سائنسدانوں نے انسانی دماغ کے خلیات سے چلنے والا کمپیوٹر تیار کرنے کی ٹھان لی
اشاعت کی تاریخ: 18th, October 2025 GMT
سوئٹزرلینڈ میں سائنسدانوں نے انسانی دماغ کے خلیات سے چلنے والے کمپیوٹر تیار کرنے کا تجربہ شروع کر دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں دماغی خلیوں سے بنے پروسیسر وہ چِپس بدل سکتے ہیں جو آج مصنوعی ذہانت (AI) کو طاقت دے رہے ہیں۔
سوئس اسٹارٹ اپ کمپنی فائنل اسپارک کے شریک بانی فریڈ جارڈن کے مطابق روایتی کمپیوٹر انسانی دماغ کے نیورونز اور نیٹ ورکس کی نقل بناتے ہیں، لیکن اب سائنسدانوں نے فیصلہ کیا ہے کہ نقل کے بجائے اصل خلیوں کو ہی استعمال کیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: جرمنی نے یورپ کا تیز ترین سپر کمپیوٹر ’جوپیٹر‘ لانچ کر دیا
فریڈ جارڈن کا کہنا ہے کہ حیاتیاتی نیورونز، مصنوعی نیورونز کے مقابلے میں 10 لاکھ گنا زیادہ توانائی مؤثر ہیں، جو مصنوعی ذہانت کے بڑھتے ہوئے توانائی کے بحران کا حل ثابت ہوسکتے ہیں۔ ان خلیوں کو لیبارٹری میں بار بار پیدا کیا جاسکتا ہے، جب کہ چِپس کی عالمی طلب تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
فائنل اسپارک انسانی جلد کے خلیات سے سٹیم سیلز خریدتی ہے، جنہیں لیبارٹری میں نیورونز میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ پھر انہیں ملی میٹر سائز کے چھوٹے دماغی جھرمٹوں (برین آرگنوئیڈ) کی شکل میں جمع کیا جاتا ہے، جن کا سائز تقریباً ایک مکھی کے لاروا کے دماغ کے برابر ہوتا ہے۔
ان آرگنوئیڈز پر الیکٹروڈ لگائے جاتے ہیں تاکہ سائنسدان ان کے اندرونی سگنلز کی نگرانی کر سکیں، اور چھوٹے برقی جھٹکوں کے ذریعے ان کے ردِ عمل کو جانچ سکیں، جو کمپیوٹنگ میں ’0‘ اور ’1‘ کے برابر تصور کیے جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کمپیوٹر چپ کی تیاری: چین 2025 میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کے لیے پُرعزم
فائنل اسپارک کے مطابق دنیا کی 10 جامعات ان کے آرگنوئیڈز پر تحقیق کر رہی ہیں، اور کمپنی کی ویب سائٹ پر ان خلیوں کی سرگرمی براہِ راست دیکھی جا سکتی ہے۔
برطانیہ کی بریسٹل یونیورسٹی کے محقق بینجمن وارڈ شیریر نے ایک آرگنوئیڈ کو ایک روبوٹ کا دماغ بنایا جو مختلف بریل حروف کی پہچان کرنے کے قابل ہو گیا۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ ڈیٹا کو اس انداز میں انکوڈ کرنا کہ دماغی خلیے اسے سمجھ سکیں، سب سے مشکل مرحلہ ہے۔
انہوں نے مزاحیہ انداز میں کہا کہ روبوٹ کے ساتھ کام کرنا ان خلیوں کے مقابلے میں بہت آسان ہے، کیونکہ یہ جیتے جاگتے خلیے ہیں اور آخرکار مر جاتے ہیں۔ وارڈ شیریر کا کہنا ہے کہ ان کے تجربے کے دوران ایک آرگنوئیڈ مر گیا، جس کے بعد ٹیم کو نیا تجربہ شروع کرنا پڑا۔
فائنل اسپارک کے مطابق ایک آرگنوئیڈ 6 ماہ تک زندہ رہ سکتا ہے۔
