Daily Ausaf:
2025-08-11@07:25:51 GMT

تمہیں یارو مبارک ہو عمرؓ ابن خطاب آیا

اشاعت کی تاریخ: 26th, June 2025 GMT

آفتابِ نبوت کومکہ شہرمیں اپنی کرنیں بکھیرتے ہوئے پانچواں سال چل رہاتھا،حصرت عمرؓ اس وقت چھبیس برس کے کڑیل جوان تھے ،رسول اللہ ﷺ کی طرف سے مکہ کی وادی میں بلندکی جانے والی توحیدکی صداعمرؓ کے لئے بالکل نامانوس اوراجنبی چیزتھی۔ جناب عمرؓ کی طبیعت میں بہت زیادہ سختی اورتیزی تھی،جس کسی کے بارے میں معلوم ہوجاتاکہ وہ مسلمان ہوگیا ہے، عمرؓ اس کے درپے آزارہوجاتے یہی حال ابوجہل کابھی تھامسلمانوں کوان دونوں کی طرف سے شدیدپریشانی کاسامناتھا۔یہی وجہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ ان دنوں اکثردعا فرمایاکرتے، یعنی اے اللہ!تودینِ اسلام کو قوت عطا فرما عمربن خطاب یاعمروبن ہشام کے ذریعے، اس ابتدائی دورمیں مکہ میں مٹھی بھرمسلمانوں کومشرکین کے ہاتھوں جس طرح اذیت کاسامناتھااس چیزکودیکھتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کوملکِ حبشہ کی جانب ہجرت کرجانے کامشورہ دیاتھا، جس پر(نبوت کے پانچویں سال)یکے بعد دیگرے مسلمانوں کی دومختلف جماعتیں مکہ سے حبشہ کی جانب ہجرت کرگئی تھیں ۔ایسے ہی ایک موقع پرعمرؓنے اپنے قریبی عزیزوں میں سے ایک مسلمان شخص کوجب بے بسی ولاچاری کی کیفیت میں مکہ سے حبشہ کی جانب ہجرت کرتے دیکھاتوبڑی ہی حسرت کے ساتھ اسے ہجرت کایہ ارادہ ملتوی کرکے مکہ میں ہی رک جانے کامشورہ دیاجس پراس شخص نے بھی بڑی حسرت کے ساتھ یہ جواب دیاکہ اے عمرؓ!کاش تم نے ہمیں ناحق اس قدرنہ ستایاہوتاتوہم یوں بے وطن ہوجانے پرمجبورنہ ہوتے۔ یہ بات سن کر حضرت عمرؓ پہلی باراپنی تمام ترترش مزاجی کے باوجوددکھی ہوگئے اپنی قوم کویوں ٹوٹتے اوربکھرتے ہوئے اورپھربے وطن ہوتے ہوئے دیکھنایہ چیز حضرت عمرؓکے لئے ا نتہائی صدمے کاباعث بنی،جس کی وجہ سے وہ شب وروزاسی پریشانی میں مبتلارہنے لگے کہ آخریہ معاملہ کس طرح حل ہوگا؟
اسی کیفیت میں وقت گزرتارہا اور پھر بالآخر اس کے اگلے سال،یعنی جب نبوت کاچھٹاسال چل رہا تھا،ایک روز حضرت عمرؓکے صبرکاپیمانہ لبریزہو گیا سوچاکہ جس شخص کی وجہ سے میری قوم یوں ٹوٹتی اوربکھرتی جارہی ہے اسی شخص کو (نعوذباللہ)قتل کردیاجائے اوریوں اس مشکل کاہمیشہ کے لئے خاتمہ کردیاجائے یہی بات سوچ کروہ ایک روزسخت گرمی کے موسم میں اورتپتی ہوئی دوپہرمیں ننگی تلوارہاتھ میں لئے ہوئے چل دئیے۔ راستے میں نعیم بن عبداللہ،نامی ایک شخص کی ان پر نظرپڑی تووہ ٹھٹھک کررہ گیااس قدرآگ برساتی ہوئی گرمی میں ،اورتپتی ہوئی اس دوپہرمیں عمراپنے ہاتھ میں ننگی تلوارلئے ہوئے چلے جارہے ہیں وہ شخص خوفزدہ ہوگیااورخوب سمجھ گیاکہ معاملہ خطرناک ہے۔ چنانچہ اس نے اسی خوف ودہشت کی کیفیت میں دریافت کیا، عمرؓ ! خیریت توہے؟اس وقت آپ کہاں چلے جارہے ہیں ؟ عمرؓ نے جواب دیا(نعوذباللہ)آج میں اس شخص (یعنی رسول اللہ ﷺ کاکام تمام کرنے جارہاہوں ۔ اس پروہ شخص بولاعمرؓ!پہلے اپنے گھرکی خبرتولے لوتمہاری اپنی بہن اوربہنوئی مسلمان ہوچکے ہیں اس شخص کی زبانی یہ بات سن کرعمرؓ آگ بگولہ ہوگئے اوروہاں سے سیدھے اپنی بہن (فاطمہ بنت خطابؓ)کے گھرپہنچے۔ اس وقت وہ اوران کے شوہر(سعیدبن زید رضی اللہ عنہ) دونوں تلاوتِ قرآن میں مشغول تھے۔ عمرؓنے وہاں پہنچتے ہی نہایت غصے کی کیفیت میں بہن کوزدوکوب کرناشروع کردیایہی سلسلہ جاری تھاکہ اس دوران اچانک بہن نے نہایت پرعزم لہجے میں اورفیصلہ کن اندازمیں بھائی کومخاطب کرتے ہوئے کہاعمرؓ! تم جس قدرچاہومجھے مارلولیکن کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔بہن کی زبانی یہ بات سن کراورپہلی باربالکل غیرمتوقع طورپراس کی یہ جرات دیکھ کرعمرچونک اٹھے اورسوچنے لگے کہ اس دین میں اتنی قوت اس کلام میں اس قدرتاثیرکہ اس قدر زدوکوب کے باوجودبہن نے یوں دوٹوک فیصلہ سنادیاتب عمرؓکے اندازبدلنے لگے اورپھرقدرے توقف کے بعدبہن کومخاطب کرتے ہوئے یوں کہنے لگے اچھاجوکچھ تم پڑھ رہے تھے ذرہ مجھے بھی وہ چیزدکھائواس پربہن نے جواب دیاعمرؓ!