اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 19 مئی ۔2025 ) بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نئی شرائط عائد کرنے سے عام شہریوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگا سٹاف لیول معاہدے کی جائزہ رپورٹ میں پروگرام میں پرانی شرائط اور ان پر عمل درآمد پر جائزے کے ساتھ معیشت اور گورننس کے شعبوں میں 11 نئی شرائط عائد کرتے ہوئے ان کے لیے ٹائم فریم دیا گیا ہے آئی ایم ایف نے ان 11 شرائط کو نئے مالی سال کے بجٹ میں شامل کرتے ہوئے پارلیمان سے منظور کروانے کا مطالبہ ہے.

(جاری ہے)

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق آئی ایم ایف شرائط کے مطابق بجٹ کی پارلیمانی منظوری آئی ایم ایف سے طے شدہ اہداف جون 2025 کے آخر تک حاصل کرنا لازم قرار دیا گیا ہے شرائط میں زرعی آمدن پر نیا ٹیکس لاگو کرنے کے لیے ایک جامع پلان بنانے کا مطالبہ کیا گیا ہے جس میں ریٹرن فائلنگ، ٹیکس دہندہ کی شناخت، رجسٹریشن، آگاہی مہم اور تعمیل میں بہتری لانے کے منصوبے شامل ہیں اس کی آخری تاریخ 30 جون 2025 مقرر کی گئی ہے تیسری شرط کے مطابق حکومت کو ایک گورننس ایکشن پلان شائع کرنا ہو گا تاکہ اہم حکومتی کمزوریوں کی اصلاح کی جا سکے چوتھی شرط حکومتی کفالت پروگرام جیسے” بینظیر انکم سپورٹ پروگرام“ کے تحت دی جانے والی نقد امداد میں سالانہ مہنگائی کے تناسب سے اضافہ ہے تاکہ خریداری کی حقیقی قوت برقرار رہے.

آئی ایم ایف کی پانچویں شرط میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ حکومت کو 2027 کے بعد کے مالیاتی شعبے کی حکمت عملی پر مبنی ایک منصوبہ شائع کرنا ہو گا جس میں 2028 کے بعد کا ادارہ جاتی اور ضابطہ جاتی فریم ورک شامل ہو توانائی کے شعبے میں چار نئی شرائط عائد کی گئی ہیں جن میں حکومت کو یکم جولائی تک بجلی اور گیس کے نرخوں کی سالانہ بنیاد پر نظرثانی کا نوٹیفکیشن جاری کرنا ہو گا تاکہ نرخ لاگت کی بنیاد پر برقرار رہیں دوسری شرط میں گیس کے نرخوں کی ششماہی بنیاد پر ایڈجسٹمنٹ کا نوٹیفکیشن جاری کرنا ہو گا تیسری شرط میں پارلیمان کو رواں ماہ کے آخر تک کیپٹو پاور لیوی آرڈیننس کو مستقل قانون بنانے کے لیے قانون سازی کرنی ہو گی چوتھی شرط میں ایک اور قانون سازی کے تحت بجلی کے بلوں میں قرض ادائیگی سرچارج پر زیادہ سے زیادہ کی حد کو ختم کرنے کا کہا گیا ہے جس کی لیے جون کے آخر تک کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے.

تجارت‘ سرمایہ کاری اور ڈی ریگولیشن کے شعبے میں آئی ایم ایف کی جانب سے دو مطالبات شامل کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا ہے کہ پاکستان سپیشل ٹیکنالوجی زونز اور دیگر صنعتی زونز میں دی گئی تمام مراعات کو 2035 تک مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے ایک منصوبہ تیار کرے گا، جو سال کے آخر تک مکمل کرنا لازم ہے دوسری شرط میں کہا گیا ہے کہ پاکستان پارلیمان میں قانون سازی کے ذریعے استعمال شدہ گاڑیوں کی کمرشل امپورٹ پر پابندی ختم کرے جو ابتدائی طور پر پانچ سال سے کم استعمال کی گئی گاڑیوں کی درآمد پر پابندیوں کے خاتمے کے لیے ضروری ہے یہ قانون سازی جولائی کے آخر تک کرنا ہو گی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان شرائط کا بجٹ کی تیاری کے دوران سامنے آنے کا مطلب ہے کہ جو نیا بجٹ ہو وہ اس طرح بنے کہ اس میں سٹاف لیول معاہدے میں طے پانے والے تمام اہداف کو حاصل کیا جا سکے شرائط کے تحت پرائمری بجٹ یعنی قرضوں اور ان پر سود کی ادائیگی کے بغیر اسے سرپلس کرنا ہو گا جس کے لیے ریونیو میں اضافہ اور اخراجات میں کمی کرنا ہو گی.

