WE News:
2025-11-11@02:48:47 GMT

بے رحم کمانڈرز اور افغانستان

اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT

بے رحم کمانڈرز اور افغانستان

افغانستان کی موجودہ طالبان لیڈرشپ کے آپسی اختلافات کی وجہ سے ایک بار پھر افغانستان کے مستقبل پر خطرات منڈلانے لگے ہیں۔ سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی ایک مبینہ آڈیو پیغام میں افغان طالبان رہنما ملا ھیبت اللہ صاحب کہتے ہوئے سنائی دے رہے ہیں کہ کفار آپ کو کسی صورت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور اگر آپ موجودہ اسلامی نظام کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں تو قید و بند کے ساتھ شہادتوں کے لیے بھی تیار رہیں۔

بدقسمت افغانوں کو 50سال میں کئی بار حالات بدلنے کا موقع ملا مگر افغان رہنماؤں کی اندرونی کشمکش کی وجہ سے ان موقعوں سے فائدہ نہ اٹھایا جاسکا۔ 1989 میں سابقہ سویت یونین کی شکست کے محض 2،3سال بعد 1992 میں اندرونی لڑائی شروع ہوگئی تھی۔ 1989 میں گلبدین حکمتیار نے روس کی شکست کو اسلام کی فتح قرار دیا مگر محض 3،4سال بعد 1992/93 میں اندرونی لڑائی کے دور میں ان کا کہنا تھا کہ ہماری لڑائی صرف روسیوں سے نہیں بلکہ ان غداروں سے بھی ہے جو افغانستان کو کمزور کررہے ہیں۔

آپسی لڑائی میں مرحوم احمد شاہ مسعود، عبد الرب رسول سیاف اور رشید دوستم بھی اہم کردار تھے۔ عبد الرب رسول سیاف نے بھی اسلام کے نام پر جہاد لڑا مگر آپسی لڑائی میں ان کے جہاد کا بھی زاویہ بدل گیا تھا اور ایک جگہ کہا کہ جو ہمارے حکم کے خلاف ہے وہ اسلام کے خلاف ہے۔ یعنی بقول ان کے سیاف صاحب بھی وہ ہستی بنے جن کی حکم عدولی کی وجہ سے اسلام خطرے میں آگیا تھا۔

رشید دوستم افغان اندرونی لڑائی میں سب سے بے رحم کمانڈر کے طور پر جانے جاتے ہیں اور روس کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد انہوں نے افغانستان کے ایک حصے پر قبضہ کرلیا تھا جہاں انہوں نے ایک الگ دنیا بنانے کی کوشش کی تھی۔ دوستم کے افغانستان کے حوالے سے خیالات و نظریات بالکل الگ تھے جن کا وہ کچھ اس انداز میں اظہار کرتے تھے، کہ افغانستان کوئی ملک نہیں ہے بلکہ یہ ایک جنگل ہے جہاں طاقتور ہی زندہ رہتے ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق گلبدین حکمتیار کے حزبِ اسلامی نے صرف کابل کے شہری علاقے پر 4ہزار سے زائد راکٹ برسائے تھے جس کی وجہ سے 70فیصد کابل شہر کھنڈر بن گیا۔ آپسی لڑائی میں ایک لاکھ سے زائد افغان مارے گئے، دارالحکومت کابل کے 50ہزار شہری لقمہ اجل بنے۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ مطابق یہ وہ دور بنا جہاں خواتین محفوظ نہیں رہی اور بچوں کو زبردستی سپاہی بھرتی کیا گیا۔

جن کی خواہش ہوکہ افغانستان میں اندرونی جنگیں ہونی چاہییں انہوں نے جنگ نہیں دیکھی، انہوں نے جنگوں کے دوران بچوں اور عورتوں کو پیش آنے والے حالات نہیں دیکھے اور ہم قبائلی اس سارے عمل سے گزر چکے ہیں۔ ہمارے لیے افغانستان میں امن و استحکام ہمارے علاقے کا امن و سکون ہے لیکن زمینی حقائق ہماری خواہشات کو مایوسی میں بدلنے کا سبب بن رہی ہیں۔