تم مشرک ہو،ناپاک ہو،لہٰذاتم اللہ کے اس پاک کلام کونہیں چھوسکتے۔ عمرؓنے مسلسل اصرارکیا آخرعمرؓکایہ اصراراب التجامیں تبدیل ہونے لگا۔بہن نے جب عمرؓکے رویے میں یہ اتنی بڑی تبدیلی دیکھی توکہاکہ بھائی پہلے تم غسل کرکے پاک صاف ہوجائو،تب عمرؓ غسل کرکے آئے اورپھروہی مطالبہ دہرایا،تب بہن نے انہیں وہ اوراق دکھائے جن میں وہ قرآنی آیات تحریرتھیں عمرؓپڑھتے گئے
ترجمہ: (طہ، ہم نے یہ قرآن اس لئے نازل نہیں کیاکہ تم مشقت میں پڑجائو،البتہ یہ اس شخص کی نصیحت کے لئے نازل کیاہے جو(اللہ سے)ڈرتاہو،اس کانازل کرنااس اللہ کی طرف سے ہے جس نے زمین کواور بلند آسمانوں کوپیداکیاہے،جورحمن ہے عرش پرقائم ہے،جس کی ملکیت آسمانوں اورزمین اوران دونوں کے درمیان اورزمین کی تہوں کے نیچے کی ہرایک چیزپرہے۔ اگرتوبلندآوازسے کوئی بات کہے تو وہ توہرایک پوشیدہ سے پوشیدہ ترچیزکوبھی بخوبی جانتاہے،وہی اللہ ہے جس کے سواکوئی معبودنہیں اسی کے بہترین نام ہیں) (1)۔
حضرت عمرؓیہ آیات پڑھتے گئے ،اورایک ایک لفظ ان کے دل کی گہرائیوں میں اترتاچلاگیا،دیکھتے ہی دیکھتے دل کی دنیابدل گئی اورپھربے اختیاریوں کہنے لگے:کیایہی وہ کلام ہے جس کی وجہ سے قریش نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اوران کے ساتھیوں کواس قدرستارکھاہے؟۔اورپھراگلے ہی لمحے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضری کی غرض سے بے تابانہ وہاں سے روانہ ہوگئے۔ا ن دنوں رسول اللہ ﷺ بیت اللہ سے متصل صفاپہاڑی کے قریب دارالارقم نامی گھر میں رہائش پذیرتھے ،جہاں مسلمان آپؐ کی خدمت میں حاضرہوکراللہ کے دین کاعلم حاصل کیاکرتے تھے۔ چنانچہ عمرؓ اسی دارالارقم کی جانب روانہ ہوگئے۔اس وقت وہاں دارالارقم میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ چند مسلمان موجودتھے،انہوں نے جب حضرت عمرؓ کواس طرف آتے دیکھا تووہ پریشان ہوگئے۔ اتفاق سے اس وقت ان کے ہمراہ حضرت حمزہ بن عبدالمطلبؓ بھی موجود تھے،جن کااس معاشرے میں بڑامقام ومرتبہ اور خاص شان وشوکت تھی،جن کی بہادری کے بڑے چرچے تھے، خاندانِ بنوہاشم کے چشم وچراغ نیزرسول اللہ ﷺ کے چچا تھے اورمحض تین دن قبل ہی مسلمان ہوئے تھے انہوں نے جب یہ منظردیکھااوروہاں موجودکمزوروبے بس مسلمانوں کی پریشانی دیکھی توانہیں تسلی دیتے ہوئے کہنے لگے، فکرکی کوئی بات نہیں ،عمرؓ اگرکسی اچھے ارادے سے آرہے ہیں توٹھیک ہے، اوراگرکسی برے ارادے سے آرہے ہیں تو آج میں ان سے خوب اچھی طرح نمٹ لوں گا اورپھر حضرت عمرؓ وہاں پہنچے، آمد کا مقصد بیان کیاحضرت حمزہ ؓ انہیں ہمراہ لئے ہوئے اندررسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچے، سیدنا عمرؓنے وہاں آپؐ کی خدمت میں حاضرہوکر اشھد ان لا اِلہ الا اللہ و اشھد انک عبد اللہِ ورسولہ،میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودبرحق نہیں اورمیں گواہی دیتاہوں کہ آپؐ اللہ کے بندے اوراس کے رسول ہیں کہتے ہوئے دینِ اسلام قبول کیا،اورآپ ﷺ کے دستِ مبارک پربیعت کی۔اس موقع پروہاں موجود مسلمانوں کی مسرت اورجوش وخروش کایہ عالم تھاکہ ان سب نے یک زبان ہوکراس قدرپرجوش طریقے سے نعرہ تکبیربلندکیاکہ مکے کی وادی گونج اٹھی مشرکینِ مکہ کے نامورسرداروں کے کانوں تک جب اس نعرے کی گونج پہنچی تووہ کھوج میں لگ گئے کہ آج مسلمانوں کے اس قدرجوش وخروش کی وجہ کیاہے؟ اورآخرجب انہیں یہ بات معلوم ہوئی کہ آج حضرت عمرؓ مسلمان ہوگئے ہیں تووہ نہایت رنجیدہ وافسردہ ہوگئے اوربے اختیاریوں کہنے لگے کہ ا ٓج مسلمانوں نے ہم سے بدلہ لے لیا۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں کیفیت میں کہنے لگے اللہ کے ہوگئے ا یہ بات کے لئے شخص کی عمر کے کی وجہ