انہوں نے کہا کہ فی الحال دفاعی بجٹ تو کم نہیں ہو گا تاہم ترقیاتی بجٹ پر کٹ لگ سکتا ہے اسی طرح حکومت بظاہر بجٹ میں بڑے بڑے منصوبوں کا اعلان تو کر سکتی ہے تاہم ان حالات میں لگتا ہے کہ انہیںشروع یا مکمل نہیں کیا جا سکے گا آئی ایم ایف کی جانب سے بجلی و گیس کے شعبے میں جن شرائط کا تذکرہ کیا گیا ہے ان میں اس شعبے میں ٹیرف پر سالانہ بنیادوں پر نظر ثانی شامل ہے جبکہ اسی طرح بجلی کے بل میں قرض سرچارج کی حد کو کم کرنے کا کہا گیا ہے جو اس وقت 3.21 روپے فی یونٹ ہے اور اس شرط کو جون کے آخر تک مکمل کرنا ہو گا بجلی و گیس کے شعبے میں ان شرائط کا مقصد ان کی پیداوار پر اٹھنے والی لاگت کو پورا کرنے کا کہا گیا ہے پاکستان میں بجلی و گیس کی لاگت پوری طرح ریکور نہ ہونے کی وجہ سے اس شعبے میں گردشی قرضہ کئی سو ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں ادائیگی نہ کرنے والوں میں زیادہ ترسرکاری محکمے اور ادارے شامل ہیںماہرین کا کہنا ہے کہ گیس کی قیمت بڑھنے کا امکان ہے جس سے صارفین کو زیادہ بل ادا کرنے پڑ سکتے ہیں ان کے مطابق قرض سر چارج پر عائد حد کے خاتمے سے بجلی کی قیمت پر بھی کچھ اثر ہو سکتا ہے.

ماہرین کے مطابق سرچارج پر حد کے خاتمے کی شرط کا مقصد یہ ہے کہ گردشی قرضے کے خاتمے کے لیے بینکوں سے جو پیسہ لیا گیا ہے وہ اگر شرح سود بڑھتی ہے تو سرچارج میں اضافہ کر کے اس کی وصولی کی جائے تاکہ بجلی کے شعبے میں گردشی قرضہ زیادہ نہ ہو جس کا بوجھ عام شہریوں پر پڑے گاآئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو کہا گیا ہے کہ وہ پارلیمان میں قانون سازی کے ذریعے استعمال شدہ گاڑیوں کی کمرشل امپورٹ پر پابندی ختم کرے جو ابتدائی طور پر پانچ سال سے کم استعمال ہونے والی گاڑیوں کی درآمد پر پابندیوں کے خاتمے کے لیے ضروری ہے یہ قانون سازی جولائی کے آخر تک کرنا ہو گی آئی ایم ایف کے مطابق اس کا مقصد آزادانہ تجارت کو فروغ دینا ہے.

ماہرین کا کہنا ہے کہ پانچ سال سے کم استعمال شدہ گاڑیو ں پر ٹیکس کے خاتمے سے تین سال پرانی گاڑی اگر تین ہزار ڈالر میں امپورٹ ہو رہی ہے تو پانچ سال پرانی گاڑی 1400 سے 1500 ڈالر میں امپورٹ ہو گی جس سے عام افراد فائدہ اٹھا سکتے ہیں انہوں نے کہا کہ اس سے لوکل آٹو پارٹس انڈسٹری بری طرح متاثر ہو گی کیونکہ گاڑیاں بنانے والے ادارے تو باہر سے پوری گاڑی امپورٹ کر کے بھی بیچ سکتے ہیں تاہم لوکل آٹو پارٹس انڈسٹری کی پیداوار اس سے منفی طور پر متاثر ہو گی عام طور پر ان جدید گاڑیوں کے پرزوں کی مقامی پیدوار میں کئی سال لگ جاتے ہیںاور اس دوران اضافی پرزے بیرون ممالک سے منگوانا پڑتے ہیں اس کے علاوہ اس شرط سے مقامی گاڑیاں تیار کرنے والی صنعت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے.

