گالم گلوچ اور لڑائی کا کلچر
اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT
آج کل تحریک انصاف میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے، میرے لیے حیرانگی کی کوئی بات نہیں۔ تحریک انصاف کی بنیاد ہی گالم گلوچ کے کلچر پر رکھی گئی تھی۔ گا لم گلوچ کا کلچر ہی ان کی پہچان تھا۔ بانی تحریک انصاف بھی اپنے سیاسی مخالفین کے بارے میں غیر اخلاقی زبان استعمال کرتے تھے۔
وہ اپنی جماعت میں بھی ان لوگوں کو ہی پسند کرتے تھے جو گالم گلوچ میں مہارت رکھتے تھے۔ جو سیاسی مخالفیں کے ساتھ جو جتنی زیادہ بدتمیزی کرتا تھا، اسے اتنی ہی جلدی ترقی ملتی تھی۔ ٹاک شوز میں بد تمیزی کے خصوصی نمبر دیے جاتے تھے۔ سیاسی مخالفین سے بد تہذیبی سے پیش آنے پر خراج تحسین پیش کیاجاتا تھا۔ یہی سب تحریک انصاف کی پہچان تھی۔
آج تحریک انصاف اپنے اسی کلچر کا خود شکار ہو گئی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جب تک اقتدار تھا، طاقت تھی تو سیاسی مخالفین کو گالیاں دی جاتی تھیں۔ اب اقتدار نہیں ہے، طاقت نہیں ہے تو آپس میں ہی ایک دوسرے کو گالیاں دینا شروع کر دی گئی ہیں۔
تحریک انصاف میں جس طرح ایک دوسرے کو گالیاں دی جارہی ہیں، اس کی کسی سیاسی جماعت میں پہلے کم ہی مثال ملتی ہے۔ سیاسی جماعت میں لوگوں کے ایک دوسرے سے اختلاف ہو تے ہیں، ناپسندیدگی بھی ہوتی ہے۔ لیکن اس طرح ایک دوسرے کے ساتھ گالم گلوچ نہیں کی جاتی۔ بہر حال سیاسی تہذیب اور لحاظ ملحو ظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ لیکن یہاں تو اب ایسا نہیں ہے۔ سب ہی ایک دوسرے کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔
کل تک تحریک انصاف اپنے سیاسی مخالفین کو چور کہنے میں مہارت رکھتی تھے۔ اب تحریک انصاف کے رہنما ایک دوسرے کو چور کہہ رہے ہے ہیں۔ شاید ان کو چور کہنے کے سوا کچھ آتا ہی نہیں۔ پہلے اپنے سیاسی مخالفین کو ٹاؤٹ کہتے تھے۔ اب ایک دوسرے کو ٹاؤٹ کہہ رہے ہیں۔
کل تک سیاسی مخالفین پر کرپشن کے الزام لگاتے تھے، اب ایک دوسرے پر کرپشن کے الزام لگا رہے ہیں۔ کل سیاسی مخالفین کو ملک دشمنی کے سرٹیفکیٹ بانٹتے تھے۔ آج ایک دوسرے ملک دشمنی کے سرٹیفکیٹ بانٹ رہے ہیں۔ تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت نہیں بلکہ مچھلی منڈی پارٹی بن گئی ہے۔ جہاں سب ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور گرانے کے درپے ہیں۔
ایک رائے یہ ہے کہ تحریک انصاف کے اندر اختلافات اور لڑائی اسٹبلشمنٹ کرا رہی ہے۔ میں یہ نہیں مانتا۔ میری رائے میں پہلے اس لڑائی کو بانی تحریک انصاف نے خود بڑھایا ہے۔ انھوں نے اس کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ میں سمجھتا ہوں ان کا یہ خیال رہا کہ جب سب ایک دوسرے کے خلاف ہوںگے تو میری قیادت پر متفق ہوں گے۔
