کورونا وبا کے باعث دنیا میں اوسط عمر کتنی گھٹ گئی؟
اشاعت کی تاریخ: 15th, May 2025 GMT
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بتایا ہے کہ کوویڈ۔19 کے سبب عالمگیر اوسط عمر میں 1.8 برس کی کم آئی ہے جبکہ اس بیماری کے باعث جنم لینے والے اندیشوں اور پریشانیوں نے صحت مند زندگی کے دورانیے کو 6 ہفتے کم کر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کورونا کا خدشہ: چمگادڑ پھیلاؤ کا سبب بن سکتے ہیں، نئی تحقیق
ڈبلیو ایچ او نے عالمی طبی صورتحال پر رواں برس کی رپورٹ میں بتایا ہے کہ کوویڈ-19 وبا نے دنیا بھر میں زندگیوں اور مجموعی صحت و بہبود کو بری طرح متاثر کیا اور غیرمتعدی بیماریوں سے ہونے والی شرح اموات میں کمی سے حاصل ہونے والے بیشتر فوائد ضائع ہو گئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کوویڈ۔19 کے بعد ضروری طبی خدمات کو پوری طرح بحال نہیں کیا جا سکا۔ اندازے کے مطابق سنہ 2030 تک ایک کروڑ 11 لاکھ طبی کارکنوں کی کمی ہو گی اور خاص طور پر ڈبلیو ایچ او کے افریقہ اور مشرقی بحیرہ روم کے خطے میں یہ کمی واضح طور پر محسوس کی جائے گی۔
ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ رواں سال دنیا کے کم از کم 3 ارب لوگوں کی صحت میں بہتری لانے کے لیے ڈبلیو ایچ او کے ہدف سے متعلق پیشرفت کا جائزہ بھی لیا گیا ہے جس کے مطابق اس سمت میں مجموعی ترقی کو خطرات لاحق ہیں جن سے بچنے کے لیے ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے۔
ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے کہا ہے کہ دنیا میں بہت سے لوگ قابل انسداد بیماریوں سے ہلاک ہو رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بالخصوص خواتین اور لڑکیوں کے لیے طبی خدمات تک رسائی میں مشکلات حائل ہیں اور ان حالات میں ہر حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہنگامی طور پر عزم کے ساتھ اور جوابدہی کا احساس لے کر ضروری اقدامات کرے۔
معیار صحت میں بہتریرپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال مزید 1.
مزید پڑھیے: کیا کورونا نے پھر سر اٹھالیا، سندھ میں کیسز بڑھ رہے ہیں؟
ضروری طبی خدمات اور ہنگامی طبی حالات میں مدد پہنچانے کے حوالے سے پیش رفت میں کمی دیکھی گئی۔ گزشتہ سال مالی مشکلات کے بغیر ضروری طبی خدمات تک رسائی پانے والوں کی تعداد میں صرف 431 ملین کا اضافہ ہوا اور تقریباً 637 ملین مزید لوگوں کو ہنگامی طبی حالات میں پہلے کی نسبت زیادہ بہتر تحفط میسر آیا۔
طبی اہداف کو خطرہزچہ بچہ کی اموات میں کمی لانے کے اہداف پر پیش رفت سست رو رہی۔ اس سے قبل دو دہائیوں تک ان اموات میں بڑے پیمانے پر کمی واقع ہوئی تھی۔ 2000ء اور 2023ء کے درمیان زچگی میں اموات کی شرح میں 40 فیصد سے زیادہ اور 5 سال سے کم عمر کے بچوں کی اموات میں نصف سے زیادہ کمی ہوئی۔
