تین صوبوں میں کارکردگی کا مقابلہ
اشاعت کی تاریخ: 14th, October 2025 GMT
ملک کے تین بڑے صوبوں پنجاب، سندھ اور کے پی کے میں ڈیڑھ سال قبل مسلم لیگ (ن) کی پنجاب، پیپلز پارٹی کی سندھ اور پی ٹی آئی کی کے پی کے میں حکومت بنی تھی جن میں مراد علی شاہ وزیر اعلی سندھ بنے۔ بعد میں پی ٹی آئی کی کے پی حکومت بنی جس کے وزیر اعلیٰ علی امین بنے جو پی ٹی آئی حکومت میں وفاقی وزیر کی حیثیت سے بھی اقتدار میں رہے اور پی ٹی آئی کی کے پی میں تیسری حکومت تھی۔
پنجاب کی وزیر اعلیٰ برائے راست اقتدار میں ڈیڑھ سالقبل آئیں، اس لحاظ سے مریم نواز جونیئر تھیں اور ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا اقتدار انھیں ملا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی چوتھی، کے پی میں پی ٹی آئی کی تیسری حکومت ہے۔ 2022 تک پنجاب میں پی ٹی آئی کی تقریباً چار سال حکومت رہی کہ جہاں پہلی بار عثمان بزدار جیسا غیر معروف اور نیا چہرہ وزیر اعلی بنا اور کچھ عرصہ پی ٹی آئی سے تجربہ کار، مشہور اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ رہے۔
مریم نواز کے والد نواز شریف اور چچا میاں شہباز شریف چار، پانچ بار پنجاب کے بااختیار وزیر اعلیٰ اور بعد میں وزیر اعظم رہے، جن سے مریم نواز کو بہت کچھ سیکھنے کا موقعہ تو ملا مگر وہ پہلی بار ڈیڑھ سال قبل پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ منتخب ہوئیں ۔
سندھ میں پی پی نے مراد علی شاہ کو قائم علی شاہ کے بعد وزیر اعلیٰ بنایا تھا وہ سینئر وزیر اعلیٰ ہیں جب کہ علی امین کو صرف ڈیڑھ سال وزیر اعلیٰ رہنے دیا گیا جو پرویز خٹک اور محمود خان سے بھی کم عرصہ وزیر اعلیٰ کے پی رہے کیونکہ بانی پی ٹی آئی کسی کو دوسری بار اقتدار میں نہیں رکھتے اور صرف اپنے لمبے اقتدار کے خواہاں ہیں۔
جنرل پرویز کے دور میں پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ پنجاب رہے جن کے بعد 2008 میں مسلم لیگ (ن) نے شہباز شریف کو تیسری بار وزیر اعلیٰ پنجاب بنایا تھا اور بلاشبہ دونوں کی حکومتوں میں پنجاب میں جتنی ترقی ہوئی اس کی کوئی مثال سندھ میں پیپلز پارٹی پیش نہیں کر سکتی جب کہ 2013 کے بعد کے پی میں پی ٹی آئی حکومت میں اتنی ترقی نہیں ہوئی جس کا پی ٹی آئی اور اس کے بانی دعوے کرتے نہیں تھکتے جب کہ سندھ میں صرف صحت کے سلسلے میں ترقی ضرور ہوئی جس پر سندھ حکومت کا دعویٰ ہے کہ صحت کے سلسلے میں کسی اور صوبے میں سندھ جیسی ترقی نہیں ہوئی اور یہی وجہ ہے کہ ملک بھر سے لوگ علاج و معالجہ کے لیے سندھ کے اسپتالوں میں آتے ہیں۔
پی ٹی آئی تو مسلم لیگ ن کی دشمنی میں یہ مانتی ہی نہیں کہ (ن) لیگ دور میں پنجاب میں کوئی ترقی ہوئی مگر پیپلز پارٹی یہ مانتی ہے کہ مریم نواز سمیت مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں میں پنجاب میں ترقی ہوئی مگر پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کا یہ کہنا درست ہے کہ مسلم لیگ ن نے اپنی حکومتوں میں پنجاب کیا لاہور تک میں کوئی ایسا جدید اسپتال نہیں بنایا جس کو جدید ترین کہا جا سکتا اور اسی لیے بڑے لوگ اور مسلم لیگ ن کے رہنما اپنا علاج اور طبی معائنہ بھی ملک سے باہر جا کر کراتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ پنجاب کی ترقی میں پیش پیش موجودہ حکومت لاہور ہی میں کوئی ایسا جدید سرکاری اسپتال بنوائے جو عالمی معیار کا اور اس قابل ہو کہ لوگوں کو علاج و طبی معائنہ کے لیے ملک سے باہر نہ جانا پڑے۔