افغانستان کے نائب وزیر خارجہ شیر محمد عباس ستانکزئی نے خوست میں ایک اسلامی مدرسے کی منعقدہ تقریب سے خطاب کے دوران اپنی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے موجودہ نظام کو اسلامی نظام کے بجائے خواہشات پر مبنی نظام قرار دیا۔ شیر محمد عباس ستانکزئی افغان خواتین کے تعلیم کی حمایت کرتے آرہے ہیں۔ تازہ اطلاعات کے مطابق عباس ستانکزئی کو ملک چھوڑ کر دبئی جانا پڑا۔ خبروں کے مطابق ملا ھیبت اللہ نے عباس ستانکزئی کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے تھے اور ستانکزئی کو نکلنے میں ملا یعقوب نے مدد کی۔ عباس ستانکزئی وہ بات کررہے تھے جو 99فیصد افغان چاہتے ہیں، اگر آپ خواتین کی تعلیم پر اس طرح کی پابندیاں عائد کردیں گے تو آج کی جدید دنیا کے ساتھ کیسے چل پائیں گے؟

خواتین کو گھروں میں محبوس رکھنا اسلامی ہے؟ ہمارے سامنے اسلامی تاریخ کے سب سے رحم دل حکمران حضرت عمر فاروق کی زندگی مشعلِ راہ ہونی چاہیے لیکن اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہم حقیقتاً اسلامی نظام قائم رکھنا چاہتے ہیں، توحضرت عمر فاروق ہی کے دور کا واقع یاد کرلیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منبر پر خطاب کے دوران ایک عورت نے کھڑے ہو کر کہا۔

اے عمر! اللہ سے ڈرو، حاضرین نے خاتون کو روکنے کی کوشش کی، لیکن عمر فاروق نے فرمایا کہ انہیں بولنے دو۔ اگر یہ نہیں بولیں گی تو ہماری کوئی ضرورت نہیں، اور اگر ہم نہیں سنیں گے تو خدا کو کیا جواب دیں گے؟

پوچھنے پر عورت نے کہا کہ آپ نے مہر کی حد مقرر کی ہے، حالانکہ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم نے (مہرمیں) ڈھیر سارا مال بھی دے دیا ہو تو اس میں سے کچھ واپس نہ لو (النساء: ۲۰)

حضرت عمر فاروق نے فوراً تسلیم کیا کہ میں غلطی پر ہوں اور عورت نے جو کہا وہ درست ہے۔ کیا اس وقت کے افغان حکمران سے کوئی افغان خاتون ایسا سوال پوچھ سکتی ہے؟

اس وقت حالات بالکل برعکس ہیں اگر آپ اسلامی نظام قائم کرنے کا دعویٰ کررہے ہیں تو آپ کو رعایا کو وہی حقوق دینے ہوں گے جو اسلام نےان کو دے ہیں اور خواتین معاشرے کا وہ حصہ ہیں جو سب سے زیادہ قابلِ احترام ہونا چاہیے۔ دنیا کے ترقی یافتہ معاشروں میں خواتین نے مردوں کے برابر کردار ادا کیا ہے اور آپ کم از کم خواتین کو علم حاصل کرنے کی آزادی تو دے سکتے ہیں۔ یہ بھی سچائی ہے کہ عالمی طاقتوں کو ایک خطہ ایسا چاہیے ہوتا ہے جہاں جنگ ہو فساد ہو جس کی وجہ سے ان کے مذموم مقاصد پورے ہورہے ہوں مگر سوال یہ ہے کہ وہ موقع آپ خود کیوں دے رہے ہیں؟

اس وقت افغانستان کے اندر سے آپ کی اپنی جماعت کے لوگ کیوں سوال اٹھا رہے ہیں؟ کیا ملا ھیبت اللہ صاحب واقعی ان سوالات کے جوابات دینے سے قاصر رہے گا؟

اگر آپ زور زبردستی اور خوف پر مبنی افغانستان قائم رکھنا چاہتے ہیں تو اس سے افغانستان کا مستقبل خطرے میں ہی رہے گا وہ بھی ایسی صورت میں جب طالبان کی اندرونی صفوں میں اس طرح کے بنیادی اختلافات موجود ہوں۔

افغان لیڈرشپ کو اب سمجھنا ہوگا کہ دنیا بدل چکی ہے اور افغان عوام کو زندگی کی بنیادی ضروریات چاہییں بصورت دیگر آپ افغانستان کو مکمل انارکی کے حوالے کرنے کا سبب بنیں گے اور تاریخ آپ کو بھی ان افغانوں میں یاد رکھے گی جنہوں نے ذاتی خواہشات کو اسلام کا نام دے کر افغانوں کو جنگوں کے حوالے کیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

شہریار محسود

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: عباس ستانکزئی افغانستان کے اسلامی نظام چاہتے ہیں عمر فاروق لڑائی میں کی وجہ سے انہوں نے رہے ہیں اگر آپ

