Daily Ausaf:
2025-11-03@16:39:02 GMT

دور جدید میں اجتہاد کی ضرورت اور دائرہ کار

اشاعت کی تاریخ: 27th, May 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
اجتہاد کے لیے علمی ماخذ یعنی قرآن وسنت اور ان سے متعلقہ علوم کی مہارت کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ جن حالات اور محل پر اس کا اطلاق کیا جانا ہے، اس سے بھی کماحقہ واقفیت حاصل کی جائے یعنی اجتہاد کے ماخذ اور محل دونوں سے یکساں آگاہی اجتہاد کے عمل کے صحیح ہونے کا ناگزیر تقاضا ہے مگر ہمارے دینی اداروں میں دوسرے پہلو کو یکسر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال عرض کروں گا کہ ایک دینی مدرسہ کے دار الافتا میں مفتی صاحب ایک استفتا پر غور کر رہے تھے جو بینک کے کسی معاملہ کے حوالے سے تھا۔ میں بھی اتفاق سے وہاں موجود تھا۔ انہوں نے اس پر مجھ سے رائے چاہی۔ میں نے استفتا دیکھ کر کہا کہ میں بینکنگ کے سسٹم سے واقف نہیں ہوں اور اس کے جس شعبہ کے بارے میں یہ مسئلہ پوچھا گیا ہے، مجھے اس کے مبادیات کا علم بھی نہیں ہے اس لیے میں اس کے بارے میں کوئی رائے دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ باتیں تو میں بھی نہیں جانتا۔ میں نے عرض کیا کہ پھر آپ فتویٰ کیسے دیں گے؟ وہ میرے اس سوال پر پریشان تو ہوئے لیکن میرا خیال ہے کہ فتویٰ انہوں نے کوئی نہ کوئی ضرور صادر کر دیا ہوگا۔
بد قسمتی سے ہم نے ایک بات کم وبیش حتمی سمجھ رکھی ہے کہ ہمارے روایتی حلقوں سے ہٹ کر کوئی بھی شخص یا ادارہ کوئی علمی یا دینی بات کرتا ہے تو وہ یقیناًگمراہی پھیلاتا ہے اور ہم نے اسے بہرحال مخالف کیمپ میں ہی دھکیلنا ہے۔ اگر تو ہم نئے پیش آمدہ مسائل پر غور وخوض اور ان کے حل کے لیے کوئی مربوط نظام رکھتے ہیں اور کوئی بھی مسئلہ پیش آنے پر خود کار نظام کی طرح ہمارا کوئی نہ کوئی حلقہ یا مرکز اس پر غور وفکر اور بحث وتمحیص کے لیے سرگرم عمل ہو جاتا ہے تو پھر کسی حد تک یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس سسٹم سے ہٹ کر بات کرنے والے کی حوصلہ شکنی کی جائے لیکن کسی بھی مسئلہ پر ہمارے ہاں اس وقت تحریک ہوتی ہے جب دو چار حلقوں سے بات آ چکتی ہے اور ہم کوئی خطرہ محسوس کرتے ہیں تو دفاعی ضروریات کے تحت متحرک ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد ہمارا سارا عمل دفاع اور تحفظات کے گرد گھومنے لگتا ہے اور اصل کرنے کا کام اسی میں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ انتہائی پریشان کن صورت حال ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ ہمیں اس پر نظر ثانی کرنی چاہیے، غیر روایتی علمی حلقوں کے حوالے سے ترجیحات قائم کرنی چاہییں اور جہاں افہام وتفہیم سے کام لینا ممکن ہو، اسے موہوم گمراہی کی نذر کر دینے کے بجائے قابل قبول غیر روایتی حلقوں سے استفادہ کی صورتیں نکالنی چاہیں۔
