انڈونیشیا میں الحاد کے خلاف کریک ڈاؤن؟
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 07 فروری 2025ء) ملحدین اور کسی مذہب کو نہ ماننے والوں کے حقوق کے تحفظ کی ایک غیر معمولی قانونی کوشش کو گزشتہ ماہ انڈونیشیا کی آئینی عدالت نے ناکام بنا دیا تھا۔ اس نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ ایک شہری، حتیٰ کہ اقلیتوں کو بھی، سرکاری دستاویزات پر اپنے عقیدے کی وضاحت کرنی چاہیے، اور یہ کہ شادی مذہب کے مطابق ہونی چاہیے۔
انڈونیشیا، دنیا کا سب سے بڑا مسلم اکثریتی ملک ہے اور سرکاری طور پر چھ مذاہب کو تسلیم کرتا ہے۔ یہ ہیں اسلام، پروٹسٹنٹ ازم، کیتھولک ازم، بدھ مت، ہندو مت، اور کنفیوشس ازم۔ اگرچہ اقلیتی عقائد کے ماننے والوں کو امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، لیکن قانون کے تحت ملحد اور کسی مذہب کو نہیں ماننے والوں کو تسلیم بھی نہیں کیا جاتا۔
(جاری ہے)
انڈونیشیا نے غیر ازدواجی جنسی تعلق قانوناً جرم قرار دے دیا
سال دو ہزار بارہ میں، ایک سرکاری ملازم الیگزینڈر عان کو فیس بک پر ملحدانہ مواد شیئر کرنے پر توہین مذہب کے جرم میں 30 ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔
انڈونیشیا کا ضابطہ فوجداری توہین مذہب اور الحاد کے پھیلاؤ کو قابل سزا قرار دیتا ہے، حالانکہ تکنیکی طور پر، یہ خود مذہبی عقیدے کی عدم موجودگی کو جرم قرار نہیں دیتا۔
تاہم، کسی مذہب کو نہ ماننے والوں کا استدلال ہے کہ موجودہ قوانین کو مرضی کے مطابق نافذ کیا جاتا ہے تاکہ انہیں قانون کے تحت مساوی تحفظ حاصل نہ ہو سکے۔
انڈونیشی صدارتی انتخابات ’اسلام کو غیر معمولی اہمیت‘
جنوری 2024 میں، آئینی عدالت نے ان اقلیتی مذہبی گروہوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو، جو سرکاری طور پر تسلیم شدہ چھ میں سے نہیں ہیں، کو اجازت دی کہ اپنے شناختی کارڈ پر "غیر متعین عقیدہ رکھنے والوں" کے طور پر اندراج کرائیں۔
سماجی کارکنوں نے امید ظاہر کی تھی کہ اس سے "کوئی مذہب نہیں" کے آپشن کو شامل کرنے کی راہ ہموار ہو گی۔
لیکن، یہ امید اس وقت ختم ہو گئی جب دو اگناسٹک (لاادری) کارکنوں، ریمنڈ کامل اور تیگوہ سوگیہارتو کی طرف سے دائر کردہ وہ درخواست اکتوبر میں آئینی عدالت میں مسترد ہو گئی جس میں انہوں نے اپیل کی تھی کہ کسی مذہب کو نہیں ماننے والوں کو سرکاری دستاویزات پر مذہب کو خالی چھوڑنے کا حق دیا جائے۔
عدالت نے لامذہب کی درخواست مستر کردیآئینی عدالت کے جسٹس عارف ہدایت نے گزشتہ ماہ درخواست کے خلاف فیصلہ سنایا، جس میں کہا گیا کہ مذہبی عقیدہ "پینکاسیلا" کے تحت "ضرورت" ہے اور آئین کے ذریعہ لازمی ہے۔