بنیادی طبی نگہداشت پر سرمایہ کاری کی قلت، تربیت یافتہ طبی کارکنوں کی کمی اور حفاظتی ٹیکوں اور محفوظ زچگی جیسی خدمات میں کمی آنے کے باعث اب اس شرح میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2030 تک پائیدار ترقی کے حوالے سے طبی اہداف کو حاصل کرنے کے لیے ہنگامی اقدامات نہ کیے گئے تو مزید 7 لاکھ ماؤں اور 5 سال سے کم عمر کے 80 لاکھ بچوں کی زندگی کو تحفط دینے کا موقع ہاتھ سے نکل جائے گا۔
غیرمتعدی بیماریاں اور امواترپورٹ کے مطابق، امراض قلب، فالج، زیابیطس اور یرقان جیسی غیرمتعدی بیماریوں سے قبل از وقت اموات میں اضافہ ہو رہا ہے جس میں بڑھتی آبادی اور عمر کا اہم کردار ہے۔ دنیا بھر میں 70 سال سے کم عمر افراد میں بیشتر اموات انہیں امراض سے ہوتی ہیں۔
دنیا 2023 تک ایسی اموات میں نمایاں کمی لانے کے ہدف سے بہت دور ہے۔ اگرچہ تمباکو اور شراب نوشی کے رجحان میں کمی آ رہی ہے تاہم فضائی آلودگی اب بھی دنیا بھر میں قابل انسداد اموات کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
ڈبلیو ایچ او میں شعبہ طبی معلومات و تجزیے کے سربراہ ڈاکٹر ہائیڈونگ وانگ نے بتایا ہے کہ ادارہ طبی اطلاعاتی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے عالمی طبی معلوماتی مرکز کے ذریعے رکن ممالک کو مدد فراہم کر رہا ہے۔
متعدی بیماریوں کا پھیلاؤرپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں ایچ آئی وی اور تپ دق کے نئے مریضوں کی تعداد میں کمی آ رہی ہے۔ علاوہ ازیں ایسے مریضوں کی شرح میں بھی کمی دیکھی گئی ہے جنہیں گرم علاقوں کی نظرانداز شدہ بیماریوں کا علاج درکار ہے۔
مزید پڑھیں: کراچی میں پھیلنے والی وبا کورونا یا کچھ اور؟
گزشتہ 10 سال میں ملیریا کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوتا رہا ہے اور ادویات کے خلاف جراثیمی مزاحمت بھی صحت عامہ کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ 2023 میں حفاظتی ٹیکے لگانے کی شرح قبل از کووڈ دور کے برابر نہیں آ سکی تھی۔ بہت سے ممالک غذائی قلت، فضائی آلودگی اور رہن سہن کے غیرمحفوظ حالات جیس مسائل سے نمٹنے میں بھی پیچھے ہیں۔
طبی مقاصد کے لیے دیے جانے والے مالی وسائل میں آنے والی حالیہ کمی سے بھی طبی اہداف کی جانب پیش رفت غیرمستحکم ہونے کا خدشہ ہے۔ ‘ڈبلیوایچ او’ کا کہنا ہے کہ طبی میدان میں کڑی محنت سے حاصل ہونے والی کامیابیوں کو تحفظ دینے کے لیے ملکی و بین الاقوامی سطح پر امدادی وسائل کی پائیدار اور قابل بھروسہ فراہمی ضروری ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: دنیا بھر میں ڈبلیو ایچ او طبی خدمات میں بہتری اموات میں کے لیے رہا ہے
پڑھیں:
گریٹا تھن برگ: صنفِ نازک میں مردِ آہن
اسلام ٹائمز: گریٹا تھن برگ آج کروڑوں نوجوانوں کے لیے امید کی علامت ہیں۔ ان کا پیغام سادہ ہے کہ ’’کوئی بھی شخص اتنا چھوٹا نہیں کہ فرق نہ ڈال سکے۔‘‘ یہی پیغام دنیا کے ہر اس نوجوان کو حوصلہ دیتا ہے جو مایوس ہے کہ وہ تنہا کیا بدل سکتا ہے۔ گریٹا نے عملی طور پر دکھا دیا کہ ایک پندرہ سالہ بچی اکیلی بیٹھ کر دنیا بھر میں کروڑوں افراد کو متاثر کر سکتی ہے۔ تحریر: سید عباس حیدر شاہ ایڈووکیٹ
