بے رحم کمانڈرز اور افغانستان
اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT
افغانستان کی موجودہ طالبان لیڈرشپ کے آپسی اختلافات کی وجہ سے ایک بار پھر افغانستان کے مستقبل پر خطرات منڈلانے لگے ہیں۔ سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی ایک مبینہ آڈیو پیغام میں افغان طالبان رہنما ملا ھیبت اللہ صاحب کہتے ہوئے سنائی دے رہے ہیں کہ کفار آپ کو کسی صورت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور اگر آپ موجودہ اسلامی نظام کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں تو قید و بند کے ساتھ شہادتوں کے لیے بھی تیار رہیں۔
بدقسمت افغانوں کو 50سال میں کئی بار حالات بدلنے کا موقع ملا مگر افغان رہنماؤں کی اندرونی کشمکش کی وجہ سے ان موقعوں سے فائدہ نہ اٹھایا جاسکا۔ 1989 میں سابقہ سویت یونین کی شکست کے محض 2،3سال بعد 1992 میں اندرونی لڑائی شروع ہوگئی تھی۔ 1989 میں گلبدین حکمتیار نے روس کی شکست کو اسلام کی فتح قرار دیا مگر محض 3،4سال بعد 1992/93 میں اندرونی لڑائی کے دور میں ان کا کہنا تھا کہ ہماری لڑائی صرف روسیوں سے نہیں بلکہ ان غداروں سے بھی ہے جو افغانستان کو کمزور کررہے ہیں۔
آپسی لڑائی میں مرحوم احمد شاہ مسعود، عبد الرب رسول سیاف اور رشید دوستم بھی اہم کردار تھے۔ عبد الرب رسول سیاف نے بھی اسلام کے نام پر جہاد لڑا مگر آپسی لڑائی میں ان کے جہاد کا بھی زاویہ بدل گیا تھا اور ایک جگہ کہا کہ جو ہمارے حکم کے خلاف ہے وہ اسلام کے خلاف ہے۔ یعنی بقول ان کے سیاف صاحب بھی وہ ہستی بنے جن کی حکم عدولی کی وجہ سے اسلام خطرے میں آگیا تھا۔
رشید دوستم افغان اندرونی لڑائی میں سب سے بے رحم کمانڈر کے طور پر جانے جاتے ہیں اور روس کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد انہوں نے افغانستان کے ایک حصے پر قبضہ کرلیا تھا جہاں انہوں نے ایک الگ دنیا بنانے کی کوشش کی تھی۔ دوستم کے افغانستان کے حوالے سے خیالات و نظریات بالکل الگ تھے جن کا وہ کچھ اس انداز میں اظہار کرتے تھے، کہ افغانستان کوئی ملک نہیں ہے بلکہ یہ ایک جنگل ہے جہاں طاقتور ہی زندہ رہتے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق گلبدین حکمتیار کے حزبِ اسلامی نے صرف کابل کے شہری علاقے پر 4ہزار سے زائد راکٹ برسائے تھے جس کی وجہ سے 70فیصد کابل شہر کھنڈر بن گیا۔ آپسی لڑائی میں ایک لاکھ سے زائد افغان مارے گئے، دارالحکومت کابل کے 50ہزار شہری لقمہ اجل بنے۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ مطابق یہ وہ دور بنا جہاں خواتین محفوظ نہیں رہی اور بچوں کو زبردستی سپاہی بھرتی کیا گیا۔
جن کی خواہش ہوکہ افغانستان میں اندرونی جنگیں ہونی چاہییں انہوں نے جنگ نہیں دیکھی، انہوں نے جنگوں کے دوران بچوں اور عورتوں کو پیش آنے والے حالات نہیں دیکھے اور ہم قبائلی اس سارے عمل سے گزر چکے ہیں۔ ہمارے لیے افغانستان میں امن و استحکام ہمارے علاقے کا امن و سکون ہے لیکن زمینی حقائق ہماری خواہشات کو مایوسی میں بدلنے کا سبب بن رہی ہیں۔