آئی ایم ایف کی زرعی ٹیکس کے نفاذکی شرط پرپاکستان کی چاروں صوبائی اسمبلیاں پہلے ہی قانون سازی کر چکی ہیں مگر آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ زرعی ٹیکس کی وصولی کے لیے اس مالی سال کے آخر تک طریقہ کار وضع کیا جائے ماہر معاشیات وٹیکس امور ڈاکٹر اکرام الحق نے بتایا کہ قانون سازی تو ہو گئی ہے لیکن صوبے اس سلسلے میں ابھی بھی سست روی کا شکار ہیں پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے جہاں سب سے زیادہ زرعی ٹیکس اکٹھا ہونا ہے تاہم ابھی تک اس کے ریٹ بھی نہیں نکالے گئے کہ ٹیکس کا ریٹ کیا ہو گا انہوں نے کہا کہ اسی طرح زرعی ٹیکس کے ریٹرن فائل کرنے کا طریقہ کار بھی انگریزی میں ہے جو ایک عام کسان اور زمیندار کے لیے پریشان کن ہے آئی ایم ایف کہتا ہے کہ تیس جون تک یہ طریقہ کار وضع کریں تاہم ابھی تک کوئی خاص پیشرفت نہیں ہو سکی.

آئی ایم ایف کی 11 نئی شرائط میں سول سرونٹس کے اثاثوں کی شرط تو شامل نہیں ہے تاہم جن تجاویز پر زور دیا گیا ان میں سے ایک شرط سول سرونٹس کے اثاثوں کو پبلک کرنے سے متعلق ہے عالمی ادارے نے پہلے اس کے لیے فروری 2025 کو یہ شرط مقرر کی تھی تاہم اس پر عملدرآمد نہ ہونے کہ وجہ سے عالمی ادارے نے کہا ہے کہ اب اسے جون کے مہینے کے اختتام پر پورا کیا جائے اس شرط کے تحت سول وملٹری سروس کے اعلی افسران کو اثاثوں کو پبلک کرنے کا پابند بنایا گیا تھا تاہم حالیہ پیش رفت میں ابتدائی طور پر سول افسران کے اثاثوں کو ظاہر کرنے کی تجویز دی گئی ہے.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے آئی ایم ایف کی کے شعبے میں کرنا ہو گا کیا گیا ہے کہا گیا ہے زرعی ٹیکس گاڑیوں کی میں اضافہ گیا ہے کہ کے آخر تک کے مطابق پانچ سال کے خاتمے کرنے کا کے تحت نے کہا گئی ہے کے لیے گیس کے

پڑھیں:

نیا موبائل لیتے وقت لوگ 5 بڑی غلطیاں کر جاتے ہیں، ماہرین نے بتادیا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ہر سال مختلف کمپنیوں کی جانب سے درجنوں نئے اینڈرائیڈ فونز متعارف کرائے جاتے ہیں جن میں قیمت اور خصوصیات کی بنیاد پر نمایاں فرق موجود ہوتا ہے، تاہم ایک عام صارف جب نیا فون خریدنے جاتا ہے تو اکثر چند بنیادی غلطیاں کر بیٹھتا ہے جو آگے چل کر پریشانی کا باعث بنتی ہیں۔

ماہرین کے مطابق صارفین کی بڑی تعداد اپنے فون کی اسٹوریج کی ضرورت کا درست اندازہ نہیں لگاتی۔ آج کل ایپس، تصاویر اور ویڈیوز کے بڑھتے ہوئے استعمال کے باعث زیادہ اسٹوریج کی اہمیت واضح ہے۔ بہت سے افراد کم اسٹوریج والے فون خرید لیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کچھ عرصے بعد بار بار ڈیٹا اور ایپس کو ڈیلیٹ کرنا پڑتا ہے۔

