دور جدید میں اجتہاد کی ضرورت اور دائرہ کار
اشاعت کی تاریخ: 27th, May 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
اجتہاد کے لیے علمی ماخذ یعنی قرآن وسنت اور ان سے متعلقہ علوم کی مہارت کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ جن حالات اور محل پر اس کا اطلاق کیا جانا ہے، اس سے بھی کماحقہ واقفیت حاصل کی جائے یعنی اجتہاد کے ماخذ اور محل دونوں سے یکساں آگاہی اجتہاد کے عمل کے صحیح ہونے کا ناگزیر تقاضا ہے مگر ہمارے دینی اداروں میں دوسرے پہلو کو یکسر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال عرض کروں گا کہ ایک دینی مدرسہ کے دار الافتا میں مفتی صاحب ایک استفتا پر غور کر رہے تھے جو بینک کے کسی معاملہ کے حوالے سے تھا۔ میں بھی اتفاق سے وہاں موجود تھا۔ انہوں نے اس پر مجھ سے رائے چاہی۔ میں نے استفتا دیکھ کر کہا کہ میں بینکنگ کے سسٹم سے واقف نہیں ہوں اور اس کے جس شعبہ کے بارے میں یہ مسئلہ پوچھا گیا ہے، مجھے اس کے مبادیات کا علم بھی نہیں ہے اس لیے میں اس کے بارے میں کوئی رائے دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ باتیں تو میں بھی نہیں جانتا۔ میں نے عرض کیا کہ پھر آپ فتویٰ کیسے دیں گے؟ وہ میرے اس سوال پر پریشان تو ہوئے لیکن میرا خیال ہے کہ فتویٰ انہوں نے کوئی نہ کوئی ضرور صادر کر دیا ہوگا۔
بد قسمتی سے ہم نے ایک بات کم وبیش حتمی سمجھ رکھی ہے کہ ہمارے روایتی حلقوں سے ہٹ کر کوئی بھی شخص یا ادارہ کوئی علمی یا دینی بات کرتا ہے تو وہ یقیناًگمراہی پھیلاتا ہے اور ہم نے اسے بہرحال مخالف کیمپ میں ہی دھکیلنا ہے۔ اگر تو ہم نئے پیش آمدہ مسائل پر غور وخوض اور ان کے حل کے لیے کوئی مربوط نظام رکھتے ہیں اور کوئی بھی مسئلہ پیش آنے پر خود کار نظام کی طرح ہمارا کوئی نہ کوئی حلقہ یا مرکز اس پر غور وفکر اور بحث وتمحیص کے لیے سرگرم عمل ہو جاتا ہے تو پھر کسی حد تک یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس سسٹم سے ہٹ کر بات کرنے والے کی حوصلہ شکنی کی جائے لیکن کسی بھی مسئلہ پر ہمارے ہاں اس وقت تحریک ہوتی ہے جب دو چار حلقوں سے بات آ چکتی ہے اور ہم کوئی خطرہ محسوس کرتے ہیں تو دفاعی ضروریات کے تحت متحرک ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد ہمارا سارا عمل دفاع اور تحفظات کے گرد گھومنے لگتا ہے اور اصل کرنے کا کام اسی میں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ انتہائی پریشان کن صورت حال ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ ہمیں اس پر نظر ثانی کرنی چاہیے، غیر روایتی علمی حلقوں کے حوالے سے ترجیحات قائم کرنی چاہییں اور جہاں افہام وتفہیم سے کام لینا ممکن ہو، اسے موہوم گمراہی کی نذر کر دینے کے بجائے قابل قبول غیر روایتی حلقوں سے استفادہ کی صورتیں نکالنی چاہیں۔
میں ایک متصلب اور شعوری حنفی ہوں اور اپنے دائرۂ کار میں اپنے فقہی اصولوں کی پابندی ضروری سمجھتا ہوں لیکن اس حقیقت کو نظر انداز کرنا بھی میرے لیے مشکل ہے کہ جس طرح گلوبلائزیشن کے بڑھتے ہوئے عمل نے مختلف ادیان کے حوالے سے مشترکہ عالمی سوسائٹی کی تشکیل کی راہ ہموار کر دی ہے، اسی طرح مسلم ممالک کے درمیان آبادی کے روز افزوں تبادلہ نے فقہی مذاہب کے حوالے سے بھی مشترکہ سوسائٹیاں قائم کر دی ہیں اور دنیا کے مختلف حصوں میں سینکڑوں جگہ ایسا ماحول موجود ہے جہاں حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اور ظاہری مکاتب فکر کے حضرات مشترکہ طور پر رہتے ہیں، اکٹھے نمازیں پڑھتے ہیں اور مل جل کر دینی تقاضے پورے کرتے ہیں۔ انہیں فقہی اختلافات کے حوالہ سے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ کیسے چلنا ہے؟ اس کی وضاحت آج کی ایک مستقل ضرورت ہے۔ اجتہاد کے حوالے سے جو کام اس وقت ہمارے خیال میں سب سے زیادہ ضروری ہے، بد قسمتی سے وہی سب سے زیادہ نظر انداز ہو رہا ہے اور وہ ہے اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر اور اقوام متحدہ کے مختلف اداروں کے وہ فیصلے اور ضوابط جنہیں بین الاقوامی قوانین کا درجہ حاصل ہے اور جن کی بنیاد پر متعدد اسلامی احکام وقوانین کی عالمی سطح پر نہ صرف مخالفت ہو رہی ہے بلکہ عالمی ادارے مسلم حکومتوں پر ان اسلامی احکام قوانین کی مخالفت میں مسلسل دباؤ ڈالتے رہتے ہیں مگر ان بین الاقوامی قوانین کے بارے میں ہمارے علمی حلقوں اور دینی اداروں کا کوئی مشترکہ موقف ابھی تک سامنے نہیں آیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جس طرح ہمارے ۳۱ سرکردہ علماء کرام نے ۲۲ دستوری نکات طے کیے تھے، اسی طرز پر اقوام متحدہ کے چارٹر اور دیگر بین الاقوامی قوانین کا جائزہ لے کر قابل اعتراض حصوں کی نشان دہی کی جائے اور دلائل کے ساتھ قانونی زبان میں اس سلسلہ میں اسلامی موقف کی وضاحت کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کا متبادل چارٹر بھی پیش کیا جائے۔ ایک بات اور قابل توجہ ہے کہ ہمارے علمی ودینی حلقوں کا موجودہ اور مروجہ طرز گفتگو اور استدلال کا اسلوب خود ہمارے داخلی ماحول کے لیے تو کسی حد تک قابل اطمینان ہو سکتا ہے لیکن جدید علمی حلقوں خاص طور پر مغربی فکر وفلسفہ کے حاملین اور ان کے متاثرین سے مکالمہ کے لیے وہ قطعی طور پر اجنبی ہے جس کی وجہ سے ہم علمی ودینی مسائل پر ایک معقول اور جائز موقف کا بھی صحیح طور پر اظہار نہیں کر پاتے۔ان گزارشات کے بعد ہم آخر میں خلاصہ کلام کے طور پر یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ ہمارے نزدیک اصل ضرورت ا س حوالے سے اس امر کی ہے کہ ۲۲ دستوری نکات والے ۳۱ علماء کرام کی طرز اورسطح پر غیر سرکاری طور پر ایک فورم وجود میں آئے جو متعلقہ ضروری امور کا جائزہ لے اور آج کی ضروریات اور تقاضوں کی تکمیل کے لیے کوئی قابل عمل نظام کار طے کرے۔ ہمارے خیال میں دینی مدارس کے پانچوں وفاق جو تمام دینی مکاتب فکر کی نمائندگی کرتے ہیں اور جن کا ایک مشترکہ رابطہ بورڈ بھی موجود ہے، اس کام کے آغاز کے لیے بہترین فورم ثابت ہو سکتا ہے بشرطیکہ ان وفاقوں کے ذمہ دار بزرگ ان ضروریات کو محسوس کریں اور ان کی تکمیل کے لیے کوئی کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہوں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کے حوالے سے اجتہاد کے ہیں اور کے ساتھ ہے اور کے لیے اور ان
پڑھیں:
کے پی حکومت نے ہمارے احتجاج کا راستہ روک کر اپنی کرپشن چھپانے کی کوشش کی، بلاول
اسلام آباد:پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت نے ہمارے پُرامن احتجاج کا راستہ روک کر دراصل بدترین کرپشن کو چھپانے کی ناکام کوشش کی ہے۔
اپنے بیان میں انہوں ںے کہا کہ خیبرپختونخوا میں لاقانونیت اور بے روزگاری کے خلاف احتجاج کرنے والے پُرامن سیاسی کارکنوں پر آنسوگیس کی شیلنگ قابل افسوس ہے، ہم اوچھے ہتھکنڈوں سے ڈرنے والے نہیں، کرپٹ اور نااہل صوبائی حکومت کا تعاقب جاری رکھیں گے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت نے نہتے سیاسی کارکنوں پر تشدد کرکے بزدلی کا ثبوت دیا، خیبرپختونخوا میں صوبہ بچاؤ تحریک آج صوبے کے ہر شہری کی آواز بن چکی ہے، ہم لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے ڈرنے والے نہیں۔
انہوں ںے مزید کہا کہ ہمارے کارکنان خیبرپختونخوا کی کرپٹ حکومت کا سامنا کرنے کو تیار ہیں، پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کا اصل فاشسٹ چہرہ آج خیبرپختونخوا کے عوام نے دیکھ لیا۔