پینکاسیلا انڈونیشیا کا بنیادی نظریہ ہے، جو ایک واحد، اعلیٰ ترین ذات میں یقین رکھتا ہے۔ جسٹس ہدایت، جو ایک سابق چیف جسٹس ہیں، نے دلیل دی کہ مذہبی اعتراف کی ضرورت ایک "متناسب پابندی" ہے اور یہ من مانی یا جابرانہ نہیں ہے۔
آئینی عدالت نے کامل اور سوگیہارتو کی طرف سے دائر کی گئی ایک اور درخواست کو بھی مسترد کر دیا جس میں دلیل دی گئی کہ شادی کے قانون کی ایک شق، جس میں یہ کہا گیا ہے کہ شادی صرف اسی صورت میں جائز ہے جب متعلقہ مذہب اور عقیدے کے قوانین کے مطابق کی جائے، تفریق پر مبنی ہے۔
مقامی میڈیا کے مطابق جسٹس ہدایت نے اپنے فیصلے میں کہا، "انڈونیشیا کے شہریوں کے لیے کسی مذہب یا عقیدے پر عمل نہ کرنے کا انتخاب کرنے کے لیے دفعات کی عدم موجودگی، انفرادی مذہب یا عقیدے کے مطابق شادیوں کی توثیق کرنے کے حوالے سے "امتیازی سلوک نہیں کرتا"۔
بین الاقوامی آئینی معاملات کے بارے میں برلن میں واقع ہرٹی اسکول کے اسکالر ایگنیسیئس نگراہا نے لکھا، "عدالت نے بنیادی طور پر فیصلہ دیا ہے کہ غیر مذہبی ہونے کے لیے آزادی کی 'کوئی گنجائش' نہیں ہے۔"
لامذہب افراد کے حقوق بالعموم عدم توجہی کا شکارکسی مذہب کو نہ ماننے والوں کے خلاف آئینی عدالت کے فیصلے پر بین الاقوامی توجہ بہت کم مبذول ہوئی ہے۔
جنوب مشرقی ایشیا میں اقلیتی عقائد کے حقوق حالیہ برسوں میں ایک گرما گرم تنازعہ بن گئے ہیں، خاص طور پر جب سے میانمار کی فوج نے 2016 میں مسلم اقلیتی روہنگیا آبادی کی نسل کشی کی کوشش شروع کی۔
امریکی حکومت اور جرمن پارلیمنٹ نے خاص طور پر کمیونسٹ ویتنام اور لاؤس کی حکومتوں کو مذہبی اقلیتوں پر جبر کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
لیکن ایگناسٹکس اور ملحدین کا کہنا ہے کہ انہیں بہت کم بین الاقوامی ہمدردی ملتی ہے۔
پوپ فرانسس نے گزشتہ ستمبر میں انڈونیشیا کے اپنے دورے کے دوران لامذہب افراد کے لیے آواز نہیں اٹھائی تھی۔
ڈی ڈبلیو سے بات کرنے والے یورپی یونین (ای یو) کے ایک ترجمان نے عدالتی فیصلے پر کوئی خاص تبصرہ نہیں کیا۔
دریں اثنا ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) کے ایک محقق آندریاس ہارسونو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ آئینی عدالت کے فیصلے سے حیران نہیں ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ انڈونیشیا میں 1998 میں صدر سہارتو کی آمرانہ حکومت کے خاتمے کے بعد سے اسلامی بنیاد پرستی میں اضافہ دیکھا گیا ہے، اور "عدالت کے نو جج بھی اسلامی بنیاد پرستی سے محفوظ نہیں ہیں۔"
آندریاس ہارسونو کا تاہم خیال ہے کہ مقصد اب بھی قابل حصول ہے۔
ج ا ⁄ ص ز (ڈیوڈ ہٹ)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کسی مذہب کو نہ آئینی عدالت ماننے والوں کے مطابق عدالت کے عدالت نے کے لیے
پڑھیں:
کربلا اور کربلا والے!