اسی طرح صارفین سافٹ ویئر سپورٹ کے معاملے کو بھی عموماً نظر انداز کر دیتے ہیں۔ متعدد اینڈرائیڈ فونز ایسے ہوتے ہیں جنہیں آپریٹنگ سسٹم کے نئے ورژنز بہت محدود عرصے تک یا پھر بالکل نہیں ملتے۔ اس وجہ سے نہ صرف سیکیورٹی خدشات بڑھ جاتے ہیں بلکہ جدید ایپس کے اہم فیچرز بھی استعمال کرنے میں رکاوٹ آتی ہے۔ مارکیٹ میں موجود چند معروف برانڈز 4 سے 7 سال تک اپ ڈیٹس فراہم کرتی ہیں، جبکہ بعض کمپنیاں صرف ایک سے دو سال تک اپ ڈیٹ دیتی ہیں، اس لیے ماہرین کے مطابق نئے فون کا انتخاب کرنے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کمپنی کی اپ ڈیٹ پالیسی کتنی مضبوط ہے۔

دوسری جانب بہت سے صارفین فون کی خصوصیات کے نمبرز کو دیکھ کر فیصلہ کر لیتے ہیں اور کمپنی کے بتائے گئے اعداد و شمار پر آنکھیں بند کر کے اعتبار کر بیٹھتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق 108 میگا پکسل کیمرا ضروری نہیں کہ 48 میگا پکسل یا 12 میگا پکسل سے بہتر ہو، اسی طرح زیادہ mAh والی بیٹری لازمی نہیں کہ زیادہ دیر تک ہی چلے۔ اصل فرق سافٹ ویئر آپٹمائزیشن اور برانڈ کی انجینئرنگ میں ہوتا ہے، اس لیے بہتر ہے کہ فون خریدنے سے پہلے ریویوز کو دیکھا جائے اور ممکن ہو تو کسی ایسے شخص کی رائے ضرور لی جائے جو وہ فون پہلے سے استعمال کر رہا ہو۔

ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ صارفین اکثر اپنی حقیقی ضرورت اور بجٹ کے بجائے مارکیٹ میں مقبولیت کی بنیاد پر فون منتخب کرتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے کام درمیانی قیمت والے فون بھی بخوبی انجام دے سکتے ہیں، اس لیے پہلے یہ سوچنا ضروری ہے کہ فون کا بنیادی استعمال کیا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق بہت سے افراد جلد بازی کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں اور فون کے لانچ ہوتے ہی فوراً خریداری کر لیتے ہیں، حالانکہ زیادہ تر اینڈرائیڈ فونز چند ہفتوں بعد ہی رعایتی قیمت پر دستیاب ہو جاتے ہیں۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ خریدار کچھ وقت انتظار کرے تاکہ بہتر قیمت میں بہتر فون حاصل کر سکے۔

متعلقہ مضامین

  • این ایف سی فارمولے پر وفاق کے اختیارات میں اضافہ کی تجویز،27ویں آئینی ترمیم کے مجوزہ نکات سب نیوز پر
  • حج 2026، عازمین حج پر اہم شرائط عائد ؛ بڑی پابندیاں لگ گئیں
  • نیا موبائل لیتے وقت لوگ 5 بڑی غلطیاں کر جاتے ہیں، ماہرین نے بتادیا
  • بجلی کی قیمت کم کرنے کے لیے کوشاں، ہمیں مل کر ٹیکس چوری کے خلاف لڑنا ہوگا، احسن اقبال
  • ماہرین نے فضائی آلودگی اور اسموگ میں کمی کا حل بتا دیا
  •  تاجروں کے بعد غیر قانونی جائیداد اور گھروں کی خرید و فروخت کرنے والوں کیخلاف بھی شکنجہ سخت 
  • لاہور،فرخ آباد کے علاقے میں سیوریج کا جمع پانی مکینوں کی آمدورفت میں شدید مشکلات کا باعث بنا ہوا ہے
  • نان فائلرز کو اے ٹی ایم یا بینک سے رقم نکلوانے پر ڈبل ٹیکس دینا ہوگا
  • ای چالان نے مشکلات میں مبتلا کردیا ہے‘سنی تحریک
  • پیپلزپارٹی نے کراچی کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی‘پی ٹی آئی