وہ اپنے بعد کسی کو بھی اتنا مضبوط نہیں ہونے دینا چاہتے تھے کہ وہ ان کی جگہ لے لے۔ اس لیے اختلافات اور تقسیم کی انھوں نے حوصلہ افزائی کی۔ لیکن شاید اب صورتحال ان کے کنٹرول سے باہر ہو گئی ہے۔ پہلے ان کا خیال تھا کہ وہ جیل سے ریموٹ کنٹرول سے سب کنٹرول کر لیں گے۔
سب ان کو تو لیڈر مانتے ہیں۔ اس لیے آپس میں لڑیں اچھی بات ہے۔ جب لڑائی حد سے بڑھے گی تو وہ کنٹرول کر لیں گے۔ لیکن شاید ایسا نہیں ہوا ہے۔ صورتحال کسی حد تک اب بانی تحریک انصاف کے کنٹرول سے بھی باہر ہو گئی ہے، ان کا ریموٹ کنٹرول خراب ہو گیا ہے۔
آپ فواد چوہدری کا معاملہ ہی دیکھ لیں۔ بانی تحریک انصاف نے معاملہ کو جان بوجھ کر الجھایا ہے۔ وہ فواد چوہدری سے جیل میں ملاقاتیں بھی کرتے ہیں ، اسے پارٹی میں واپس لینے کا اشارہ بھی دیتے ہیں، میری رائے میں ان کا خیال تھا کہ وہ فواد چوہدری کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر لیں گے، وہ پارٹی سے باہر رہ کر بھی ان کا ہی کام کریں گے، یہ کوئی اچھی حکمت عملی نہیں تھی۔ بانی تحریک انصاف فواد چوہدری اور پی ٹی ٹی کے درمیان لڑائی کو انجوائے کر رہے ہیں۔ ایک دفعہ انھوں نے فواد چوہدری کو جیل میں بلا کر پارٹی قیادت کے خلاف بیان بازی سے روک بھی دیا تھا۔
بھائی جب روکا ہے تو اسے جماعت میں لے لیں، صلح بھی کروا دیں، وہ واپس آنا چاہتے ہیں۔ لیکن ایک طرف انھوں نے جماعت کی فواد چوہدری کو واپس نہ لینے کی پالیسی کی حمائت کی ،دوسری طرف فواد چوہدری کی بھی حوصلہ افزائی جاری رکھی ۔ آج صورتحال ان کے کنٹرول سے باہر ہو گئی ہے۔ لڑائی اتنی بڑھ گئی ہے کہ سارا کھیل ہی خراب ہو گیا ہے۔ شیر افضل مروت کے معاملے میں بھی جان بوجھ کر حالات کو خراب رکھا گیا۔
عثمان ڈار کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ شاہ محمود قریشی اور زین قریشی کا معاملہ ہی دیکھ لیں۔ کیا گنڈا پور اور جنید اکبر کی لڑائی بھی بانی انجوائے نہیں کر رہے ہیں ۔اسی طرح تیمور جھگڑا اور گنڈا پور کی بھی لڑائی نظر آرہی ہے۔بانی تحریک انصاف ان کو کے پی کابینہ میں لانا چاہتے ہیں گنڈا پور نہیں لانا چاہتے۔ اگر وہ کابینہ میں آتے ہیں تو گنڈا پور بطور وزیر اعلیٰ کمزور ہوںگے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ اب اختلافات اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ بانی تحریک انصاف کو نقصان ہو رہا ہے۔
آج تحریک انصاف میں اختلافات کی بنیاد میں سلمان اکرم راجہ کا نام بھی لیا جارہا ہے۔ یہ درست ہے کہ فواد چوہدری کی شعیب شاہین سے لڑائی ہوئی ہے۔ لیکن شیر افضل مروت کی سلمان اکرم راجہ سے لڑائی ہوئی ہے۔ فواد چوہدری کی بھی سلمان اکرم راجہ سے دوستی نہیںہے۔ یہ بات اہم ہے کہ سلمان اکرم راجہ وجہ تنازعہ کیوں نظر آرہے ہیں حالانکہ وہ پارٹی کے سیکریٹری جنرل ہیں۔ ان کی نسبت بیرسٹر گوہر کم تنازعات کا شکار ہیں۔ ان کی اگر قبولیت کم ہے تو مخالفت بھی کم ہے۔ کوئی ان کو اپنے لیے خطرہ نہیں محسوس کرتا۔