پڑھیں:

کیا اسرائیل ایک نئی جنگ شروع کرنیوالا ہے؟

اسلام ٹائمز: جہاں تک ایران کا تعلق ہے، اگرچہ ایران کے وزیرِ خارجہ نے کہا ہے کہ حزب اللہ کے اسلحے کا معاملہ لبنان کا داخلی مسئلہ ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ براہِ راست ایران کی قومی سلامتی سے جڑا ہوا ہے۔ یقینی طور پر ایران کے سکیورٹی اور فوجی حکام، خاص طور پر قدس فورس اس معاملے سے بخوبی آگاہ ہیں اور ایران کو حزب اللہ کی حمایت میں مضبوط اور واضح فیصلے کرنے ہونگے۔ ان دنوں سعودی عرب، حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے اور لبنان کی صورتحال میں اہم کردار ادا کر رہا ہے اور یہ معاملہ ایران-سعودی تعاون کے برعکس ہے۔ یہ پیشرفت مستقبل میں دونوں ممالک کے تعلقات کو بھی متاثر کرسکتی ہے۔ لبنان کی تبدیلیاں اور حزب اللہ کا مستقبل مشرق وسطیٰ سمیت بالخصوص فلسطین کیلئے ہر پہلو سے نہایت اہم ہیں۔ ماضی کے تجربات اور حالیہ حالات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل سمیت یورپ اور عربی حکومتیں فلسطین میں حماس اور لبنان میں حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے میں ناکام ہو جائیں گی۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان

طوفان الاقصیٰ کا معرکہ جاری ہے۔ اس معرکہ نے امریکہ کی عالمی اجارہ داری کو چیلنج کر رکھا ہے۔ ساتھ ساتھ دنیا کے سامنے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی ساکھ کو عوامی اور فوجی سطح پر شدید نقصان پہنچایا ہے۔ عوامی سطح پر دنیا بھر میں اسرائیل کو شدید احتجاج کا سامنا ہے۔ اسی طرح فوجی سطح پر بھی غاصب صہیونی حکومت شدید دباؤ اور تناؤ کا شکار ہے۔ فوجی نقصانات کی تفصیل کو اسرائیلی غاصب حکومت چھپا رہی ہے۔ بہرحال ایسے حالات میں کہ جب غاصب صیہونی حکومت کو فلسطینی مزاحمتی محور کے گروہوں حماس، جہاد اسلامی اور لبنان میں حزب اللہ اور یمن کی انصاراللہ کے ساتھ ساتھ براہ راست ایران سے کاری ضرب لگ چکی ہے تو اب غاصب صہیونی حکومت اپنے ان زخموں کو چھپانے کے لئے از سر نو جنگی حربوں کا استعمال کر رہی ہے۔ ان حربوں میں ایک غزہ کے عوام کو بھوک اور پیاس سے مارنا ہے، تاکہ غزہ کے لوگ علاقہ خالی کریں اور نکل جائیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر امریکہ اور اسرائیل کو اپنے مقاصد میں 70 فیصد کامیابی حاصل ہو جائے گی۔ باقی ماندہ کامیابی حماس و جہاد اسلامی کو غیر مسلح کرنے کے ساتھ ساتھ صہیونی فوجی قیدیوں کی رہائی کے معاملہ سے مربوط ہے۔

اسی طرح لبنان میں حزب اللہ کے ساتھ ہونے والا معرکہ بھی ایک نئے دور میں داخل ہوچکا ہے۔ کیونکہ اس معرکہ میں غاصب صیہونی حکومت کو سات اکتوبر کے بعد جو سب سے بڑا نقصان اٹھانا پڑا تھا، وہ شمال فلسطین سے دو لاکھ صیہونی آبادکاروں کی نقل مکانی تھی، جو تاحال واپس نہیں آئے ہیں اور اب یہ صہیونی آبادکار شمال فلسطین کو اپنے لئے مکمل غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں۔ ایسے ہی حالات کچھ حیفا اور تل ابیب میں ایران کے براہ راست میزائل گرنے سے بھی پیدا ہوچکے ہیں کہ جہاں سے دسیوں ہزار صہیونی آبادکار سمندری راستوں سے قبرص اور یونان جا چکے ہیں اور اب واپس آنے کو تیار نہیں ہیں۔ یمن کی مسلح افواج کی کارروائیوں کے نتیجہ میں بحیرہ احمر میں اسرائیل کے بحری جہازوں کا مکمل راستہ بند ہونے کے ساتھ ساتھ ایلات کی بندرگاہ مفلوج ہوچکی ہے۔

اس تمام تر صورتحال میں امریکہ اور اسرائیل نے فلسطین اور لبنان میں مزاحمت کی بڑی شخصیات کو نشانہ بنایا اور یہ تاثر دیا کہ اب مزاحمت ختم ہوچکی ہے، لیکن شہید یحییٰ سنوار اور شہید حسن نصراللہ سمیت متعدد رہنماؤں کی شہادت کے بعد فلسطین میں حماس اور لبنان میں حزب اللہ کی طاقت میں خاطر خواہ کمی نہیں آئی ہے۔ اس کے بر عکس مزاحمت کی کارروائیوں میں تیزی نظر آ رہی ہے۔ لبنان میں بھی حزب اللہ نے لبنان کو اسرائیل کے خانہ جنگی کے منصوبہ سے بچانے کے لئے جنگ بندی کا معاہدہ کیا تھا، تاہم جنوبی لبنان میں اسرائیلی فوج کے داخلہ کے معاملہ پر حزب اللہ نے باقاعدہ غاصب صہیونی فوج کو روک رکھا ہے۔ یعنی یہ کہا جاسکتا ہے کہ رہنماؤں اور شخصیات کی شہادت کے بعد فلسطین اور لبنان میں مزاحمت بالکل کمزور نہیں ہوئی۔ اس محاذ پر اور اس طرح کے جنگی حربوں میں بھی اسرائیل کو شکست کا سامنا ہے۔

