پاکستان کا بھارت میں ہونے والے جونیئر ہاکی ورلڈ کپ سے دستبردار ہونے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, October 2025 GMT
پاکستان ہاکی فیڈریشن نے بھارت میں ہونے والے جونیئر ہاکی ورلڈ کپ میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا ہے، فیڈریشن کے مطابق موجودہ سیاسی حالات اس فیصلے کی بنیادی وجہ ہیں۔
پاکستان ہاکی فیڈریشن کے سیکریٹری رانا مجاہد نے ایک بیان میں کہا کہ فیڈریشن نے باضابطہ طور پر انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کو آگاہ کردیا ہے کہ پاکستان موجودہ حالات میں ٹورنامنٹ میں شرکت نہیں کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں: سلطان آف جوہر ہاکی کپ: پاکستان اور بھارت کے درمیان میچ 3-3 گول سے برابر
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے متبادل تجویز بھی دی ہے کہ ٹیم کے میچز کسی غیر جانب دار مقام پر کھیلے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں بھارت جا کر کھیلنا کسی طور مناسب نہیں۔
یہ فیصلہ اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان حالیہ کشیدگی کے پس منظر میں کیا گیا ہے، جو مئی میں چار روزہ مسلح جھڑپ کے بعد شدت اختیار کر گئی تھی۔ یہ تصادم دونوں ممالک کے درمیان کئی دہائیوں بعد سب سے سنگین لڑائی قرار دیا گیا۔
جھڑپ کا آغاز بھارتی غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر کے علاقے پہلگام میں سیاحوں پر حملے کے بعد ہوا، جس کا الزام بھارت نے پاکستان پر عائد کیا۔ اس واقعے کے بعد بھارت نے پاکستان پر بلااشتعال حملے کیے، جن کے جواب میں پاک فوج نے آپریشن بنیان المرسوس کے تحت جوابی کارروائی کی۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان ہاکی ٹیم بھارت کی مہمان بنے گی یا نہیں؟ پی ایچ ایف عدم شرکت کے ’مبینہ‘ حکومتی فیصلے سے لاعلم
پاکستان نے بھارتی فضائیہ کے 6 طیارے، جن میں 3 رافیل بھی شامل تھے، مار گرائے اور متعدد ڈرونز تباہ کیے۔ دونوں جوہری طاقتوں کے درمیان یہ جھڑپ 87 گھنٹے جاری رہنے کے بعد 10 مئی کو امریکی ثالثی میں طے پانے والے جنگ بندی معاہدے کے ذریعے ختم ہوئی۔
پاکستان ہاکی فیڈریشن اس سے قبل اگست میں بھی ایشیا کپ سے سیکیورٹی خدشات کے باعث دستبردار ہوچکی ہے۔
تنازع کا آغاز اس وقت ہوا جب بھارت نے چیمپئنز ٹرافی کے لیے اپنی ٹیم کو پاکستان بھیجنے سے انکار کردیا، جسے اسلام آباد نے کھیلوں کی سیاست قرار دیا۔ بعدازاں دونوں ممالک کے درمیان ’فیوژن فارمولا‘ طے پایا، جس کے تحت بھارت نے پاکستان کی میزبانی میں ہونے والے ٹورنامنٹ میں کسی غیر جانب دار مقام پر شرکت کی۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی ہاکی ٹیم دورہ پاکستان پر آمادہ، اجازت کا انتظار
پاکستان کو 2023 کے ایشیا کپ کے میچز بھی اسی ہائبرڈ ماڈل کے تحت کرانے پڑے، جس میں بھارت کے میچز اور فائنل سری لنکا میں کھیلے گئے۔ تاہم پاکستان نے 2023 کے کرکٹ ورلڈ کپ کے دوران بھارت میں شرکت کی تھی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news بھارت پاکستان پاکستان ہاکی فیڈریشن جونیئر ورلڈ کپ رانا مجاہد ہاکی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بھارت پاکستان پاکستان ہاکی فیڈریشن جونیئر ورلڈ کپ رانا مجاہد ہاکی پاکستان ہاکی فیڈریشن کے درمیان بھارت نے ورلڈ کپ کے بعد
پڑھیں:
ایشیا کپ ٹرافی تنازع، پاکستان کا بھارت کو منہ توڑ جواب دینے کا فیصلہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں روایتی حریف پاکستان اور بھارت کا ہائی وولٹیج ٹاکرا 8 فروری کو کولمبو میں ہوگا، جس سے ٹورنامنٹ کا دھواں دھار آغاز ہونے جا رہا ہے۔
دوسری جانب بھارت نے ایک بار پھر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایشیا کپ ٹرافی پاکستان سے وصول کرنے سے انکار کردیا ہے۔ بھارتی بورڈ کے سیکریٹری دیواجیت سائیکیا نے مؤقف اپنایا ہے کہ وہ ٹرافی چیئرمین پی سی بی اور ایشین کرکٹ کونسل کے صدر محسن نقوی سے نہیں لیں گے۔
بھارتی بورڈ نے ایشین کرکٹ کونسل کو خط لکھ کر ٹرافی بھارت بھیجنے کا مطالبہ کیا ہے اور دھمکی دی ہے کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو معاملہ آئی سی سی میں اٹھایا جائے گا۔ رپورٹس کے مطابق بھارت کو اس مؤقف پر سری لنکا اور افغانستان کی حمایت بھی حاصل ہے۔
ایشین کرکٹ کونسل نے بھارت کو 10 نومبر کو تقریب میں ٹرافی وصول کرنے کی پیشکش کی تھی، تاہم پاکستان نے بھارتی رویے کے پیش نظر قانونی ماہرین سے مشاورت کرلی ہے تاکہ بی سی سی آئی کے کسی ممکنہ اقدام کا مؤثر جواب دیا جا سکے۔
ادھر دیواجیت سائیکیا کا کہنا ہے کہ صدر اے سی سی محسن نقوی کو باضابطہ ای میل بھیجی گئی ہے اور اب ان کے جواب کا انتظار ہے۔ جواب میں محسن نقوی نے بی سی سی آئی کو ایک تفصیلی خط ارسال کیا ہے جس میں بھارت کی ایشیا کپ میں کامیابی کا اعتراف کرتے ہوئے اے سی سی کے غیر جانبدارانہ کردار پر زور دیا گیا ہے۔
محسن نقوی نے اپنے خط میں واضح کیا کہ بھارتی بورڈ کا مراسلہ سالانہ جنرل میٹنگ سے قبل موصول ہوا تھا، جس پر اجلاس میں تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا، تاہم چونکہ آپ نے یہ خط اے سی سی اراکین کو بھی بھیج دیا ہے، اس لیے ریکارڈ درست کرنا ضروری تھا۔