WE News:
2025-06-10@22:14:33 GMT

جیا بچن اکشے کمار کی فلم کیوں نہیں دیکھنا چاہتیں؟

اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT

جیا بچن اکشے کمار کی فلم کیوں نہیں دیکھنا چاہتیں؟

بھارت کی سینئر اداکارہ جیا بچن نے اکشے کمار کی 2017 کی فلم ’ٹوائلٹ: ایک پریم کتھا‘ کے عنوان پر تنقید کرتے ہوئے اسے فلاپ فلم قرار دے دیا۔

 بھارتی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے جیا بچن نے کہا کہ کیا کوئی اس قسم کے عنوان والی فلم دیکھنے جائے گا؟ انہوں نے کہا، ’ابھی آپ نام بھی دیکھیے تو میں ایسی پکچر خود کبھی نہ دیکھنے جاؤں۔ ٹوائلٹ: ایک پریم کتھا، یہ کوئی نام ہے؟ یہ کوئی ٹائٹل ہے؟ براہ کرم بتائیں آپ لوگوں میں سے کتنے لوگ اس طرح کے ٹائٹل والی فلم دیکھنے جائیں گے؟‘۔

یہ بھی پڑھیں: جیا بچن سے شادی کرنے کے لیے امیتابھ بچن نے کیا شرائط رکھی تھیں؟

انہوں نے حاضرین سے جواب مانگا کہ کتنے لوگ اس فلم کو دیکھنا چاہیں گے، تو کچھ لوگوں نے ہاتھ اٹھایا۔ جس پر جیا بچن نے فوراً کہتی ہیں، ’یہ فلم فلاپ ہے‘۔

’ٹوائلٹ: ایک پریم کتھا‘ (2017) کی ایک کامیڈی فلم ہے جسے شری نرائن سنگھ نے ڈائریکٹ کیا۔ اس فلم میں اکشے کمار اور بھومی پڈنیکر نے مرکزی کردار ادا کیے ہیں۔ یہ فلم کھلے عام رفع حاجت کے خاتمے اور دیہی علاقوں میں ٹوائلٹ کی اہمیت پر زور دیتی ہے۔ فلم کی اسکرپٹنگ اور پرفارمنسز کی تعریف کی گئی تھی۔

یہ فلم ملکی اور عالمی سطح پر کامیاب رہی اور اس نے شاندار ریووز حاصل کیے۔ اور دنیا بھر میں تقریباً 311.

5 کروڑ روپے کا بزنس کیا۔  اس فلم نے فلمفئیر ایوارڈز میں تین نامزدگیاں حاصل کیں، جن میں بہترین فلم، بہترین ہدایتکار (نرائن سنگھ) اور بہترین اداکار (اکشے کمار) شامل ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اکشے کمار اکشے کمار فلم بالی ووڈ ٹوائلٹ: ایک پریم کتھا جیا بچن جیا بچن تنقید

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اکشے کمار اکشے کمار فلم بالی ووڈ جیا بچن جیا بچن تنقید اکشے کمار جیا بچن

پڑھیں:

قلم اُٹھایئے اور شعور پھیلایئے

اسلام ٹائمز: قلم فقط ماضی کا نوحہ لکھنے کیلئے نہیں، بلکہ مستقبل کے خواب سنوارنے کیلئے ہوتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے جھوٹے پروپیگنڈے سے محفوظ رہیں، اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری قوم علم و فہم کے آسمان پر پرواز کرے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ سچائی کا چراغ پھر سے روشن ہو تو ہمیں آج ہی قلم اٹھانا ہوگا، البتہ عزم، اخلاص اور شعور کے ساتھ۔ ضروری ہے کہ ہمارے دانشمندان قلم کی طاقت کے ذریعے وقت کے سب سے بڑے فتنے یعنی ان خائن اور مفاد پرست سیاست دانوں کو بے نقاب کریں، جنہوں نے اپنی ذاتی خواہشات، مفادات اور اقتدار کی ہوس کے بدلے وطن عزيز پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کر دیں ہیں۔ تحریر: محمد حسن جمالی

