جیل سے رہائی کے بعد شاہ محمود قریشی عمران خان کی جگہ لے سکتے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 6th, October 2025 GMT
9 مئی کے واقعات کے بعد سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیئر رہنما اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی جیل میں قید ہیں۔ ابتدائی طور پر وہ راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید رہے، جبکہ اب وہ لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں منتقل ہو چکے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل ایک اہم ملاقاتی نے کوٹ لکھپت جیل میں شاہ محمود قریشی سے قریباً 45 منٹ تک ملاقات کی، ملاقاتی نے ’وی نیوز‘ کو بتایا کہ شاہ محمود قریشی نے اپنی جیل کی زندگی، بانی پی ٹی آئی عمران خان کی حالت اور باہر چلنے والے سیاسی بیانیے پر تفصیلی گفتگو کی۔
یہ بھی پڑھیں: شاہ محمود قریشی کی رہائی؟ ابھی کون کون سے کیسز میں ضمانت ہونا باقی ہے؟
ملاقات کے دوران شاہ محمود قریشی نے کہاکہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہمیں مفاہمت کی سیاست اپنانی چاہیے۔ انہوں نے سنجیدہ قومی مکالمہ شروع کرنے کی اپیل کی اور کہاکہ سیاسی جنگ اب ختم ہونی چاہیے۔
جب ملاقاتی نے پوچھا کہ آپ جیل سے باہر آ سکتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا ’اگر میں بانی پی ٹی آئی عمران خان سے پہلے رہا ہو جاؤں تو مجھے میرے اپنے لوگ ہی کھا جائیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پارٹی کے اندر جاری تنازعات اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ لوگ کسی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
ملاقاتی نے بتایا کہ شاہ محمود قریشی جس جیل میں ہیں وہاں گھریلو سا ماحول ہے ، شاہ محمود قریشی کا کھانا میاں محمود الرشید کے گھر سے آتا ہے، جبکہ ڈاکٹر یاسمین کوٹ لکھپت جیل میں قیدیوں کا علاج کر رہی ہیں، اور دوائیں تجویز کرتی ہیں۔
ملاقاتی نے یہ بھی بتایا کہ شاہ محمود قریشی کو یہ بھی پتا ہے کہ ان کا بیٹا زین قریشی ڈیل کر چکا ہے مگر انہیں امید ہے کہ ان کی بیٹی مہربانو قریشی ان کے کے لیے کوشش کرتی رہتی ہیں اور وہ ملاقات کے لیے بھی آتی ہیں۔
شاہ محمود قریشی کا سیاسی سفرشاہ محمود قریشی کا تعلق ملتان کے ایک بااثر اور تاریخی سیاسی و مذہبی خاندان سے ہے، جو صدیوں سے جنوبی پنجاب کی سیاست اور روحانی گدی نشینی میں کلیدی کردار ادا کرتا رہا ہے۔
ان کے خاندان کا سیاسی سفر ان کے والد مخدوم سجاد حسین قریشی سے نمایاں طور پر جُڑا ہے، جو 1985 سے 1988 تک پنجاب کے گورنر رہے۔
مخدوم سجاد حسین قریشی نے نہ صرف سیاسی میدان میں اپنا اثرورسوخ قائم کیا بلکہ حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی اور شاہ رکن عالم کے مزارات کے سجادہ نشین کے طور پر بھی اپنی رُوحانی ساکھ کو مضبوط کیا۔
یہ بھی پڑھیے: عمران خان ہی پارٹی کے قائد ہیں، شاہ محمود کی سربراہی کی خبریں بے بنیاد ہیں: سلمان اکرم راجہ
انہوں نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز صوبائی اسمبلی کے رکن کے طور پر کیا اور بعد میں سینیٹر منتخب ہوئے، جس سے اُن کے خاندان کی سیاسی حیثیت کو مزید استحکام ملا۔