پڑھیں:

پاک افغان مذاکرات ختم ہوچکے، طالبان کی ڈھٹائی پر ثالثوں نے بھی ہاتھ اٹھالیے: وزیر دفاع

وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان استنبول میں ہونے والے مذاکرات ختم ہو چکے اور مذاکرت میں شامل پاکستانی وفد واپس روانہ ہوگیا ہے۔وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پاک افغان مذاکرات ختم ہوچکے ہیں، مذاکرات کے اگلے دور کا اب کوئی پروگرام نہیں، ہمارا خالی ہاتھ واپس آنا اس بات کی دلیل ہے ثالثوں کو بھی اب افغانستان سے امید نہیں ہے۔وزیر دفاع خواجہ آصف نے اپنے بیان میں کہا کہ ترکیے اور قطرکے شکر گزار ہیں، خلوص کے ساتھ ثالثوں کا کردار ادا کیا، ترکیے اور قطرپاکستان کے مؤقف کی حمایت کرتے ہیں۔وزیر دفاع نے بتایا کہ افغان وفد کہہ رہا تھا کہ ان کی بات کا زبانی اعتبار کیا جائے جس کی کوئی گنجائش نہیں ہے، بین الاقوامی مذاکرات کے دوران کی گئی حتمی بات تحریری طور پر کی جاتی ہے، مذاکرات میں افغان وفد ہمارے موقف سے متفق تھا مگر لکھنے پر راضی نہ تھا۔خواجہ آصف نے کہا کہ اس وقت مذاکرات ختم ہوچکے ہیں، اب ثالثوں نے بھی ہاتھ اٹھالیے ہیں ان کو ذرا بھی امید ہوتی تو وہ کہتے کہ آپ ٹھہر جائیں، اگر ثالث ہمیں کہتے کہ انہیں امید ہے اور ہم ٹھر جائیں تو ہم ٹھہر جاتے۔وزیر دفاع نے کہا کہ ہمارا خالی ہاتھ واپس آنا اس بات کی دلیل ہے کہ ہمارے ثالثوں کو بھی اب افغانستان سے امید نہیں، اگرافغان سرزمین سے پاکستان پر حملہ ہوا تو اس حساب سے ردعمل دیں گے۔خواجہ آصف نے بتایا کہ اگرافغان سرزمین سے کوئی کارروائی نہیں ہوتی ہمارے لیے سیز فائر قائم ہے، جب افغانستان کی طرف سے سیز فائرکی خلاف ورزی ہوئی تو ہم جواب ، مؤ ثرجواب دیں گے، ہمارا ایک ہی مطالبہ ہے کہ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان پرحملہ نہ ہو۔یاد رہے کہ گزشتہ روز پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان استنبول میں مذاکرات کا تیسرا دور شروع ہوا تھا۔ لیکن پاکستان اور افغانستان کے درمیان استنبول میں ہونے والے مذاکرات میں ڈیڈلاک ہوگیا۔

متعلقہ مضامین

  • پاک افغان بے نتیجہ مذاکرات اور طالبان وزرا کے اشتعال انگیز بیانات، جنگ بندی کب تک قائم رہے گی؟
  • پاک افغان مذاکرات کا روایتی نتیجہ
  • افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی، ذبیح اللہ مجاہد
  • افغان طالبان کی ڈھٹائی، ثالثوں نے بھی ہاتھ اٹھا لیے، استنبول مذاکرات بے نتیجہ ختم  
  •  افغان وفد کہہ رہا تھا کہ ان کی بات کا زبانی اعتبار کیا جائے : خواجہ آصف
  • افغان طالبان کی ڈھٹائی، ثالثوں نے بھی ہاتھ اٹھا لیے، استنبول مذاکرات بے نتیجہ ختم
  • پاک افغان مذاکرات ختم ہوچکے، طالبان کی ڈھٹائی پر ثالثوں نے بھی ہاتھ اٹھالیے: وزیر دفاع
  • افغان طالبان کی ڈھٹائی، ثالثوں نے ہاتھ اٹھا لیے، استنبول مذاکرات بے نتیجہ ختم
  • استنبول مذاکرات ناکام: افغانستان سے ثالثوں کی امید بھی ختم ہوگئی، خواجہ آصف
  • افغان طالبان سے مذاکرات میں ڈیڈ لاک، مزید بات چیت کا پروگرام نہیں، خواجہ آصف: اصولی موقف پر قائم، عطا تارڑ