سعودی عرب کے انسانی ہمدردی کے منصوبے ’مسام‘ کے تحت گزشتہ ہفتے یمن کے مختلف علاقوں سے 815 دھماکا خیز آلات کو کامیابی سے ناکارہ بنایا گیا۔

منصوبے کی تازہ رپورٹ کے مطابق، ناکارہ بنائے گئے مواد میں 748 غیر پھٹے گولے، 56 ٹینک شکن بارودی سرنگیں، 6 اینٹی پرسنل مائنز اور 5 دیسی ساختہ بم (IEDs) شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: سعودی عرب: پرنس سطام بن عبدالعزیز یونیورسٹی کی عالمی درجہ بندی میں 250 درجے ترقی

پروجیکٹ کے مینیجنگ ڈائریکٹر اسامہ الغصابی نے بتایا کہ 2018 میں منصوبے کے آغاز سے اب تک 518,633 بارودی سرنگیں اور دھماکا خیز آلات صاف کیے جا چکے ہیں۔

یہ خطرناک مواد بے ترتیب انداز میں بچھایا گیا تھا، جو عام شہریوں خصوصاً بچوں، خواتین اور بزرگوں کے لیے سنگین خطرہ بنے ہوئے تھے۔

صفائی کی کارروائیاں مأرب، عدن، الجوف، شبوہ، تعز، الحدیدہ، لحج، صنعاء، البیضاء، الضالع اور صعدہ سمیت متعدد علاقوں میں انجام دی گئیں۔

مزید پڑھیں: پاک افغان سرحدی کشیدگی پر سعودی عرب اور قطر کی تشویش

منصوبہ ’مسام‘ نہ صرف بارودی مواد صاف کر رہا ہے بلکہ یمنی انجینئروں کی تربیت، انہیں جدید آلات کی فراہمی اور زخمی افراد کی بحالی میں بھی مدد فراہم کر رہا ہے تاکہ شہری علاقوں، سڑکوں اور اسکولوں کو محفوظ بنایا جا سکے اور انسانی امداد کی فراہمی بحال رہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بارودی سرنگیں دھماکا خیز مواد سعودی عرب مسام یمن.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بارودی سرنگیں دھماکا خیز مواد بارودی سرنگیں دھماکا خیز

پڑھیں:

ٹرمپ امن منصوبے پر حماس کا جواب

گزشتہ دنوں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کے لیے ایک نام نہاد امن منصوبہ جسے ٹرمپ کا بیس نکاتی منصوبہ کہا جا رہا ہے پیش کیا تھا۔ اس منصوبے سے متعلق پاکستان نے سب سے پہلے حمایت کا اعلان کیا لیکن یہ حمایت اس وقت بھاری پڑگئی جب ملک بھر میں تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

بہرحال بعد ازاں وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اس موضوع سے متعلق وضاحت پیش کی اور کہا کہ وزیر اعظم سفر میں تھے اور مکمل نہیں پڑھ سکے اور حمایت کا اعلان کر دیا۔ اسی طرح وزیر خارجہ نے یہ بھی بیان دیا کہ ہم آٹھ ممالک نے ٹرمپ کے ساتھ جس معاہدے پر بات کی تھی، یہ وہ معاہدہ نہیں ہے، یعنی یہ معاہدہ مشکوک قرار دیا گیا۔

دوسری جانب فلسطین کی حامی جماعتوں اور قوتوں کا ایک ہی موقف ہے کہ فلسطینیوں کی مرضی کے بغیر کسی کو بھی فلسطین کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ انھی حالات میں مورخہ 3 اکتوبر کو رات گئے حماس کی جانب سے موقف سامنے آیا جس میں حماس نے ٹرمپ کے منصوبے پر اپنے رد عمل کا اعلان کیا تھا۔

اس اعلان کے بعد مغربی ذرایع ابلاغ سمیت مقامی ذرایع ابلاغ نے یہ کہنا شروع کردیا کہ حماس نے ٹرمپ کے منصوبے کی حمایت کردی ہے، حالانکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔

ٹرمپ پلان کو حماس نے کن شرائط پر قبول کیا؟ حماس نے ٹرمپ کی تجویز کو اپنے حق میں کیسے موڑ دیا؟ ان سوالات کو میڈیا نے فراموش کرتے ہوئے ایسی خبریں نشر کیں جس سے یہ تاثر دیا گیا ہے کہ حماس نے امریکی صدر کے منصوبے کے ساتھ حامی بھر لی ہے۔