میں مانتا ہوں آج کی صورتحال تحریک انصاف کے مخالفین کے لیے فائدہ مند ہے۔ کمزور تحریک انصاف اسٹبلشمنٹ اور مسلم لیگ (ن) کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ لیکن یہ ضرور سمجھیں یہ صورتحال تحریک انصاف کی قیادت کی اپنی پیدا کردہ ہے۔ اس میں اسٹبلشمنٹ کا کوئی کمال نہیں۔ یہ لڑائیوں کا کلچر ان کا اپنا ہے۔ ان لڑائیوں کو انھوں نے خود پروان چڑھایا ہے۔ اگر یہ لڑائیاں بڑھتی ہیں تو اس میں بھی تحریک انصاف کا اپنا قصور ہے۔ شکایتو ں کا کلچر بھی تحریک انصاف میں نیا نہیں ہے۔ ہمیشہ سے لوگ بانی تحریک انصاف کو ایک دوسرے کی شکائتیں لگاتے رہے ہیں۔
وہ شکائتوں کو پسند کرتے ہیں۔ اس کی حوصلہ افزئی کرتے ہیں۔ لیکن اقتدار اور جیل کا فرق وہ نہیں سمجھ سکے۔ جو چیز اقتدار میں اچھی ہو سکتی ہے، جیل میں زہر قاتل بن جاتی ہے۔ شکایتو ں کا کلچر بھی زہر قاتل بن گیا ہے۔ گالم گلوچ اور شکایتی کلچر اب تحریک انصاف کو اندر سے کھا رہاہے۔ یہ ہتھیار انھوں نے اپنے سیاسی مخالفین کو مارنے کے لیے بنائے تھے، آج خود اس کا شکار ہوتے نظر آرہے ہیں۔ یہی حقیقت ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سیاسی مخالفین کو بانی تحریک انصاف سلمان اکرم راجہ تحریک انصاف میں تحریک انصاف کے ایک دوسرے کو فواد چوہدری کنٹرول سے گالم گلوچ ہو گئی ہے گنڈا پور انھوں نے کا کلچر رہے ہیں نہیں ہے کے لیے ہے ہیں
پڑھیں:
کراچی میں ورلڈ کلچر فیسٹیول 2025 کا رنگا رنگ آغاز
آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں ورلڈ کلچر فیسٹیول 2025 کا آغاز ہوگیا۔ افتتاحی تقریب سے قبل مشہور بلوچی رقص لیوا اور سندھ کی روایتی دھنوں نے ماحول کو ثقافتی رنگوں سے بھر دیا۔
تقریب میں معروف فنکار امین گل جی نے دنیا میں جاری جنگوں اور ظلم و ستم پر مبنی کھیل The Game پیش کیا، جسے حاضرین نے بے حد سراہا۔
افتتاحی تقریب میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، وزیرِ ثقافت ذوالفقار شاہ، صوبائی وزراء ناصر حسین شاہ اور سعید غنی سمیت دیگر شخصیات نے شرکت کی۔ صدر آرٹس کونسل احمد شاہ نے اس موقع پر کہا کہ عالمی ثقافتی میلہ پاکستان کا مثبت چہرہ دنیا کے سامنے لائے گا۔
افتتاحی تقریب کے بعد بیلجیئم، بنگلہ دیش، فرانس، نیپال، امریکا، کانگو اور شام کے فنکاروں نے اپنے اپنے فن کا شاندار مظاہرہ کیا، جب کہ کلاسیکل دھنوں اور سندھی موسیقی نے شرکا کے دل جیت لیے۔
عالمی ثقافتی میلہ 7 دسمبر تک جاری رہے گا، جس میں تھیٹر، موسیقی، رقص، ویژول آرٹ اور بین الاقوامی فلموں کی اسکریننگ پیش کی جائے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آرٹس کونسل صدر آرٹس کونسل احمد شاہ عالمی ثقافتی میلہ مراد علی شاہ ورلڈ کلچر فیسٹیول