مسلم لیگ (ن) یہ دعوے کرتی ہے کہ پنجاب میں میٹرو اور اورنج ٹرین جیسے بڑے منصوبے اس کے دور میں بنائے گئے۔ پی ٹی آئی والے سیاسی دشمنی میں مسلم لیگ ن پر غلط الزام بھی لگاتے اور پھر اس کے منصوبوں کی پیروی بھی کرتے رہے اور لاہور میٹرو کو ’’ جنگلا بس‘‘ کہتے تھے اور پھر یہی میٹرو پی ٹی آئی نے پشاور میں بنوائی جب کہ سندھ حکومت خود یہ بھی نہ کر سکی کہ اپنے وسائل سے کراچی میں میٹرو ہی بنواتی وہ بھی 2013 میں اقتدار میں آ کر کراچی میں نواز شریف نے شروع کرائی جس میں سندھ حکومت بھی شامل تھی مگر سرجانی سے گرومندر تک ہی بن سکی اور سالوں گزر گئے مگر وفاق اور سندھ مل کر یونیورسٹی روڈ کی میٹرو نہ بنوا سکے کیونکہ دونوں ہی کو کراچی والوں کی پریشانی کا احساس نہیں ہے۔
ہمیشہ مقابلہ ترقیاتی کاموں کا ہوتا ہے جہاں کمیشن بھی معقول ملتا ہے اور کام نظر بھی آتے ہیں جب کہ ترقیاتی کاموں، تعمیرات میں کمیشن کے علاوہ ’’ک‘‘ سے ہی کرپشن بھی ہوتی ہے اور کرپشن کے سلسلے میں کوئی صوبہ بھی پاک نہیں۔ بلوچستان میں کارکردگی ہے ہی نہیں وہاں صرف کرپشن کا عروج ہے جہاں فائلوں میں ترقیاتی منصوبے زیادہ بنتے ہیں اور فائلوں میں ہی ترقی ہو جاتی ہے اور ترقیاتی فنڈ خرد برد کر لیا جاتا ہے۔
’’ ک‘‘ میں ہی ترقی و کارکردگی ہے۔ ’’ ک‘‘ سے ہی کرپشن اورکمیشن اور تینوں بڑے صوبوں میں پنجاب میں کارکردگی و ترقی کا اعتراف پیپلز پارٹی بھی کرتی ہے جب کہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ ملک میں کرپشن بھی بدترین سطح پر ہے مگر کرپشن وکمیشن نظر نہیں آتے نظر صرف کارکردگی ہی ہر جگہ آتی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: میں پی ٹی آئی پیپلز پارٹی پی ٹی آئی کی مسلم لیگ ن مریم نواز وزیر اعلی پنجاب کی میں کوئی ڈیڑھ سال ہے اور
پڑھیں:
اڑان پاکستان پروگرام کی کامیابی کا انحصار صوبوں کی بھرپور شمولیت پر ہے، احسن اقبال
گلگت میں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر پلاننگ احسن اقبال نے کہا کہ اڑان پاکستان پروگرام کو گلگت بلتستان سمیت پورے ملک میں تیزی سے آگے بڑھایا جائے گا۔ اسلام ٹائمز۔ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدامات احسن اقبال کی زیر صدارت گلگت میں اڑان پاکستان کے حوالے سے ایک اہم اجلاس منعقد ہوا، جس میں صوبائی ترقیاتی منصوبوں کو قومی اصلاحاتی ایجنڈے کے ساتھ ہم آہنگ کرنے پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔ اجلاس میں ایڈیشنل چیف سیکریٹری گلگت بلتستان مشتاق احمد نے اڑان پاکستان پروگرام کے بنیادی نکات، مقاصد اور پیش رفت پر جامع بریفنگ دی جبکہ چیف سیکریٹری گلگت بلتستان اور تمام صوبائی سیکریٹریز بھی اس موقع پر موجود تھے۔ وفاقی وزیر احسن اقبال نے اپنے خطاب میں کہا کہ اڑان پاکستان دراصل ایک قومی پروگرام ہے جس کی کامیابی کا انحصار صوبوں کی بھرپور شمولیت اور اشتراک کے بغیر ممکن نہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ ترقیاتی عمل کا بڑا حصہ صوبوں کے دائرہ اختیار میں آتا ہے اور وفاق تمام صوبوں کے ساتھ مل کر یکساں ترقیاتی حکمت عملی کو آگے بڑھا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اس وقت ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے، جہاں روایتی طریقہ کار کی بجائے اصلاحات اور معاشی تبدیلی کا راستہ اختیار کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ دنیا تیزی سے بدل رہی ہے، نئی ٹیکنالوجیز سامنے آ رہی ہیں اور موسمیاتی تبدیلی، گلیشیئرز کے پگھلاؤ اور غیر مستحکم ترقی جیسے چیلنجز ہمارے سامنے کھڑے ہیں جن کا سنجیدگی سے مقابلہ کرنا وقت کی ضرورت ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ماضی میں ترقیاتی پروگرام مختلف وجوہات کی بنا پر رکاوٹوں اور ناکامیوں کا شکار ہوتے رہے مگر 2024-25ء پاکستان کے لیے ایک نئی اڑان بھرنے کا موقع ہے اور اس مرتبہ ناکامی کی کوئی گنجائش نہیں۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ قومی معیشت کو مضبوط بنیاد دینے اور ترقی کے عمل کو پائیدار بنانے کے لیے تمام چیلنجز کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا۔ اس موقع پر انہوں نے گلگت بلتستان میں بڑھتی ہوئی آئی ٹی سیکٹر کی ترقی کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس شعبے میں نوجوانوں کے لیے پیدا ہونے والے نئے مواقع پورے خطے کے لیے خوش آئند ہیں اور انہیں قومی ڈیجیٹل ویژن کے ساتھ مزید مربوط کیا جائے گا۔ اجلاس میں وفاقی وزیر نے Turnaround Pakistan Summit کے تناظر میں تشکیل دیے گئے 5Es فریم ورک کا بھی حوالہ دیا جو ملک کی پائیدار معاشی ترقی کے لیے ایک جامع لائحہ عمل فراہم کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ فریم ورک معاشی، سماجی اور انتظامی اصلاحات کے ایسے دھارے کو جنم دیتا ہے جو پاکستان کو برآمدات پر مبنی مضبوط معاشی ڈھانچے کی طرف لے جائے گا۔ اس فریم ورک کے تحت مساوات، شفافیت، بااختیاری، توانائی اور انفراسٹرکچر کی بہتری، ڈیجیٹل پاکستان، ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز کا حل اور برآمدات میں اضافہ وہ بنیادی عناصر ہیں جن کے ذریعے پاکستان ایک دیرپا معاشی استحکام حاصل کر سکتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ زراعت، آئی ٹی، مینوفیکچرنگ، معدنیات، تخلیقی صنعتوں، خدمات اور نیلی معیشت جیسے اہم شعبوں کو ترقی دے کر پاکستان کو ایک جدید، متحرک اور برآمدات پر مبنی معیشت بنایا جائے گا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ Turnaround Pakistan عوام کی شرکت سے بنایا گیا منشور ہے، جو عوام کے لیے اور عوام کی خدمت کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔ اجلاس کے اختتام پر وفاقی وزیر نے صوبائی قیادت اور متعلقہ حکام کی کاوشوں کو سراہا اور کہا کہ اڑان پاکستان پروگرام کو گلگت بلتستان سمیت پورے ملک میں تیزی سے آگے بڑھایا جائے گا۔