مارک کارنی کینیڈا کے نئے وزیراعظم منتخب، ٹرمپ کو کھلا چیلنج دے دیا
اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT
سابق بینک آف کینیڈا اور بینک آف انگلینڈ کے گورنر مارک کارنی نے 85.9 فیصد ووٹ حاصل کر کے اپنی مرکزی حریف کرسٹیا فری لینڈ کو شکست دی، جنہیں صرف 8 فیصد ووٹ ملے۔ اسلام ٹائمز۔ کینیڈا کی لبرل پارٹی نے مارک کارنی کو اپنا نیا رہنما منتخب کر لیا، جس کے بعد وہ جلد ہی وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی جگہ سنبھالیں گے۔ کارنی نے انتخاب میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور اپنی جیت کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف سخت مؤقف اختیار کیا۔ سابق بینک آف کینیڈا اور بینک آف انگلینڈ کے گورنر مارک کارنی نے 85.
کارنی کا وزیراعظم بننا زیادہ دیر تک یقینی نہیں، کیونکہ کینیڈا میں اکتوبر میں عام انتخابات متوقع ہیں، اور حالات کے پیش نظر قبل از وقت انتخابات بھی ہو سکتے ہیں۔ تازہ ترین سروے کے مطابق اپوزیشن کنزرویٹو پارٹی کو معمولی برتری حاصل ہے۔ نتائج کے اعلان سے قبل جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ کینیڈا کو اپنے ہمسایہ ملک (امریکہ) کی طرف سے وجودی خطرات کا سامنا ہے۔ مارک کارنی نے اپنی بینکنگ کیریئر کا آغاز گولڈمین ساکس سے کیا تھا، اور بعد میں وہ بینک آف کینیڈا اور بینک آف انگلینڈ کے سربراہ رہے۔ تاہم وہ کبھی بھی کسی منتخب عہدے پر فائز نہیں رہے، جس کی وجہ سے کچھ ماہرین کے مطابق انتخابی مہم کے دوران ان کی قیادت کا امتحان ہو گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کارنی کا سخت اینٹی ٹرمپ بیانیہ لبرل ووٹرز کو متحرک کر سکتا ہے، لیکن کنزرویٹو پارٹی پہلے ہی ان پر الزامات لگا رہی ہے کہ وہ اپنے مؤقف میں مستقل مزاج نہیں رہے۔ حالیہ سروے کے مطابق 43 فیصد کینیڈین شہری مارک کارنی کو ٹرمپ سے نمٹنے کے لیے بہتر لیڈر سمجھتے ہیں، جبکہ 34 فیصد پیئر پوئلیور کی حمایت کر رہے ہیں۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ مارک کارنی کی قیادت میں لبرل پارٹی دوبارہ عوامی مقبولیت حاصل کر پائے گی یا نہیں، کیونکہ ٹروڈو کے استعفیٰ سے پہلے پارٹی کی مقبولیت شدید متاثر ہو چکی تھی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: مارک کارنی نے فیصد ووٹ
پڑھیں:
مہنگائی اور معیشت کا چیلنج
وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ ماہانہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران افراط زر کی اوسط شرح 4.49 فی صد کی ریکارڈ کی گئی۔
وفاقی حکومت نے مالی سال 2024-25 کے لیے سالانہ مہنگائی کا ہدف 12 فی صد مقرر کیا تھا۔ آئی ایم ایف نے مالی سال کے شروع میں اس کا تخمینہ 15 فی صد لگایا تھا لیکن بعد ازاں اسے کم کردیا، البتہ حکومت اور عالمی مالیاتی ادارے دونوں کے اندازے غلط ثابت ہوئے اور مہنگائی سنگل ڈیجٹ میں آگئی۔
ترقی پذیر ممالک میں مہنگائی پر قابو پانا ایک مسلسل چیلنج ہے، جہاں خوراک، توانائی اور درآمدات کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ براہ راست عوام پر اثر انداز ہوتا ہے۔ مہنگائی کی اس بلند لہر جیسی صورتحال کے پیش نظر ماہرین سخت مالی نظم و ضبط اور پالیسی اصلاحات پر زور دے رہے ہیں۔پاکستان میں حکومت کے مطابق مہنگائی کی شرح 4.49 فیصد رہی، جو اب بھی خطے کے کئی ممالک سے بہتر تصور کی جا سکتی ہے۔
مہنگائی میں اس نمایاں کمی کا براہ راست اثر پالیسی ریٹ پر بھی پڑا جو کہ 22 فیصد سے کم ہو کر 11 فیصد پر آگیا ہے، یہ شرح سرمایہ کاری کے فروغ اور معاشی سرگرمیوں کی بحالی کے لیے نہایت موزوں ہے۔ پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ گزشتہ مالی سال میں 8 ارب ڈالر سرپلس رہا جب کہ جون 2025 ء تک زرمبادلہ کے ذخائر 14 ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں۔ حکومت نے بروقت اقدامات کرتے ہوئے آئی ایم ایف کے ساتھ تین سالہ معاہدہ کیا جس سے معیشت کی میکرو اکنامک بنیادیں مضبوط ہوئیں۔
