Express News:
2025-09-18@14:24:53 GMT

گالم گلوچ اور لڑائی کا کلچر

اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT

آج کل تحریک انصاف میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے، میرے لیے حیرانگی کی کوئی بات نہیں۔ تحریک انصاف کی بنیاد ہی گالم گلوچ کے کلچر پر رکھی گئی تھی۔ گا لم گلوچ کا کلچر ہی ان کی پہچان تھا۔ بانی تحریک انصاف بھی اپنے سیاسی مخالفین کے بارے میں غیر اخلاقی زبان استعمال کرتے تھے۔

وہ اپنی جماعت میں بھی ان لوگوں کو ہی پسند کرتے تھے جو گالم گلوچ میں مہارت رکھتے تھے۔ جو سیاسی مخالفیں کے ساتھ جو جتنی زیادہ بدتمیزی کرتا تھا، اسے اتنی ہی جلدی ترقی ملتی تھی۔ ٹاک شوز میں بد تمیزی کے خصوصی نمبر دیے جاتے تھے۔ سیاسی مخالفین سے بد تہذیبی سے پیش آنے پر خراج تحسین پیش کیاجاتا تھا۔ یہی سب تحریک انصاف کی پہچان تھی۔

آج تحریک انصاف اپنے اسی کلچر کا خود شکار ہو گئی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جب تک اقتدار تھا، طاقت تھی تو سیاسی مخالفین کو گالیاں دی جاتی تھیں۔ اب اقتدار نہیں ہے، طاقت نہیں ہے تو آپس میں ہی ایک دوسرے کو گالیاں دینا شروع کر دی گئی ہیں۔

تحریک انصاف میں جس طرح ایک دوسرے کو گالیاں دی جارہی ہیں، اس کی کسی سیاسی جماعت میں پہلے کم ہی مثال ملتی ہے۔ سیاسی جماعت میں لوگوں کے ایک دوسرے سے اختلاف ہو تے ہیں، ناپسندیدگی بھی ہوتی ہے۔ لیکن اس طرح ایک دوسرے کے ساتھ گالم گلوچ نہیں کی جاتی۔ بہر حال سیاسی تہذیب اور لحاظ ملحو ظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ لیکن یہاں تو اب ایسا نہیں ہے۔ سب ہی ایک دوسرے کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔

کل تک تحریک انصاف اپنے سیاسی مخالفین کو چور کہنے میں مہارت رکھتی تھے۔ اب تحریک انصاف کے رہنما ایک دوسرے کو چور کہہ رہے ہے ہیں۔ شاید ان کو چور کہنے کے سوا کچھ آتا ہی نہیں۔ پہلے اپنے سیاسی مخالفین کو ٹاؤٹ کہتے تھے۔ اب ایک دوسرے کو ٹاؤٹ کہہ رہے ہیں۔

کل تک سیاسی مخالفین پر کرپشن کے الزام لگاتے تھے، اب ایک دوسرے پر کرپشن کے الزام لگا رہے ہیں۔ کل سیاسی مخالفین کو ملک دشمنی کے سرٹیفکیٹ بانٹتے تھے۔ آج ایک دوسرے ملک دشمنی کے سرٹیفکیٹ بانٹ رہے ہیں۔ تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت نہیں بلکہ مچھلی منڈی پارٹی بن گئی ہے۔ جہاں سب ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور گرانے کے درپے ہیں۔

 ایک رائے یہ ہے کہ تحریک انصاف کے اندر اختلافات اور لڑائی اسٹبلشمنٹ کرا رہی ہے۔ میں یہ نہیں مانتا۔ میری رائے میں پہلے اس لڑائی کو بانی تحریک انصاف نے خود بڑھایا ہے۔ انھوں نے اس کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ میں سمجھتا ہوں ان کا یہ خیال رہا کہ جب سب ایک دوسرے کے خلاف ہوںگے تو میری قیادت پر متفق ہوں گے۔

وہ اپنے بعد کسی کو بھی اتنا مضبوط نہیں ہونے دینا چاہتے تھے کہ وہ ان کی جگہ لے لے۔ اس لیے اختلافات اور تقسیم کی انھوں نے حوصلہ افزائی کی۔ لیکن شاید اب صورتحال ان کے کنٹرول سے باہر ہو گئی ہے۔ پہلے ان کا خیال تھا کہ وہ جیل سے ریموٹ کنٹرول سے سب کنٹرول کر لیں گے۔