علم بادشاہ ہے، جس قوم کے پاس علم ہو، وہی دوسروں پر حکمرانی کرسکتی ہے۔رہبر معظم کے مطابق علم تمدن کی بنیاد ہے۔ تحقیق، سیاسی، عسکری، تہذیب و ثقافت اور اقتصادی میدان میں قوموں کو استقلال اور اقتدار فراہم کرتی ہے۔ علم کے حصول کا اہم ذریعہ قلم ہے۔ قلم انسان کی وہ طاقت ہے، جس سے افکار تشکیل پاتے ہیں، تہذیبیں پروان چڑھتی ہیں۔ انقلابات جنم لیتے ہیں اور تاریخ کے دھارے بدل جاتے ہیں۔ یہ صرف روشنائی سے بھرا چند گرام وزنی آلہ نہیں بلکہ انسان کے ضمیر، احساس، تجربے اور مشاہدے کا نچوڑ صفحۂ قرطاس پر نمودار کرنے کا اہم وسیلہ ہے۔ جو قومیں اپنے قلم کو سچائی، عدل اور شعور کی خدمت میں لگاتی ہیں، وہ کبھی فکری غلامی کا شکار نہیں ہوتیں، جبکہ وہ قومیں جو قلم کو نظرانداز کر دیتی ہیں یا اسے صرف مفاد، جھوٹ اور سنسنی پھیلانے کا ذریعہ بنا دیتی ہیں، وہ اپنی نسلوں کو تاریکی کے سپرد کر دیتی ہیں۔

آج کے اس پیچیدہ اور متلاطم دور میں ایک طرف سچ دبایا جا رہا ہے اور جھوٹ کو خوبصورت بیانیہ دے کر پھیلایا جا رہا ہے۔ ایسے میں خاموش رہ جانا سب سے بڑی خیانت ہے۔ خاموشی، ظلم کی تائید ہے، لاعلمی کے تسلسل کو جاری رکھنے کی اجازت ہے اور جھوٹے نظریات کو رواج دینے کا راستہ ہے۔ سچ یہ ہے کہ اگر ہم نے سوچنے، سمجھنے اور لکھنے کا عمل ترک کر دیا تو ہم صرف ایک بے حس ہجوم بن کر رہ جائیں گے، جسے کسی بھی سمت ہانکا جا سکتا ہے۔ اسی لیے ضروری ہے کہ ہر وہ فرد جس کے اندر احساس کی رمق باقی ہے اور جو معاشرے کی بدحالی پر تڑپتا ہے، وہ خاموش تماشائی بنا رہنے کے بجائے قلم اٹھائے اور شعور کی شمع روشن کرے۔ قلم کا اصل مقصد صرف آنکھیں بند کرکے کاغذ کے صفحات بھرنا نہیں، بلکہ انسانوں کے اندر وہ سوال پیدا کرنا ہے، جو انہیں سچ تک لے جائے۔

جب ہم کسی مظلوم کی داستان لکھتے ہیں، کسی ناانصافی کی نشاندہی کرتے ہیں اور کسی گمراہی کو بے نقاب کرتے ہیں تو ہم درحقیقت سچائی کی جانب ایک راستہ کھولتے ہیں اور یہی وہ پہلی اینٹ ہے، جو معاشرے کی اصلاح کے لیے درکار ہوتی ہے۔ یاد رکھیں! اگر آپ کا ایک جملہ کسی نوجوان کے دل میں بیداری پیدا کر دے، اگر آپ کا ایک مضمون کسی فرد کو سوچنے پر مجبور کر دے تو یہ فقط تحریر نہیں بلکہ تبدیلی کا پیش خیمہ ہے۔ آج ہمیں سوشل میڈیا کی سطحی تحریروں، جھوٹے تجزیوں اور فکری بدنظمی کے طوفان کا سامنا ہے۔ یہاں ہر کوئی لکھ رہا ہے، مگر کم ہی لوگ ایسے ہیں، جو ذمہ داری سے لکھتے ہیں۔ ہمیں ایسے افراد کی ضرورت ہے، جو مسائل پر سوچیں، انہیں پرکھیں، ان پر تحقیق کریں اور پھر لکھیں۔ ایسا لکھیں، جو وقتی واہ واہ کے لیے نہیں، بلکہ قوم کی دیرپا بیداری کے لیے ہو۔