میں ایک متصلب اور شعوری حنفی ہوں اور اپنے دائرۂ کار میں اپنے فقہی اصولوں کی پابندی ضروری سمجھتا ہوں لیکن اس حقیقت کو نظر انداز کرنا بھی میرے لیے مشکل ہے کہ جس طرح گلوبلائزیشن کے بڑھتے ہوئے عمل نے مختلف ادیان کے حوالے سے مشترکہ عالمی سوسائٹی کی تشکیل کی راہ ہموار کر دی ہے، اسی طرح مسلم ممالک کے درمیان آبادی کے روز افزوں تبادلہ نے فقہی مذاہب کے حوالے سے بھی مشترکہ سوسائٹیاں قائم کر دی ہیں اور دنیا کے مختلف حصوں میں سینکڑوں جگہ ایسا ماحول موجود ہے جہاں حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اور ظاہری مکاتب فکر کے حضرات مشترکہ طور پر رہتے ہیں، اکٹھے نمازیں پڑھتے ہیں اور مل جل کر دینی تقاضے پورے کرتے ہیں۔ انہیں فقہی اختلافات کے حوالہ سے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ کیسے چلنا ہے؟ اس کی وضاحت آج کی ایک مستقل ضرورت ہے۔ اجتہاد کے حوالے سے جو کام اس وقت ہمارے خیال میں سب سے زیادہ ضروری ہے، بد قسمتی سے وہی سب سے زیادہ نظر انداز ہو رہا ہے اور وہ ہے اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر اور اقوام متحدہ کے مختلف اداروں کے وہ فیصلے اور ضوابط جنہیں بین الاقوامی قوانین کا درجہ حاصل ہے اور جن کی بنیاد پر متعدد اسلامی احکام وقوانین کی عالمی سطح پر نہ صرف مخالفت ہو رہی ہے بلکہ عالمی ادارے مسلم حکومتوں پر ان اسلامی احکام قوانین کی مخالفت میں مسلسل دباؤ ڈالتے رہتے ہیں مگر ان بین الاقوامی قوانین کے بارے میں ہمارے علمی حلقوں اور دینی اداروں کا کوئی مشترکہ موقف ابھی تک سامنے نہیں آیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جس طرح ہمارے ۳۱ سرکردہ علماء کرام نے ۲۲ دستوری نکات طے کیے تھے، اسی طرز پر اقوام متحدہ کے چارٹر اور دیگر بین الاقوامی قوانین کا جائزہ لے کر قابل اعتراض حصوں کی نشان دہی کی جائے اور دلائل کے ساتھ قانونی زبان میں اس سلسلہ میں اسلامی موقف کی وضاحت کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کا متبادل چارٹر بھی پیش کیا جائے۔ ایک بات اور قابل توجہ ہے کہ ہمارے علمی ودینی حلقوں کا موجودہ اور مروجہ طرز گفتگو اور استدلال کا اسلوب خود ہمارے داخلی ماحول کے لیے تو کسی حد تک قابل اطمینان ہو سکتا ہے لیکن جدید علمی حلقوں خاص طور پر مغربی فکر وفلسفہ کے حاملین اور ان کے متاثرین سے مکالمہ کے لیے وہ قطعی طور پر اجنبی ہے جس کی وجہ سے ہم علمی ودینی مسائل پر ایک معقول اور جائز موقف کا بھی صحیح طور پر اظہار نہیں کر پاتے۔ان گزارشات کے بعد ہم آخر میں خلاصہ کلام کے طور پر یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ ہمارے نزدیک اصل ضرورت ا س حوالے سے اس امر کی ہے کہ ۲۲ دستوری نکات والے ۳۱ علماء کرام کی طرز اورسطح پر غیر سرکاری طور پر ایک فورم وجود میں آئے جو متعلقہ ضروری امور کا جائزہ لے اور آج کی ضروریات اور تقاضوں کی تکمیل کے لیے کوئی قابل عمل نظام کار طے کرے۔ ہمارے خیال میں دینی مدارس کے پانچوں وفاق جو تمام دینی مکاتب فکر کی نمائندگی کرتے ہیں اور جن کا ایک مشترکہ رابطہ بورڈ بھی موجود ہے، اس کام کے آغاز کے لیے بہترین فورم ثابت ہو سکتا ہے بشرطیکہ ان وفاقوں کے ذمہ دار بزرگ ان ضروریات کو محسوس کریں اور ان کی تکمیل کے لیے کوئی کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہوں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کے حوالے سے اجتہاد کے ہیں اور کے ساتھ ہے اور کے لیے اور ان

پڑھیں:

ایف بی آر کو مزید ٹیکس لگانے کی ضرورت نہیں ہے: چیئرمین ایف بی آر

ایف بی آر کو مزید ٹیکس لگانے کی ضرورت نہیں ہے: چیئرمین ایف بی آر WhatsAppFacebookTwitter 0 3 November, 2025 سب نیوز

اسلام آباد(آئی پی ایس) چیئرمین ایف بی آر راشد لنگڑیال کا کہنا ہے کہ ایف بی آر کو مزید ٹیکس لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے چیئرمین ایف بی آر نے کہاکہ ٹیکس سے متعلق بجٹ میں منظور ہونے والے اقدامات پر عمل پیرا ہیں اور ایف بی آر کو مزید ٹیکس لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کو تمام اداروں کا تعاون حاصل ہے، مؤثر اقدامات کے باعث ٹیکس وصولیوں میں اضافہ ہوا ہے ، ٹیکس اصلاحات میں وقت درکار ہوتا ہے۔

چیئرمین ایف بی آر کا کہنا تھا کہ وفاق سے 15فیصد اور صوبوں سے 3 فیصد ریونیو اکٹھاکرنا ہے، ریونیو کےلیے صوبوں کے اوپر اتنا دباؤ نہیں جتنا وفاق پر ہے۔

انہوں نے بتایا کہ انفرادی ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کی شرح میں اضافہ ہواہے، ٹیکس ریٹرن فائلرزکی تعداد 49 سے بڑھ کر 59 لاکھ ہوگئی ہے جب کہ پہلی بار ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح میں 1.5 فیصد اضافہ ہوا ہے، ،ہمیں ٹیکس وصولی کو جی ڈی پی کے 18فیصد پر لے کر جانا ہے۔

راشد لنگڑیال نے مزید کہا کہ ٹیکس اصلاحات ایک سال میں مکمل نہیں ہو سکتی۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپاکستان کی خارجہ پالیسی ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکی، وزیر دفاع سونے کی قیمتوں میں پھر بڑا اضافہ، فی تولہ کتنے کا ہو گیا؟ وزیراعظم نے 27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کےلئے حمایت مانگی، بلاول بھٹو نے تفصیلات جاری کردیں حماس نے مزید 3 لاشیں اسرائیل کو واپس کردیں، غزہ پر بمباری سے ایک فلسطینی شہید سانحہ9 مئی؛ زمان پارک میں پولیس کی گاڑیاں جلانے کے مقدمے میں گواہ طلب ترکیہ میں غزہ امن منصوبے پر مشاورتی اجلاس آج، پاکستان جنگ بندی کے مکمل نفاذ اور اسرائیلی فوج کے انخلاکا مطالبہ کرےگا معاشی بہتری کیلئے کردار ادا نہ کیا تو یہ فورسز کی قربانیوں کیساتھ زیادتی ہوگی، وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • جعلی اکاونٹس کیس،عدالتی حکم پر جج احتساب عدالت نے نیب دائرہ اختیار پر فیصلہ نہ سنانے کی وجوہات پر مبنی رپورٹ جمع کروادی
  • پاکستان کی سیکیورٹی کے ضامن مسلح افواج ہیں یہ ضمانت کابل کو نہیں دینی، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • ایف بی آر کو مزید ٹیکس لگانے کی ضرورت نہیں ہے: چیئرمین ایف بی آر
  • الیکشن کمیشن کا فیصلہ، پنجاب کے 3 حلقوں میں ضمنی پولنگ کے لیے نیا شیڈول جاری
  • پنجاب کے 3 حلقوں میں ضمنی انتخابات کی نئی تاریخ مقرر
  • زباں فہمی267 ; عربی اسمائے معرفہ اور ہمارے ذرایع ابلاغ
  • غزہ میں ہمارے زیرِ قبضہ علاقوں میں حماس اب بھی موجود ہے: نیتن یاہو
  • علامہ قاضی نادر علوی مجلس علماء مکتب اہلبیت جنوبی پنجاب کے صدر منتخب 
  • بیرون ممالک کا ایجنڈا ہمارے خلاف کام کررہا ہے: مولانا فضل الرحمان
  • معاملات بہتر کیسے ہونگے؟