سب ان کو تو لیڈر مانتے ہیں۔ اس لیے آپس میں لڑیں اچھی بات ہے۔ جب لڑائی حد سے بڑھے گی تو وہ کنٹرول کر لیں گے۔ لیکن شاید ایسا نہیں ہوا ہے۔ صورتحال کسی حد تک اب بانی تحریک انصاف کے کنٹرول سے بھی باہر ہو گئی ہے، ان کا ریموٹ کنٹرول خراب ہو گیا ہے۔

آپ فواد چوہدری کا معاملہ ہی دیکھ لیں۔ بانی تحریک انصاف نے معاملہ کو جان بوجھ کر الجھایا ہے۔ وہ فواد چوہدری سے جیل میں ملاقاتیں بھی کرتے ہیں ، اسے پارٹی میں واپس لینے کا اشارہ بھی دیتے ہیں، میری رائے میں ان کا خیال تھا کہ وہ فواد چوہدری کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر لیں گے، وہ پارٹی سے باہر رہ کر بھی ان کا ہی کام کریں گے، یہ کوئی اچھی حکمت عملی نہیں تھی۔ بانی تحریک انصاف فواد چوہدری اور پی ٹی ٹی کے درمیان لڑائی کو انجوائے کر رہے ہیں۔ ایک دفعہ انھوں نے فواد چوہدری کو جیل میں بلا کر پارٹی قیادت کے خلاف بیان بازی سے روک بھی دیا تھا۔

بھائی جب روکا ہے تو اسے جماعت میں لے لیں، صلح بھی کروا دیں، وہ واپس آنا چاہتے ہیں۔ لیکن ایک طرف انھوں نے جماعت کی فواد چوہدری کو واپس نہ لینے کی پالیسی کی حمائت کی ،دوسری طرف فواد چوہدری کی بھی حوصلہ افزائی جاری رکھی ۔ آج صورتحال ان کے کنٹرول سے باہر ہو گئی ہے۔ لڑائی اتنی بڑھ گئی ہے کہ سارا کھیل ہی خراب ہو گیا ہے۔ شیر افضل مروت کے معاملے میں بھی جان بوجھ کر حالات کو خراب رکھا گیا۔

عثمان ڈار کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ شاہ محمود قریشی اور زین قریشی کا معاملہ ہی دیکھ لیں۔ کیا گنڈا پور اور جنید اکبر کی لڑائی بھی بانی انجوائے نہیں کر رہے ہیں ۔اسی طرح تیمور جھگڑا اور گنڈا پور کی بھی لڑائی نظر آرہی ہے۔بانی تحریک انصاف ان کو کے پی کابینہ میں لانا چاہتے ہیں گنڈا پور نہیں لانا چاہتے۔ اگر وہ کابینہ میں آتے ہیں تو گنڈا پور بطور وزیر اعلیٰ کمزور ہوںگے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ اب اختلافات اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ بانی تحریک انصاف کو نقصان ہو رہا ہے۔

 آج تحریک انصاف میں اختلافات کی بنیاد میں سلمان اکرم راجہ کا نام بھی لیا جارہا ہے۔ یہ درست ہے کہ فواد چوہدری کی شعیب شاہین سے لڑائی ہوئی ہے۔ لیکن شیر افضل مروت کی سلمان اکرم راجہ سے لڑائی ہوئی ہے۔ فواد چوہدری کی بھی سلمان اکرم راجہ سے دوستی نہیںہے۔ یہ بات اہم ہے کہ سلمان اکرم راجہ وجہ تنازعہ کیوں نظر آرہے ہیں حالانکہ وہ پارٹی کے سیکریٹری جنرل ہیں۔ ان کی نسبت بیرسٹر گوہر کم تنازعات کا شکار ہیں۔ ان کی اگر قبولیت کم ہے تو مخالفت بھی کم ہے۔ کوئی ان کو اپنے لیے خطرہ نہیں محسوس کرتا۔

میں مانتا ہوں آج کی صورتحال تحریک انصاف کے مخالفین کے لیے فائدہ مند ہے۔ کمزور تحریک انصاف اسٹبلشمنٹ اور مسلم لیگ (ن) کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ لیکن یہ ضرور سمجھیں یہ صورتحال تحریک انصاف کی قیادت کی اپنی پیدا کردہ ہے۔ اس میں اسٹبلشمنٹ کا کوئی کمال نہیں۔ یہ لڑائیوں کا کلچر ان کا اپنا ہے۔ ان لڑائیوں کو انھوں نے خود پروان چڑھایا ہے۔ اگر یہ لڑائیاں بڑھتی ہیں تو اس میں بھی تحریک انصاف کا اپنا قصور ہے۔ شکایتو ں کا کلچر بھی تحریک انصاف میں نیا نہیں ہے۔ ہمیشہ سے لوگ بانی تحریک انصاف کو ایک دوسرے کی شکائتیں لگاتے رہے ہیں۔

