راولپنڈی (ویب ڈیسک) پاک فوج کے ترجمان اور ڈائریکٹر جنرل شعبہ تعلقات عامہ لیفٹننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے بھارت کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر دریائے سندھ کا پانی روگا گیا تونتائج  دہائیوں تک محسوس کیے جائیں گے۔

برطانوی نشریاتی ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کیا کہ کوئی بھی پاکستان کا پانی روکنے کی ہمت نہ کرے، کوئی پاگل شخص ہی یہ سوچ سکتا ہے کہ وہ 24 کروڑ سے زائد لوگوں کا پانی روک سکتا ہے،  اگر انڈیا نے دریائے سندھ کا پانی روکا تو نتائج دہائیوں تک محسوس کیے جائیں گے۔

پی ایس ایل، بابر اعظم نے نئی تاریخ رقم کر دی

انہوں نے کہا کہ امید کرتا ہوں ایسا وقت کبھی نہ آئے تاہم اگرایسے اقدامات کیے گئے تودنیا دیکھے گی۔ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ کوئی بھی پاکستان کا پانی روکنے کی ہمت نہ کرے، پاکستان کی افواج پیشہ ورہیں، ہم اپنے کیے گئے وعدوں کی مکمل پاسداری کرتے ہیں اور سیاسی حکومت کی ہدایات حرف بہ حرف مانتے ہوئے ان کے عزم کاپاس رکھتے ہیں۔

ایکسپریس کے مطابق ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ جہاں تک پاک آرمی کاتعلق ہے یہ جنگ بندی آسانی سے برقراررہے گی۔ فریقین کے درمیان رابطے میں اعتماد سازی کے اقدامات کیے گئے ہیں تاہم اگر خلاف ورزی ہوتی ہے توہمارا جواب ہمیشہ اورموقع پرہوگا۔

38 کروڑ کی منشیات آنتوں میں چھپانے والا ملزم پکڑا گیا

ترجمان افواج پاکستان نے مزید کہا کہ تصدیق کرسکتاہوں چھٹا گرنے والا طیارہ میراج دو ہزار ہے، ہم مزیدکارروائی کرسکتے تھے مگرہم نے ضبط کا مظاہرہ کیا اور صرف طیاروں کونشانہ بنایا۔لیفٹیننٹ جنرل احمدشریف چوہدری نے کہا کہ بھارت کی کشمیرپالیسی، ظلم و جبر اور اسے اندرونی معاملہ بنانے کی کوشش ناکام ہوچکی ہے۔ جب تک دونوں ممالک بیٹھ کربات نہیں کرتے تب تک مسئلہ کشمیرکی آگ بھڑکنے کاخطرہ موجود رہے گا۔

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: کا پانی سکتا ہے کہا کہ

پڑھیں:

مذاکرات ، پاکستان کیا کرے

افغان طالبان رجیم اگر افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی،بی ایل اے اور دوسری دہشت گرد پاکستان مخالف تنظیموں کو پاکستان پر حملوں سے روکتی ہے تو انڈیا کی پاکستان مخالف شرانگیزیاں ٹھپ ہو جاتی ہیں۔اس لیے اندیشہ ہے کہ انڈیا کی ہر ممکن کوشش ہے کہ پاکستان اور افغانستان کبھی قریب نہ آئیں۔انڈیا براہِ راست پاکستان پر حملے سے تو خوف کھاتا ہے کہ کہیں سقوطِ مشرقی پاکستان کا حساب برابر نہ ہو جائے،لیکن حالات ایسے رکھنا چاہتا ہے جس میں انڈین عوام کو خطے میںجھوٹی برتری کا واہمہ رہے اور پاکستان پر دباؤ برقرار رہے۔

انڈیا نے ایک نوٹس جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ راجستھان اور گجرات کے قریب پاکستان کی سرحد سے صرف 100کلومیٹر کے فاصلے پر انڈین افواج ایک مشق کریں گی جو 28اکتوبر سے 11نومبر تک جاری رہے گی۔انڈیا کا پاکستانی سرحد سے متصل علاقے میں بڑے پیمانے پر ایکسر سائز کرنا عام ہے لیکن اس میں خطرات بھی پنہاں ہو سکتے ہیں۔ پاکستان نے اس ٹرائی سروسز مشق کی وجہ سے اپنی تین قریبی ایئر بیسز مسرور،بھلاری اور شہباز کو الرٹ رہنے کا کہا ہے۔پاکستان نے انڈیا کے ساتھ ملنے والی فضائی حدود کو بھی دو دن کے لیے بند کر دیا ہے۔ویسے یہ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان ایئر فورس چوکنی ہے اور کسی بھی مس ایڈونچر سے نبٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔

انڈیا اس وقت جنگ کے لیے تیار تو نہیں البتہ تیاری جاری رکھے ہوئے ہے۔اطلاعات کے مطابق انڈین آرمی میں 25نئی مخصوص بٹالین کھڑی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ان میں سے ہر بٹالین کے اندر کوئی 250 فوجی ہوں گے۔ ہر ایک بٹالین انفنٹری ،آرٹلری اور سگنل کمپنیوں پر مشتمل ہو گی۔ حکم کے مطابق ان پچیس یونٹوں کو اگلے 6ماہ میں مکمل طور پر کھڑا ہونا ہے۔انڈیا ایئر فورس اور نیوی کو بھی مزید مضبوط بنانے میں کوشاں ہے۔

افغان طالبان رجیم کے ساتھ پاکستان کے دوسرے دور کے مذاکرات ترکی کے شہر استنبول میں ناکام ہو چکے ہیں۔ایک غیر مصدقہ اطلاع کے مطابق انڈین سفارت کار ان مذاکرات کو Sabotage کرنے کے لیے استنبول اور قندھار میں بہت ایکٹو تھے۔ یاد رہے کہ افغانستان کی درخواست پر اڑتالیس گھنٹے کی فائر بندی ہوئی تھی جسے دوحہ مذاکرات تک بڑھا دیا گیا تھا۔پاکستان ان مذاکرات میں افغان طالبان رجیم سے مطالبہ کر رہا تھا کہ افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گرد کارروائیوں کے لیے استعمال نہ ہونے دے۔مزید یہ کہ ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کے افغانستان کے اندر ٹھکانوں اور پناہ گاہوں کو فی الفور ختم کرے۔

افغان وفد زبانی جمع خرچ پر ٹرخا رہا تھا۔ افغان رجیم شاید صرف فائر بندی میں دلچسپی رکھتی ہے تا کہ پاکستان حملہ نہ کرے۔ایک خلیجی ملک نے مطلوبہ رقم کی فراہمی کی حامی بھری اور کچھ رقم افغان رجیم کو ادا بھی کر دی لیکن زمینی حقیقت نہیں بدلی اور ٹی ٹی پی کو پاکستان کی سرحد سے متصل علاقے میں ہی رہنے دیا گیا۔افغان رجیم نے مزید رقم مانگی تو پاکستان نے افغان طالبان رجیم سے جنگجوؤں کو دور لے جانے کی گارنٹی مانگی مگر گارنٹی نہ دی گئی۔

استنبول مذاکرات میں پاکستان کے یک نکاتی مطالبے سے نظریں ہٹانے کے لیے افغان طالبان وفد نے ایک بار پھر ٹی ٹی پی کو پاکستانی سرحد سے دور لے جانے والی تجویز کا ڈول ڈالا لیکن اطلاعات کے مطابق پاکستان نے اس میں دلچسپی لینے کے بجائے یہ کہا کہ افغان رجیم دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ان کا قلع قمع کرے۔ ایک ایسا لائحہ عمل دے جو قابل نفاذ ہو،جو واضح اور مصدقہ ہو جسے آسانی سے مانیٹر کیا جاسکے۔

ان کے ذریعے وہ پاکستان کو مسلسل Exploit کر سکتے ہیں اور وہ ایسا کرتے رہیں گے۔افغان رجیم اگر ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کو چھتری مہیا کرنے سے باز آ جائے تو ٹھیک ہے ورنہ پاکستان کو افغانستان کے ساتھ کھلی جنگ سے اجتناب کرتے ہوئے کچھ ایسا کرنا ہوگا جس سے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔قارئین نے محسوس کیا ہو گا کہ افغان وزیرِ خارجہ ملا متقی کے ہندوستان دورے سے یکدم حالات بگڑ گئے۔