مخدوم سجاد حسین قریشی کی قیادت نے قریشی خاندان کو ملتان میں ایک مضبوط سیاسی ڈھانچہ فراہم کیا، جو شاہ محمود قریشی کے لیے سیاسی میدان میں کامیابی کی راہ ہموار کرنے کا باعث بنا۔
’شاہ محمود قریشی کے دادا مخدوم مرید حسین قریشی بھی سیاسی طور پر فعال تھے اور قیام پاکستان سے قبل قانون ساز اسمبلی کے رکن رہے۔‘
وہ قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھیوں میں شامل تھے، لیکن تاریخی تنازعات کے مطابق انہوں نے 1946 کے انتخابات میں یونینسٹ پارٹی کی حمایت کی جو مسلم لیگ کے مقابلے میں ناکام رہی۔
شاہ محمود قریشی کے قریبی حلقے کہتے ہیں ان کے خاندان کی روحانی حیثیت اور زمینداری نے انہیں ملتان کے علاقے میں ایک اہم مقام عطا کیا۔ مخدوم مرید حسین قریشی نے اپنے مریدین کے نیٹ ورک کے ذریعے سیاسی اثرورسوخ برقرار رکھا۔
مخدوم مرید حسین قریشی کی سیاسی حیثیت بعد میں ان کے بیٹے سجاد حسین قریشی اور پوتے شاہ محمود قریشی کے لیے سیاسی سرمایہ ثابت ہوا۔
شاہ محمود قریشی نے اپنے خاندان کی اس سیاسی اور روحانی وراثت کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان کی سیاست میں نمایاں مقام حاصل کیا۔
انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز 1985 میں غیر جماعتی انتخابات میں صوبائی اسمبلی کے رکن کے طور پر کیا اور بعد میں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی اور بالآخر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) میں شمولیت اختیار کی۔
ان کی سیاسی جدوجہد اور سفارتی مہارت نے انہیں دو بار وزیر خارجہ کے عہدے تک پہنچایا۔ شاہ محمود نے اپنے خاندان کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی بیٹی مہربانو قریشی اور بیٹے زین قریشی کو بھی سیاست میں متعارف کرایا۔
اس پر کچھ حلقوں نے ان پر موروثی سیاست کے الزامات عائد کیے، تاہم ان کی سیاسی حکمتِ عملی اور ملتان میں مضبوط عوامی بنیاد نے قریشی خاندان کو پاکستان کی سیاست میں ایک اہم قوت کے طور پر برقرار رکھا ہے۔
شاہ محمود قریشی کتنے مقدمات میں بری ہوچکے، اور اب کتنے مقدمات ان پر چل رہے ہیں؟شاہ محمود قریشی کے وکیل رانا مدثر نے ’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں گرفتار کیا گیا تھا، سائفر کیس میں بریت کے بعد شاہ محمود قریشی کا نام 9 مئی جی ایچ کیو کیس میں ڈال دیا گیا جس کے بعد ہم عدالت میں ایک دراخوست دائر کی اور کہاکہ ہمیں بتایا جائے شاہ محمود قریشی پر کتنے اور مقدمات درج ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: سرکاری گاڑی جلانے کا کیس: شاہ محمود قریشی بری، یاسمین راشد، اعجاز چوہدری اور دیگر کو 10،10 سال قید کی سزا
وکیل کے مطابق عدالت میں بتایا گیا کہ 9 مئی کے حوالے سے 6 مقدمات شاہ محمود قریشی پر درج ہیں جس پر ہم نے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کر لی لیکن بعد میں پتا چلا کہ حکومت نے 9 مئی میں 9 مزید کیسز میں شاہ محمود قریشی کی گرفتاری ڈال دی ہے۔ لاہور میں کل 14 کیسز بنائے گئے تھے جن میں ایک کیس لانگ مارچ کا شامل ہے۔
