Express News:
2025-05-31@10:06:16 GMT

تم تیسری عالمی جنگ کا جوا کھیل رہے ہو

اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT

امریکا فی الوقت دنیا کی سب سے بڑی معیشت اور طاقتور ترین فوجی قوت ہے۔اسی لیے کہا گیا ہے کہ امریکا دنیا کے ہر ملک کا پڑوسی ہے۔جناب ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی دوسری مدت صدارت کے پہلے 40 سے کچھ اوپر دنوں میں تہلکہ مچا دیا ہے۔

20جنوری کو عہدہ سنبھالنے سے پہلے ہی انھوں نے یہ کہہ کر تلاطم برپا کر دیا کہ کینیڈا کو اپنی آزاد ریاستی حیثیت ختم کر کے امریکا کی ایک ریاست بن جانا چاہیے۔جناب ٹرمپ نے گرین لینڈ پر زورِ بازو سے قبضہ کرنے کا بھی عندیہ دیا ۔اس کے ساتھ ہی پانامہ کینال کو امریکی عملداری میں لینے کا بھی اعلان کیا۔یہ سب تو ہو ہی رہا تھا لیکن ٹرمپ اور پیوٹن کی اعلانیہ دوستی کی وجہ سے یوکرین جو کہ امریکا کے ایما اور شہہ پر روس سے جنگ لڑ رہا ہے اس کے منتخب صدر کو نشانے پر لے لیا گیا۔

جناب ٹرمپ نے یوکرینی صدر زیلنسکی کو ڈکٹیٹر کہا اور یہ کہ وہ ایک درمیانے درجے کے کامیڈین ہیں۔امریکی صدر نے یہ بھی کہا کہ یورپین یونین بنائی ہی اس لیے گئی کہ امریکا کو exploitکر کے فائدے حاصل کیے جائیں۔ انھوں نے یورپین یونین پر ٹیرف عائد کرنے کا بھی عندیہ دیا۔

جناب ڈونلڈ ٹرمپ کے یہ اعلانات و اقدامات بہت بڑا تلاطم ہیں۔یہ وہ تبدیلی ہے جس سے 1945سے قائم نام نہاد ورلڈ آرڈر تل پٹ ہو سکتا ہے۔دوسری عالمی جنگ میں یورپ کی تباہی کے بعد امریکا نے مارشل پلان کے تحت برطانیہ، فرانس، جرمنی اور دوسرے تباہ حال یورپی ممالک کو ان کے پاؤں پر کھڑا کیا۔امریکا یورپ کی سلامتی کا ضامن اور نیٹو اتحاد کا روحِ روان بنا۔1945سے لے کر امریکا یورپ کے لیے دفاعی چھتری ہی نہیں بنا رہا بلکہ تمام بین الاقوامی فورمز پر امریکا اور یورپ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے رہے۔

یورپ نے تمام توجہ معیشت بحالی پر رکھی۔اسے دفاع پر کچھ زیادہ خرچ نہیں کرنا پڑا۔یہ غالباً پہلی بار ہو رہا ہے کہ امریکا یورپ سے کہہ رہا ہے کہ اپنے دفاع پر زیادہ خرچ کرتے ہوئے ذمے داری اُٹھاؤ۔پچھلی تمام امریکی حکومتیں نیٹو اتحاد میں نئے یورپی ممالک کو شامل کر کے روسی سرحدوں کے قریب سے قریب ہونے کی کوشش کرتی نظر آئیں۔یوکرین کی سرحدیں روس سے ملتی ہیں۔اگر یوکرین نیٹو اتحاد کا ممبر بن جائے تو نیٹو افواج روس کی سرحدوں پر پہنچ جاتی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ جب یوکرین نے امریکی اشارے پر نیٹو اتحاد کا ممبر بننے کے لیے درخواست کی تو پہلے تو روس خبردار کرتا رہا اور پھر فروری2022کو یوکرین پر چڑھائی کر دی۔ایسے میں امریکا اور یورپ یوکرین کی پشت پر کھڑے ہو گئے۔اسی پشت پناہی کی بدولت یوکرین اس جنگ کو تین سالوں تک جاری رکھنے میں کامیاب ہوا۔نیٹو ممبرشپ بہرحال نہ ہو سکی اور اب ٹرمپ نے اس تجویز کو سرد خانے میں ڈال دیا ہے۔