لگتا ہے انڈیا اور افغان رجیم نے گٹھ جوڑ کرلیا جس میں طے پایا ہے کہ انڈیا پاکستان کی مشرقی سرحد پر اشتعال انگیز کارروائیاں کرے گا اور پاکستان کی مغربی سرحد پر افغان رجیم بھارتی پراکسی ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کے ذریعے پاکستان کے ناک میں دم کر دے گی۔انڈیا ایک بڑی اکانومی ہے۔اس کے پاس فنڈز کی کوئی کمی نہیں۔ انڈیا افغان رجیم اور پاکستان مخالف دہشت گرد گروہوں کو فنڈنگ کر سکتا ہے،جب کہ پاکستان کی اکانومی بتدریج بہتر تو ہو رہی ہے لیکن ابھی بہت چیلنجز میں گھری ہوئی ہے۔پاکستان کی خواہش ہے کہ جنگ نہ ہو اور سرحدوں پر امن رہے۔انڈیا بھی شاید کھلی جنگ نہیں چاہتا لیکن مودی جی جو اپنے تئیں وشوا گرو بن چکے ہیں انھیں اپنے عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے اشتعال انگیزیوں، دھمکیوں اور بڑھکوں کا سہارا چاہیے۔کسی بھی دہشت گرد جنگجو گروپ کی کمر توڑنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی فنڈنگ ڈرائی یعنی خشک کی جائے۔بدقسمتی سے ٹی ٹی پی اور بی ایل اے نے افغانستان کے اندر اپنے ٹھکانے اور پناہ گاہیں بنا رکھی ہیں،جہاں سے وہ حملے کرتے ہیں، وہ کابل پہنچ کر اپنی فنڈنگ بآسانی وصول کر سکتے ہیں۔

ان کے لیے افغانستان کے اندر محفوظ رہ کر ریکروٹمنٹ کرنا اور نئے ریکروٹس کو تربیت دینا بہت آسان ہے۔امریکا نے افغانستان سے نکلتے ہوئے شرارت کی غرض سے اپنا زیادہ تر اسلحہ وہیں چھوڑ دیا جو افغان رجیم اور دہشت گردوں کے ہاتھ لگا۔اگر فنڈنگ موجود ہو تو مزید اسلحہ خریدا بھی جا سکتا ہے۔ٹی ٹی پی کو افغان رجیم اور انڈیا کی حمایت حاصل ہے۔انڈین نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر اجیت دوول نے 2015میں کہا تھا کہ پاکستان جو کام ،طالبان سے لے سکتا ہے وہ کام طالبان سے انڈیا بھی لے سکتا ہے۔ جب فنڈنگ موجود ہو تو مزید ریکروٹمنٹ آسان ہوتی ہے۔فنڈنگ کے ذریعے یہ گروہ اپنا بیانیہ بناتے اور اس کو عام کرتے ہیں۔

9/11 کے بعد افغان انتظامیہ پاکستان مخالف تھی اس انتظامیہ نے دہلی میں پاکستان مخالف بیانیہ تشکیل دیا اور اسے خوب مشتہر کیا۔ کوئی پچیس سال میں اس مضموم اور زہریلے بیانیے کی بدولت عام افغان پاکستان مخالف اور ہندوستان سے محبت کرنے لگا۔فنڈنگ و ریکروٹمنٹ روکنا اور زہریلے بیانیے کے آگے بند باندھنا بہت ضروری لیکن بہت مشکل ہے۔امید ہے حکومتِ پاکستان اس سے آگاہ ہوکر سدِ باب کے لیے مناسب منصوبہ بندی کر رہی ہو گی۔

متعلقہ مضامین

  • کرپشن سے پاک پاکستان ہی ملک و قوم کی تقدیر بدل سکتا ہے، کاشف شیخ
  • سندھ طاس معاہدے کی معطلی سے پاکستان میں پانی کی شدید قلت کا خطرہ، بین الاقوامی رپورٹ میں انکشاف
  • تنزانیا: انتخابات میں خاتون صدر کامیاب‘ملک گیر پرتشدد مظاہرے
  • دشمن کو رعایت دینے سے اسکی جارحیت کو روکا نہیں جا سکتا، حزب اللہ لبنان
  • انسداد اسمگلنگ کارروائیوں میں ایک کروڑ 12 لاکھ  سے زائد مالیت کی منشیات برآمد
  • امانت و دیانت، عوامی خدمت اور شہر کی تعمیر و ترقی جماعت اسلامی کا وژن ہے، منعم ظفر
  • کراچی میں حوالہ ہنڈی کیخلاف کارروائی، ڈیڑھ کروڑ روپے سے زائد مالیت کے ڈالر برآمد
  • کراچی میں حوالہ ہنڈی کیخلاف  کارروائی، ڈیڑھ کروڑ روپے سے زائد مالیت کے ڈالر برآمد
  • واٹس ایپ میں بیک-اَپ کیلئے اب کوئی پاسورڈ کی ضرور نہیں، نیا طریقہ متعارف
  • مذاکرات ، پاکستان کیا کرے