غیر قانونی تعمیرات گرانے کا کام آؤٹ سورس کرینگے تاکہ رشوت کے دروازے بند ہوں: سعید غنی
اشاعت کی تاریخ: 22nd, May 2025 GMT
سندھ اسمبلی—فائل فوٹو
سندھ اسمبلی کے اجلاس میں ایم کیوایم کی رکنِ صوبائی اسمبلی فوزیہ حمید نے سوال اٹھایا کہ کتنے افسران نے شوکاز کے جواب دیے اور کتنے افسران کے خلاف کارروائی ہوئی؟ جرمانہ اتنا لگائیں کہ رشوت کے ریٹ نہ بڑھیں۔
اس موقع پر صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی نے کہا کہ غیر قانونی تعمیرات گرانے کا کام آؤٹ سورس کریں گے تاکہ رشوت کے دروازے بند ہوں۔
ایم کیوایم کے رکن جمال احمد نے کہا کہ جب بلڈنگ بن رہی ہوتی ہے تو بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی والے کہاں ہوتے ہیں؟ زلزلے کی صورت میں ذمے داری کس کے اوپر عائد ہو گی؟اشتہاری مہم چلانی چاہیے۔
وزیرِ بلدیات سعید غنی نے کہا ہم نے اشتہارات دیے ہیں، کوشش کریں گے کہ اشتہارات دوبارہ دیں، یہاں پر موجود نمائندے بھی سندھ کے لوگوں کو آگاہی دیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ ضلع سینٹرل کے علاوہ پورے کراچی کا ایشو ہے، کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ غیر قانونی تعمیرات ہیں۔
ایم کیو ایم کے رکنِ اسمبلی عادل عسکری نے سوال کیا کہ شہر میں غیر قانونی تعمیرات کی ذمے داری کس کی ہے؟
صوبائی وزیر سعید غنی نے کہا کہ یہ گند 17 سال سے پہلے کا ہے، جب ایم کیو ایم بھی حکومت میں ہوا کرتی تھی۔
فوزیہ حمید نے کہا کہ سندھ میں کون نہیں جانتا ہے کہ ایس بی سی اے سب سے زیادہ کرپٹ محکمہ ہے۔
وزیرِ بلدیات سعید غنی نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ٹیمپریشن کا رول کسی تیسری پارٹی کو دے دیں، غیر قانونی تعمیرات کی معلومات آ جائے تو توڑنے کی ذمے داری ہم کسی اور کو دیں گے، ہم بھرپور کوشش کر رہے ہیں، ہماری نیت ٹھیک ہے۔
جماعتِ اسلامی کے رکن محمد فاروق نے کہا کہ ایس بی سی اے کے بس کی بات نہیں ہے، یہ شہر بہت بڑا ہے، بہتری کے لیے کوئی آن لائن سسٹم لے کر آئیں، ملیر ایکسپریس وے کے اطراف غیر قانونی تعمیرات ہو رہی ہیں، شاہ فیصل ٹاؤن میں کل افسران کے خلاف مقدمہ درج ہوا ہے اس پر ایکشن لیں۔
صوبائی وزیر سعید غنی نے کہا کہ ہمارے پاس آن لائن شکایت کا سسٹم موجود ہے، 670 شہری آن لائن شکایات کر چکے ہیں۔
ایم کیو ایم کے رکن اعجاز الحق نے کہا کہ غیر قانونی واٹر کنکنشن کے خلاف 50 سے 60 خطوط ایم ڈی کو لکھے ہیں، کنکشنز کیوں نہیں کاٹے جا رہے؟
وزیرِ بلدیات سعید غنی نے جواب دیا کہ غیر قانونی واٹر کنکنشن کے معاملے کو دیکھ لوں گا، اگر کوئی کارروائی ممکن ہو گی تو میں ضرور ایکشن لوں گا۔
ایم کیوایم کے رکن طحہٰ احمد خان نے کہا کہ لاڑکانہ والوں کی شکایات ہیں کہ برتھ، ڈیتھ اور میرج سرٹیفکیٹ کے لیے بھی رشوت دینی پڑتی ہے، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ موجود ہے۔
وزیر بلدیات نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ جو سرویز ہوتے ہیں وہ لوگوں کی حقیقی رائے کی نمائندگی نہیں کرتے، سروے کی بنیاد پر حتمی رائے نہیں قائم کرنی چاہیے، یہ ساری ہوائی باتیں ہوتی ہیں۔
ایم کیوایم کے رکن محمد دانیال نے کہا کہ کراچی کے 50 فیصد سے بھی کم لوگوں کو پانی ملتا ہے، موٹر وے پر ہاؤسنگ سوسائٹیز بن رہی ہیں۔
سعید غنی نے کہا کہ بنیادی ضروریات پوری کرنا حکومت کی ذمے داری ہوتی ہے، ہمیں لوگوں کو قانونی طور پر سپورٹ کرنا ہو گا، غیر قانونی تعمیرات کو روکنا ہو گا، نئی آبادیاں ہونی چاہیے۔
ایم کیو ایم کے رکن انجینئر محمد عثمان نے کہا کہ اس وزارت کی تقسیم ہونا چاہیے، گلستانِ جوہر کی آبادی 3 لاکھ ہے، جہاں 3 ایم جی ڈی پانی ملتا ہے۔
انجینئر محمد عثمان نے سوال کیا کہ پانی کی تقسیم کا کیا فارمولا ہے؟
وزیرِ بلدیات نے جواب دیا کہ کراچی کو جتنے پانی کی ضرورت ہے اتنا میسر نہیں ہے، کوئی مسئلہ ہو جاتا ہے تو شہریوں کو تکلیف دیکھنی پڑتی ہے، اکثر علاقوں میں لوگوں کو ضرورت سے کم پانی ملتا ہے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: غیر قانونی تعمیرات بلدیات سعید غنی نے سعید غنی نے کہا کہ ایم کیو ایم ایم کیوایم ایم کے رکن لوگوں کو
پڑھیں:
کراچی میں غیر قانونی تعمیر ہونیوالی پوری عمارت گرائی جائے گی، وزیر بلدیات
کراچی:وزیر بلدیات سندھ نے کہا ہے کہ کراچی میں غیر قانونی تعمیر ہونیوالی پوری عمارت گرا دی جائے گی۔
سندھ اسمبلی کے اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران وزیر بلدیات سعید غنی نے اعلان کیا ہے کہ اب صرف غیر قانونی فلورز نہیں بلکہ پوری کی پوری غیر قانونی عمارت گرائی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کی طرف سے ایسی کارروائیاں شروع کی جا چکی ہیں، اور اب تک 2200 سے زائد غیرقانونی عمارتوں کو منہدم کیا جا چکا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ان میں سے کئی کارروائیاں ایس بی سی اے افسران نے خود موقع پر جا کر کی ہیں۔
ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی عبدالباسط کی طرف سے ایس بی سی اے میں کرپشن اور رشوت خوری کے الزامات پر سعید غنی کا کہنا تھا کہ غیر قانونی تعمیرات میں ملوث افراد خود کبھی یہ تسلیم نہیں کرتے کہ انہوں نے رشوت دی ہے، تاہم حکومت نے ان الزامات کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے کارروائیاں کی ہیں۔ اب تک 28 افسران کے خلاف کارروائی ہو چکی ہے، جبکہ 31 کو شوکاز نوٹس جاری کیے گئے ہیں اور بعض کے خلاف باقاعدہ مقدمات بھی درج کروائے گئے ہیں۔
وزیر بلدیات نے تسلیم کیا کہ غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کی جانے والی کارروائیاں ان کے معیار پر پوری نہیں اتر رہیں اور ایس بی سی اے کے پاس تمام غیر قانونی عمارتوں کو گرانے کی صلاحیت موجود نہیں۔ اس مسئلے کے حل کے لیے اب اخبارات میں اشتہار دے کر نجی شعبے کو بھی ان کارروائیوں میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
بلدیاتی وزیر نے کہا کہ غیر قانونی پراپرٹی کی خرید و فروخت میں ملوث رئیل اسٹیٹ ایجنٹس کے خلاف بھی کارروائی ہوگی اور ان کی رجسٹریشن کا عمل شروع کیا جا چکا ہے۔ انہوں نے ایجنٹس کو خبردار کیا کہ وہ ایسی پراپرٹی عوام کو نہ دکھائیں جو قواعد کے خلاف ہو۔
ایوان میں سوالات کے دوران جمال احمد نے پوچھا کہ جب غیر قانونی بلڈنگ تعمیر ہو رہی ہوتی ہے تو ایس بی سی اے کہاں ہوتا ہے؟ اس پر سعید غنی نے جواب دیا کہ یہ مسئلہ گزشتہ 17 برس سے چلا آ رہا ہے اور ایم کیو ایم بھی اس دوران حکومت میں رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب تمام ضلعی انتظامیہ اور ٹی ایم سیز کو بھی غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کارروائی کا اختیار دیا جا رہا ہے، تاکہ یہ مسئلہ نچلی سطح پر بھی حل ہو۔
بلقیس مختار کی طرف سے پوچھے گئے سوال پر وزیر بلدیات نے بتایا کہ 12 افسران کے خلاف مقدمات درج ہو چکے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ ایسے تمام عناصر کو نکال باہر کرنا ہوگا جو شہر کی بربادی میں ملوث ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب غیر قانونی تعمیرات پر پانی، بجلی اور گیس کے کنکشن بھی نہیں دیے جائیں گے۔
محمد فاروق اور دیگر اراکین نے پانی کی قلت، ٹینکر مافیا اور شہری خدمات میں بدعنوانی کے حوالے سے سوالات اٹھائے، جن پر وزیر بلدیات نے کہا کہ حکومت اس سمت میں کام کر رہی ہے، آن لائن شکایات کا نظام موجود ہے اور متعدد شہری اس سے فائدہ بھی اٹھا چکے ہیں۔
پانی کے مسئلے پر سعید غنی نے تسلیم کیا کہ موجودہ وسائل شہریوں کی ضروریات کے لیے ناکافی ہیں لیکن حکومت نئے منصوبوں پر کام کر رہی ہے تاکہ فراہمی بہتر بنائی جا سکے۔
ایم کیو ایم کی فوزیہ حمید نے ملازمتوں کے حوالے سے نوجوانوں کے لیے عمر کی حد میں نرمی کی تجویز دی، جس پر وزیر پارلیمانی امور ضیا النجار نے کہا کہ یہ ایک اچھی تجویز ہے اور حکومت اس پر غور کرے گی۔
قرعت العین کی طرف سے نکاسی آب کے مسائل پر توجہ دلانے پر سعید غنی نے کہا کہ سندھ حکومت نے کراچی میں نالوں کی صفائی کے لیے خطیر رقم دی ہے اور آئندہ جون میں 45 بڑے نالوں کی صفائی کی جائے گی۔ انہوں نے پلاسٹک بیگز کو نالوں کے بند ہونے کی بڑی وجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔
مجموعی طور پر وقفہ سوالات کے دوران کراچی میں غیر قانونی تعمیرات، شہری سہولیات کی عدم فراہمی، بدعنوانی اور نوجوانوں کے روزگار جیسے اہم مسائل پر بحث ہوئی۔