اسلام ٹائمز: کربلا کے راستے کے آج کے راہیوں میں اہل ایران، یمنی مجاہدین، لبنانی مزاحمت، عراقی عشاق، فرزندان حسینی پاکستان نے کربلا کے راستے کی رہنمائی کا فریضہ ادا کرتے امام خامنہ ای کی بابصیرت، الہیٰ و روحانی شخصیت کیساتھ اپنے عہد کو نبھانے اور ہر قسم کی قربانی پیش کرنے کیلئے آمادگی و تیاری کر رکھی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ تعداد میں قلیل ہونگے، طاقت و وسائل میں کمزور ہونگے، مگر انکے ارادے چٹانوں کو ہلا دینے والے ہیں، انکے شعار و نعرے بلندیوں کو چیر دینے والے ہیں، انکا اخلاص و تڑپ متاثر کن ہے۔ انکا جذبہ کامیابی کی کنجی ہے، لہذا کربلا و کربلا والوں سے محبت کا تقاضا ہے کہ اس کاروان میں شامل ہوا جائے، حقیقی کربلائی کہلانے کیلئے آج کی دنیا میں یہی راستہ ہے، ہم اسی راستے کے راہی ہیں، ہم امام خامنہ ای کے سپاہی ہیں۔ تحریر: ارشاد حسین ناصر
کربلا ایک ایسا نام ہے، جس پر ہم سب کچھ قربان کرنے کو تیار رہتے ہیں، حتیٰ ٰسب سے قیمتی چیز جان ہوتی ہے، ہم اس کو بھی کربلا پر قربان کرنے سے نہیں گھبراتے۔ کربلا اور کربلا والوں نے ہمیں درس ہی ایسے دیا ہے کہ اس کے بعد کسی اور چیز میں بقاء ہی نہیں نظر آتی۔ کربلا والوں نے میدان کربلا میں تپتے ریگزار پر تین دن کی بھوک پیاس کے ہوتے ہوئے قلت تعداد میں ہو کر اپنی سب سے قیمتی متاع یعنی جانوں کو قربان کر دیا تو ہم کون ہوتے ہیں، اپنی جانوں کی پرواہ کرنے والے۔ میدان کربلا میں فقط چند گھنٹوں کی لڑائی نے تاریخ کا ایسا دھارا بدلا کہ رہتی دنیا تک دنیا کے باضمیر، باغیرت، باحمیت، شجاعت و بہادری کے دلدادہ، عز و شرف کے متوالے، غیرت و حمیت کے پروانے، دین و ایمان کے سرباز، اسلام کو آفاقی و الہیٰ دین تسلیم کرکے زندگی کرنے والے انسانوں کو یہ رہنمائی و راستہ دکھاتی رہے گی۔ کربلا زندہ ضمیروں پر دستک دیتی رہے گی، کربلا طاقتوروں کو ان کی طاقت و قوت کے زور پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف للکارتی رہے گی۔
جو جو بھی کربلا سے خود کو وابستہ کرے گا، اس کو نجات کا راستہ مل جائے گا، ہدایت کا راستہ مل جائے گا، بقاء کا راستہ مل جائے گا۔ دنیا میں اربوں انسان موجود ہیں اور ارب ہا انسان فقط چودہ صدیوں میں اپنی زندگی گزار کر جا چکے ہیں، آج ان کا نام و نشان ہی باقی نہیں ہے، کوئی کسی کو جانتا بھی نہیں ہے، مگر میدان کربلا میں فقط بہتر شہداء کے ایثار و قربانی کے کردار نے ایسی ابدیت و ہمیشگی پائی ہے کہ ان کا ذکر مٹانے سے نہیں مٹتا۔ ہر سال ان کے ایام ہائے شہادت یعنی عاشورا میں دنیا کے ہر ملک و ملت میں ان کا ذکر ناصرف بلند ہوتا ہے بلکہ ہر سال کی بہ نسبت زیادہ قوت و طاقت اور زور و شور سے کیا جاتا ہے اور ایسا نہیں کہ یہ سب مفت میں ہو جاتا ہے۔ اس ذکر کو بلند رکھنے کیلئے جہاں مال کی بہت بڑی قربانی دی جاتی ہے اور وسیع پیمانے پر خرچ اخراجات کیے جاتے ہیں، وہیں اس ذکر کو بلند کرنے میں دیگر بہت سی رکاوٹوں کیساتھ بہت سے ممالک بشمول پاکستان میں جانوں کی قربانی بھی قبول کی جاتی رہی ہے اور ایسے خطرات و اندشوں کے ہوتے ہوئے یہ ذکر ہمیشہ بلند کیا جاتا ہے۔