حکومت، عوامی خدشات کے برخلاف کوئی منی بجٹ نہیں لائی اور نہ ہی مالیاتی اہداف سے انحراف کیا گیا۔ یعنی حکومت کی مالی حکمت عملی موثر رہی ہے۔ مالی سال 2025ء میں سب سے نمایاں پیش رفت کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس کی صورت میں دیکھنے کو ملی، جو 1.81 ارب ڈالر رہا۔ یہ پچھلے سال کے 1.6 ارب ڈالر کے خسارے سے واضح بہتری ہے۔ یہ بہتری ترسیلات زر میں 28.8 فیصد اضافے کی مرہون منت ہے، جو 34.9 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، لیکن دوسری جانب عوام پر اضافی ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنے کے باوجود حکومت 129 کھرب روپے سے زائد ٹیکس ہدف حاصل کرنے میں ناکام ہوگئی ہے، مجموعی طور پر محصولات میں گزشتہ سال کی نسبت 26 فیصد یا24.3 کھرب روپے زائد اضافہ ہوا۔
عبوری اعداد و شمار کے مطابق ایف بی آر نے ختم ہونیوالے مالی سال میں117.3 کھرب روپے کی وصولیاں کی، جو ہدف سے تقریباً 12 کھرب روپے کم ہیں۔ حکومت نے 129.7 کھرب کا ٹیکس ہدف حاصل کرنے کے لیے تنخواہ دار طبقے پر اضافی بوجھ، پیکٹ دودھ سمیت لگ بھگ تمام اشیائے ضرورت پر ٹیکس لگایا، مگر غیر حقیقی ٹیکس ہدف، معاشی سست روی اور شرح مہنگائی میں مسلسل کمی محصولات میں26 فیصد اضافہ ممکن نہ بنایا جا سکا، تاجر دوست اسکیم کے تحت دکان داروں سے50 ارب روپے انکم ٹیکس حاصل نہ ہوا۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ٹرانسپورٹرز نے کرایوں میں اضافہ کردیا ہے ۔حکومت کی جانب سے پٹرول 8 روپے فی لیٹر اور ڈیزل کی قیمت میں 10 روپے فی لیٹر اضافے کے بعد ٹرانسپورٹرز نے اس شرح سے زیادہ کرایوں میں اضافہ کردیا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہمیشہ سے عام آدمی کے لیے ایک کرب ناک خبر رہا ہے۔ جب کبھی پٹرول، ڈیزل یا مٹی کا تیل مہنگا ہوتا ہے تو اس کا پہلا اور سب سے زیادہ اثر ان افراد پر پڑتا ہے جو پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہوتے ہیں۔ یہ اضافہ صرف گاڑیوں کا ایندھن مہنگا کرنے تک محدود نہیں رہتا بلکہ روزمرہ زندگی کے ہر پہلو پر اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اشیائے خورونوش مہنگی ہو جاتی ہیں، چھوٹے کاروبار دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں، اور ایک عام مزدور یا تنخواہ دار طبقہ اپنے اخراجات پورے کرنے میں بے بس ہو جاتا ہے۔ ڈیزل اور پٹرول مہنگے ہوتے ہیں تو مال بردار گاڑیوں، بسوں، ویگنوں اور رکشوں کے کرائے بڑھا دیے جاتے ہیں۔
اس کے نتیجے میں جب اشیائے ضروریہ ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچتی ہیں تو ان پر اٹھنے والی لاگت میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے، جو بالآخر صارف کو اپنی جیب سے برداشت کرنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی پٹرولیم مصنوعات مہنگی ہوتی ہیں، آٹے، چینی، دال، سبزی، گوشت، دودھ، انڈے حتیٰ کہ ہر چھوٹی بڑی شے کی قیمتیں بڑھنے لگتی ہیں۔
یہ صورتحال ایک عام شہری کی مالی مشکلات میں کئی گنا اضافہ کر دیتی ہے، وہ شخص جس کی ماہانہ آمدنی پہلے ہی محدود ہو، اب اسے وہی پرانے پیسوں سے نئی قیمتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مہنگائی صرف جیب پر بوجھ نہیں ڈالتی بلکہ ذہنی دباؤ، گھریلو جھگڑے اور سماجی عدم توازن کا بھی باعث بنتی ہے۔
