بھارت کی پانی کی دھمکی کو سیاسی بیان کے طور پر نہیں لے سکتے، شبلی فراز
اشاعت کی تاریخ: 28th, April 2025 GMT
پارلیمان کے ایوان بالا (سینیٹ) میں اپوزیشن لیڈر سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ بھارت کی پانی کی دھمکی کو سیاسی بیان کے طور پر نہیں لے سکتے۔
سینیٹ اجلاس سے خطاب میں شبلی فراز نے کہا کہ پاکستان اندرونی اور بیرونی مسائل کا شکار ہے، وطن عزیز کے دفاع کےلیے ہم ایک ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بھارت نے پاکستان کو توڑنے کی ہر کوشش کی ہے، نئی دہلی تو اسلام آباد کے خلاف بیانیہ بناتا رہتا ہے۔
اپوزیشن لیڈر نے مزید کہا کہ بھارت نے پارلیمنٹ سے بل منظور کروا کر کشمیر پر قبضہ کرلیا، پانی کی دھمکی کو سیاسی بیان کے طور پر نہیں لے سکتے۔
اُن کا کہنا تھا کہ یہ اقدام جنگ ہے، ہمارا دشمن ہم پر جان لیوا وار کرنا چاہتا ہے، دشمن تاک میں رہتا ہے کہ کس وقت وار کیا جائے، بھارت نے سمجھا کہ پاکستان شدید سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔
شبلی فراز نے یہ بھی کہا کہ پاکستانی قوم کو ایک ہی شخص اکٹھا کرسکتا ہے، اُسے میڈیا پر 5 منٹ کی تقریر کرنے دیں، وہ کہے کہ سب مینار پاکستان آجائیں تو ایک کروڑ لوگ وہاں اکٹھے ہوجائیں، ہم واہگہ بارڈر کی طرف مارچ کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے بھارت کو ہومیوپیتھک پیغام دیے ہیں، نئی دہلی کو سخت پیغام دینا چاہیے جو صرف ایک شخص دے سکتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ سینیٹ کے الیکشن کرائے جائیں، ہم قرارداد جمع کرارہے ہیں کہ ثانیہ نشتر کی سیٹ پر الیکشن کرائیں۔
شبلی فراز نے کہا کہ سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے، مجھ پر کیسز ہیں، ہمارے 10 ہزار ورکرز پر مقدمات ہیں، اس پر ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے تبصرہ کیا کہ شکر کریں اتنے کیسز پر آپ گرفتار نہیں ہیں۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: شبلی فراز نے نے کہا کہ
پڑھیں:
بنگلہ دیش میں انصاف کی فتح‘ بھارت کے علاقائی تسلط کی ناکامی
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) بنگلہ دیش میں عوامی انصاف کی فتح: بھارت کے علاقائی تسلط کی ناکامی ہے۔ بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو عدالت کی طرف سے دی گئی سزائے موت کا فیصلہ نہ صرف بنگلہ دیش میں قانون کی بالادستی کی بحالی کا ایک تاریخی لمحہ ہے بلکہ یہ خطے میں بھارت کے سیاسی اثر و رسوخ کی ناکامی کا بھی واضح ثبوت ہے۔ شیخ حسینہ کے 15 سالہ دور حکومت کو بنگلہ دیش میں دہشت زدہ دور کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ جس میں بدعنوانی، ریاستی تشدد اور جبری گمشدگیاں عروج پر تھیں۔ سزا اس بات کا اشارہ ہے کہ بنگلہ دیش میں بالآخر انتقامی سیاست کا دور ختم ہوا، اور آئندہ تمام سیاسی قیدیوں کو آزاد اور غیر جانبدارانہ انصاف ملنے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے کیونکہ ان کے دور حکومت کے دوران سیاسی مخالفین، خصوصاً جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنماؤں کو 1971ء کے مقدمات کے نام پر سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا اور سزائے موت جیسی سخت ترین سزائیں دی گئیں۔ ان مقدمات کو بین الاقوامی سطح پر سیاسی انتقام اور غیر منصفانہ ٹرائل قرار دیا گیا تھا۔ اس فیصلے کے بعد بھارتی حکومت اور ان کے حامی میڈیا کی جانب سے جس غم و غصے کا اظہارر کیا جا رہا ہے، وہ یہ ثابت کرتا ہے کہ شیخ حسینہ درحقیقت بھارت کی علاقائی حکمت عملی کا سب سے اہم ستون تھیں۔ وہ دہلی کے مفادات کو ترجیح دیتی تھیں، جس کی وجہ سے بھارت کو اپنی شمال مشرقی ریاستوں کی سکیورٹی اور ٹرانزٹ کے حوالے سے مکمل تحفظ حاصل تھا۔ ان کے جانے سے، بھارت نے اپنا بنگلہ دیش میں سب سے بڑا سیاسی مہرہ کھو دیا ہے، اور اس کا علاقائی تسلط شدید کمزوری کا شکار ہوا ہے۔ شیخ حسینہ کے قریبی بھارتی جھکاؤ کی وجہ سے پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں تناؤ رہا۔ اب جبکہ ایک بھارت نواز حکومت کا سیاسی انجام ہو چکا ہے، بنگلہ دیش کی نئی قیادت کو یہ موقع ملے گا کہ وہ غیر ملکی دباؤ سے نکل کر پاکستان سمیت تمام ہمسایوں کے ساتھ مساوات اور باہمی احترام کی بنیاد پر متوازن تعلقات قائم کرے۔ یہ پاکستان کے لیے خطے میں امن اور سارک (SAARC) جیسے پلیٹ فارمز کو فعال کرنے کا بہترین سفارتی موقع ہے۔ طلبہ تحریک کی شکل میں شروع ہونے والا احتجاج جو بعد میں ملک گیر بغاوت میں تبدیل ہو گیا شیخ حسینہ واجد کی حکومت کو گرانے کا سبب بنا۔ احتجاج کے دوران شیخ حسینہ کی حکومت نے سخت ترین ریاستی کریک ڈاؤن کیا جس میں پولیس کی جانب سے شہریوں پر براہ راست گولیاں چلائی گئیں۔ اس احتجاج کے دوران تقریباً 1400 افراد ہلاک ہوئے جو 1971 کی آزادی کی جنگ کے بعد بنگلہ دیش میں سیاسی تشدد کی بدترین مثال ہے۔