کیا خشک پھل شوگر بڑھاتے ہیں؟ ماہرین نے اہم وضاحت کردی
اشاعت کی تاریخ: 6th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اگر آپ سمجھتے ہیں کہ خشک پھل تازہ پھلوں کی طرح ہی فائدہ مند ہوتے ہیں تو یہ خیال جزوی طور پر درست ہے۔
غذائیت کے لحاظ سے دونوں میں کچھ مماثلت ضرور ہے، مگر جب بات بلڈ شوگر کی ہو تو فرق خاصا اہم ہو جاتا ہے۔ پھلوں کو خشک کرنے کے عمل میں ان کا زیادہ تر پانی ختم ہو جاتا ہے، لیکن ان میں موجود قدرتی شکر (فرکٹوز) اپنی جگہ برقرار رہتی ہے بلکہ زیادہ مرکزیت اختیار کر لیتی ہے۔
اسی وجہ سے خشک پھلوں کے صرف 100 گرام میں شکر کی مقدار تازہ پھلوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔ اگر آپ ایک مٹھی کشمش یا خشک کھجوریں کھاتے ہیں، تو آپ دراصل اتنی ہی شکر لے رہے ہوتے ہیں جتنی کئی تازہ پھلوں میں موجود ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ خشک پھلوں کا گلیسیمک لوڈ (Glycemic Load) زیادہ ہوتا ہے، یعنی یہ خون میں شوگر کو تیزی سے بڑھا سکتے ہیں۔
البتہ ہر چیز کی طرح خشک پھل بھی اگر اعتدال میں کھائے جائیں تو فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر خشک خوبانی، آلو بخارا، اور خشک سیب میں موجود فائبر شوگر کے جذب کو سست کرتا ہے، جبکہ ان میں پوٹاشیئم اور اینٹی آکسیڈنٹس بھی پائے جاتے ہیں جو جسم کے لیے مفید ہیں۔
ماہرین کے مطابق اگر خشک پھل 1 سے 2 چمچ سے زیادہ نہ کھائے جائیں اور انہیں کسی پروٹین یا چکنائی والی چیز جیسے دہی، بادام یا جو کے ساتھ ملا کر کھایا جائے تو بلڈ شوگر پر زیادہ منفی اثر نہیں پڑتا۔ اس طرح شوگر کا جذب آہستہ ہوتا ہے اور جسم کو توانائی بھی دیرپا ملتی ہے۔
ذیابطیس کے مریضوں کے لیے خاص طور پر ضروری ہے کہ وہ خشک پھلوں کی مقدار پر قابو رکھیں۔ کشمش، کھجور اور انجیر کو بطور مٹھائی یا اسنیک کے طور پر کبھی کبھار کھایا جا سکتا ہے، مگر روزمرہ غذا میں تازہ پھل زیادہ بہتر اور محفوظ انتخاب رہیں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ کو شوگر کا مسئلہ ہے تو پھل ہمیشہ پورے (whole fruit) کی صورت میں کھائیں، جوس یا زیادہ خشک شکل میں نہیں۔ توازن برقرار رکھا جائے تو خشک پھل بھی فائدہ مند ہو سکتے ہیں، لیکن زیادتی انہیں نقصان دہ بنا سکتی ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
آئی ایم ایف نے تجارتی ڈیٹا میں 11 ارب ڈالر فرق کی وضاحت مانگ لی
اسلام آباد:عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) نے پاکستان سے دوسال میں تقریباً 11 ارب ڈالر کے تجارتی ڈیٹا میں فرق کی وضاحت مانگ لی ہے۔
ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف اور پاکستان کےدرمیان دوسرے ششماہی اقتصادی جائزہ مذاکرات جاری ہیں جہاں آئی ایم ایف نے 2 سال میں تقریباً 11 ارب ڈالرکے تجارتی ڈیٹا میں فرق کی وضاحت مانگ لی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ پاکستان آٹومیشن سسٹم، سنگل ونڈو کے 24-2023کے درآمدی اعداد وشمار میں 5.1 ارب ڈالر کا فرق نظر آیا اور مالی سال 25-2024 میں اعداد وشمار میں یہ فرق مزید بڑھ کر 5.7 ارب ڈالر ہوگیا ہے۔
آئی ایم ایف نے پرانا تجارتی ڈیٹا درست کر کے عوامی سطح پر شیئر کرنے پر زور دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کو بریفنگ دی گئی کہ ادارہ شماریات کا ڈیٹا سسٹم 2017 سے اپ ڈیٹ نہیں ہوا اس کی وجہ سے غیرملکی درآمدات کی رپورٹنگ کم ظاہر ہوئی۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ سب سے زیادہ فرق ٹیکسٹائل سیکٹر میں 3 ارب ڈالر اور دھاتوں میں ایک ارب ڈالر سامنے آیا، ڈیٹا کی اصلاحات سے اقتصادی نمو اور برآمدات پر اثر پڑ سکتا ہے۔