اب موجودہ صورتحال میں کہ جب تمام تر حربے ناکارہ ہوچکے ہیں، امریکہ اور اسرائیل ہزاروں انسانوں کو غزہ و لبنان میں قتل کرچکے ہیں، غزہ کو ملبہ کا ڈھیر بنا چکے ہیں، بیروت میں تباہی پھیلا چکے ہیں۔ اس کے باوجود اپنے طے کردہ اہداف کو حاصل کرنے میں ناکام ہیں۔ ایسے حالات میں امریکی صدر ٹرمپ نے ایک پرانا کارڈ کھیلنے کا فیصلہ کر لیا ہے، یعنی نیا مشرق وسطیٰ کی تعمیر کرنا۔ یہ خواب امریکہ نے سنہ 2001ء میں دیکھا تھا اور گذشتہ 25 سالوں میں اس خواب کو خطے میں موجود مزاحمت نے شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دیا ہے۔ شام کی تبدیل ہونے والی صورتحال کے بعد امریکہ کو ترکی اور کچھ عرب حکومتوں کی مدد سے اب نیا مشرق وسطیٰ بنانے کا موقع دستیاب ہوا ہے۔ اس عنوان سے امریکی حکومت چاہتی ہے کہ وہ خطے میں مزاحمتی قوتوں بالخصوص حماس اور حزب اللہ کو غیر مسلح کرے۔ لہذا فلسطین میں امریکی ایلچی ویٹکوف اور لبنان میں تھامس براک اس کام کو انجام دینے کے لیے لبنانی حکومت کے ساتھ ساتھ فلسطینی اتھارٹی کو استعمال کر رہے ہیں۔

حماس نے امریکہ کو واضح جواب دیا ہے کہ حماس غیر مسلح نہیں ہوگی۔ اسی طرح لبنان میں بھی یہ دباؤ جاری ہے اور لبنانی وزیراعظم نواف سلام کے ذریعے حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا معاملہ پارلیمنٹ میں لایا گیا ہے۔ اصل میں امریکی حکومت اور غاصب صہیونی حکومت سمجھتی ہے کہ مزاحمتی کمانڈروں کی شہادت اور بالخصوص اب سید حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد اس کام کو تیزی سے انجام دیا جائے۔ بہرحال یہ معاملہ پارلیمنٹ میں آنے کے بعد بغیر کسی فیصلہ کے ملتوی ہوچکا ہے۔ لیکن حزب اللہ واضح کرچکی ہے کہ حزب اللہ لبنان کے دفاع سے دستبردار نہیں ہوگی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ فلسطین میں حماس سے غیر مسلح ہونے کا مطالبہ کرنے والوں میں یورپی ممالک کے ساتھ ساتھ عرب ممالک جن میں سعودی عرب، قطر، بحرین، امارات اور مصر سمیت متعدد شامل ہیں۔ اسی طرح لبنان کی حکومت پر امریکہ اور سعودی عرب کی حکومتوں کے ساتھ ساتھ فرانس اور دیگر یورپی ممالک کا دباؤ ہے۔

بہرحال حماس اور حزب اللہ کا اعلان ہے کہ وہ غیر مسلح نہیں ہوں گے، بلکہ جو لوگ مزاحمت کے اسلحہ کے بارے میں فکر مند ہیں، ان کو غزہ و لبنان پر جاری صہیونی حملوں کے بارے میں فکر مند ہونا چاہیئے۔ انسانوں کی نسل کشی پر خاموش مجرم حکومتیں مزاحمت کے اسلحہ کے بارے میں بیانات دے رہی ہیں۔ خطے کی اس تازہ ترین صورتحال پر عالمی سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے اب امریکہ و اسرائیل حماس و حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں، تاہم آئندہ چند ماہ میں غاصب صہیونی گینگ اسرائیل لبنان پر ایک بڑی جنگ مسلط کرسکتی ہے، تاکہ حزب اللہ کی طاقت کو ختم کیا جائے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ یقینی طور پر امریکہ اور اسرائیل کی ایک اور بڑی غلطی ہوگی۔