شاہ محمود قریشی کے وکیل نے بتایا کہ 9 مئی کے 10 کے قریب کیسز ہیں جن میں ان کی ضمانت ہو چکی ہوئی ہے، 6 کیسز میں ضمانت قبل از گرفتاری کروائی گئی تھی جس میں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے آرڈر ہیں کہ ضمانت قبل از گرفتاری کو عدم پیروی پر خارج نہیں کریں گے بلکہ مریٹ پر خارج کریں گے۔
’شاہ محمود قریشی اب 9 مئی کے 4 مقدمات میں جیل میں ہیں، جی ایچ کیو حملہ کیس میں ان کی ضمانت ہوچکی ہے، جبکہ جناح ہاؤس، شادمان پولیس اسٹیشن، شیر پاؤ پل، کنٹونمنٹ کیس میں بری ہو چکے ہوئے ہیں۔‘
شاہ محمود قریشی کے وکیل نے بتایا کہ ہم نے عدالت کو وہ سب ریکارڈ دیا کہ شاہ محمود قریشی 7 سے 9 مئی تک لاہور میں موجود نہیں تھے، عدالت کو بتایا کہ وہ اپنی بیوی کے علاج کی غرض سے کراچی میں تھے، اسپتال اور سفری دستاویزات بھی عدالت میں جمع کروائیں جس پر عدالت نے کہاکہ اس کو بعد میں دیکھتے ہیں۔
’شاہ محمود قریشی کی ضمانت کے 3 کیس انسداد دہشتگردی عدالت تھری میں ہیں اور اے ٹی سی ون میں ایک ضمانت کا کیس زیر سماعت ہے، ان کیسز میں عدالت کئی بار پراسیکیوشن کو کہہ چکی ہے کہ ریکارڈ پیش کیا جائے مگر پیش نہیں کیا جاتا۔ کبھی کہا جاتا ہے پراسیکیوٹر نہیں ہے، کبھی کہا جاتا ہے شہر سے باہر گئے ہوئے ہیں۔‘
وکیل نے بتایا کہ ان حیلے بہانوں کی وجہ سے شاہ محمود کی 4 کیسز میں ابھی تک ضمانت نہیں ہو سکی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے بے گناہی کے تمام شواہد عدالتوں میں جمع کروا دیے ہیں، عدالتیں اگر انصاف پر مبنی فیصلے کریں گی تو شاہ محمود قریشی دو دن میں رہا ہو سکتے ہیں۔
جیل سے رہائی کے بعد شاہ محمود قریشی عمران خان کی جگہ لے سکتے ہیں؟’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے سینیئر تجزیہ کار سلمان غنی نے کہاکہ شاہ محمود قریشی ہمیشہ پرو اسٹیبلشمنٹ رہے ہیں انہوں نے اپنی ساکھ بنانے کے لیے جیل جانا تو قبول کر لیا تھا لیکن وہ باہر آنے کو اب تیار نہیں ہیں، وہ اس لیے باہر نہیں آنا چاہتے کہ ان کی پارٹی کے لیڈر ہی جیل سے باہر نکلنے والوں کی ساکھ متاثر کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ شاہ محمود قریشی کوئی مائنس عمران خان رول ادا کر سکتے ہیں تو وہ بے وقوف ہے، عمران خان ہی پی ٹی آئی ہے اور عمران خان ہی لیڈر ہے۔
سلمان غنی نے کہاکہ میں یہ ضرور کہوں گا کہ پرو اسٹیبلشمنٹ رہنے والے بندے نے اتنی لمبی جیل کاٹ لی۔ شاہ محمود قریشی کو میں 35 سال سے جانتا ہوں، وہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ میں رہے، اب وہ پی ٹی آئی میں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: مزاحمت اور مذاکرات ساتھ ساتھ، شاہ محمود قریشی نے نیا فارمولا پیش کردیا
’میں نے یہ دیکھا ہے جو سیاستدان پارٹیاں بدلتا ہے وہ ترقی کرتا ہے اس کو اسٹیبلشمنٹ بھی پسند کرتی ہے، ثابت قدم رہنے والے اتنی ترقی نہیں کرتے۔‘