دنیا آج کئی بحرانوں کی زد میں ہے۔ جنگیں، معاشی ابتری، بھوک اور بے روزگاری جیسے مسائل تو ہیں ہی، مگر سب سے بڑا بحران وہ ہے جسے ماہرینِ سائنس اور عالمی ادارے صدی کا سب سے بڑا خطرہ قرار دیتے ہیں: ماحولیاتی تبدیلی۔ بڑھتا ہوا درجہ حرارت، برف کے پہاڑوں کا پگھلنا، سمندروں کا بڑھتا ہوا شور اور جنگلات کی کٹائی نے زمین کو ایک ایسے خطرناک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے جہاں انسانی بقا خطرے میں ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے رہنما کانفرنسوں میں تقریریں تو کرتے ہیں، مگر عملی اقدامات کم نظر آتے ہیں۔ ایسے میں ایک کم سن لڑکی نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ وہ لڑکی ہے سویڈن کی گریٹا تھن برگ، جو صنفِ نازک کے باوجود ایک مردِ آہن کی مانند ڈٹ کر دنیا کی طاقتوں کو للکارتی ہے۔
گریٹا ٹنٹن ایلینورا ارنمَن تھن برگ ۳ جنوری 2003ء کو اسٹاک ہوم، سویڈن میں پیدا ہوئیں۔ ان کا تعلق ایک فنکار گھرانے سے ہے۔ والدہ ملینا ارنمَن عالمی شہرت یافتہ اوپیرا سنگر ہیں اور والد سوانتے تھن برگ ایک اداکار۔ فنونِ لطیفہ سے جڑے اس گھرانے نے گریٹا کی شخصیت میں اعتماد اور اظہار کی قوت پیدا کی، مگر ان کی اصل پہچان فن نہیں بلکہ ماحولیات سے جڑی فکر بنی۔ گریٹا صرف آٹھ برس کی تھیں جب انہوں نے اسکول میں گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں پڑھا۔ وہ کئی دن اس سوچ میں گم رہیں کہ اگر دنیا اسی طرح تباہ ہوتی رہی تو مستقبل کی نسلوں کا کیا ہوگا۔ یہ سوال ان کے ذہن میں بیٹھ گیا اور رفتہ رفتہ ان کی زندگی کا مقصد بن گیا۔
انہیں ایسپرگر سنڈروم (Asperger Syndrome) لاحق ہے، جو آٹزم اسپیکٹرم کی ایک کیفیت ہے۔ عموماً لوگ اسے کمزوری سمجھتے ہیں، مگر گریٹا اسے اپنی طاقت قرار دیتی ہیں۔ ان کے مطابق یہ کیفیت انہیں غیر معمولی توجہ اور استقامت عطا کرتی ہے۔ 20018ء میں گریٹا صرف پندرہ سال کی تھیں جب انہوں نے اسکول چھوڑ کر سویڈش پارلیمنٹ کے باہر احتجاج شروع کیا۔ ان کے ہاتھ میں ایک تختی تھی جس پر لکھا تھا: ’’Skolstrejk för klimatet‘‘ (یعنی: ماحولیاتی تبدیلی کے لیے اسکول سٹرائیک)۔ شروع میں وہ اکیلی تھیں، مگر ان کی خاموش بیٹھک نے میڈیا اور عوام کی توجہ کھینچ لی۔
رفتہ رفتہ یہ احتجاج دنیا بھر میں پھیل گیا۔ لاکھوں طلبہ ہر جمعہ اسکول چھوڑ کر سڑکوں پر نکلنے لگے اور ماحولیات کے تحفظ کا مطالبہ کرنے لگے۔ اس تحریک کو ’’Fridays for Future‘‘ کا نام ملا۔ گریٹا کی تحریک نے انہیں عالمی رہنما بنا دیا۔ وہ یورپی پارلیمان، ورلڈ اکنامک فورم، اور اقوامِ متحدہ جیسے بڑے فورمز پر مدعو کی گئیں۔ ستمبر 2019ء میں نیویارک میں منعقدہ ’’Climate Action Summit‘‘ میں ان کی تقریر نے دنیا کو ہلا دیا۔ ان کا جملہ ’’How dare you‘‘ آج بھی ماحولیاتی تحریک کا استعارہ ہے۔ گریٹا نے عالمی رہنماؤں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تمہیں یہ جرات کیسے ہوئی کہ اپنی وقتی آسائشوں کے لیے آنے والی نسلوں کے مستقبل کو برباد کر رہے ہو۔