حقیقت یہ ہے کہ اب بین الاقوامی حالات میں شدت اور تیزی آچکی ہے، خصوصاً مشرقِ وسطیٰ میں یہ رفتار اور بھی زیادہ ہے۔ لہذا امریکی صدر نے غاصب صہیونی حکومت کو گرین سگنل دے رکھا ہے کہ وہ امریکہ کے "نیا مشرقِ وسطیٰ" کے منصوبے کو عملی جامہ پہنائے اور نقشہ کو مکمل کرے۔ اس نقشہ کو مکمل کرنے کے لئے امریکہ کو عرب حکومتوں اور صہیونی حکومت کے ساتھ ساتھ ترک حکومت کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ امریکی صدر کے بقول، وقت آگیا ہے کہ لبنان میں حزب اللہ اور فلسطین میں حماس کے مسئلے کو حل کیا جائے، یعنی غیر مسلح کیا جائے، تاکہ نیا مشرق وسطیٰ تشکیل پاسکے۔ جہاں تک لبنان کی بات ہے تو لبنان کا مسئلہ اس وقت سے ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے کہ جب سے شام کا نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا، کیونکہ لبنان کی تاریخ ہمیشہ براہِ راست دمشق کی تبدیلیوں سے جڑی رہی ہے۔

حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا منصوبہ، جسے یہ کہہ کر پیش کیا جا رہا ہے کہ اسلحہ لبنان کی فوج کے حوالے کیا جائے، سیاسی اور اقتصادی دباؤ کے ساتھ اور اسلحہ چھوڑنے کے الٹی میٹم سے شروع ہوا۔ امریکہ کے خصوصی نمائندے تھامس باراک نے یہاں تک دھمکی دی ہے کہ اگر داخلی مذاکرات میں حزب اللہ کے اسلحہ چھوڑنے پر اتفاق نہ ہوا تو لبنان کے کچھ حصے اس سے الگ کر دیئے جائیں گے۔ یعنی امریکہ خود مختار ممالک کو توڑنے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ یقینی طور پر امریکہ اس کام کے لئے شام کے دہشتگرد گروہوں اور جولانی کے ساتھ غاصب صہیونی حکومت اسرائیل کا سہارا لے گا۔ تاریخی طور پر شام کی حکومت لبنان کی زمین پر نظر رکھتی آئی ہے، خصوصاً شمالی علاقوں جیسے طرابلس اور حتیٰ کہ بیروت کو بھی اپنی سرزمین سمجھتی رہی ہے۔ اب جبکہ تکفیری گروہ الجولانی کی شام میں حکومت آچکی ہے، جو مسلسل فرقہ وارانہ بنیادوں پر مصرورف فعالیت ہے۔ لہذا یہ خطرہ موجود ہے کہ امریکی منصوبوں کی تکمیل کے لئے جولانی اس بہانے اپنے ناراض اور مایوس کارندوں کو لبنان کے شیعہ مسلمانوں سے لڑنے پر اکسا سکتا ہے۔

یعنی اب ایک نیا اتحاد منظر عام پر آرہا ہے، جسے غربی، عبری اور عربی اتحاد کہا جاسکتا ہے اور شاید یہئ نئے مشرق وسطیٰ کے منصوبے کا نیا نام ہے۔ یعنی یہ مغربی-عبری-عربی اتحاد پہلے یہ کوشش کرے گا کہ لبنان اور اسرائیل کے درمیان جنگی تنازعہ کو لبنان کی خانہ جنگی میں بدل دے، تاکہ اصل دشمن کے خلاف اتحاد ٹوٹ جائے۔ دوسری طرف تکفیریوں کو لبنان میں گھسیٹ لایا جائے، تاکہ حزب اللہ سرحد پر اسرائیل کے بجائے تکفیریوں سے لڑے۔ اس دوران لبنان کی حکومت، خاص طور پر مغرب نواز وزیرِاعظم نواف سلام مختلف وجوہات سے حزب اللہ کے ساتھ ٹکر لے رہے ہیں، تاکہ تناؤ کی صورتحال میں اضافہ ہو۔ لبنان کے وزیرِاعظم نواف سلام کے اس بیان کہ سال کے آخر تک فوج حزب اللہ کو غیر مسلح کر دے گی، نے ملک میں بڑے ردعمل کو جنم دیا۔ عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ عوامی احتجاج شروع ہوچکے ہیں۔

