۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف مضبوط حصار ہے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف عالمی برادری سے تعاون جاری رکھے گا۔وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے بھی کالعدم بی ایل اے اور کالعدم مجید بریگیڈ کو دہشت گرد تنظیمیں قرار دینے کے امریکی فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ بیان میں کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور  ان کی انتظامیہ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں۔ یہ  پاکستان کی سفارتی محاذ پر اہم کامیابی اور ہمارے ازلی دشمن کے لیے ایک اور شکست ہے۔ امریکی اقدام دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی لازوال قربانیوں کا اعتراف ہے۔ انہوں نے کہا کہ  دہشت گردی کے خلاف پاک امریکہ تعاون خوش آئند ہے۔ کالعدم بی ایل اے اور کالعدم مجید بریگیڈ کے خلاف عالمی سطح پر کارروائی کی راہ ہموار ہوئی ہے۔  دہشت گردوں کے خلاف مشترکہ  موقف وقت کی ضرورت ہے۔ امریکی اقدام سے خطے میں امن و استحکام کو فروغ ملے گا۔ پاکستان میں امریکی سفارتخانے کے ترجمان نے کہا کہ ہم دہشتگردی کا ہر شکل میں مقابلہ کرنے کیلئے پرعزم ہیں۔ گزشتہ روز امریکہ پاکستان کاؤنٹر ٹیررزم ڈائیلاگ اسلام آباد میں ہوا۔ ڈائیلاگ میں کاونٹر ٹیررزم کے عبوری کوآرڈی نیٹر گریگوری لوگرفو اور امریکی ناظم الامور نیٹلی بیکر نے شرکت کی۔ امریکی سفارتخانے  کے ترجمان نے یہ بھی کہا ہے کہ امریکہ پاکستان کاؤنٹر ٹیررازم ڈائیلاگ میں اس عالمی خطرے سے نمٹنے کیلئے مشترکہ عزم کو فروغ دیا گیا۔ نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار سے امریکی قائم مقام کوآرڈینیٹر برائے انسداد دہشت گردی گریگوری ڈی لو گرفو نے ملاقات کی۔ ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق اسحاق ڈار کو پاکستان۔ امریکہ انسداد دہشت گردی مکالمے کے دوران ہونے والی گفتگو کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔ نائب وزیرِ اعظم و وزیرِ خارجہ نے دونوں ممالک کے درمیان انسداد دہشت گردی کے حوالے سے پائیدار اور منظم دو طرفہ روابط کو جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی کی جو خطے اور اس سے باہر امن و استحکام کے لئے کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔ ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی کی طرف سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا پاکستان اور امریکہ کے درمیان اسلام آباد میں کاؤنٹر ٹیررازم ڈائیلاگ ہوا۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق مذاکرات میں دہشتگردی کے خاتمے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ پاکستانی وفد کی قیادت سپیشل سیکرٹری برائے اقوام متحدہ نبیل منیر نے کی۔ امریکی وفد کی قیادت قائم مقام کوآرڈی نیٹر کائونٹر ٹیررازم گریگوری ڈی لوگرفو نے کی۔ کالعدم بی ایل اے، داعش خراسان اور ٹی ٹی پی سے نمٹنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ امریکہ نے دنیا میں امن کیلئے پاکستان کی کامیابیوں کو سراہا۔ امریکی وفد نے جعفر ایکسپریس حملے اور خضدار سکول بس دھماکے پر اظہار افسوس کیا۔ ٹیکنالوجی کے دہشتگردانہ استعمال کی روک تھام پر بھی غور کیا گیا۔ انسداد دہشتگری کیلئے مضبوط ادارہ جاتی ڈھانچے کی تعمیر پر اتفاق کیا گیا۔ اقوام متحدہ سمیت عالمی فورمز پر پاک امریکہ قریبی تعاون جاری رکھنے کا عزم کیا گیا۔ پاکستان امریکہ نے امن اور استحکام کیلئے روابط جاری رکھنے پر زور دیا۔ ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ڈائیلاگ میں دہشتگرد تنظیموں کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی، داعش خراسان اور ٹی ٹی پی جیسے دہشتگرد گروپوں کیخلاف موثر حکمت عملی بنانے پر اتفاق کیا گیا۔ امریکہ نے کہا پاکستان کے ساتھ ملکر ہر قسم کی دہشتگردی کے  خاتمہ کیلئے پرعزم ہے۔

متعلقہ مضامین

  •  کیا مصنوعی ذہانت فلموں کی ڈبنگ کو آسان اورحقیقی بنا دے گی؟ 
  • کیا مصنوعی ذہانت فلموں کے لیے ڈبنگ کا عمل آسان اور حقیقی بنا دے گی؟
  • جرات اور حکمت بھارت کیخلاف پاکستان کی کامیابی کا باعث بنی، صدر آصف زرداری
  • جرات، نظم اور حکمت بھارت کے خلاف ہماری کامیابی کا باعث بنی : صدر مملکت
  • ہندو یاتریوں کی گاڑی مندر سے واپسی پر ٹرک سے ٹکرا گئی؛ 7 بچوں سمیت 12 افراد ہلاک
  • گورنر سندھ کی بانی ایم کیو ایم کی واپسی سے متعلق بیان کی وضاحت
  • زبان کا جادو: کیا آپ اصل انٹرنیٹ دیکھ بھی پاتے ہیں؟
  • شیرافضل مروت نے پی ٹی آئی میں واپسی کے لئے 2شرائط رکھ دیں 
  • احتجاج کی حکمت عملی؛ بیرسٹر گوہر کی زیرصدارت پی ٹی آئی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس
  • پاکستان، امریکہ کا کالعدم بی ایل اے دیگر دہشت گرد گروپوں کیخلاف مؤثر حکمت عملی بنانے پر اتفاق