آئی سی سی کے نئے وائیڈ بال قوانین: پچ پر اب نیلی اور پیلی لکیریں
اشاعت کی تاریخ: 24th, October 2025 GMT
آسٹریلیا اور بھارت کے درمیان حال ہی میں پرتھ کے اوپٹس اسٹیڈیم میں کھیلے گئے پہلے ون ڈے میں شائقین نے پچ پر کچھ نیا دیکھا: وکٹ کے دونوں طرف نئی ‘وائیڈ لائنز’ ابھر کر سامنے آئیں، جو اسٹمپ اور وائیڈ لائن کے درمیان نمایاں نیلے رنگ کی تھیں۔
اسی طرح، میرپور میں بنگلادیش اور ویسٹ انڈیز کے پہلے ون ڈے کے دوران بھی پچ پر وائیڈ لائنز کے ساتھ پیلے رنگ کی نئی لکیریں دیکھی گئیں۔ یہ لکیریں انٹرنیشنل کرکٹ میں پہلے کبھی نظر نہیں آئیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) وائیڈ بال کے قوانین میں تبدیلی لا رہی ہے۔ اسی سلسلے میں لیگ اسٹمپ کے قریب وائیڈ بال کے نئے قوانین کا ٹرائل شروع کیا گیا ہے۔ یہ تجربہ ابتدائی طور پر چھ ماہ کے لیے کیا جائے گا، اور اگر کامیاب رہا تو اسے وائٹ بال کرکٹ کے تمام میچز میں باضابطہ طور پر نافذ کر دیا جائے گا۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
سونا ہوئے گھر، پتھر ہوئے دل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251207-03-1
یہ کیسا عجیب دور آیا ہے کہ ہم نے ہر شے کو بڑھانا سیکھ لیا ہے مگر اس کا اصل لطف کھو دیا ہے، گویا زندگی کی رسی کے دونوں سرے ہماری مٹھی میں ہیں مگر درمیان کا دھاگہ ٹوٹ گیا ہے۔ وہ زمانہ گیا جب سیدھی سادی بات میں بھی مٹھاس ہوتی تھی اور آدمی آدمی سے کونے کھدرے میں نہیں دل میں ملتا تھا آج کل کی ترقی کو دیکھ کر تو یہی لگتا ہے کہ ہم نے پٹخ کر سونا حاصل کیا ہے اور جیتے جی مر گئے ہیں۔ آج کل کے دور کو دیکھیے ہم نے مٹی کے گھروندوں کو توڑ کر کنکریٹ کے جنگل کھڑے کر دیے ہیں پہلے گھر مٹی کے تھے مگر دل سونے کے تھے آج صورتِ حال یہ ہے کہ: پہلے گھر میں ایک چولہا ہوتا تھا مگر دل میں گرمی ہوتی تھی۔ آج گھر میں سینٹرل ہیٹنگ ہے مگر رشتوں میں برفانی طوفان برستا ہے۔ پہلے گھر تھے خاک کے پر دل تھے زر کی مانند؍ اب گھر ہیں سونے کے مگر دل ہوئے ہیں پتھر کی مانند۔ ہم نے چاند کو چھو لیا بال کی کھال نکال دی پہاڑ کاٹ کر سڑکیں بنا دیں مگر افسوس کہ اسی دلدل میں پھنس کر رہ گئے ہیں کہ اپنوں کی صورت تک دیکھنے کو آنکھیں ترس گئی ہیں۔
ترقی کی منزلیں تو بہت کیں طے مگر اب یہ حال ہے کہ دور ہوئے یاروں سے گویا منزلِ مقصود گم ہے ہم نے تو خلا میں اپنا جھنڈا گاڑ دیا مگر پڑوسی کا نام تک بھول گئے پہلے لوگ چھت پر بیٹھ کر چاند دیکھا کرتے تھے آج چاند کی تصویر موبائل سے کھینچ کر سوشل میڈیا پر ڈال دیتے ہیں۔ رشتے تو اب آن لائن ہو گئے ہیں دل کی بات ان باکس میں ہوتی ہے اور محبت آئی لوو یو کے میسج تک محدود رہ گئی ہے۔ ہماری طب نے تو آسمان سر پر اٹھا لیا ہے۔ چھری لگنے سے پہلے ہی علاج کا بندوبست ہے۔
آج کل تو اسپتال محلے محلے میں کھل گئے ہیں ڈاکٹروں کے پاس ڈگریوں کے انبار ہیں مگر بیمار بھی پہلے سے کہیں زیادہ ہیں پہلے لوگ بوڑھے ہو کر مرتے تھے آج جوانی ہی میں کولیسٹرول شوگر اور بلڈ پریشر کے تحفے لے کر پھرتے ہیں یہ کیسی ترقی ہے۔
