کیف کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ منقطع کر دی، سی آئی اے
اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز کہا تھا کہ انہیں یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کا ایک خط موصول ہوا ہے، جس میں یوکرینی رہنما نے روس-یوکرین جنگ پر مذاکرات کی میز پر آنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امریکہ کے خفیہ ادارے سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے ڈائریکٹر جان ریٹکلف نے کہا ہے کہ امریکا نے کیف کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ منقطع کر دی، اس اقدام سے یوکرین فورسز کی روسی افواج کو نشانہ بنانے کی صلاحیت شدید متاثر ہوسکتی ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق یوکرین کے لیے انٹیلی جنس شیئرنگ اور فوجی امداد منقطع کرنے کا فیصلہ واضح طور پر ٹرمپ انتظامیہ کا اتحادی پر دباؤ ڈالر کر اسے زبردستی مذاکرات کی میز پر لانے پر راضی کرنا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز کہا تھا کہ انہیں یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کا ایک خط موصول ہوا ہے، جس میں یوکرینی رہنما نے روس-یوکرین جنگ پر مذاکرات کی میز پر آنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ سی آئی اے ڈائریکٹر جان ریٹکلف نے فاکس بزنس نیٹ ورک کو بتایا کہ میرے خیال میں فوجی محاذ اور انٹیلی جنس محاذ پر وقفہ ختم ہو جائے، جس کی وجہ سے (یوکرین کے صدر نے ردعمل دیا)۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں ہم یوکرین کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کام کریں گے کیونکہ ہمیں وہاں ہونے والی جارحیت کو پیچھے دھکیلنا ہے، لیکن ان امن مذاکرات کو آگے بڑھنے کے لیے دنیا کو ایک بہتر جگہ پر لانا ہے۔ صورتحال سے واقف تین ذرائع نے بھی تصدیق کی کہ امریکی انٹیلی جنس شیئرنگ رک گئی ہے، یہ فوری طور پر واضح نہیں ہو سکا کہ امریکا اسے کتنی کم کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق انٹیلی جنس شیئرنگ کو جزوی طور پر روکا گیا ہے، تاہم انہوں نے مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔ 2022 میں جنگ کے آغاز کے بعد سے امریکا نے یوکرین کو اہم انٹیلی جنس فراہم کی ہے، جس میں اہم معلومات کو نشانہ بنانے کے لیے اس کی فوج کی ضرورت ہے۔ امریکی قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز نے آج صبح صحافیوں کو بتایا کہ امریکا ایک قدم پیچھے ہٹ گیا ہے اور انتظامیہ یوکرین کے ساتھ اپنے انٹیلی جنس تعلقات کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے رہی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انٹیلی جنس شیئرنگ یوکرین کے کے ساتھ
پڑھیں:
دوحا مذاکرات کا مستقبل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251023-03-2
حالیہ جنگ اور کشیدگی کے ماحول میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان میں ہونے والی ملاقات اور مذاکرات کا عمل یقینی طور پر ایک اہم پیش رفت سمجھی جانی چاہیے۔ کیونکہ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے اور مذاکرات ہی کی بنیاد پر مسائل کا حل تلاش کیا جانا چاہیے۔ چین سعودی عرب ترکی اور قطر کی مشترکہ حمایتی حکمت عملی نے دوحا مذاکرات کے عمل کو یقینی بنایا۔ کہا جا رہا ہے کہ ترکی نے ان مذاکرات کے نتیجے میں سامنے آنے والے نکات پر عمل درآمد کی ضمانت دی ہے۔ کیونکہ موجودہ صورتحال میں پاکستان افغانستان کے درمیان جو بداعتمادی ہے اس میں کسی تیسرے ملک کی ضمانت کے بغیر دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پاکستان نے ان مذاکرات کو خوش آئند قرار دیا ہے لیکن یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ اگر افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال ہوگی تو مذاکرات اور معاہدوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔ ایسی صورت میں پاکستان جوابی کارروائی کا حق رکھتا ہے اور اس پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔ پاکستان نے واضح کر دیا ہے کے مذاکرات کی کامیابی کا انحصار افغانستان کے جواب پر منحصر ہوگا۔ پاکستان کا موقف ہے افغانستان کو زیادہ ذمے داری کے ساتھ پاکستان کے تحفظات کو اور بالخصوص ٹی ٹی پی کے حوالے سے اپنی پالیسی کو واضح کرنا ہوگا اور اس میں کوئی تضاد نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ پاکستان کے لیے اس کی داخلی سلامتی اور سیکورٹی زیادہ عزیز ہے اور اس پر سمجھوتا کرنا پاکستان کو حالت جنگ میں رکھنے کے مترادف ہوگا۔