حقیقت میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجویز کے جواب میں حماس کا تازہ ترین بیان بیانیہ کی جنگ میں ایک اہم موڑ کی نشاندہی کرتا ہے، یعنی حماس نے ٹرمپ کے منصوبے کو تسلیم نہیں کیا ہے بلکہ اس کو از سر نو تشکیل کیا ہے اور بال دوبارہ سے امریکی صدر کے کورٹ میں پہنچا دی ہے۔

حماس نے اپنے بنیادی اصولوں کی حفاظت کرتے ہوئے بین الاقوامی ثالثوں کے سامنے تعمیری نظر آتے ہوئے سفارتی طور پر چال چلنے میں کامیابی حاصل کی ہے، یعنی ایک طرف تو حماس نے ٹرمپ کی تجویز کو مسترد نہیں کیا اور دوسری طرف اس کے بجائے، اس نے اسے اپنی شرائط پر اسی پلان کو از سر نو دوبارہ ترتیب دیا ہے۔

حماس نے صیہونی قیدیوں کے تبادلے کو قبول کرنے کی تیاری کا اعلان کیا ہے، لیکن صرف ٹرمپ کے بیان کردہ فارمولے کے مطابق نہیں بلکہ فلسطینی قیدیوں کے تبادلے کے ساتھ۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ قبولیت دشمنی کے مکمل خاتمے اور غزہ کی پٹی سے اسرائیل کے مکمل انخلاء سے منسلک ہے۔

یعنی اس معاہدے میں حماس کی اہم ترین شرط غزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلاء سے مشروط ہے، جہاں تک گہرے سیاسی مسائل کا تعلق ہے، جیسے کہ غزہ یا فلسطینی ریاست کا مستقبل، حماس نے انھیں ایک وسیع تر فلسطینی قومی اتفاق رائے کے لیے موخر کیا، نہ کہ واشنگٹن یا تل ابیب کے حکم پر۔

اس سے حماس اپنی سرخ لکیروں کی حفاظت کرتے ہوئے تعاون پر مبنی نظر آئی، نہ کہ رکاوٹ ڈالنے والی۔ یعنی دشمن کا سارا پراپیگنڈا حماس نے زائل کر دیا ہے کہ حماس اپنے اقتدار کی خاطر جنگ کر رہی ہے بلکہ حماس نے ثابت کیا کہ وہ فلسطینی عوام کے مستقبل کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔

حماس کی جانب سے معاہدے کو از سر نو تشکیل دینے میں ایک اور اہم کام جو انجام پایا ہے وہ ٹرمپ اور نیتن یاہوکی جانب سے جاری طویل مدتی مہم کا خاتمہ ہے یعنی مہینوں سے نیتن یاہو اور ٹرمپ نے یرغمالیوں کو اپنے ٹرمپ کارڈ کے طور پر استعمال کیا اور اسرائیل کی فوجی مہم کو انسانی بنیادوں پر ضروری قرار دیا۔

حماس نے اس بیانیے کو الٹا کردیا ہے۔ فلسطینی قیدیوں کے بدلے زندہ اور مردہ تمام یرغمالیوں کو رہا کرنے پر آمادگی کا اعلان کرتے ہوئے، حماس نے اسرائیل سے جنگ کو طول دینے کا بنیادی جواز چھین لیا، اگر اب بھی لڑائی جاری رہتی ہے تو اس کی ذمے داری اسرائیل اور امریکا پر عائد ہوتی ہے، حماس پر نہیں۔

حماس نے غزہ کی انتظامیہ کو آزاد فلسطینیوں کی ایک ٹیکنو کریٹک باڈی کو منتقل کرنے پر رضامندی سے اپنی سیاسی شبیہہ کو بھی مضبوط کیا، بشرطیکہ اسے قومی اتفاق رائے اور عرب اسلامی حمایت حاصل ہو۔

یہ اقدام ان الزامات کا مقابلہ کرتا ہے کہ حماس غزہ میں اقتدار سے چمٹی ہوئی ہے۔ اس کے بجائے، یہ تحریک کو اپنے سیاسی کنٹرول پر فلسطینی عوام کی بقا اور اتحاد کو ترجیح دینے کے طور پر پیش کرتا ہے۔