گویا ایک عظیم قربانی کی یاد مناتے ہوئے بھی قربانیاں پیش کی جاتی ہیں۔ یہ کسی دنبے یا لیلے کی قربانی نہیں بلکہ جیسے میدان کربلا میں اصل قربانیاں پیش کی گئیں تھیں، ایسے ہی ان کی یاد میں بھی انسانوں کی جانوں کی قربانی سے دریغ نہیں کیا جاتا۔ فی زمانہ اگر ہم دیکھیں تو دنیا میں اس وقت جمہوری اسلامی ایران واحد مملکت اسلامی ہے، جس میں مکمل طور پر اسوہ کربلا کے پیروکاران طاقت و اقتدار میں ہیں۔ اسی وجہ سے جمہوری اسلامی ایران کے خلاف دنیا بھر کے یزیدی اور ان کے ہمنوا ایک ساتھ ہیں۔ گذشتہ سینتالیس برس سے انقلاب اسلامی ایران یزیدان عصر نو کا مقابلہ کر رہا ہے۔ اس کو جھکانے والے جھک جاتے ہیں، مگر وہ نہیں جھکتا۔ اس کو مٹانے والے مٹ جاتے ہیں، مگر وہ نہیں مٹتا۔ اس کو نابود کرنے کی خواہش رکھنے والے نابود ہو جاتے ہیں، مگر وہ نابود نہیں ہوتا۔ یہ فقط اس راستے کی برکات ہیں، جو کربلا سے اور کربلا والوں سے متصل ہونے والوں کو ملتی ہیں۔
اس لیے کہ اٹھاون اسلامی ممالک نے اپنا سر دشمنان دین و ایمان، یزیدان عصر نو، امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور اسرائیل کے سامنے جھکا رکھا ہے، جبکہ جمہوری اسلامی ایران نے کبھی ان نام نہاد طاقتوروں کے سامنے سر نہیں جھکایا اور ان کو یہ راہ کربلا والوں نے سکھائی و بتلائی ہے۔ بقول علامہ اقبال:
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے آدمی کو دیتا ہے نجات
اہل ایران نے فقط اس کائنات کے مالک اصلی و خالق حقیقی کے سامنے سر جھکایا ہوا ہے۔ اس لیے انہیں کسی اور کے سامنے سر نہیں جھکانا پڑتا، جبکہ دیگر مسلمان ممالک اور ان کی قیادتوں نے چھوٹے بڑے یزیدوں کے سامنے سر جھکانے میں اپنی بقا و سلامتی سمجھ رکھی ہے۔ لہذا وہ جھکتے ہیں اور جھکتے ہی چلے جاتے ہیں۔کربلا والوں کی منزل راہ شہادت سے ہو کر گزرتی ہے۔ لہذا اس راہ کے راہی کبھی بھی اس سے کتراتے نہیں بلکہ اپنی منزل کے حصول میں اس راہ پرخار سے گزرنے ہوئے ان کے اندر بے تابی اور اشتیاق زور و شور پر ہوتا ہے۔
ان کا اطمینان ہی اس وقت ہوتا ہے، جب انہیں اذن شہادت ملتا ہے۔ عاشور کے دن بھی تو ایسا ہی تھا، ہر ایک بے قرار تھا کہ جان نثار کرے، ہر ایک اذن شہادت مانگتا تھا، ہر ایک ہزار ہزار بار قتل ہوکر بار بار فدا ہونا چاہتا تھا۔ دراصل یہ عشق کی کہانی ہے، یہ عشق اور جنون کے معاملے ہیں، جو عام آدمی کی پہنچ سے یقیناً دور ہیں۔ اس کی گتھیاں ہر ایک سلجھانے کی طاقت و سمجھ بوجھ نہیں رکھتا، بلکہ عاشقوں کے قبیلوں میں شامل ہی اس گتھی کو سلجھا سکتے ہیں، سمجھ سکتے ہیں اور اس موت و شہادت میں بقا کو پا سکتے ہیں۔ بقول حسرت موہانی:
تم پر مٹے تو زندہء جاوید ہوگئے
ہم کو بقا نصیب ہوئی ہے فنا کے بعد
اور محمد علی جوہر بھی کہتے ہیں۔۔
دور حیات آئے گا قاتل قضا کے بعد
ہے ابتدا ہماری، یہی انتہا کے بعد
کربلا کے راستے کے آج کے راہیوں میں اہل ایران، یمنی مجاہدین، لبنانی مزاحمت، عراقی عشاق، فرزندان حسینی پاکستان نے کربلا کے راستے کی رہنمائی کا فریضہ ادا کرتے امام خامنہ ای کی بابصیرت، الہیٰ و روحانی شخصیت کیساتھ اپنے عہد کو نبھانے اور ہر قسم کی قربانی پیش کرنے کیلئے آمادگی و تیاری کر رکھی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ تعداد میں قلیل ہونگے، طاقت و وسائل میں کمزور ہونگے، مگر ان کے ارادے چٹانوں کو ہلا دینے والے ہیں، ان کے شعار و نعرے بلندیوں کو چیر دینے والے ہیں، ان کا اخلاص و تڑپ متاثر کن ہے۔ ان کا جذبہ کامیابی کی کنجی ہے، لہذا کربلا و کربلا والوں سے محبت کا تقاضا ہے کہ اس کاروان میں شامل ہوا جائے، حقیقی کربلائی کہلانے کیلئے آج کی دنیا میں یہی راستہ ہے، ہم اسی راستے کے راہی ہیں، ہم امام خامنہ ای کے سپاہی ہیں۔