صنعتیں جو خام مال یا تیار شدہ سامان کی ترسیل کے لیے ایندھن پر انحصار کرتی ہیں، ان کی لاگت بھی بڑھ جاتی ہے۔ جب صنعتکار کو اپنی مصنوعات مہنگے داموں تیار کرنی پڑتی ہیں، تو وہ یہ بوجھ صارف پر منتقل کر دیتا ہے۔ یوں ایک دائرہ بنتا ہے جہاں قیمتیں بڑھتی رہتی ہیں، اور صارف مسلسل پس پشت رہتا ہے۔ ملک میں جب مہنگائی کا یہ طوفان زور پکڑتا ہے تو اس کے اثرات معیشت کے دیگر شعبوں تک بھی پہنچتے ہیں۔ روزگار کے مواقع کم ہوتے ہیں، غربت میں اضافہ ہوتا ہے، اور مجموعی طور پر ملک کی اقتصادی ترقی سست پڑ جاتی ہے۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ مہنگائی کو جنم دیتا ہے جسے معاشی اصطلاح میں ’’ کاسٹ پُش انفلیشن‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جب پیداوار کی لاگت بڑھتی ہے تو اشیا کی قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ اس قسم کی مہنگائی کو کنٹرول کرنا خاصا مشکل ہوتا ہے کیونکہ یہ بنیادی لاگت سے جڑی ہوتی ہے۔ حکومت اگر چاہے بھی تو فوری طور پر قیمتوں کو کم نہیں کر سکتی، اور جب تک یہ قیمتیں نیچے نہیں آتیں، تب تک صارفین کو مہنگی اشیا خریدنا ہی پڑتی ہیں۔
ایک اور مسئلہ جو مہنگائی کے ساتھ آتا ہے وہ افراطِ زر ہے۔ جب چیزیں مہنگی ہو جاتی ہیں تو لوگوں کی قوتِ خرید متاثر ہوتی ہے۔ وہ چیزیں خریدنے سے گریز کرتے ہیں، جس سے مارکیٹ میں طلب کم ہو جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں کاروباری سرگرمیاں سست ہو جاتی ہیں، کسان جو فصلوں کو منڈیوں تک لے جانے کے لیے ٹرک یا ٹریکٹر استعمال کرتے ہیں، ان کی لاگت بڑھ جاتی ہے۔ کھاد، بیج، کیڑے مار ادویات سب کچھ مہنگا ہو جاتا ہے کیونکہ یہ اشیا درآمد کی جاتی ہیں یا پٹرولیم مصنوعات سے جُڑی ہوتی ہیں۔ یوں کسان کی آمدنی گھٹتی ہے، لیکن اس کی لاگت بڑھ جاتی ہے۔
اس مسئلے کا ایک دیرپا حل یہ ہے کہ توانائی کے متبادل ذرایع پر توجہ دی جائے۔ سولر، ونڈ اور ہائیڈرو پاور جیسے ذرایع اگر ترقی دی جائیں تو ملکی انحصار درآمدی تیل پر کم ہو سکتا ہے۔ حکومت اگر ان منصوبوں میں سرمایہ کاری کرے، تو مستقبل میں مہنگائی کے جھٹکوں سے بچا جا سکتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ملک کو پائیدار ترقی کی راہ پر بھی گامزن کیا جا سکتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت جامع اقتصادی پالیسی بنائے جو صرف وقتی ریلیف پر نہیں بلکہ طویل مدتی استحکام پر مبنی ہو۔ معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ٹیکس نیٹ کو وسیع کیا جائے، غیر ضروری درآمدات پر کنٹرول کیا جائے، توانائی کے شعبے میں اصلاحات کی جائیں اور کرپشن کا خاتمہ کیا جائے۔
صرف یہی نہیں بلکہ قیمتوں پر کڑی نگرانی، ذخیرہ اندوزی کے خلاف سخت کارروائی اور مصنوعی مہنگائی پیدا کرنے والوں کے خلاف شفاف قانونی نظام بھی قائم کیا جائے۔مہنگائی صرف ایک معاشی مسئلہ نہیں، بلکہ یہ ایک معاشرتی، نفسیاتی اور سیاسی مسئلہ بھی ہے۔ یہ ایک ایسی آگ ہے جو سب کچھ جلا کر رکھ دیتی ہے اگر اسے وقت پر قابو نہ کیا جائے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ دراصل اس نظام کی ناکامی کی علامت ہے جو عوامی فلاح کے بجائے وقتی اقدامات پر انحصار کرتا ہے۔
جب تک ہم اس نظام کو ٹھیک نہیں کریں گے، یہ مسائل بار بار ہمارے دروازے پر دستک دیتے رہیں گے۔ملکی معیشت کو بحال کرنے کے لیے ایک متوازن، طویل المدتی اور عوام دوست پالیسی کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت، نجی شعبہ، اور عوام۔ سب کو مل کر ایک ایسا نظام بنانا ہو گا جہاں پٹرول کی قیمت بڑھے تو عام آدمی پر اس کا اثر نہ پڑے، جہاں معیشت مضبوط ہو اور مہنگائی قابو میں رہے، اور جہاں ہر شخص اپنی زندگی سکون سے گزار سکے۔ جب تک ہم اس خواب کو حقیقت میں نہیں بدلیں گے، تب تک مہنگائی کا آسیب ہمارے سر پر منڈلاتا رہے گا اور ایک عام آدمی ہر دن ایک نئی آزمائش سے گزرے گا۔