2019ء میں ٹائم میگزین نے گریٹا کو ’’Person of the Year‘‘ قرار دیا۔ وہ سب سے کم عمر شخصیت تھیں جنہیں یہ اعزاز ملا۔ ان کی تقاریر کا مجموعہ ’’No One Is Too Small to Make a Difference‘‘ شائع ہوا، جو دنیا بھر میں مقبول ہوا۔ ان پر دستاویزی فلم ’’I Am Greta‘‘ (2020ء) ریلیز ہوئی، جس نے لاکھوں افراد کو متاثر کیا۔ جہاں گریٹا کو بے پناہ حمایت ملی، وہیں انہیں سخت تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ برازیل کے صدر جائر بولسونارو نے انہیں ’’brat‘‘ کہا، اور ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ان کا مذاق اڑایا لیکن گریٹا نے کبھی ہمت نہیں ہاری۔ وہ کہتی ہیں: ’’میں چاہتی ہوں لوگ مجھے نہیں، بلکہ سچائی کو سنیں۔‘‘
گریٹا نے اپنی آواز صرف ماحولیاتی مسائل تک محدود نہیں رکھی بلکہ انسانی حقوق اور انصاف کے لیے بھی کھل کر بات کی۔ انہوں نے یوکرین جنگ پر متاثرین کی حمایت کی اور فلسطین میں جاری انسانی بحران پر بھی بارہا احتجاج کیا۔ ان کے مطابق، انسانی بقا اور ماحولیاتی تحفظ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے مسائل ہیں۔ اکتوبر 2025ء میں گریٹا تھن برگ ایک مرتبہ پھر دنیا کی توجہ کا مرکز بن گئیں۔ وہ ایک بین الاقوامی قافلے ’’Global Sumud Flotilla‘‘ کا حصہ تھیں، جس میں تقریباً 40 کشتیوں پر 500 سے زائد کارکن، وکلاء اور سیاسی رہنما سوار تھے۔ اس قافلے کا مقصد غزہ کی محصور آبادی کے لیے انسانی امداد پہنچانا تھا۔
تاہم اسرائیلی بحریہ نے بین الاقوامی پانیوں میں ان کشتیوں کو گھیر لیا اور انہیں اشدود بندرگاہ کی طرف موڑنے پر مجبور کیا۔ اس دوران گریٹا سمیت درجنوں کارکنوں کو حراست میں لے لیا گیا۔ اسرائیل نے اعلان کیا کہ ’’گریٹا اور ان کے ساتھی محفوظ ہیں‘‘ مگر دنیا بھر میں اس کارروائی کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ گریٹا کی جدوجہد محض ماحولیات تک محدود نہیں بلکہ وہ ہر اس جدوجہد میں شامل ہوتی ہیں جہاں انسانیت کو دبایا جاتا ہے۔ غزہ کے مظلوم عوام کے ساتھ کھڑا ہونا ان کی ہمت اور اصول پسندی کو واضح کرتا ہے۔
گریٹا تھن برگ آج کروڑوں نوجوانوں کے لیے امید کی علامت ہیں۔ ان کا پیغام سادہ ہے: ’’کوئی بھی شخص اتنا چھوٹا نہیں کہ فرق نہ ڈال سکے۔‘‘ یہی پیغام دنیا کے ہر اس نوجوان کو حوصلہ دیتا ہے جو مایوس ہے کہ وہ تنہا کیا بدل سکتا ہے۔ گریٹا نے عملی طور پر دکھا دیا کہ ایک پندرہ سالہ بچی اکیلی بیٹھ کر دنیا بھر میں کروڑوں افراد کو متاثر کر سکتی ہے۔ گریٹا تھن برگ محض ایک فرد نہیں بلکہ ایک تحریک ہیں۔
گریٹا تھن برگ صنفِ نازک میں مردِ آہن ہیں، جو اپنے عزم اور استقامت سے دنیا کے بڑے بڑے ایوانوں کو للکارتی ہیں۔ چاہے ماحولیات کا مسئلہ ہو یا فلسطین کے مظلوم عوام کا درد، گریٹا نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ سچائی اور حوصلہ سب سے بڑی طاقت ہیں۔ ان کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ اصل طاقت دولت، اسلحہ یا حکومت میں نہیں، بلکہ اصول پسندی اور جرات میں ہے۔ آج اگر دنیا کو بچانا ہے تو ہمیں گریٹا کی طرح سچ بولنے اور عمل کرنے کی ہمت پیدا کرنا ہوگی۔