امریکہ کی جانز ہاپکنز یونیورسٹی میں لینا اسمیرنووا انہی آرگنوئیڈز کو استعمال کر کے آٹزم اور الزائمر جیسی دماغی بیماریوں پر تحقیق کر رہی ہیں، تاکہ نئی ادویات کی راہیں تلاش کی جا سکیں۔
یہ بھی پڑھیں: استعمال شدہ کمپیوٹرز، لیپ ٹاپس اور پرنٹرز کی قیمتوں میں کتنی کمی ہونے جا رہی ہے؟
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے، لیکن اگلے 20 برسوں میں حیاتیاتی کمپیوٹنگ (biocomputing) ٹیکنالوجی میں انقلابی پیش رفت ممکن ہے۔
جہاں تک ان آرگنوئیڈز کے ’شعور‘ حاصل کرنے کے امکان کا تعلق ہے، تمام ماہرین اس خیال کو مسترد کرتے ہیں۔ فریڈ جارڈن کا کہنا ہے کہ یہ خلیے نہ تو درد محسوس کر سکتے ہیں اور نہ ہی کسی قسم کی آگاہی رکھتے ہیں، کیونکہ ان میں صرف 10 ہزار نیورونز ہوتے ہیں، جب کہ انسانی دماغ میں تقریباً 100 ارب نیورونز پائے جاتے ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ سائنسدانوں نے مشاہدہ کیا ہے کہ جب لیبارٹری کا انکیوبیٹر کھولا جاتا ہے تو یہ خلیے اچانک متحرک ہو جاتے ہیں، حالانکہ ان کے پاس یہ جاننے کا کوئی معروف طریقہ نہیں کہ دروازہ کھولا گیا ہے۔ فریڈ جارڈن کے مطابق وہ اب تک نہیں سمجھ پائے کہ یہ خلیے اس تبدیلی کا احساس کیسے کرتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news انسانی دماغ برین آرگنوئیڈ سائنسدان فریڈ جارڈن کمپیوٹر نیورونز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: برین آرگنوئیڈ فریڈ جارڈن کمپیوٹر نیورونز کا کہنا ہے کہ فائنل اسپارک فریڈ جارڈن جاتے ہیں کے مطابق دماغ کے
پڑھیں:
آپ کا دماغ اغوا ہو رہا ہے؟
ایک ماں اپنے بچے سے جو پہلی کلاس کا طالب علم ہے، کہتی ہے کہ ’’ بیٹا میں پڑوس میں جا رہی ہوں جب تم اپنے اسکول کا ہوم ورک کر لو تو فریج سے چاکلیٹ نکال کر کھا لینا۔‘‘ بچہ یہ سن کر کاپی پنسل پھینک دیتا ہے اور رونا شروع کردیتا ہے۔ ’’ مما ! پہلے مجھے چاکلیٹ دو، میں پہلے چاکلیٹ کھاؤں گا، ہوم ورک بعد میں کروں گا۔‘‘
جب بچہ کچھ بڑا اور سمجھدار ہوجاتا ہے اور اچھے برے میں تمیز کرنے لگتا ہے اور ماں یہی بات اس سے کہتی ہے کہ ’’ بیٹا! میں پڑوس میں جا رہی ہوں تم ہم ورک کر لو تو فریج سے چاکلیٹ نکال کر کھا لینا۔‘‘ بچہ ماں کو جواب دیتا ہے ’’ ٹھیک ہے اماں ! آپ جائیں بے فکر ہو جائیں‘‘ لیکن جب ماں گھر سے باہر جاتی ہے تو بچہ پہلے فرج سے چاکلیٹ نکال کے کھاتا ہے بعد میں ہوم ورک کرتا ہے۔
یہی بچہ جب اور بڑا اور زیادہ سمجھدار ہو جاتا ہے اور ماں اس سے یہی بات کہتی ہے کہ ’’ بیٹا میں پڑوس میں جا رہی ہوں تم اپنا ہوم ورک مکمل کر لو تو فریج سے چاکلیٹ نکال کر کھا لینا۔‘‘ بیٹا جواب دیتا ہے ’’ ٹھیک ہے اماں، آپ جائیں میں ایسا ہی کروں گا۔‘‘ اور بچہ ایسا ہی کرتا ہے ہوم ورک کرنے کے بعد چاکلیٹ کھاتا ہے۔