انہوں نے کہاکہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کی موجودگی میں پارٹی کے اندر کسی کا کوئی رول نہیں ہو سکتا۔ شاہ محمود قریشی اگر باہر آتے ہیں تو انہیں بات کرنی آتی ہے، میڈیا کو انگیج کرنا آتا ہے، لیکن یہ سب چیزیں عمران کو پسند نہیں ہیں، وہ کبھی نہیں چاہیں گے شاہ محمود قریشی باہر آکر پارٹی کو لیڈ کریں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پی ٹی آئی جیل سیاسی رہنما شاہ محمود قریشی صوبائی اسمبلی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پی ٹی ا ئی جیل سیاسی رہنما شاہ محمود قریشی صوبائی اسمبلی شاہ محمود قریشی کا شاہ محمود قریشی کو شاہ محمود قریشی کے کہ شاہ محمود قریشی شاہ محمود قریشی نے عمران خان کی نے بتایا کہ ملاقاتی نے خاندان کی پی ٹی آئی کے طور پر کی سیاسی نے کہاکہ کی سیاست قریشی کی انہوں نے سکتے ہیں پارٹی کے کیسز میں نے اپنے کیس میں میں ایک جیل میں میں ہیں مئی کے کے لیے کے بعد یہ بھی جیل سے
پڑھیں:
جسٹس طارق محمود جہانگیری کی جامعہ کراچی سے ڈگری منسوخی کا فیصلہ معطل
کراچی:سندھ ہائیکورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی جامعہ کراچی کی جانب سے ڈگری منسوخی کا فیصلہ معطل کردیا۔
جسٹس محمد اقبال کلہوڑو کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ کے روبرو اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی جامعہ کراچی کی جانب سے ڈگری منسوخی کیخلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ، رجسٹرار جامعہ کراچی پروفیسر عمران صدیقی و دیگر اس موقع پر عدالت میں پیش ہوئے، جہاں رجسٹرار جامعہ کراچی نے کہا کہ ہمیں پرسوں نوٹس ملا ہے، لہٰذا جواب کے لیے مہلت دی جائے۔
جسٹس محمد اقبال کلہوڑو نے استفسار کیا کہ جواب کے لیے آپ کو کتنا وقت چاہئے؟ درخواستگزار کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے مؤقف دیا کہ فریقین کو جواب کے لیے مہلت دیدیں لیکن تب تک آرڈر معطل کردیں۔
جسٹس محمد اقبال کلہوڑو نے ریمارکس دیے کہ آپ کو مہلت دیتے ہیں، لیکن اگر اس دوران درخواست گزار کیخلاف کوئی کارروائی ہو گئی تو کیا ہوگا؟ اگر بعد ازاں آرڈر واپس ہوگیا تو درخواستگزار کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کیسے ہوگا؟ درخواستگزار کو پہنچنے والے نقصان کا کون ذمہ دار ہوگا؟
عدالت نے ریمارکس دیے کہ یہاں ایک بندے کی زندگی بھر کی کمائی داؤ پر لگی ہے۔ عدالت نے سوال کیا کہ ڈگری کے معاملے پر کیا متاثرہ فریق کو نوٹس دیا گیا تھا؟
رجسٹرار نے کہا کہ میری پوسٹنگ نئی ہے، مجھے اس کا علم نہیں۔ جسٹس محمد اقبال کلہوڑو نے ریمارکس دیے کہ آپ اگر عدالت آئے ہیں تو جواب تو دینا پڑے گا۔ ہوسکتا ہے ذاتی مفاد کی وجہ سے درخواستگزار کیخلاف کارروائی کی گئی ہو۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ان کی ڈگری پر سوال اٹھائے جارہے ہیں۔ 30، 35 سال بعد اگر کوئی درخواست دیتا ہے تو متاثرہ فرد کو بلانا چاہیے، ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ ان کیخلاف ایکشن نہیں لیا جاسکتا کیونکہ یہ قانون میں موجود ہے، ہم کیسے کسی کی عزت داؤ پر لگاسکتے ہیں۔ فریقین کو سنے بغیر کیے گئے عدالتی فیصلے کی بھی اہمیت نہیں ہوتی۔ ایکس پارٹی ججمنٹ کو اچھا ججمنٹ نہیں سمجھا جاتا۔
بعد ازاں عدالت نے جامعہ کراچی کا جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری منسوخی کا فیصلہ معطل کردیا۔ عدالت نے سنڈیکیٹ اور ان فیئر مینز کمیٹی کی سفارشات پر مزید کسی کارروائی سے بھی روک دیا اور سماعت 24 اکتوبر تک ملتوی کردی۔