افغانستان کے نائب وزیر خارجہ شیر محمد عباس ستانکزئی نے خوست میں ایک اسلامی مدرسے کی منعقدہ تقریب سے خطاب کے دوران اپنی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے موجودہ نظام کو اسلامی نظام کے بجائے خواہشات پر مبنی نظام قرار دیا۔ شیر محمد عباس ستانکزئی افغان خواتین کے تعلیم کی حمایت کرتے آرہے ہیں۔ تازہ اطلاعات کے مطابق عباس ستانکزئی کو ملک چھوڑ کر دبئی جانا پڑا۔ خبروں کے مطابق ملا ھیبت اللہ نے عباس ستانکزئی کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے تھے اور ستانکزئی کو نکلنے میں ملا یعقوب نے مدد کی۔ عباس ستانکزئی وہ بات کررہے تھے جو 99فیصد افغان چاہتے ہیں، اگر آپ خواتین کی تعلیم پر اس طرح کی پابندیاں عائد کردیں گے تو آج کی جدید دنیا کے ساتھ کیسے چل پائیں گے؟
خواتین کو گھروں میں محبوس رکھنا اسلامی ہے؟ ہمارے سامنے اسلامی تاریخ کے سب سے رحم دل حکمران حضرت عمر فاروق کی زندگی مشعلِ راہ ہونی چاہیے لیکن اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہم حقیقتاً اسلامی نظام قائم رکھنا چاہتے ہیں، توحضرت عمر فاروق ہی کے دور کا واقع یاد کرلیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منبر پر خطاب کے دوران ایک عورت نے کھڑے ہو کر کہا۔
اے عمر! اللہ سے ڈرو، حاضرین نے خاتون کو روکنے کی کوشش کی، لیکن عمر فاروق نے فرمایا کہ انہیں بولنے دو۔ اگر یہ نہیں بولیں گی تو ہماری کوئی ضرورت نہیں، اور اگر ہم نہیں سنیں گے تو خدا کو کیا جواب دیں گے؟
پوچھنے پر عورت نے کہا کہ آپ نے مہر کی حد مقرر کی ہے، حالانکہ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم نے (مہرمیں) ڈھیر سارا مال بھی دے دیا ہو تو اس میں سے کچھ واپس نہ لو (النساء: ۲۰)
حضرت عمر فاروق نے فوراً تسلیم کیا کہ میں غلطی پر ہوں اور عورت نے جو کہا وہ درست ہے۔ کیا اس وقت کے افغان حکمران سے کوئی افغان خاتون ایسا سوال پوچھ سکتی ہے؟
اس وقت حالات بالکل برعکس ہیں اگر آپ اسلامی نظام قائم کرنے کا دعویٰ کررہے ہیں تو آپ کو رعایا کو وہی حقوق دینے ہوں گے جو اسلام نےان کو دے ہیں اور خواتین معاشرے کا وہ حصہ ہیں جو سب سے زیادہ قابلِ احترام ہونا چاہیے۔ دنیا کے ترقی یافتہ معاشروں میں خواتین نے مردوں کے برابر کردار ادا کیا ہے اور آپ کم از کم خواتین کو علم حاصل کرنے کی آزادی تو دے سکتے ہیں۔ یہ بھی سچائی ہے کہ عالمی طاقتوں کو ایک خطہ ایسا چاہیے ہوتا ہے جہاں جنگ ہو فساد ہو جس کی وجہ سے ان کے مذموم مقاصد پورے ہورہے ہوں مگر سوال یہ ہے کہ وہ موقع آپ خود کیوں دے رہے ہیں؟
اس وقت افغانستان کے اندر سے آپ کی اپنی جماعت کے لوگ کیوں سوال اٹھا رہے ہیں؟ کیا ملا ھیبت اللہ صاحب واقعی ان سوالات کے جوابات دینے سے قاصر رہے گا؟
اگر آپ زور زبردستی اور خوف پر مبنی افغانستان قائم رکھنا چاہتے ہیں تو اس سے افغانستان کا مستقبل خطرے میں ہی رہے گا وہ بھی ایسی صورت میں جب طالبان کی اندرونی صفوں میں اس طرح کے بنیادی اختلافات موجود ہوں۔
افغان لیڈرشپ کو اب سمجھنا ہوگا کہ دنیا بدل چکی ہے اور افغان عوام کو زندگی کی بنیادی ضروریات چاہییں بصورت دیگر آپ افغانستان کو مکمل انارکی کے حوالے کرنے کا سبب بنیں گے اور تاریخ آپ کو بھی ان افغانوں میں یاد رکھے گی جنہوں نے ذاتی خواہشات کو اسلام کا نام دے کر افغانوں کو جنگوں کے حوالے کیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: عباس ستانکزئی افغانستان کے اسلامی نظام چاہتے ہیں عمر فاروق لڑائی میں کی وجہ سے انہوں نے رہے ہیں اگر آپ
پڑھیں:
الحمدللہ دنیائے اسلام میں نئے اسلامی سال کا آغاز ہو گیا۔ محرم الحرام کا چاند نظر آ گیا
سٹی42: الحمدللہ دنیائے اسلام میں نئے اسلامی سال کا آغاز ہو گیا۔ محرم الحرام کا چاند نظر آ گیا۔
