Jasarat News:
2025-10-07@01:26:52 GMT

ٹرمپ امن منصوبہ غزہ امن کیلیے بڑی پیش رفت ہے، پوپ لیو

اشاعت کی تاریخ: 7th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ویٹی کن (اے پی پی) مسیحی کیتھولک فرقے کے 14ویں پوپ لیو نے اتوار کے روز غزہ کیلیے امریکی صدر ٹرمپ کے امن منصوبے کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ غزہ میں امن کیلیے ایک بڑی پیش رفت ہے۔ العربیہ کے مطابق انہوں نے اس موقع پر غزہ میں فوری جنگ بندی اور اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا۔ ویٹی کن میں ایک بڑے اجتماع سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جس سے غزہ میں امن مذاکرات کی امید بڑی ہے اور مجھے بڑی امید ہے کہ مطلوبہ نتائج جلد ممکن ہوجائیں گے،پوپ نے مطالبہ کیا کہ وہ تمام ذمہ دار لوگوں سے کہیں گے کہ وہ اس سلسلے میں امن کے اس راستے میں آگے بڑھیں۔

خبر ایجنسی سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

ٹرمپ منصوبہ اور اسرائیلی کابینہ میں اختلافات

اسلام ٹائمز: نیتن یاہو کی کابینہ میں یہ اختلافات انکے عہدیداروں کے بیانات میں بھی سامنے آئے ہیں۔ ایک بیان میں اسرائیلی کابینہ کے ترجمان نے کہا کہ غزہ میں جنگ بندی نام کی کوئی چیز نہیں ہے بلکہ صرف حملوں اور بم دھماکوں کو عارضی طور پر روک دیا گیا ہے۔ دریں اثناء، Ma'ariv پول سے پتہ چلتا ہے کہ 53 فیصد اسرائیلی اور 41 فیصد ووٹرز حکمران اتحاد کی حمایت کرتے ہیں، لیکن دائیں بازو کے وزراء نے حکومت کو گرانے کی دھمکی دی ہے۔ قومی سلامتی کے وزیر ایتمار بین گویر کا کہنا ہے کہ ہم کسی ایسی قومی شکست کا حصہ نہیں بنیں گے، جو ا ابدی رسوائی ہو اور اگلے قتل عام کیلئے ٹائم بم بن جائے۔ تحریر: سید رضی عمادی

غزہ کے عوام کے خلاف صیہونی حکومت کی نسل کشی کے دوسرے سال کے اختتام کے موقع پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ میں جنگ بندی کا دعویٰ کرتے ہوئے 20 نکاتی منصوبہ پیش کیا ہے۔ غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے پر تحریک حماس نے مشروط آمادگی کا اعلان کیا ہے۔ جنگ بندی اور قیدیوں کا تبادلہ، غزہ سے اسرائیلی افواج کا انخلاء، غزہ کی تعمیر نو، عبوری حکومت کی تشکیل اور حماس کو غیر مسلح کرنا ٹرمپ کے غزہ سے متعلق منصوبے کی اہم شقوں میں شامل ہے۔ حماس کے اس منصوبے پر مشروط آمادگی کے بعد اسرائیلی کابینہ کے اندر اختلافات شروع ہوگئے ہیں۔

اگرچہ نیتن یاہو پہلے ہی ٹرمپ کے منصوبے سے اتفاق کرچکا ہے، لیکن اس معاملے میں اسرائیلی کابینہ کے اندر شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ یہ اختلاف کئی محوروں کے گرد گھومتے ہیں۔ پہلا محور یہ ہے کہ کابینہ کے کچھ ارکان، بشمول بین گویر اور سموٹریج یعنی داخلی سلامتی اور مالیات کے وزراء، اس منصوبے کے شدید مخالف ہیں اور ان کا خیال ہے کہ غزہ میں جنگ جاری رہنی چاہیئے۔ دوسرے لفظوں میں یہ لوگ اس غلط تجویز پر اصرار کرتے رہتے ہیں کہ صہیونی قیدیوں کو جنگ کے ذریعے آزاد کرنا ممکن ہے اور حماس کے ساتھ سیاسی معاہدے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ وہ اس معاہدے کو حماس کے لیے سیاسی رعایت سمجھتے ہیں۔