پاکستان کو افغانستان پر اس حوالے سے بھی تشویش ہے کہ اس کے بھارت کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات پاکستان دشمنی پر مبنی بن رہے ہیں جو پاکستان کے لیے مزید مسائل پیدا کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ دہلی اور کابل کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات میں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ بھارت کی کوشش ہے کہ وہ طالبان کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے پاکستان پر زیادہ دباؤ ڈالے اور پاکستان کو غیر مستحکم رکھے۔ افغان طالبان کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ بھارت سے اس کے تعلقات کی نوعیت پاکستان دشمنی پر مبنی نہیں ہونی چاہیے۔ کیونکہ اس سے پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات بھی متاثر ہوں گے۔ خطے کی سیاست کے لیے نئے چیلنجز بھی ابھر کر سامنے آئیں گے۔ اسی ماہ اکتوبر میں استنبول میں ہونے والے مذاکرات کے دوسرے راؤنڈ میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان ان مذاکرات کی حتمی تفصیلات سامنے آئیں گی اور پھر اندازہ ہو سکے گا کہ یہ معاہدہ کیا ہے اور کس حد تک اس پر عمل درآمد ممکن ہو سکے گا۔ کیونکہ یہ بات واضح ہے کہ اگر افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رہتی ہیں تو پھر مذاکرات اور اس کی اہمیت بہت پیچھے چلے جائیں گے۔ اگرچہ دونوں ملکوں کے درمیان جنگ مسائل کا حل نہیں ہو سکتی اور مسائل کا حل بات چیت کی مدد سے بھی تلاش کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے پاکستان کو سفارتی اور ڈپلومیسی کے محاذ پر اپنی موثر حکمت عملی کے ساتھ افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لانا ہوگا اور یہ کہ اس سوچ سے گریز کرنا ہوگا کہ پاکستان مسئلے کا حل صرف جنگ کے ذریعے چاہتا ہے۔ بھارت کی کوشش ہوگی کہ پاکستان افغانستان کے تناظر میں جنگ میں الجھے اور اس کے تناظر میں اس کا داخلی استحکام کمزور ہو۔ اسی لیے پاکستان کو بھارت کے ساتھ ہوشیار رہنا ہوگا اور جنگ سے بچ کر چلنے کی پالیسی اختیار کرنی ہوگی۔ جنگ پاکستان کے لیے آخری آپشن ہونا چاہیے اور اس سے پہلے سفارتی اور ڈپلومیسی کے محاذ کو بنیاد بنا کر ہی آ گے بڑھنا پاکستان کے مفاد میں ہے۔ اسی طرح پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی بہتری اسی صورت میں ممکن ہوگی جب بڑی طاقتیں ان دونوں ممالکوں کے درمیان بڑی ثالثی کا کردار ادا کریں۔ کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات سیاسی تنہائی میں حل نہیں ہو سکیں گے اور اس کے لیے معاملات کے حل میں بڑے فیصلے کرنے ہوں گے۔ اسی طرح ان مذاکرات کا مقصد محض جنگ بندی تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ مستقبل میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بہتر ہوں اور امن کا راستہ اختیار کیا جائے۔ پاکستان ایک ہی وقت میں افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات خراب رکھ کر آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اس سلسلے میں جہاں پاکستان کو ذمے دارانہ کردار ادا کرنا ہے وہیں خود افغان طالبان پر بڑی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ بھی ذمے داری کا مظاہرہ کریں اور مسائل کا حل تلاش کرنے میں پاکستان کا ساتھ دیں۔ افغانستان کو یہ بھی کوشش کرنی ہوگی کہ وہ خود کو پاکستان کے ساتھ جوڑے اور بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات پاکستان دشمنی پر نہ رکھے۔ افغانستان کو سمجھنا ہوگا کہ بھارت اسے پاکستان کی مخالفت میں بطور ہتھیار استعمال کرنا چاہتا ہے۔ خود افغانستان کا داخلی سیاسی استحکام پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کے بغیر ممکن نہیں ہے اور یہی اس کی ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔
پاکستان اس وقت داخلی سطح پر جو سنگین سیکورٹی اور دہشت گردی کے مسائل سے دوچار ہے اور اس سے صوبہ خیبر پختون خوا دہشت گردی کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اس صوبے میں روزانہ کی بنیاد پر ہمارے جوان شہید ہو رہے ہیں اور ٹی ٹی پی نے پاکستان کو اپنی دہشت گردی کا مرکز بنایا ہوا ہے۔ ایسے میں افغانستان کی حکومت کا ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی نہ کرنا بھی سمجھ سے بالاتر ہے اور اس حکمت عملی کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کا متاثر ہونا فطری امر ہے۔ اس وقت پاکستان کی ضرورت بنتی ہے کہ وہ افغانستان کو مذاکرات کے ساتھ جوڑے رکھے اور اس عمل کو یقینی بنائے کہ مسائل کا حل مذاکرات کی مدد سے ممکن ہو سکتا ہے۔ پاکستان کو افغانستان سے تعلقات کی بہتری کے لیے اپنے داخلی مسائل کو حل کرنا ہوگا اور کوشش کرنی ہوگی کہ افغانستان کے ساتھ حکمت عملی میں اتفاق رائے پیدا ہو اور سیاسی تقسیم سے گریز کیا جائے۔ کیونکہ اس سیاسی تقسیم کے ساتھ افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر نہیں ہوسکیں گے۔ اس لیے پاکستان کو زیادہ تحمل اور بردباری سے اپنے فیصلے کرنے ہوں گے اور ساتھ ساتھ اپنے داخلی مسائل کا علاج بھی تلاش کرنا ہوگا اور یہ تسلیم بھی کرنا ہوگا کہ سیکورٹی اور دہشت گردی سے جڑے مسائل کا تعلق ہمارے اپنے داخلی مسائل سے بھی ہے۔ محض دوسروں پر الزام لگا کر ہم اپنا دامن نہیں بچاسکیں گے۔