پاکستان تحریک انصاف اور جماعتِ اسلامی کی نئی لڑائی کیا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 6th, October 2025 GMT
2013 کے انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف اور جماعتِ اسلامی نے خیبر پختونخوا میں اتحادی حکومت بنائی، جس میں سابق امیر جماعت اسلامی سراج الحق صوبائی وزیرِ خزانہ بنے۔ تاہم 2018 کے بعد دونوں جماعتوں کے تعلقات میں سرد مہری پیدا ہوگئی۔
9 مئی کے واقعات کے بعد جماعتِ اسلامی نے تحریکِ انصاف پر سخت تنقید کی، اور اب غزہ کے معاملے پر بھی جماعتِ اسلامی کی جانب سے پی ٹی آئی کو ہدفِ تنقید بنایا جا رہا ہے۔
اتوار کے روز امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن نے غزہ ملین مارچ کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فلسطین کے معاملے پر پاکستان کی سیاسی قیادت کی خاموشی اور پالیسیوں پر کڑی تنقید کی۔
مزید پڑھیں:
انہوں نے 2 ریاستی حل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایک ہی ریاست ہے اور اس کا نام فلسطین ہے، اور حماس کو قانونی مزاحمتی تحریک قرار دیا جو پوری دنیا میں امید کی شمع روشن کر رہی ہے۔
تاہم ان کے بیان کا سب سے متنازع حصہ عمران خان سے متعلق تھا۔ حافظ نعیم نے کہا کہ پی ٹی آئی نے فلسطین کے حق میں کتنا احتجاج کیا؟ تحریکِ انصاف نے الیکشن جیتا، میں مانتا ہوں کہ عمران خان سیاسی قیدی ہیں، مگر ان کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ جیل سے، دیگر اعلانات کی طرح، حماس کی حمایت اور امریکا و اسرائیل کی مذمت کریں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جو لوگ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے بے چین ہیں، انہیں فلسطینیوں سے سبق سیکھنا چاہیے۔
مزید پڑھیں:
پی ٹی آئی کا جماعتِ اسلامی کو جوابحافظ نعیم الرحمٰن کے عمران خان سے متعلق بیان پر پاکستان تحریکِ انصاف نے سخت ردِعمل دیا۔ ترجمان نے کہا کہ حافظ نعیم الرحمٰن ریموٹ کنٹرول سیاستدان ہیں، ایسے سیاستدانوں کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔
پی ٹی آئی نے یاد دلایا کہ چند ماہ قبل حافظ نعیم خود فلسطین مارچ کے سلسلے میں پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان سے ملے تھے، اور تحریکِ انصاف نے جماعتِ اسلامی کے مارچ کی غیر مشروط حمایت اور بھرپور شرکت کی تھی۔
ترجمان کے مطابق عمران خان واحد پاکستانی رہنما ہیں جنہوں نے ہمیشہ اسرائیل اور اس کے مقامی غلام حکمرانوں کے خلاف دوٹوک مؤقف اپنایا ہے۔
مزید پڑھیں:
انہوں نے کہا کہ جتنا واضح اور جرات مندانہ مؤقف عمران خان کا فلسطین پر ہے، اتنا کسی اور سیاستدان کا نہیں رہا۔ تحریکِ انصاف کے جاری بیانات دراصل عمران خان ہی کے مؤقف کی ترجمانی کرتے ہیں۔
پی ٹی آئی نے حافظ نعیم سے سوال کیا کہ کیا آپ کو سینیٹر مشتاق احمد کے لیے بولنے کی اجازت نہیں ملی؟ جو اسرائیلی قید میں ہیں، اُن کے لیے آپ کی زبان کیوں بند ہے؟ کیا اُن کے حق میں آواز اٹھانے کے لیے بھی ’ہدایات‘ موصول نہیں ہوئیں؟
بیان میں مزید کہا گیا کہ نواز شریف کی خاموشی پر بھی کبھی سوال کر لیجیے، یا وہ موضوع اجازت نامے سے باہر ہے؟
ترجمان نے کہا کہ قوم جانتی ہے کہ ریموٹ کنٹرول سیاستدان کب، کہاں اور کس کے اشارے پر بولتے ہیں؟ لہٰذا حافظ نعیم اداروں کی خدمت جاری رکھیں، مگر اُس رہنما پر زبان نہ چلائیں جو قوم کے ضمیر، حریت اور خودداری کی علامت بن چکا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: حافظ نعیم پی ٹی آئی نے کہا کہ کے لیے
پڑھیں:
26ویں ترمیم کے وقت بھی کہا تھا یہ عوام کے مفاد میں نہیں، حافظ نعیم
--حافظ نعیم الرحمان—فائل فوٹوامیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی نے 26ویں ترمیم کے وقت بھی کہا تھا یہ عوام کے مفاد میں نہیں۔
لاہور میں صحافیوں سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ قرآن اور سنت کے علاوہ کوئی قانون ہے تو اس کو نہیں مانتے لیکن اس کو چیلنج کہاں کریں، سب عدالتیں تو ان کی اپنی بنائی ہوئی ہیں۔
حافظ نعیم الرحمان کا کہنا تھا کہ جب فارم 47 کی بنیاد پر حکومت بنائی جائے تو ایسی جمہوریت کا کیا فائدہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب عدالتوں پر قدغن لگائیں گے تو لوگ اپنی مرضی کی عدالت بنالیں گے۔
امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ جب انصاف کے راستے بند کر دیے جائیں گے تو لوگ کہاں جائیں گے، جو آواز عوام تک پہنچنی چاہیے اس کو روک دیا جاتا ہے۔