ہمیں ایسے قلم کار درکار ہیں، جو قوم کے ذہنوں سے تعصب، جہالت اور غفلت کی گرد جھاڑ سکیں، جو سچ کے راستے پر سوالات کے چراغ روشن کریں، جو ظالم کو ظالم لکھنے کی جرأت رکھیں اور مظلوم کے حق میں آواز بلند کرسکیں۔ قلم کا مطلب ہے ذمہ داری اور شعور۔ ایک باشعور قلم کار وہ ہوتا ہے، جو اپنے ہر لفظ کو تولتا ہے، جو صرف لکھنے کے لیے نہیں لکھتا، بلکہ انسانوں کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے لکھتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس کا ایک جملہ کسی کے دل کا رُخ بدل سکتا ہے، کسی کی سوچ کی بنیاد ہلا سکتا ہے اور کسی کو عمل پر آمادہ کرسکتا ہے۔ لہٰذا، ہمیں چاہیئے کہ ہم بھی اس کارواں کا حصہ بنیں، ہم بھی لکھیں، ہم بھی سوچیں اور ہم بھی شعور بانٹیں۔ اس بات کو بھی ذہن میں رکھیں کہ سوچنے اور لکھنے کے عمل کو زندہ رکھنا خود انسانیت کی بقا ہے۔ اگر آج ہم نے شعور کی شمع اپنے قلم سے نہ جلائی تو کل اندھیروں کا گلہ کرنا بے معنی ہوگا۔ ہمیں اپنے قلم کو تلوار سے زیادہ مؤثر ہتھیار بنانا ہوگا۔ ایک ایسا ہتھیار جو خون نہیں سوچ نکالے؛ جو چیخ نہیں دلیل دے؛ جو نفرت نہیں فہم بانٹے۔

قلم فقط ماضی کا نوحہ لکھنے کے لیے نہیں، بلکہ مستقبل کے خواب سنوارنے کے لیے ہوتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے جھوٹے پروپیگنڈے سے محفوظ رہیں، اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری قوم علم و فہم کے آسمان پر پرواز کرے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ سچائی کا چراغ پھر سے روشن ہو تو ہمیں آج ہی قلم اٹھانا ہوگا، البتہ عزم، اخلاص اور شعور کے ساتھ۔ ضروری ہے کہ ہمارے دانشمندان قلم کی طاقت کے ذریعے وقت کے سب سے بڑے فتنے یعنی ان خائن اور مفاد پرست سیاست دانوں کو بے نقاب کریں، جنہوں نے اپنی ذاتی خواہشات، مفادات اور اقتدار کی ہوس کے بدلے وطن عزيز پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کر دیں ہیں۔ وہ سیاست دان جنہیں قوم نے امانت دار سمجھ کر ووٹ دیا، جنہیں رہنماء جان کر سروں پر بٹھایا، جن کے وعدوں پر بھروسہ کیا، جن کی باتوں میں امید کے دیئے تلاش کیے گئے، مگر بدلے میں انہوں نے عوام کے اعتماد کو بیچ کر اپنے محل تعمیر کیے، غریب کے منہ سے نوالہ چھین کر اپنے بچوں کے بینک بیلنس بڑھائے اور پاکستان کی قسمت کو اپنی سیاست کی شطرنج پر قربان کر دیا۔

یہ وہی سیاست دان ہیں، جو ہر الیکشن میں نئے نعرے، نئی جھوٹی قسمیں اور نئے خواب لے کر عوام کے سامنے آتے ہیں اور جب اقتدار میں آجاتے ہیں تو ان کا ہر عمل اس ملک کی روح پر زخم بن کر لگتا ہے۔ ان کی زبان پر اسلام، جمہوریت، خدمت، اصول اور انصاف جیسے الفاظ ہوتے ہیں، مگر جب عمل کا وقت آتا ہے تو وہ صرف لوٹ مار، اقربا پروری، کرپشن، جھوٹ، بددیانتی، نااہلی اور بیرونی آقاؤں کی تابعداری کے سوا کچھ نہیں دکھاتے۔ وہ قومی اداروں کو کمزور کرتے ہیں، عدلیہ کو دباؤ میں رکھتے ہیں، میڈیا کو خریدتے ہیں اور ہر اس آواز کو خاموش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جو ان کی اصلیت بے نقاب کرے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ان چہروں کو بار بار موقع دیا گیا، کیونکہ انہوں نے جھوٹ کو اس مہارت سے سچ کا لبادہ پہنایا کہ سادہ دل عوام پھر ان کے دام فریب میں آگئے۔

