القادر ٹرسٹ کا قیام قانونی ہے یا غیرقانونی؟ نئے انکشافات سامنے آگئے
اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT
القادر ٹرسٹ سے متعلق نئے حیران کن انکشافات سامنے آگئے ہیں، جن کے مطابق یہ ایک محدود مدت کے لیے بنایا گیا ٹرسٹ تھا جس کا قانونی طور پر کوئی وجود نہیں تھا۔
انگریزی روزنامہ ’دی نیوز‘ کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق، القادر ٹرسٹ کو صرف 8 ماہ کے لیے ایک ٹرسٹ کے طور پر قائم کیا گیا تھا، آئی سی ٹی ٹرسٹ ایکٹ 2020 کے مطابق، اس ٹرسٹ کا کوئی وجود نہیں ہے، القادر ٹرسٹ کے صرف 2 ٹرسٹی ہیں جو کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق مطابق، دسمبر 2019 میں پی ٹی آئی رہنما بابر اعوان نے سب رجسٹرار آفس اسلام آباد میں القادر ٹرسٹ کو رجسٹر کیا۔ اس مقصد کے لیے ایک نیا آئی سی ٹی ٹرسٹ ایکٹ 2020 تیار کیا گیا جبکہ القادر ٹرسٹ کی رجسٹریشن سابقہ ٹرسٹ ایکٹ 1882 کے تحت ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں: القادر ٹرسٹ کیس کا فیصلہ، ملک ریاض کو سزا کیوں نہ ہوئی؟
تحقیقاتی رپورٹ میں اس حوالے سے مزید بتایا گیا ہے کہ ٹرسٹ ایکٹ 1882 کے تحت القادر یونیورسٹی پروجیکٹ کی ٹرسٹ ڈیڈ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ٹرسٹیز 4 سے کم یا 500 سے زیادہ نہیں ہونے چاہئیں۔
ابتدائی طور پر اس کے ٹرسٹیز بابر اعوان اور زلفی بخاری تھے جنہیں 2021 میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کی درخواست پر ہٹایا گیا اور ان کی جگہ ڈاکٹر عارف نذیر اور فرحت شہزادی (فرح گوگی) کو ٹرسٹی نامزد کیا گیا لیکن یہ دونوں ٹرسٹیز کے طور پر کبھی رجسٹرڈ نہیں ہوئے۔
نئے ایک کے تحت القادر ٹرسٹ کا کوئی وجود نہیں؟آئی سی ٹی ٹرسٹ ایکٹ 2020 کو 26 اگست 2020 کو لاگو کیا گیا اور ہر ٹرسٹ کے لیے لازمی قرار دیا گیا کہ وہ خود کو نئے ایکٹ کے تحت رجسٹر کرائیں، تاہم محکمہ صنعت اور لیبر کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق القادر ٹرسٹ نے 2 سال کی تاخیر کے بعد یعنی 2023 میں رجسٹریشن کی درخواست جمع کرائی۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کا 190 ملین پاؤنڈزکیس کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا اعلان
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ القادر ٹرسٹ تاحال خود کو رجسٹرڈ کرانے میں ناکام رہا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ القادر ٹرسٹ کا آئی سی ٹی ٹرسٹ ایکٹ 2020 کے تحت کوئی وجود نہیں ہے۔ اسکا مطلب ہے کہ نیا آئی سی ٹی ٹرسٹ ایکٹ نافذ ہونے تک القادر ٹرسٹ کو صرف 8 ماہ کے لیے ٹرسٹ کے طور پر رجسٹر کیا گیا تھا۔
اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ نئے ٹرسٹ ایکٹ 2020 کے تحت القادر ٹرسٹ کی دوبارہ رجسٹریشن کی درخواست ایک اینٹی کرپشن کے ادارے کی جانب سے پیش کی گئی منفی رپورٹس کی وجہ سے روک دی گئی تھی۔
القادر ٹرسٹ کو لکھے گئے خط میں کن اعتراضات کا ذکر تھا؟انڈسٹریز اینڈ لیبر ڈیپارٹمنٹ کی مجاز اتھارٹی نے اس بارے میں 13 اکتوبر 2023 کو القادر ٹرسٹ کے چیف فنانشل آفیسر کو ایک خط لکھا جس میں مختلف اعتراضات کی نشاندہی کی گئی تھی۔ خط میں بتایا گیا کہ میمورنڈم آف ایسوسی ایشن فراہم نہیں کیا گیا، ٹرسٹ کا پتہ رہائشی علاقے کا دیا گیا ہے اور منسلک سی این آئی سی کی نقول تصدیق شدہ نہیں ہیں۔
خط میں مزید کہا گیا کہ رجسٹریشن ایکٹ 1908 کے تحت منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کی رجسٹریشن کا ثبوت فراہم نہیں کیا گیا، معلومات کی تصحیح اور قانوی کارروائی سے متعلق حلف نامے فراہم نہیں کیے گئے، ملکیت یا کرائے کا ثبوت اور تصدیق شدہ یوٹیلیٹی بلز کی فوٹو کاپیاں غائب ہیں اور ہارڈ کاپی میں فراہم کردہ مالیاتی ڈیٹا آن لائن درخواست سے مطابقت نہیں رکھتا۔