ٹرمپ کا نام نہاد امن پلان در اصل ٹرمپ کو دنیا کے سامنے ایک امن پسند شخصیت کے طور پر پیش کرنے کے لیے بنایا گیا تھا، لیکن اب صورتحال اس کے بر عکس ہو چکی ہے، یعنی حماس نے فلسطینیوں کی خواہش کو مد نظر رکھا اور اعلان کیا کہ کوئی بھی امن منصوبہ فلسطین کے عوام کے لیے انصاف فراہم کرنے پر مبنی ہونا چاہیے۔

یعنی جارحیت کا مکمل خاتمہ، نقل مکانی کو روکنا اور غزہ پر دوبارہ قبضہ نہ ہونے کی ضمانت۔ اگر ٹرمپ اور نیتن یاہو اب معاہدے کو مسترد کرتے ہیں، تو وہ خود کو امن کو روکنے والوں کے طور پر بے نقاب ہو جائیں گے۔

شاید حماس کے ردعمل کا سب سے اہم حصہ اس بات پر اصرار ہے کہ غزہ کے طویل مدتی مستقبل اور وسیع تر فلسطینی کاز کو امریکا یا اسرائیل کی طرف سے حکم نہیں دیا جائے گا۔ حماس نے زور دیا کہ ان سوالات کو بین الاقوامی قانون اور اجتماعی مرضی کی بنیاد پر قومی فلسطینی فریم ورک کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔

ایسا کرنے سے حماس نے ٹرمپ کے وژن میں آنے سے گریز کیا اور اس اصول کی توثیق کی کہ فلسطینی تنہا ان کی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔

حماس نے درحقیقت ٹرمپ کے معاہدے سے انکار کر دیا ہے، پھر بھی اس نے سفارتی اور اسٹرٹیجک طریقے سے ایسا کیا۔ تحریک نے اس تجویز کے انسانی اور فوری جہتوں (جنگ بندی، قیدیوں کے تبادلے، حکمرانی کے انتظامات) کو قبول کر لیا جب کہ اس کے سیاسی جال کو مسترد کردیا۔

یہ تدبیر اسرائیل کے یرغمالی کے بیانیے کو بے اثر کرتی ہے اور امریکا اور اسرائیل پر بوجھ ڈالتی ہے کہ یا تو اس کی تعمیل کریں یا امن کی راہ میں اصل رکاوٹوں کے طور پر سامنے آئیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ حماس نے ٹرمپ کے امن پلان پر عمل درآمد کو غزہ سے اسرائیل کے مکمل انخلاء کے ساتھ مشروط کردیا ہے۔

غزہ میں جنگ بندی تو ہو گئی ہے اور اسرائیلی فوج کا جزوی انخلا شروع ہو گیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اتوار شام چھ بجے تک اسرائیل غزہ سے اپنی فوج کے مکمل انخلا کرتا ہے یا نہیں؟ اگر یہ ہو گیا تو واقعی ایک بریک تھرو ہوگا۔ یہ یقینی طور پر حماس اور فلسطینی عوام کی کامیابی قرار پائے گا۔

متعلقہ مضامین

  • ٹولنٹن مارکیٹ کے عقب میں سلاٹرہائوس بنانے کا منصوبہ منظور
  • برہم پترا پر چین کے ڈیم کے سائے میں بھارت کا 77 ارب ڈالر کا پن بجلی منصوبہ 
  • غزہ امن منصوبہ مشرقِ وسطیٰ میں دیرپا امن کی جانب اہم قدم ہے: وزیراعظم
  • غزہ امن منصوبہ مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن کی جانب اہم قدم ہے: وزیراعظم شہباز شریف
  • ’میں نے ایک ایک کرکے نیند کی گولیاں جمع کیں تاکہ قتل کا منصوبہ مکمل کر سکوں‘
  • ٹرمپ امن منصوبے پر حماس کا جواب
  • ٹرمپ منصوبہ کامیاب، پاکستان کو کیا اہم ٹاسک ملنے والا ہے؟
  • عائشہ عمر کے متنازع شو ’’ لازوال عشق‘‘ کیخلاف درخواست پر نوٹس جاری
  • ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیس ٹریننگ سینٹر کے قریب زور دار دھماکا