پہلے حکیم تھے اب ہیں ڈاکٹر صاحب؍ جو علاج کریں وہیں دردِ سر بنے۔ پہلے دال روٹی کھا کر آدمی فولاد کی مانند تندرست رہتا تھا۔ آج پروٹین شیک اور ویٹ گینر کھا کر بھی ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا ہے۔ اب تو روپیہ یوں برستا ہے جیسے آسمان سے قورمہ، ہر آدمی راتوں رات امیر بننے کے خواب دیکھتا ہے پیسہ تو تن پہ چڑھ گیا ہے مگر سکون قلب کا دیا تو بْجھ کر رہ گیا ہے، ہر لمحہ ایک دوڑ ہے، ایک لَے ہے، جیے جاتے ہیں بس روٹی روزی کے پیچھے۔ جب تلک تھی جیب خالی خواب تھے سارے ادھورے؍ اب جو زر ہے خواب پور پر سکوں ہے ناپید۔ پہلے آدمی کے پاس وقت تھا آج کے پاس ٹائم ڈپازٹ ہے بینک بیلنس تو بڑھ گیا مگر دل کا بیلنس گر گیا۔
دوستی میں وفا نہ رہی محبت میں خلوص نہ رہا؍ یہ کیسا دور آیا ہے کہ ہر شخص فری ہے مگر دل لوٹ کا شکار ہے۔ آج کل کے دور میں فرینڈز کی تعداد ہزاروں میں ہیں مگر دوست کوئی نہیں۔ فیس بک پر ہیپی برتھ ڈے لکھنے والے تو بہت ہیں مگر بیمار پڑنے پر کھچڑا پکانے والا کوئی نہیں۔ انسٹاگرام پر تو دوستوں کی فوج ہے شہر کی گلیوں میں بھی اتنے چھولے بھٹورے نہیں بکتے، جتنے ہمارے فالوورز ہیں دعویٰ دوستی کا ہے مگر خلوص کی تو دال ہی نہیں گلتی وفا کو تو چھوڑ ہی دیجیے، وہ تو چڑیا کی طرح پَر لگا کر اْڑ گئی ہے۔ پہلے دوستی دل سے دل کا رشتہ ہوا کرتی تھی آج کلک کا رشتہ رہ گئی ہے۔ بشیر بدر نے خوب فرمایا ہے
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو
ہمارے ہاں تو دھوکا یوں چلتا ہے جیسے اندھے کو اندھا راستہ بتائے، دوستی کی چادر تو تار تار ہو چکی ہے۔ گھڑیاں اتنی ہیں کہ بازار میں ٹکنا مشکل ہے ہاتھ پر ایک دیوار پر دس موبائل میں الگ مگر قسم لے لیجیے کہ وقت کا آٹا گیلا ہے وقت کی بیماری ایسی لگی ہے کہ گھڑی کی سوئی کو بھی آرام نہیں۔ گھڑی کی سوئیوں کو چلنے دو یہ تو دستور ہے دنیا کا؍ بس اس کا کیا کیجیے جو دل وقت پر دستک نہیں دیتا
آج کے انسان کے پاس ہر ہاتھ میں گھڑی بندھی ہوئی ہے، مگر وقت کسی کے پاس نہیں پہلے لوگ بے کاری میں وقت گزارتے تھے آج ٹائم مینجمنٹ کی کلاسیں لے کر بھی وقت کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ پہلے گھر ہمارے مٹی کے تھے کچے مگر سچے چھت ٹپکتی تھی تو دل میں محبت کا چشمہ بہتا تھا دل سونے کے تھے معصوم اور بے ریا اب گھر سونے کے ہیں مضبوط اور پائیدار مگر دل کا حساب پوچھو تو پتھر کا سخت بے حس اور تراشا ہو۔ کچے گھر تھے کچے دل تھے رنگ پیار کا پکا تھا۔ سونا ہوگئے گھر پتھر ہوئے دل اب تو خدا ہی حافظ ہے۔
علم بڑھ گیا ہے عمل گھٹ گیا ہے۔ ذہانت بڑھی ہے عقل گھٹ گئی ہے۔ یہ ترقی ہے کہ اب انسان مشین ہو گیا ہے۔ جس کے پاس سب کچھ ہے مگر وہ خود کہیں کھو گیا ہے۔ یہ دور ظاہر کی چکا چوند کا ہے باطن کی تاریکی کا ہے ہم نے ہر چیز کو حاصل کر لیا ہے مگر اپنے آپ کو کھو دیا ہے خدا کرے کہ انسان اس بھول بھلیاں سے نکلے اور سچے دل کی دولت پھر سے پا لے۔ اللہ رحم کرے ہمارے حال پر اور ہم کو پھر سے پیار محبت کی زبان دے۔ آمین