مہمند ڈیم ،ایک اور اہم سنگ میل عبور ،مین ڈیم کی تعمیر شروع ہوگئی
اشاعت کی تاریخ: 23rd, May 2025 GMT
مہمند ڈیم پرایک اور اہم سنگ میل عبور کرلیا گیا ہے، مین ڈیم کی تعمیر شروع ہوگئی۔
مین ڈیم کی تعمیر کے آغاز پر وفاقی وزیر آبی وسائل میاں محمد معین وٹو نے پراجیکٹ کا دورہ کیا ، چیئرمین واپڈا انجینئر لیفٹیننٹ جنرل سجاد غنی (ریٹائرڈ) بھی دورے میں ان کے ہمراہ تھے۔
مین ڈیم کی تعمیرسے قبل ریور ڈائی ورشن، ڈیم فاؤنڈیشن سمیت دیگر اہداف پہلے ہی حاصل کیے جا چکے،ڈیم کی تکمیل 28-2027 میں شیڈول ہے۔
وفاقی وزیر نے پراجیکٹ کی مختلف سائٹس پر جاری تعمیراتی سرگرمیوں کا جائزہ بھی لیا، پراجیکٹ انتظامیہ نے وفاقی وزیر کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ منصوبے کی 14 سائٹس پر تعمیراتی کام جاری ہے،سائٹس میں ڈائی ورشن سسٹم، اِن ٹیک ٹنل، سپل ویز اور پاور ہاؤس شامل ہیں۔
اس موقع پر وفاقی وزیر آبی وسائل میاں محمد معین وٹو نے کہا کہ پانی اور بجلی کی ضروریات کا ادراک ہے، زیر تعمیر منصوبوں کی تکمیل کیلئے کوشاں ہیں۔
مہمند ڈیم کی تکمیل سے پانی اور بجلی کی ضروریات پوری کرنے میں مددملے گی،امید کرتا ہوں واپڈا زیر تعمیر منصوبوں کی بروقت تکمیل یقینی بنائے گا،منصوبوں کی تکمیل کیلئے وزارت آبی وسائل ہرممکن مدد فراہم کرے گی۔
واضح رہے کہ 213 میٹر بلند مہمند ڈیم دنیا کا پانچواں بڑا سی ایف آر ڈی ڈیم ہے،مہمند ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت1.
مہمند ڈیم کی بدولت 18ہزار ایکڑ سے زائد نئی اراضی سیراب ہوگی،پشاور شہر کو یومیہ 300 ملین گیلن پینے کا پانی فراہم ہوگا،مہمند ڈیم ہائیڈروپاورپراجیکٹ سے نیشنل گرڈ کو سالانہ 2ارب 86 کروڑ یونٹ بجلی فراہم ہوگی۔ Post Views: 5
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: مین ڈیم کی تعمیر وفاقی وزیر مہمند ڈیم کی تکمیل
پڑھیں:
کراچی میں غیر قانونی تعمیر ہونیوالی پوری عمارت گرائی جائے گی، وزیر بلدیات
کراچی:وزیر بلدیات سندھ نے کہا ہے کہ کراچی میں غیر قانونی تعمیر ہونیوالی پوری عمارت گرا دی جائے گی۔
سندھ اسمبلی کے اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران وزیر بلدیات سعید غنی نے اعلان کیا ہے کہ اب صرف غیر قانونی فلورز نہیں بلکہ پوری کی پوری غیر قانونی عمارت گرائی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کی طرف سے ایسی کارروائیاں شروع کی جا چکی ہیں، اور اب تک 2200 سے زائد غیرقانونی عمارتوں کو منہدم کیا جا چکا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ان میں سے کئی کارروائیاں ایس بی سی اے افسران نے خود موقع پر جا کر کی ہیں۔
ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی عبدالباسط کی طرف سے ایس بی سی اے میں کرپشن اور رشوت خوری کے الزامات پر سعید غنی کا کہنا تھا کہ غیر قانونی تعمیرات میں ملوث افراد خود کبھی یہ تسلیم نہیں کرتے کہ انہوں نے رشوت دی ہے، تاہم حکومت نے ان الزامات کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے کارروائیاں کی ہیں۔ اب تک 28 افسران کے خلاف کارروائی ہو چکی ہے، جبکہ 31 کو شوکاز نوٹس جاری کیے گئے ہیں اور بعض کے خلاف باقاعدہ مقدمات بھی درج کروائے گئے ہیں۔
