علی امین گنڈاپور نے دونوں استعفوں کو مستند قرار دے دیا
اشاعت کی تاریخ: 13th, October 2025 GMT
پشاور:
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی کی جانب سے استعفوں میں دستخط کے فرق پر اٹھائے گئے اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ 8 اور 11 اکتوبر کو جمع کرائے گئے دونوں استعفے ان کے مستند دستخطوں کے ساتھ ہیں۔
علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ 8 اکتوبر کو جمع کرایا گیا استعفیٰ گورنر آفس پہلے ہی تسلیم کر چکا ہے اس کے باوجود اب اس پر اعتراضات اٹھانا حیران کن ہے۔
وزیراعلیٰ نے اپنے ردعمل میں مزید کہا کہ میں دوبارہ واضح کر رہا ہوں کہ 8 اکتوبر اور 11 اکتوبر 2025 کو جمع کرائے گئے دونوں استعفے میرے اصل اور مستند دستخطوں کے ساتھ ہیں۔ اس میں کسی قسم کا ابہام یا تضاد نہیں۔
واضح رہے کہ یہ بیان گورنر خیبرپختونخوا کے اُس مؤقف کے بعد سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ دونوں استعفوں میں دستخط ایک جیسے نہیں لگتے، اس لیے 15 اکتوبر کو گورنر ہاؤس میں علی امین گنڈاپور سے ملاقات کے بعد دستخطوں کی تصدیق کے تناظر میں فیصلہ کیا جائے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: علی امین گنڈاپور
پڑھیں:
بیٹے کی گواہی کے بعد بیوی کو قتل کرنے والے ملزم کی عمر قید برقرار
لاہور ہائیکورٹ نے بیوی کو ڈنڈوں سے قتل کرنے والے ملزم محمد اشرف کی عمر قید کے خلاف اپیل مسترد کر دی اور ٹرائل کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا۔
جسٹس اسجد جاوید گھرال نے چھ صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں کہا کہ ملزم کے خلاف چشم دید گواہ اس کا بیٹا ہے، اور بیٹا اپنے والد پر جھوٹا الزام نہیں لگا سکتا۔ عدالت نے ملزم کے بیٹے کی گواہی کو درست تسلیم کیا اور کہا کہ اسے بغیر کسی شواہد کے مسترد نہیں کیا جا سکتا۔
عدالتی فیصلے میں ملزم کے وکیل کے موقف کا بھی ذکر ہے کہ مقتولہ کے دیگر بچوں نے باپ کے خلاف چارج شیٹ نہیں کی، لیکن عدالت نے واضح کیا کہ گواہوں کی تعداد نہیں بلکہ ان کی اہمیت دیکھنے کی جاتی ہے۔ ہر بچہ اپنے والد کے خلاف گواہی دینے کی ہمت نہیں رکھتا، خوف اور وفاداری کے عوامل اس پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ دیگر بچوں کی خاموشی پراسیکیوشن کے کیس کو کمزور نہیں کرتی۔
ملزم کے وکیل نے دلیل دی کہ مقتولہ کو قتل کرنے کی کوئی واضح وجہ بیان نہیں کی گئی، لیکن عدالت نے کہا کہ بہت سے جرائم بغیر کسی واضح وجہ کے بھی کیے جاتے ہیں، اس کا مطلب ملزم کی بریت نہیں ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ پراسیکیوشن نے اپنا کیس کامیابی سے ثابت کیا ہے، اس لیے ملزم کی اپیل مسترد کرتے ہوئے سزا برقرار رکھی جاتی ہے۔
واضح رہے کہ ملزم محمد اشرف پر 2021 میں گوجرانوالہ کے تھانے میں مقدمہ درج کیا گیا تھا، اور 2022 میں گوجرانوالہ کی سیشن عدالت نے اسے عمر قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