وہ شکائتوں کو پسند کرتے ہیں۔ اس کی حوصلہ افزئی کرتے ہیں۔ لیکن اقتدار اور جیل کا فرق وہ نہیں سمجھ سکے۔ جو چیز اقتدار میں اچھی ہو سکتی ہے، جیل میں زہر قاتل بن جاتی ہے۔ شکایتو ں کا کلچر بھی زہر قاتل بن گیا ہے۔ گالم گلوچ اور شکایتی کلچر اب تحریک انصاف کو اندر سے کھا رہاہے۔ یہ ہتھیار انھوں نے اپنے سیاسی مخالفین کو مارنے کے لیے بنائے تھے، آج خود اس کا شکار ہوتے نظر آرہے ہیں۔ یہی حقیقت ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سیاسی مخالفین کو بانی تحریک انصاف سلمان اکرم راجہ تحریک انصاف میں تحریک انصاف کے ایک دوسرے کو فواد چوہدری کنٹرول سے گالم گلوچ ہو گئی ہے گنڈا پور انھوں نے کا کلچر رہے ہیں نہیں ہے کے لیے ہے ہیں

پڑھیں:

فلسطین کے مسئلے پر ہار ماننا درست نہیں، فرانچسکا آلبانیز

اپنے ایک بیان میں اقوام متحدہ کی نمائندہ خصوصی کا کہنا تھا کہ عالمی یکجہتی ہی فلسطین کی آزادی اور انصاف کے قیام کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ گزشتہ شام اقوام متحدہ کی نمائندہ خصوصی "فرانچسکا آلبانیز" نے اس بات کا اظہار کیا کہ فلسطین کے معاملے میں ہار ماننا درست نہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے لوگ ہمارے اور فلسطینیوں کے لئے ایک بہتر و انصاف پر مبنی مستقبل کی کوشش میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہار ماننا کوئی راستہ نہیں، عالمی یکجہتی ہی فلسطین کی آزادی اور انصاف کے قیام کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ دوسری جانب آئرلینڈ کے صدر مائیکل ڈی ہیگنز نے مطالبہ کیا کہ اسرائیل اور وہ ممالک جو اسے اسلحہ فراہم کر رہے ہیں، انھیں غزہ میں نسل کشی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے اقوام متحدہ سے خارج کر دینا چاہئے۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق آئرلینڈ کے صدر نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے آزاد ماہرین کی حالیہ رپورٹ پر تشویش کا اظہار کیا۔ خیال رہے کہ اس رپورٹ میں اقوام متحدہ کے مقرر کردہ آزاد ماہرین نے شواہد پیش کرتے ہوئے تصدیق کی تھی کہ اسرائیل، غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے۔ آئرلینڈ کے صدر نے اسی رپورٹ کے تناظر میں کہا کہ ہمیں اسرائیل اور اسے اسلحہ فراہم کرنے والوں کی رکنیت ختم کرنے پر کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہئے۔

متعلقہ مضامین

  • تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی ریاض فتیانہ نے شہبازشریف حکومت کی خارجہ پالیسی کی تعریف کردی
  • عوامی حقوق کی تحریک خالصتاً ایک عوامی اور پرامن جدوجہد ہے، ذیشان حیدر
  • فلسطین کے مسئلے پر ہار ماننا درست نہیں، فرانچسکا آلبانیز
  • بے حیا کلچر کے فروغ نے نوجوان نسل کو تباہ کردیا، نصر اللہ چنا
  • ہونیاں اور انہونیاں
  • تحریک انصاف اب کھل کر اپوزیشن کرے ورنہ سیاسی قبریں تیار ہوں گی، عمران خان
  • معاہدہ ہوگیا، امریکا اور چین کے درمیان ایک سال سے جاری ٹک ٹاک کی لڑائی ختم
  • ایمان مزاری کی غیر حاضری، کیس دوسرے بینچ کو منتقل کرنے کی استدعا مسترد
  • مدد کے کلچر کا فقدان
  • لاہور: تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجا دیگر کے ساتھ پریس کانفرنس کر رہے ہیں