ٹوپیوں کے زہر کا تریاق۔۔۔
اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251008-03-5
نعمان برنی
القدس سے پہلے حرمین کی آزادی… اور امت کے تصور کا احیاء… یہی عالم ِ اسلام کا اصل قضیہ ہے! باقی سب معاہدے، اعلامیے، بیانیے… محض اس جمود کو برقرار رکھنے کے ہتھکنڈے ہیں، جہاں مسلم معاشروں پر قابض آمرانہ حکومتیں عوام کی خواہشات اور عالم ِ اسلام کے مفادات کو روندتے ہوئے اپنی حکمرانی کو طول دینے کے اقدامات کرتی ہیں۔ ایسا کوئی ہتھکنڈا آپ کو شہر ِ عزیمت کے شہید ترجمان کے یہ جملے بھلا دینے پر مجبور نہ کر دے جو اس نے امت کے ہر فرد کو گواہ بناتے ہوئے تاریخ کے ماتھے پر تا قیامت ثبت کر دیے ہیں: ’’اے امت ِ مسلمہ اور عرب دنیا کے پیشواؤ! اور اے علم و دانش کے تاجدارو، سیاسی قافلوں کے نگہبانو، اور منبر و محراب کے پاسبانو! تم سب اللہ کے حضور ہمارے مد ِ مقابل ہو۔ تم ہر اْس یتیم کے آنسوؤں کے جواب دہ ہو جس کا سہارا تمہاری بے حسی نے چھین لیا… ہر اْس ماں کی آہوں کے مجرم ہو جو اپنے لعل کی کٹی پھٹی لاش گود میں لیے نوحہ کناں ہے… ہر اْس بے سر و ساماں مہاجر کے خطاکار ہو جس کی پکار تمہارے محلات کی دیواروں سے ٹکرا کر بے صدا ہو گئی… اور ہر اْس فاقہ زدہ بچے کی بھوک میں شریک ِ جرم ہو جو خشک لب، معصوم آنکھوں میں حسرت لیے، ہڈیوں کا ڈھیر بن چکا ہے، اور ایک لقمے کو ترس رہا ہے۔ تمہاری گردنوں پر ان ہزاروں معصوموں کا خون ہے، جو تمہاری مجرمانہ خاموشی کے باعث بے یار و مددگار کٹ گئے۔ اور یہ سفاک نازی دشمن، یہ خون آشام درندہ، تمہارے دیکھتے، تمہارے سنتے، ہماری نسل کشی کا مرتکب نہ ہوتا اگر اْسے سزا سے بچ نکلنے کا یقین نہ ہوتا، تمہارے سکوت کی ضمانت نہ مل چکی ہوتی، اور تم اپنی بے حسی کا سودا نہ کر چکے ہوتے۔ ہم اس بہتے لہو کی ذمے داری سے کسی کو بری نہیں سمجھتے… ہم کسی ایسے فرد کو مستثنیٰ نہیں مانتے جس کے پاس اپنی حیثیت اور رسوخ کے مطابق کچھ کہنے یا کچھ کرنے کی طاقت تھی‘‘۔
پھر کیا آپ کا فہم یہ گوارا کرتا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ کاغذ کے ٹکڑے پر موجود ایک معاہدہ سے متاثر ہو کر محمد بن سلمان، اور کل کو ممکنہ طور پر محمد بن زاید النہیان، عبد الفتاح السیسی، شاہ عبد اللہ ثانی وغیرھم جیسے آمروں کو تو عالم ِ اسلام کی مخلص قیادت کے مرتبہ پر فائز فرما دیں جبکہ شہر ِ عزیمت میں بہتے خون اور کٹے پھٹے فاقہ زدہ جسموں کی انہی آمروں کے غلیظ کردار کے خلاف گواہی کو رد کر دیں؟ اگر جواب ’ہاں‘ میں ہے تو اقبال نے یہ اشعار آپ ہی کے متعلق کہے تھے:
مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے، وہ مذہب کا کفن ہے
یہ بت کہ تراشیدۂ تہذیب نوی ہے
غارت گر کاشانۂ دین نبوی ہے