یہ بھی پڑھیں: القادر ٹرسٹ کیس فیصلے کے بعد مذاکرات پر کیا اثر پڑے گا؟
مجاز اتھارٹی نے 21 نومبر 2023 کو القادر یونیورسٹی ٹرسٹ پروجیکٹ کو دوبارہ ایک خط بھیجا جس میں کہا گیا کہ پہلے خط میں مطلع کردہ خامیوں کو دور نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے القادر ٹرسٹ کی درخواست میں تاحال کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی ہے۔
القادر ٹرسٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر امجد الرحمان نے معاملے کے بارے میں وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ القادر ٹرسٹ 1882 کے ایکٹ کے تحت قائم کیا گیا تھا اور اب بھی موجود ہے، زمین اور عمارتوں سمیت تمام اثاثے اس کے نام پر رجسٹرڈ ہیں، نئے ایکٹ کے تحت موجودہ رجسٹریشن کو اپ گریڈ کرنے کے لیے دوبارہ رجسٹریشن کے لیے درخواست دی ہے، اس معاملے پر القادر ٹرسٹ نے متعلقہ محکمہ کے خلاف عدالت میں درخواست دی ہے جو زیرالتوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چونکہ تمام اثاثے قانونی طور پر القادر ٹرسٹ کے نام پر رکھے گئے ہیں لہٰذا اس ٹرسٹ کا وجود منسوخ نہیں کیا جاسکتا، البتہ نئے ایکٹ کے تحت اس کی رجسٹریشن ایک لازمی امر ہے۔
’ٹرسٹ کی درخواست میں کوئی کمی نہیں ہے‘القادر ٹرسٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر امجدالرحمان نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ بابر اعوان اور زلفی بخاری کو القادر یونیورسٹی پروجیکٹ ٹرسٹ سے نکالے جانے کے بعد فرحت شہزادی اور ڈاکٹر عارف نذیر بٹ کو نامزد کیا گیا تھا لیکن ٹرسٹی کے طور پر کبھی رجسٹر نہیں کیا گیا۔ تاہم پی ایس ای سی کی ضرورت کے طور پر ایک نیا ٹرسٹ رجسٹر کیا گیا (القادر یونیورسٹی ٹرسٹ انڈوومنٹ فنڈ برائے چیریٹی اور فنڈز کے مقاصد) جہاں فرحت شہزادی اور ڈاکٹر عارف نذیر بٹ کو عمران خان اور بشریٰ بی بی کے ساتھ اس کا ٹرسٹی بنایا گیا، اب جبکہ فرحت شہزادی کو بھی یہاں سے ہٹا دیا گیا ہے تو اب صرف ماہرین تعلیم ہی اس کے بورڈ آف ٹرسٹیز کا حصہ ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: 190 ملین پاؤنڈ کیس: عمران خان کو 14، بشریٰ بی بی کو 7 سال کی سزا، القادر ٹرسٹ کی زمین بھی تحویل میں لینے کا حکم
انہوں نے مزید بتایا کہ ٹرسٹ ایکٹ 2020 کے تحت ہماری آئی سی ٹی لیبر انڈسٹریز کے پاس 2 درخواستیں ہیں، ایک ٹرسٹ رجسٹریشن کے لیے اور دوسری چیریٹی رجسٹریشن کے لیے، ٹرسٹ کی درخواست میں کوئی کمی نہیں ہے، تاہم محکمہ نے نئی درخواستیں جمع کرانے کا کہا ہے اور کچھ ترامیم بھی تجویز کی ہیں۔
امجدالرحمان نے کہا کہ ہم نے محکمے سے درخواست کی کہ وہ ہماری درخواست پر دوبارہ غور کریں کیونکہ درخواست دائر ہونے کے بعد پورٹل بند ہوجاتا ہے، ہمارے خیال میں اگر وہ ترامیم چاہتے ہیں تو ہم پورٹل کے ذریعے ضروری تبدیلیاں کرسکتے ہیں، ہم نے مجوزہ ترامیم کی ہارڈ کاپیاں محکمہ کو پہلے ہی جمع کرا دی ہیں، نئی درخواست دائر کرنے کے لیے پرانی درخواست کو حذف کرنے کی ضرورت ہوگی جو کہ ناممکن ہے کیونکہ اس حوالے سے ہمارا کیس اصل دائر کردہ درخواست پر مبنی ہے جو اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیرالتوا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