اگر آج ان کے جھوٹ کو قلم کی روشنی سے چیر کر بے نقاب نہ کیا گیا، اگر ان کی سازشوں، منافقتوں اور بدنیتیوں کو الفاظ کی تلوار سے کاٹا نہ گیا تو آنے والی نسلیں بھی انہی خالی نعروں اور جعلی تاریخوں کو رہنمائی سمجھتی رہیں گی۔ ان کے بچوں کی قسمت بھی انہی جعلی رہنماؤں کے ہاتھوں لکھی جائے گی اور قوم ایک بار پھر اسی اندھیرے میں بھٹکتی رہے گی، جس سے نکلنے کے لیے آج کا شعور پکار رہا ہے۔ یہ سیاست دان صرف مالی کرپشن تک محدود نہیں۔ ان کی سب سے بڑی خیانت فکری کرپشن ہے۔ انہوں نے قوم کو تقسیم کیا، فرقہ واریت کو ہوا دی، علاقائیت کو بڑھایا، قومیت کے نام پر نفرتیں بوئیں اور تعلیمی نظام کو ایسا بگاڑا کہ سوچنے والے ذہن پیدا ہی نہ ہوں۔ انہوں نے نوجوانوں کے ذہنوں میں الجھن، مایوسی اور غصہ بھرا، تاکہ کوئی شعور کی بات نہ کرسکے، کوئی سوال نہ اٹھا سکے اور کوئی ان کے مفادات کو چیلنج نہ کرسکے۔

وہ چاہتے ہیں کہ عوام صرف جذباتی رہے، تاکہ وہ جھوٹ بول کر ووٹ لے سکیں اور پھر اقتدار میں آکر ملک کو اپنے خاندانی کاروبار کی طرح چلا سکیں۔ لہٰذا یہ اب صرف ایک اخلاقی فرض نہیں رہا بلکہ ایک قومی فریضہ بن چکا ہے کہ اہلِ قلم ان فتنہ گر سیاست دانوں کی چمکتی ہوئی مگر اندر سے سڑتی ہوئی حقیقت کو بے نقاب کریں۔ ان کے وہ چہرے دکھائیں، جو میڈیا پر خوشنما پردوں میں چھپے ہوئے ہیں۔ ان کے وہ بیانیے توڑیں، جو قوم کے شعور کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں، کیونکہ اگر ہم نے یہ کام نہ کیا تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ قلم صرف حسن کی تعریف کے لیے نہیں، بدصورتی کو بے نقاب کرنے کے لیے بھی ہوتا ہے اور اس وقت سب سے بدصورت شے، سب سے مکروہ سازش اور سب سے خطرناک دھوکہ یہی مکار سیاست دان ہیں، جو جمہوریت کے پردے میں آمریت کے زہر سے قوم کو برباد کر رہے ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ کسی قوم میں برپا ہونے والا حقیقی انقلاب صرف احتجاج یا اقتدار کی تبدیلی سے نہیں آتا، بلکہ اس کے پیچھے قلم کی طاقت کارفرما ہوتی ہے۔ انقلابِ اسلامی ایران اسی ابدی حقیقت کا ایک درخشاں اور زندہ ثبوت ہے۔ یہ فقط ایک سیاسی تحریک یا اقتدار کی منتقلی نہیں تھی، بلکہ ایک فکری بیداری، تہذیبی احیاء اور نظریاتی تجدید کا نام تھا۔ اس انقلاب کے پس پردہ جو اصل طاقت کارفرما تھی، وہ عوامی جذبات یا وقتی جوش و خروش نہیں، بلکہ وہ تحریریں اور افکار تھے، جو ذہنوں کو جھنجھوڑتے، دلوں کو جگاتے اور ضمیر کو بیدار کرتے تھے۔ ان تحریروں میں سب سے روشن اور مؤثر نام ہے شہید مرتضیٰ مطہری کا۔ شہید مطہری صرف ایک مذہبی عالم نہیں تھے بلکہ وہ فکر کے معمار، عقل و شعور کے مبلغ اور جدید اسلامی فکر کے عظیم معلم تھے۔ ان کے قلم نے نہ صرف مغرب کے فکری حملوں کا مدلل جواب دیا ہے، بلکہ مشرق کی خوابیدہ امت کے لیے بیداری بھی فراہم کی ہے۔