لبنان کی حکومت یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ حزب اللہ کو غیر مسلح نہیں کیا جا سکتا۔ حکومتی حلقوں سمیت لبنان کی فوج میں بھی حزب اللہ کی بڑی حمایت موجود ہے۔ چونکہ موجودہ لبنانی حکومت جو باقاعدہ امریکی و سعودی اشاروں پر ناچ رہی ہے، یہ بات بھی اچھی طرح جانتی ہے کہ حزب اللہ اسلحہ نہیں چھوڑے گی، اس لیے شاید یہ تجزیہ زیادہ درست ہو کہ نواف سلام کا اصل مقصد مغربی-عربی-عبری اتحاد کے دباؤ سے لبنان کو وقتی طور پر نکالنا ہے۔ کیونکہ امریکہ نے 60 دن کی مہلت دی ہے، مگر وزیرِاعظم پانچ مہینے کا وقت بتا رہے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ سال کے اختتام تک ہمیں حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان براہِ راست تصادم دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ حزب اللہ اس منظرنامے کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔ لبنان کے عوام کی اکثریت اور کم از کم فوج کے 30 فیصد اہلکار بھی حزب اللہ کی حمایت کریں گے۔ لبنان کو بلا شبہ بڑی جنگ کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ ایک طرف مغرب، امریکہ، اسرائیل اور شام کے تکفیری گروہ، دوسری طرف حزب اللہ اور اکثریت لبنانی عوام جو اپنے وطن کی حفاظت چاہتے ہیں اور اسرائیل کو اصل دشمن سمجھتے ہیں۔

جہاں تک ایران کا تعلق ہے، اگرچہ ایران کے وزیرِ خارجہ نے کہا ہے کہ حزب اللہ کے اسلحے کا معاملہ لبنان کا داخلی مسئلہ ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ براہِ راست ایران کی قومی سلامتی سے جڑا ہوا ہے۔ یقینی طور پر ایران کے سکیورٹی اور فوجی حکام، خاص طور پر قدس فورس اس معاملے سے بخوبی آگاہ ہیں اور ایران کو حزب اللہ کی حمایت میں مضبوط اور واضح فیصلے کرنے ہوں گے۔ ان دنوں سعودی عرب، حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے اور لبنان کی صورتحال میں اہم کردار ادا کر رہا ہے اور یہ معاملہ ایران-سعودی تعاون کے برعکس ہے۔ یہ پیش رفت مستقبل میں دونوں ممالک کے تعلقات کو بھی متاثر کرسکتی ہے۔ لبنان کی تبدیلیاں اور حزب اللہ کا مستقبل مشرق وسطیٰ سمیت بالخصوص فلسطین کے لیے ہر پہلو سے نہایت اہم ہیں۔ ماضی کے تجربات اور حالیہ حالات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل سمیت یورپ اور عربی حکومتیں فلسطین میں حماس اور لبنان میں حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے میں ناکام ہو جائیں گی۔

متعلقہ مضامین

  • یوم آزادی قومی جشن منانے کا موقع ہے، رانا ثنا کی پی ٹی آئی سے احتجاج مؤخر کرنے کی اپیل
  • عطاء اللہ تارڑ نے اسد قیصر کی پریس کانفرنس کو گمراہ کن اور حقائق کے منافی قرار دے دیا
  • غزہ میں انٹرنیشنل پروٹیکشن فورس تعینات کی جائے، پاکستانی مندوب کا سیکیورٹی کونسل میں خطاب
  • کیا اسرائیل ایک نئی جنگ شروع کرنیوالا ہے؟
  • یہ سب کچھ آپ کی بدولت ممکن ہوا، آپ سرپرستی نہ کرتے تو یہ کامیابی حاصل نہ ہوتی، میٹرک امتحانات میں پنڈی بورڈ میں تیسری پوزیشن  ہولڈر اکرام اللہ کی وزیراعظم سے گفتگو
  • دنبہ کی آمد
  • لبنان میں حزب اللہ کے اسلحہ ڈپو میں دھماکا، 6 اہلکار جاں بحق
  • قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینیؒ کی برسی کے موقع پر مجلس عزا
  • گورنرپنجاب سردار سلیم حیدر خان عراق کے 7 روزہ دورے پر روانہ
  • گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان 7 روزہ دورے پر عراق روانہ ہو گئے