ایک ماہر نفسیات نے انسان کی ذہنی پختگی کے حوالے سے تین مرحلے بیان کیے ہیں۔ ماں اور بچے کی اس کہانی میں تینوں مرحلے واضح طور پر سمجھے جا سکتے ہیں یعنی پہلے مرحلے میں انسان جب بچہ ہوتا ہے تو بالکل ہی نا سمجھ ہوتا ہے اور ہر چمکتی چیز کو اچھا سمجھتا ہے اور جب وہ دوسرے مرحلے پر پہنچتا ہے تو کافی سمجھدار ہو جاتا ہے اور ہوشیاری دکھانے لگتا ہے لیکن جب تیسرے مرحلے پر پہنچتا ہے تو ذہنی لحاظ سے مکمل طور پر سمجھدار یعنی میچیور ہو جاتا ہے۔
گویا تیسرے مرحلے میں ایک انسان اپنے فیصلے بہت سوچ سمجھ کر کرتا ہے اور کسی چمکتی چیز کے پیچھے نہیں بھاگتا۔ لیکن اگر ایسا ہوکہ تیسرے مرحلے کے انسان کو یعنی جو مکمل سمجھدار انسان ہو، اس کو ذہنی طور پر پہلے مرحلے پہ لا کر کھڑا کردیا جائے تو یقینا اس کے فیصلے پھر اس بچے کی طرح سے ہوں گے جو اپنی ماں کے کہنے پر بجائے بعد میں چاکلیٹ کھانے کے، ہوم ورک سے پہلے ہی چاکلیٹ کھانا چاہتا ہے اور کاپی پنسل پھینک دیتا ہے۔
ہم اپنی زندگی میں بھی بڑے ہونے کے بعد اس طرح کے فیصلے نہیں کرتے جو کبھی ہم اپنے بچپن میں کرتے تھے۔ بچوں اور بڑوں کے فیصلے میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔
تھوڑی دیر کے لیے سوچیں، اگر آپ کا ذہن بھی کچھ دیر کے لیے بچوں کی سطح پر آجائے تو آپ کیسے فیصلے کریں گے؟ آپ کہیں گے یقیناً یہ تو خام خیالی ہی ہے، ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ لیکن نہیں جناب ایسا ہوتا ہے اور ہمارے ساتھ ہو بھی رہا ہے۔
ماہرین نفسیات کی بہت ساری ایسی ریسرچ سامنے آچکی ہیں کہ جس کے تحت ایک بڑے شخص کے ذہن کو قابو کیا جا سکتا ہے اور بچے کی ذہن کی سطح پر لایا جا سکتا ہے۔ اس قسم کی مختلف تحقیق سے میڈیا اور مارکیٹنگ والوں نے خوب فائدہ اٹھایا ہے۔ ایک بالغ شخص کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ اس سے کسی بچے کی طرح سے فیصلے کروا لیے جاتے ہیں اور اسے احساس بھی نہیں ہوتا۔ یہ کھیل مشرق اور مغرب ہر جگہ یکساں ہو رہا ہے۔
مارکیٹنگ اور پبلک ریلیشن سے وابستہ لوگ ہر قسم کے نفسیاتی حربے استعمال کر کے انسانی ذہن کو اپنے قابو میں کر لیتے ہیں اور انھیں وہی فیصلہ کرنے پہ مجبور کرتے ہیں جو وہ خود چاہتے ہیں اور اس کی ایک دو نہیں بے شمار مثالیں مثلاً امریکا میں مارکیٹنگ کے ایک بڑے ماہر ایڈورڈ برنے، نے کمپین چلائی کہ سگریٹ نوشی کرتے ہوئے سگریٹ میں جو سرخ رنگ کا تمباکو جل رہا ہوتا ہے وہ دراصل ’’ ٹارچ آف فریڈم‘‘ ہے اور جو خواتین اور مرد فریڈم کو پسند کرتے ہیں وہ سگریٹ نوشی کرتے ہیں۔
پبلک ریلیشن کے اس ماہر نے اپنی کمپین سے پہلے اچھی طرح تحقیق کر لی تھی کہ مغرب میں فریڈم کے تصور کا انقلاب آرہا ہے اور خواتین و مرد سب ہی فریڈم کو پسند کررہے ہیں اور مذہبی تعلیمات سے فرار حاصل کر رہے ہیں، لٰہذا فریڈم کے نعرے کو استعمال کر کے سگریٹ کی فروخت کو بڑھایا جا سکتا ہے، چنانچہ اس نے ایسے ہی کیا اور اس کی اس حکمت عملی کے نتیجے میں خواتین کی بھی ایک بہت بڑی تعداد سگریٹ نوشی کرنے لگی اور سگریٹ کی کمپنیاں جو اپنے کاروبار سے مایوس ہو کر کچھ اور کاروبار کرنے کا سوچ رہی تھی، وہ ایک دفعہ پھر منافع بخش کاروبار کرنے لگیں۔