نیتن یاہو کی کابینہ میں اختلاف کا ایک اور محور اسرائیل کے غزہ پٹی سے انخلاء سے متعلق ہے۔ غزہ سے اسرائیل کے فوجی انخلاء کو نیتن یاہو کی کابینہ کے دائیں بازو کے وزراء کی مزاحمت کا سامنا ہے، جو حماس کے مکمل خاتمے تک جنگ جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ دوسری جانب نیتن یاہو کی کابینہ کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ غزہ سے انخلاء اس پٹی پر مکمل قبضے کے منصوبے سے متصادم ہے۔ اس لیے وہ نہ صرف غزہ سے انخلاء بلکہ اس پٹی میں عبوری حکومت کی تشکیل کے منصوبے کی بھی مخالفت کرتے ہیں، کیونکہ حماس نے ٹرمپ کے منصوبے کے جواب میں غزہ میں ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ حماس نے اگرچہ غزہ کی انتظامیہ پر بین الاقوامی نگرانی کی واضح طور پر مخالفت نہیں کی ہے، لیکن اس نے ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

نیتن یاہو کی کابینہ میں یہ اختلافات ان کے عہدیداروں کے بیانات میں بھی سامنے آئے ہیں۔ ایک بیان میں اسرائیلی کابینہ کے ترجمان نے کہا کہ غزہ میں جنگ بندی نام کی کوئی چیز نہیں ہے بلکہ صرف حملوں اور بم دھماکوں کو عارضی طور پر روک دیا گیا ہے۔ دریں اثناء، Ma'ariv پول سے پتہ چلتا ہے کہ 53 فیصد اسرائیلی اور 41 فیصد ووٹرز حکمران اتحاد کی حمایت کرتے ہیں، لیکن دائیں بازو کے وزراء نے حکومت کو گرانے کی دھمکی دی ہے۔ قومی سلامتی کے وزیر ایتمار بین گویر کا کہنا ہے کہ ہم کسی ایسی قومی شکست کا حصہ نہیں بنیں گے، جو ا ابدی رسوائی ہو اور اگلے قتل عام کے لیے ٹائم بم بن جائے۔

اسرائیلی کابینہ میں ان اختلافات کو دیکھتے ہوئے یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ ٹرمپ یا نیتن یاہو یا دونوں حماس کے ردعمل کا فائدہ اٹھا کر تمام اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اسی لیے حماس کی بالواسطہ مخالفت کے باوجود امریکی صدر نے فی الوقت اپنے دیگر مطالبات کے حوالے سے  تحمل کا مظاہرہ کیا اور ہر طرح کے ردعمل کو قبول کیا۔ تاہم غزہ پر حملے روکنے کا دعویٰ کرنے والی صیہونی حکومت نے گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید 65 فلسطینیوں کو شہید کیا ہے، جس سے غزہ میں جنگ بندی کے قیام کے ٹرمپ کے منصوبے کی کامیابی غیر واضح نظر آرہی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • فلسطین کا امن منصوبہ: حقیقت یا فریب؟
  • پوپ لیو نے ٹرمپ منصوبہ غزہ امن کے لیے بڑی پیش رفت قرار دیدیا
  • ٹرمپ منصوبہ اور اسرائیلی کابینہ میں اختلافات
  • استاد قوم کے مستقبل کیلیے ریڑھ کی ہڈی کی مثل ہے، ناصر حسین
  • ٹرمپ کا امن منصوبہ لمحہ فکریہ!
  • ٹرمپ کا امن منصوبہ نیتن یاہو کو ریسکیو کرنا ہے، لیاقت بلوچ
  • ٹرمپ کا امن منصوبہ نیتن یاہو کو ریسکیو کرنا ہے: لیاقت بلوچ
  • ٹرمپ امن فارمولا اور دو ریاستی منصوبہ کسی طور قبول نہیں، علامہ علی اکبر کاظمی
  • حماس کا مثبت ردعمل: ٹرمپ کا اسرائیل سے غزہ پر بمباری روکنے کا مطالبہ