مملکت سعودی عرب میں نئے ہجری سال 1447 کے پہلے مہینے محرم الحرام کا چاند نظر آ رہا ہے۔ محرم الحرام اسلامی کیلنڈر کا پہلا مہینہ ہے۔
مصدقہ اطلاع یہ آئ یہے کہ سعودی عرب میں محرم الحرام کا چاند نظر آگیا ہے اور آج محرم الحرام کی یکم تاریخ ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسلامی سال 1447 کا بھی آغاز ہو گیا ہے۔
لاہور میں 262 ٹریفک حادثات ؛340 افراد زخمی
ماہرین فلکیات نے پہلے ہی مھرم کا چاند آج دکھائی دینے کی فور کاسٹ کر رکھی تھی۔
کسویٰ شریف کی تبدیلی
آج سعودی عرب میں غلاف کعبہ ’کسوہ‘ کی تبدیلی کی سالانہ تقریب کا باقاعدہ آغاز کردیا گیا ہے، غلاف کعبہ کی منتقلی کے لیے خصوصی ٹریلر اور سیکیورٹی انتظامات کیے گئے۔
کسوہ کی تیاری کے لیے مخصوص پانی اور اعلیٰ معیار کا خام ریشم استعمال ہوا۔
یکم محرم الحرام کو عام تعطیل کا اعلان
کسوہ کی تیاری میں 24 قیراط سونا، چاندی کے دھاگے سے کشیدہ کاری کی جاتی ہے، قرآنی آیات کو انتہائی نفاستم انجینئرنگ کے اصولوں کے تحت کپڑے پر چھاپا گیا ہے۔
سال بھر کی محنت کا نتیجہ خانہ کعبہ کے غلاف کی شکل میں سامنے آتا ہے جبکہ اتارے گئے غلاف کعبہ سے سونے کے حصے الگ کرکے محفوظ کیے جاتے ہیں۔
متدہ عرب امارات میں نئے سال کا آغاز
برطانیہ کی ہائی کمشنر جین میریٹ کی زرداری ہاؤس آمد، بلاول اور آصفہ بھٹو سے ملاقات
متحدہ عرب امارات اور کئی دوسرے ممالک میں بھی آج چاند کی روئیت ہونے اور جمعرات کو محرم کے پہلے دن کے طور پر اعلان متوقع ہے۔
پاکستان مراکش اور بہت سے دوسرے اسلامی ممالک میں محرم کا آغاز
سعودی عرب کے برعکس تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مراکش جمعہ کو محرم کا پہلا دن منائے گا۔ پاکستان میں بھی کل جمعرات کو سرکاری طور پر محرم کا چاند دیکھنے کا اہتمام کیا گیا ہے، چاند نطر آنے کی قوی امید ہے اور اس طرف کل شام مضرب کے بعد پاکستان میں بھی محرم کی پہلی تاریخ سے نئے اسلامی سال کا آغاز ہو جائے گا۔
وائٹ ہاؤس نے فردو پر اسرائیلی اٹامک انرجی کمیشن کی رپورٹ شئیر کر دی
اسلامی تقویم کی مبادیات
اسلامی تقویم کے مطابق تاریخ کا شمار مغرب کے بعد سے دوسرے دن مغرب کے بعد تک ہوتا ہے۔ اس تقویم کے مطابق سورج غروب ہونے کے بعد اسلامی کیلینڈر پر تاریخ بدل جاتی ہے اور نیا دن شروع ہو جاتا ہے جو اگلے روز مغرب کے وقت تمام ہوتا ہے۔
اسلامی نیا سال، جسے ہجری سنہ کہا جاتا ہے، کا نام ہجرت کے عربی لفظ کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اس سے مراد پیغمبر اسلام کی مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت ہے۔ ہجرت کا یہسنگ میل کا واقعہ 622 عیسوی میں پیش آیا تھا۔ اور اس واقعہ کو بعد میں سالوں کے شمار کے لئے بنیاد بنایا گیا۔ ہجری یا اسلامی نئے سال کا آغاز محرم کے مہینے سے ہوتا ہے۔
شہرِ قائد میں مسلسل زلزلوں کی وجوہات، زلزلہ پیما مرکز نے تفصیلات جاری کر دیں
ماہِ محرم اور شیعہ اسلام
محرم کے مہینے کو اسلام کے شیعہ فرقہ میں خاص اہمیت حاصل ہے۔ محرم کے دوران کربلا کا سانحہ ہوا تھا جس میں رسول اللہ ﷺ کے نواسے اور اثنا عشری شیعہ فرقہ کے تیسرے امام حسیل علیہ السلام کو کربلا کے ریگزار میں شہید کر دیا گیا تھا۔ اس سانحہ مین امامِ مظلوم کے دیگر 71 ساتھیوں کو بھی شہید کر دیا گیا تھا۔ اثنا عشری شیعہ فرقہ میں آج محرم کا چاند نطر آتے ہی سوگ کے ایام کی ابتدا ہو گئی ہے۔