وزیر بلدیات نے تسلیم کیا کہ غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کی جانے والی کارروائیاں ان کے معیار پر پوری نہیں اتر رہیں اور ایس بی سی اے کے پاس تمام غیر قانونی عمارتوں کو گرانے کی صلاحیت موجود نہیں۔ اس مسئلے کے حل کے لیے اب اخبارات میں اشتہار دے کر نجی شعبے کو بھی ان کارروائیوں میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
بلدیاتی وزیر نے کہا کہ غیر قانونی پراپرٹی کی خرید و فروخت میں ملوث رئیل اسٹیٹ ایجنٹس کے خلاف بھی کارروائی ہوگی اور ان کی رجسٹریشن کا عمل شروع کیا جا چکا ہے۔ انہوں نے ایجنٹس کو خبردار کیا کہ وہ ایسی پراپرٹی عوام کو نہ دکھائیں جو قواعد کے خلاف ہو۔
ایوان میں سوالات کے دوران جمال احمد نے پوچھا کہ جب غیر قانونی بلڈنگ تعمیر ہو رہی ہوتی ہے تو ایس بی سی اے کہاں ہوتا ہے؟ اس پر سعید غنی نے جواب دیا کہ یہ مسئلہ گزشتہ 17 برس سے چلا آ رہا ہے اور ایم کیو ایم بھی اس دوران حکومت میں رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب تمام ضلعی انتظامیہ اور ٹی ایم سیز کو بھی غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کارروائی کا اختیار دیا جا رہا ہے، تاکہ یہ مسئلہ نچلی سطح پر بھی حل ہو۔
بلقیس مختار کی طرف سے پوچھے گئے سوال پر وزیر بلدیات نے بتایا کہ 12 افسران کے خلاف مقدمات درج ہو چکے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ ایسے تمام عناصر کو نکال باہر کرنا ہوگا جو شہر کی بربادی میں ملوث ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب غیر قانونی تعمیرات پر پانی، بجلی اور گیس کے کنکشن بھی نہیں دیے جائیں گے۔
محمد فاروق اور دیگر اراکین نے پانی کی قلت، ٹینکر مافیا اور شہری خدمات میں بدعنوانی کے حوالے سے سوالات اٹھائے، جن پر وزیر بلدیات نے کہا کہ حکومت اس سمت میں کام کر رہی ہے، آن لائن شکایات کا نظام موجود ہے اور متعدد شہری اس سے فائدہ بھی اٹھا چکے ہیں۔
پانی کے مسئلے پر سعید غنی نے تسلیم کیا کہ موجودہ وسائل شہریوں کی ضروریات کے لیے ناکافی ہیں لیکن حکومت نئے منصوبوں پر کام کر رہی ہے تاکہ فراہمی بہتر بنائی جا سکے۔
ایم کیو ایم کی فوزیہ حمید نے ملازمتوں کے حوالے سے نوجوانوں کے لیے عمر کی حد میں نرمی کی تجویز دی، جس پر وزیر پارلیمانی امور ضیا النجار نے کہا کہ یہ ایک اچھی تجویز ہے اور حکومت اس پر غور کرے گی۔
قرعت العین کی طرف سے نکاسی آب کے مسائل پر توجہ دلانے پر سعید غنی نے کہا کہ سندھ حکومت نے کراچی میں نالوں کی صفائی کے لیے خطیر رقم دی ہے اور آئندہ جون میں 45 بڑے نالوں کی صفائی کی جائے گی۔ انہوں نے پلاسٹک بیگز کو نالوں کے بند ہونے کی بڑی وجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔
مجموعی طور پر وقفہ سوالات کے دوران کراچی میں غیر قانونی تعمیرات، شہری سہولیات کی عدم فراہمی، بدعنوانی اور نوجوانوں کے روزگار جیسے اہم مسائل پر بحث ہوئی۔