وطن پرستی کی یہ لہر ابتدا میں عرب قوم پرستی کی صورت میں ابھری، جو وقت کے ساتھ ساتھ سعودی، اماراتی اور مصری قوم پرستی میں ڈھل گئی۔ پاکستان میں بھی ایک فوجی آمر کے دور میں اسی ذہنیت نے ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ جیسے نعرے کو جنم دیا۔ لہٰذا ایک جانب اپنی فرمانروائی کو استحکام بخشنے کے لیے سعودی قومی شناخت کو ازسرِ نو تشکیل دینے والا ایک آمر ہے تو دوسری جانب ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کے hang over میں مبتلا ہماری ہائبرڈ قیادت۔ اب اگر یہ دونوں ’’باہمی مفادات‘‘ کے تحفظ کے معاہدے پر دستخط کرتے ہیں تو جوانب کے زامبی نما وطن پرستوں کو تو خوشی سے تالیاں پیٹنی ہی چاہئیں تھیں، اور وہ ہمارے مخاطب بھی نہیں، لیکن یہ کیسی سادگی ہے کہ اس معاہدے کے تخم سے ہمارے اسلام پسند بھی امت کے زخموں کا مرہم برآمد کرنے بیٹھ گئے۔
کیا آپ اتنے ہی سادہ لوح ہیں کہ عرب آمر کے ساتھ ایک معاہدے پر جشن منا کر سمجھ بیٹھیں کہ امت کی قیادت اب بھی انہی حکمرانوں کے ہاتھ میں نہیں ہے جو دورِ حاضر میں اولیاء الرحمن اور اولیاء الشیطان کے مابین امتیاز کروا دینے والے معرکہ میں مؤخر الذکر کے لشکر میں کھڑے نظر آئے؟ جنہوں نے نہ قبلۂ اوّل کے تقدس کا پاس رکھا نہ اْس کی آزادی کی جدوجہد کا لحاظ کیا اور ہزاروں مسلمانوں کو قابض دشمن کے ہاتھوں بیدردی سے قتل ہوتا دیکھتے رہے۔ اگر یادداشت پر گراں نہ ہو تو 7 اکتوبر 2023ء کے حملوں کی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ یہ تھی کہ عرب راجواڑے ’’ابراہیمی معاہدات‘‘ کی چھتری تلے قابض دشمن کے ساتھ تعلقات استوار کرنے اور امریکا سے جدید دفاعی عسکری صلاحیت کے حصول کے عوض قبلۂ اوّل کی سرزمین کا سودا کرنے پر راضی ہو چکے تھے۔ قبلۂ اوّل کی آزادی کی تحریک ِ اور شہر ِ عزیمت کی نمائندہ مزاحمتی جماعت کی پیٹھ میں چْھرا گھونپنے پر اتفاق کیا جا چکا تھا۔
اسی پالیسی کا تسلسل ہے کہ حال ہی میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے منظور شدہ قرارداد میں 7 اکتوبر 2023ء کے حملوں کی سخت مذمت کے ساتھ ساتھ مجوزہ ریاست میں شہر ِ عزیمت کی نمائندہ مزاحمتی جماعت سے ’’پاک‘‘ حکومت کی حمایت کی گئی ہے۔ قرارداد میں مزاحمتی جماعت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ شہر ِ عزیمت پر اپنا کنٹرول ختم کرے، ہتھیار ڈالے، اور عرب راجواڑوں کی پٹھو اور قابض دشمن کی باج گزار فلسطینی اتھارٹی کو حکومتی امور سنبھالنے دے۔
یہی عرب راجواڑے تھے جنہوں نے مصر میں صدر محمد مرسی کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے آمر عبد الفتاح سیسی کو بھرپور سہارا دیا۔ اربوں ڈالر جھونکے، فوجی بغاوت کی پشت پناہی کی، اور رابعہ العدویہ اور النہضہ اسکوائر میں نہتے انسانوں کے خونِ ناحق میں برابر کے شریک بنے۔ اگر آج مصر میں سیسی کے بجائے مرسی شہید یا اخوان کی حکومت قائم رہتی تو رفح کراسنگ امت اور شہر عزیمت کے درمیان دیوار نہ بنتی۔ سرحدیں کھلی ہوتیں، انسانی، مالی و عسکری امداد پہنچتی، اور اہلیانِ شہر ِ عزیمت فاقوں سے مر نہ رہے ہوتے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں اسلام کا درد رکھنے والی انقلابی و مزاحمتی جماعتوں کی کامیابی سے ان آمروں کے تخت لرز جاتے ہیں۔ ’’انقلاب‘‘ اور ’’مزاحمت‘‘ کے الفاظ سے وہ اتنے خائف ہیں کہ اپنے آمرانہ اقتدار کے تحفظ کے لیے غیر مسلم افواج کو اپنے راجواڑوں میں لا بٹھاتے ہیں، امت کی رگوں میں مدخلیت کا زہر گھولنے کے لیے مذہبی وضع قطع رکھنے والے درباری مولویوں کے لشکر پالتے ہیں، قابض دشمن سے تعلقات قائم کرنا گوارا کر لیتے ہیں، مگر اس ہی قابض دشمن کے خلاف یا عالم ِ اسلام میں کہیں بھی کوئی انقلابی و مزاحمتی تحریک کامیاب ہو یہ برداشت نہیں کر سکتے۔ آپ انہیں ایسے ہر موقع پر اسلام دشمن قوتوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کی پشت میں چھرا گھونپنے میں پیش پیش پائیں گے۔
اب یہی خیانت امت کو ایک ایسی فلسطینی ریاست کا خواب دکھا کر کی جا رہی ہے جسے ہر قسم کے اسلحے، مزاحمت اور یہاں تک کہ مزاحمتی فکر سے بھی پاک کر کے، اْس ہی پر قابض اور دنیا کے جدید ترین اسلحہ سے لیس دشمن ریاست کے برابر میں قائم کیا جائے گا۔ کیا اس دکھائے جانے والے خواب کی مضحکہ خیزی تفصیل کی محتاج ہے؟ یاد رہے کہ یہ خواب آپ کو کسی اور جانب سے نہیں بلکہ عالم ِ اسلام کی قیادت کے منصب پر فائض حکمرانوں کی جانب سے دکھایا جا رہا ہے۔ ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ امریکی صدر اور قابض دشمن کے توثیق کردہ اس ۲۰ نکاتی ’’امن معاہدے‘‘ میں کسی ایسی ریاست کا قیام ہی ایک وعدۂ فردا سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتا۔ لیکن ہم مسلم حکمرانوں کو اس نام نہاد ’’امن معاہدے‘‘ کی تعریف و توثیق میں رطب اللسان پا رہے ہیں۔
لہٰذا جان لیجیے کہ القدس سے پہلے حرمین کی آزادی… اور امت کے تصور کا احیاء… یہی عالم ِ اسلام کا اصل قضیہ ہے! باقی سب معاہدے، اعلامیے، بیانیے… محض اس جمود کو برقرار رکھنے کے ہتھکنڈے ہیں، جہاں مسلم معاشروں پر قابض آمرانہ حکومتیں عوام کی خواہشات اور عالم ِ اسلام کے مفادات کو روندتے ہوئے اپنی حکمرانی کو طول دینے کے اقدامات کرتی ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: قابض دشمن کے کی ا زادی کے ساتھ سے پہلے امت کے کے لیے
پڑھیں:
بانی پی ٹی آئی کی 6اور بشریٰ بی بی کی ایک کیس میں ضمانت قبل ازگرفتاری میں توسیع
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)بانی پی ٹی آئی کی 6اور بشریٰ بی بی کی ایک کیس میں ضمانت قبل ازگرفتاری میں توسیع کر دی گئی۔
نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں بانی پی ٹی آئی کی 6اور بشریٰ بی بی کی ایک کیس میں ضمانت قبل ازگرفتاری کی درخواست پر سماعت ہوئی،عدالت نے بانی اور بشریٰ بی بی کی 28اکتوبر تک متعلقہ کیسز میں گرفتاری روک دی،عدالت نے بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی ضمانت قبل ازگرفتاری میں توسیع کردی۔
مزید :