امریکی عدالت کا بڑا فیصلہ: ٹرمپ کے ٹیرف غیر قانونی قرار، ڈالر کی قدر میں تیزی سے اضافہ
اشاعت کی تاریخ: 29th, May 2025 GMT
واشنگٹن: امریکی عدالت نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے لگائے گئے وسیع تجارتی ٹیرف کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے روک دیا ہے، جس سے ان کی معاشی حکمت عملی کو بڑا دھچکا لگا ہے۔
بی بی سی کے مطابق، امریکی تجارتی عدالت کے تین ججوں نے قرار دیا کہ ٹرمپ نے ہنگامی اختیارات کا غلط استعمال کیا اور تمام ممالک پر ٹیرف لگا کر اپنے آئینی اختیارات سے تجاوز کیا۔
اس فیصلے کے بعد امریکی ڈالر کی قدر میں اضافہ ہوا ہے اور ایشیائی و یورپی مارکیٹس میں تیزی دیکھی گئی ہے۔ جاپان، ہانگ کانگ اور جنوبی کوریا کے انڈیکسز میں 1 سے 2 فیصد تک بہتری آئی۔
ٹرمپ کی انتظامیہ نے فوری طور پر اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر دی ہے اور کہا ہے کہ غیر منتخب ججز کو قومی سلامتی کے فیصلوں میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔
ٹرمپ کا موقف ہے کہ ٹیرف سے مقامی صنعت کو فروغ اور غیر ملکی مصنوعات پر انحصار کم ہوتا ہے، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے امریکی صارفین پر مہنگائی کا بوجھ پڑتا ہے۔
یہ کیس نیویارک کی شراب درآمد کرنے والی کمپنی VOS Selections اور دیگر چھوٹے کاروباروں نے عدالت میں دائر کیا تھا، جن کا کہنا تھا کہ یہ ٹیرف ان کے کاروبار کے لیے تباہ کن ہیں۔
ادھر برطانیہ نے اس تنازع پر خاموشی اختیار کر لی ہے، جبکہ ایک معاہدہ جس کے تحت کچھ برطانوی مصنوعات کو ٹیرف سے استثنا ملنا تھا، ابھی نافذ نہیں ہو سکا۔
Post Views: 4.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
امریکا نے عالمی فوجداری عدالت کی چار خاتون ججز پر پابندیاں عائد کر دیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکا نے عالمی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کی چار خاتون ججز پر باضابطہ طور پر پابندیاں عائد کر دی ہیں، جن میں سے دو نے اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری کے اجرا اور دیگر دو نے افغانستان میں امریکی فوج کے مبینہ جنگی جرائم کی تحقیقات کی منظوری دی تھی۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ اقدام ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے سامنے آیا اور اسے بین الاقوامی عدالتی کارروائیوں کے خلاف ایک جارحانہ ردعمل قرار دیا جا رہا ہے، ان ججز کی عدالتی کارروائیوں نے امریکا اور اس کے اتحادی اسرائیل کو قانونی طور پر نشانہ بنایا تھا، جس پر امریکا نے ان پر اقتصادی اور سفری پابندیاں عائد کی ہیں۔
پابندیوں کا شکار بننے والی ججز میں بیٹی ہوہلر ہیں، جن کا تعلق سلووینیا سے ہے، رینی الاپینی، جن کا تعلق بینن سے ہے، یہ دونوں ججز اُن عدالتی کارروائیوں کا حصہ تھیں جن کے نتیجے میں اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے خلاف جنگی جرائم کے الزامات کے تحت وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے، یہ مقدمہ اسرائیل کے غزہ پر حملوں اور فلسطینی شہریوں پر مبینہ مظالم سے متعلق تھا۔
اس کے علاوہ دیگر دو ججز لوز ڈیل کارمین، تعلق پیرو سے ہے، سولومی بالنگی بوسا ، تعلق یوگنڈا سے ہے،یہ ججز اُن کارروائیوں میں شریک رہی ہیں جن میں افغانستان میں امریکی فوج کے مبینہ جنگی جرائم کی تحقیقات کی منظوری دی گئی، جس میں شہریوں کی ہلاکت، غیر قانونی حراست اور تشدد کے الزامات شامل تھے، یہ دونوں ججز اسرائیل سے متعلق دیگر زیر سماعت مقدمات میں بھی شریک رہی ہیں۔
امریکی اقدام پر انسانی حقوق کے ادارے اور بین الاقوامی قانونی ماہرین نے تشویش کا اظہار کرکہاہے کہ یہ اقدام عالمی عدالتی نظام کی آزادی اور غیر جانب داری پر حملہ ہے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل بھی امریکا، خاص طور پر ٹرمپ دورِ حکومت میں، آئی سی سی پر شدید تنقید کرتا رہا ہے اور عدالت کے کئی اہلکاروں پر پابندیاں عائد کر چکا ہے۔
خیال رہےکہ امریکا آئی سی سی کا رکن ملک نہیں ہے، عدالت کے بعض فیصلوں سے پیدا ہونے والی قانونی اور سفارتی پیچیدگیوں نے واشنگٹن کو مسلسل پریشان کیا ہے، اس تازہ اقدام سے بین الاقوامی سطح پر امریکا کے طرزِ عمل اور قانونی نظام کے احترام پر سوالات اٹھنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