 جناب ٹرمپ اور ان کی ٹیم نے شاید یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ روس کو اپنا ہمنوا بنانا ہے۔سرد جنگ سے اب تک امریکا اور یورپ ایک مضبوط بلاک کی طرح متحد رہے ہیں اور روس کو انھوں نے ایک دشمن کے روپ میں دیکھا ہے لیکن جناب ٹرمپ ماضی کی سوچ کو دفن کرتے نظر آتے ہیں۔

بظاہر تو وہ یہ اقدام چین کے خلاف نہیں اٹھا رہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ حالیہ عشروں میں چین ہی امریکا کے نشانے پررہا ہے اور چین کو ہی اصلی حریف گردانا جاتا ہے۔روس،یوکرین جنگ میں چین کی حمایت کا طلب گار رہا ہے۔شمالی کوریا چین ہی کی وجہ سے روس کو فوجی افرادی قوت مہیا کر رہا ہے۔امریکا چاہتا ہے کہ روس اور چین اکٹھے نہ ہوں،ان دونوں بڑے ممالک کے درمیان دوری پیدا ہو تاکہ چین روس بلاک ٹوٹ جائے۔چین کو ہر حال میں Containکرنا امریکا کی پہلی ترجیح ہے۔

28فروری2025 سے پہلے فرانس اور برطانیہ کے حکمرانوں نے واشنگٹن کا دورہ کر کے جناب ٹرمپ اور ان کی ٹیم کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ امریکا یوکرین کی فوجی اور مالی امداد کو جاری رکھتے ہوئے سیکیورٹی گارنٹی دے۔ان دونوں کے دورے کے بعد یوکرین کے صدر زیلنسکی جناب ٹرمپ سے ملنے وائٹ ہاؤس پہنچے۔ چونکہ صدر ٹرمپ،زیلنسکی کے خلاف بولتے رہے تھے۔

اس لیے زیلنسکی کو بہت حد تک مشکلات کا علم تھا لیکن اوول آفس کی پریس کانفرنس میں جو کچھ ہوا اس کا کسی کو بھی ادراک نہیں تھا۔امریکی نائب صدر نے زیلنسکی کو باور کرایا کہ صدر ٹرمپ یوکرین کو انتہائی تباہ کن ہتھیار مہیا نہ کرتے تو یوکرین چند دنوں میں ہی ڈھیر ہو جاتا۔ صدرٹرمپ نے کہا کہ آپ جنگ بندی سے انکار کر رہے ہیں۔یہ بھی کہا کہ آپ جنگ جاری رکھ کر تیسری عالمی جنگ کا جوا کھیل رہے ہیں۔

صدر زیلنسکی تھوڑی ہی دیر میں سمجھ گئے کہ ماحول انتہائی ناخوشگوار اور Hostile ہے،کہ اب انھیں اسی پریس کانفرنس کے حوالے سے یاد رکھا جائے گا۔اس لیے انھوں نے بہادری دکھائی اور جھکے نہیں۔آخر کار یہ کانفرنس بد مزگی پر ختم ہو گئی۔یوکرین کے صدر کے اعزاز میں ظہرانے کا اہتمام تھا جسے کینسل کر دیا گیا۔یوکرین اور امریکا کے مابین نایاب معدنیاتRare earth minerals کی ڈیل پر دستخط ہونے تھے،یہ ڈیل بھی نہیں ہوئی اور یوکرین کے صدر کو کہہ دیا گیا کہ وہ وائٹ ہاؤس سے چلے جائیں۔کسی مہمان صدر کے ساتھ یہ بہت ہی انوکھا اور غیر معمولی پہلا واقعہ ہے۔

واشنگٹن میں صدر زیلنسکی کی بہت سبکی ہوئی لیکن اس سے یہ ہوا کہ سارے یورپی ممالک یوکرین کی حمایت میں اکٹھے ہو گئے۔یوکرینی صدر بتدریج عوامی مقبولیت کھوتے جا رہے تھے۔جنگ شروع ہونے کے چند مہینے بعد ان کی مقبولیت 78فیصد تھی جو دسمبر2024میں گھٹ کر صرف57فیصد رہ گئی۔امریکا کے دورے کے فوراً بعد یوکرینی عوام اپنے صدر کے ہمنوا بن گئے ہیں۔ان کے خیال میں صدر زیلنسکی نے وائٹ ہاؤس میں یوکرینی مفادات پر کوئی سودا نہیں کیا۔