اگر ہم پاکستان کی مثال لیں تو اس کی ایک بہت اچھی مثال ٹھنڈیمشروبات کی ہے ہم میں سے اکثر لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ ٹھنڈے مشروبات گردوں کو سخت نقصان پہنچاتے ہیں اور ڈاکٹروں کے مطابق اگر خالی پیٹ ٹھنڈے مشروبات پی لیں تو اس سے اچانک موت بھی ہو سکتی ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے ہاں سب سے زیادہ ٹھنڈے مشروبات رمضان کے مہینے میں فروخت ہوتے ہیں اور لوگ سحر و افطار میں اس کا استعمال کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ ظاہری سی بات ہے کسی نے تو ہم سب کے ذہن کو کنٹرول کیا ہے اور اس حد تک کنٹرول کیا ہے کہ ہم اپنی صحت کے خلاف سخت ترین فیصلہ کرتے ہوئے ٹھنڈے مشروبات سحر اورافطار میں بھی استعمال کرتے ہیں۔
بات یہ ہے کہ جب ہم اشتہار دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ مارکیٹنگ والوں نے اور اشتہار بنانے والوں نے جو پیغام ہم تک پہنچایا ہے، اس میں بہت سارے نفسیاتی حربے استعمال کیے ہیں جو ہمارے ذہن کو کنٹرول کر لیتے ہیں۔
آئیے! چند ایک تیکنک کو جانتے ہیں جو اس ضمن میں استعمال کی جاتی ہیں مثلاً ایک خریدیں ایک فری، یا اتنا فیصد زیادہ، یا 50 فیصد رعایت حاصل کریں۔ اس قسم کی تیکنک میں لالچ دیا جاتا ہے اور بہت سے لوگ جو کسی چیزکی ضرورت نہیں رکھتے نہ ہی خریدنے کی خواہش رکھتے ہیں مگر لالچ کی اس تکنیک میں آکر وہ کوئی بھی چیز اس لیے خرید لیتے ہیں کہ قیمت کے لحاظ سے انھیں فائدہ حاصل ہو رہا ہے۔
اسی طرح یہ نفسیاتی حربے بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ مثلاً یہ تاثر دینا کہ اگر آپ نے یہ چیز استعمال کی تو آپ کا شمار بھی اچھی لائف ( لیونگ اسٹینڈرڈ) گزارنے والوں میں ہوگا یا یہ چیز تو مالدار اور اونچے گھرانوں کے لوگ استعمال کرتے ہیں، چنانچہ اس تاثر سے بھی بہت سے لوگ یہ دکھانے کے لیے کہ ان کا شمار بھی ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے، اشیاء کو خرید لیتے ہیں اور استعمال کرتے ہیں۔
مثلاً بہت سے لوگوں کے پاس موبائل فون ہوتا ہے، جس سے ان کی ضرورت پوری ہو رہی ہوتی ہے مگر مارکیٹ میں نئے آنے والے موبائل کو بلاضرورت خرید لیتے ہیں۔ یہ سب مارکیٹنگ کے حربوں کا کمال ہوتا ہے کہ وہ اچھے خاصے بالغ افراد کے ذہن کو کسی بچے کے ذہن کی سطح کے برابر لاکھڑا کرتا ہے کہ بس اب تو یہی چاہیے۔ یہ تو چند سیدھی سادی مثالیں یہاں بیان کی گئی ہیں، حقیقت میں تو پبلک ریلشن اور مارکیٹنگ کا پورا ایک وسیع علم ہے جس پر سیکڑوں کتابیں بھری پڑی ہیں جن میں انسانی ذہنوں کو متاثر اور قابو کر کے اسے اپنی مرضی سے استعمال کرنا ہے، گویا جیسے کسی کا دماغ اغوا کر لیا جائے اور پھر وہ دماغ اغواء کار کی مرضی سے چلے۔