انہوں نے نوجوان نسل کو یہ سمجھایا کہ دین صرف رسوم و رواج یا ماضی کے قصے سنانے کا نام نہیں، بلکہ ایک مکمل نظامِ حیات ہے، جو انسان کو مقصد، بصیرت اور مزاحمت کی جرأت عطا کرتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ انقلاب سے پہلے فکری زمین تیار کرنا لازم ہے اور یہ زمین قلم کے ذریعے ہی زرخیز ہوتی ہے۔ جب انسان سوچتا ہے، سوال کرتا ہے، تحقیق کرتا ہے اور سچ کی تلاش میں نکلتا ہے، تبھی تبدیلی کے لیے تیار ہوتا ہے۔ شہید مطہری نے اسلامی تعلیمات کو صرف مساجد اور مدرسوں کی چار دیواری تک محدود نہیں رکھا، بلکہ فلسفہ، معاشرت، تاریخ اور انسانی افکار کے وسیع میدانوں میں اسلام کی روشنی پھیلائی۔ ان کا ہر جملہ ایک فکری مشعل اور ہر کتاب ایک نظریاتی قلعہ تھی۔ اسلامی انقلاب پوری امت مسلمہ کے لیے ایک نمونہ ہے۔ یہ اس زندہ حقیقت کا اعلان ہے کہ اگر قلم بیدار ہو جائے تو غلامی کی زنجیریں ٹوٹ سکتی ہیں، اگر فکر آزاد ہو جائے تو ایوانِ ظلم لرز سکتے ہیں اور اگر فکری انقلاب برپا ہو جائے تو تاریخ کے رخ موڑے جا سکتے ہیں۔

آج جب ہم اپنی ملت کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں تبدیلی کے نعرے تو موجود ہیں، مگر ان کے پیچھے وہ گہرائی، وہ فکری بنیاد اور وہ اخلاقی جرأت ناپید ہے، جو قلم کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتی۔ ہمیں شہید مطہری جیسے اہلِ قلم کی ضرورت ہے، جو صرف لکھنے کے لیے نہ لکھیں، بلکہ زندگیاں بدلنے کے لیے لکھیں؛ جو نوجوان نسل میں وہ سوالات پیدا کریں، جو انہیں اندھی تقلید سے نکال کر تحقیق، تفکر اور تعمیری مزاحمت کی طرف لے جائیں۔ ہمیں ایسے قلم کار درکار ہیں، جو جھوٹ کا نقاب چاک کریں، جو سچ کو دلیل کے ساتھ پیش کریں، جو صرف تنقید نہیں بلکہ تعمیر کی بات کریں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے قلم کو وہ طاقتور ہتھیار بنائیں، جو بے ضمیری کی دیواروں کو توڑ دے اور شعور کی روشنی کو ہر دل تک پہنچا دے۔ آیئے قلم اٹھایئے اور شعور پھیلایئے۔

متعلقہ مضامین

  • یہ ظلم کب تک ؟
  • پاکستان کو مسلسل بجٹ خسارے کا سامنا کیوں ہے؟
  • حکومت بڑا فیصلہ ،، ٹیکس ادا نا کرنیوالے گرفتار ہو سکیں گے ،، کیسے ، کیوں اور کون کرے گا ؟تفصیلات سب نیوز پر
  • ڈاکٹرز غذائیت سے بھرپور کلیجی اور مغز سےمتعلق احتیاط کا مشورہ کیوں دیتے ہیں؟
  • منی پور ،بھارت کے تابوت میں آخری کیل
  • قلم اُٹھایئے اور شعور پھیلایئے
  • زحل کے چاند ٹائیٹن کی فضا کیوں جھولتی ہے؟ نیا سائنسی انکشاف
  • مشہور ٹاک ٹاکر کھابے لامے کو امریکا میں کیوں گرفتار کیا گیا؟
  • مشہور ٹاک ٹاکر کھابے لیم کو امریکا میں کیوں گرفتار کیا گیا؟
  • ہمایوں سعید اپنی بیوی کے پاؤں کیوں دباتے ہیں؟ اداکار نے خود انکشاف کردیا