190 ملین پاؤنڈ کیس wenews القادر ٹرسٹ بابر اعوان بانی پی ٹی آئی عمران خان بدعنوانی بشریٰ بی بی رجسٹریشن زلفی بخاری کرپشن.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: 190 ملین پاؤنڈ کیس القادر ٹرسٹ بابر اعوان بانی پی ٹی ا ئی عمران خان بدعنوانی القادر یونیورسٹی ٹرسٹ ایکٹ 2020 کے القادر ٹرسٹ کو القادر ٹرسٹ کے کہ القادر ٹرسٹ کوئی وجود نہیں القادر ٹرسٹ کی نہیں کیا گیا ایکٹ کے تحت کیا گیا تھا کی درخواست بابر اعوان پی ٹی ا ئی کے طور پر کے مطابق نہیں ہے ٹرسٹ کا کہا گیا نئے ایک گیا ہے کے لیے گیا کہ کے بعد
پڑھیں:
لاس اینجلس، غیر قانونی تارکین وطن آپریشن، ٹرمپ نے ہر جگہ فوج تعینات کرنے کی دھمکی دیدی
LOS ANGELES:لاس اینجلس میں غیر قانونی تارکین کے چھاپوں کے خلاف جاری احتجاج کے دوران صورتحال اس وقت کشیدہ ہو گئی جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر تعینات نیشنل گارڈ کے دستے مختلف علاقوں میں پھیل گئے۔
گزشتہ روز ایک وفاقی حراستی مرکز کے باہر سیکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، جس کے بعد صدر ٹرمپ نے بہت سخت قانون و انصاف نافذ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے دیگر شہروں میں بھی فوج تعینات کرنے کا عندیہ دیا۔
امریکی فوج کے مطابق 79ویں انفنٹری بریگیڈ کامبیٹ ٹیم کے 300 فوجی اہلکار گریٹر لاس اینجلس کے تین مختلف مقامات پر تعینات کیے گئے ہیں۔ ان کا مشن وفاقی املاک اور عملے کی حفاظت فراہم کرنا ہے۔
ان فوجی اہلکاروں کو مکمل جنگی لباس اور اسلحے کے ساتھ شہر کے مرکزی وفاقی حراستی مرکز پر تعینات کیا گیا، جہاں وہ محکمہ داخلہ (ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکیورٹی) کے اہلکاروں کے ساتھ مشترکہ طور پر کام کر رہے ہیں۔
مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے فورسز نے آنسو گیس اور پیپر اسپرے کا استعمال کیا، جس سے صحافیوں سمیت کئی افراد متاثر ہوئے۔ یہ اقدام اس وقت اٹھایا گیا جب ایک سرکاری گاڑیوں کا قافلہ حراستی مرکز میں داخل ہو رہا تھا۔
صدر ٹرمپ نے مظاہروں میں مبینہ پرتشدد عناصر کی موجودگی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ کے سامنے پرتشدد لوگ ہیں ہم انہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
مزید پڑھیں: صدر ٹرمپ نے لاس اینجلس میں احتجاج کے دوران نیشنل گارڈز کو تعینات کر دیا
جب ان سے سوال کیا گیا کہ آیا وہ انسریکشن ایکٹ (Insurrection Act) نافذ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جو فوج کو داخلی طور پر پولیس فورس کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے تو صدر ٹرمپ نے جواب دیا کہ ہم ہر جگہ فوج تعینات کرنے پر غور کر رہے ہیں کیونکہ ہم یہ سب کچھ اپنے ملک کے ساتھ نہیں ہونے دیں گے۔
دوسری جانب کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوزوم نے اس اقدام کو جان بوجھ کر اشتعال انگیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ریاستی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ جب تک ٹرمپ نے مداخلت نہیں کی تھی، ہمیں کوئی مسئلہ درپیش نہیں تھا، یہ ریاستی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی ہے، حکم واپس لیا جائے اور کیلیفورنیا کا کنٹرول ریاست کو لوٹایا جائے۔
متعدد ڈیموکریٹ گورنرز نے ایک مشترکہ بیان میں گورنر نیوزوم کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ کا کیلیفورنیا نیشنل گارڈ کا استعمال اقتدار کا خطرناک غلط استعمال ہے۔
واضح رہے کہ نیشنل گارڈ امریکا کی ایک ریزرو فوجی فورس ہے، جو عموماً قدرتی آفات یا شدید ہنگامی حالات میں مقامی حکام کی درخواست پر تعینات کی جاتی ہے۔
اس بار یہ تعیناتی ریاستی منظوری کے بغیر کی گئی ہے، جو ماہرین کے مطابق 1960ء کی شہری حقوق کی تحریک کے بعد پہلا واقعہ ہے۔