امریکا،یورپ اور یوکرین تینوںکے لیے ایک پیچیدہ اور مشکل صورتحال ہے۔امریکا یوکرین اور مشرقِ وسطیٰ سے جلد از جلد فارغ ہوکر اپنی تمام تر توجہ اور قوت بحرِ ہند و ساؤتھ چائنا سی کی طرف کرنا چاہتا ہے تاکہ تمام تر وسائل اور فراغت کے ساتھ چین کی روز افزوں قوت و اثر کے سامنے بند باندھ سکے۔امریکا اپنے نیٹو اتحادیوں کو بھی نہیں گنوانا چاہے گالیکن یورپی ڈیمانڈ کو پورا کرنابھی مشکل ہے۔

یورپ کے لیے امریکا کے بغیر یورپی سلامتی اور یوکرین کی جنگ میں کامیابی صرف ایک خواب ہے۔یوکرین جنگ تو ختم کرنا چاہے گا لیکن امریکی سیکیورٹی گارنٹی کے بغیر نہیں۔امریکی حمایت کے بغیر نیٹو کا مستقبل بھی سوالیہ نشان ہو گا۔نیٹو کے بغیر یورپی ممالک کو روس امن سے محروم رکھے گا۔

 اطلاعات کے مطابق امریکا نے یوکرین کی فوجی امداد روک دی ہے۔ یوکرین امریکی فوجی مدد کے بغیر اگلے کچھ ماہ جنگ تو جاری رکھ سکتا ہے لیکن اس کے بعداسلحے کے بغیر خوب پتائی ہوگی۔تمام یورپی ممالک یوکرین کے ساتھ ہیں لیکن یہ سب مل کر بھی سیکیورٹی گارنٹی نہیں دے سکتے۔یہ بھی نظر آ رہا ہے کہ یہ یورپی اتحاد جلدی کمزور ہو جائے گا۔

یوکرینی صدر سبکی کے باوجود وائٹ ہاؤس واپس جا کر نایاب معدنیات ڈیل پر دستخط کے لیے تیار ہیں لیکن امریکا شاید پھر بھی یوکرین کو سیکیورٹی گارنٹی نہ دے۔ساری صورتحال میں صدر پیوٹن شاداں و فرحاں ہونگے۔آنے والے دنوں میںشطرنج کا یہ کھیل انتہائی دلچسپ ہو گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سیکیورٹی گارنٹی یورپی ممالک امریکا یورپ صدر زیلنسکی نیٹو اتحاد کہ امریکا یوکرین کی یوکرین کے وائٹ ہاؤس امریکا کے انھوں نے کے ساتھ کے بغیر رہا ہے

پڑھیں:

پاک بھارت جنگ چھڑی تو امریکا کو دونوں کیساتھ کسی تجارتی معاہدے میں دلچسپی نہیں ہوگی، ٹرمپ

امریکی صدر  ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ پاک بھارت جنگ چھڑی تو امریکا کو دونوں ممالک کے ساتھ کسی تجارتی معاہدے میں دلچسپی نہیں ہوگی۔

امریکا اور پاکستان کے درمیان تجارت سے متعلق ایک اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، جس کے تحت اسلام آباد سے اعلیٰ سطح کا  وفد آئندہ ہفتے امریکا روانہ ہوگا تاکہ دو طرفہ تجارتی تعلقات پر مذاکرات کیے جا سکیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق ان مذاکرات کا مقصد پاکستان کی جانب سے امریکی ٹیرِف میں ممکنہ رعایت حاصل کرنا ہے۔

خبر رساں اداروں کے مطابق ٹرمپ نے جوائنٹ بیس اینڈریوز پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے واضح کیا کہ اگر جنوبی ایشیا کے دو بڑے ممالک بھارت اور پاکستان کسی فوجی تصادم (جنگ) میں الجھتے ہیں تو وہ ایسے کسی بھی تجارتی معاہدے میں دلچسپی نہیں رکھیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم بھارت کے ساتھ ایک تجارتی معاہدے کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں، لیکن خطے کی کشیدگی ہمیں پیچھے کی جانب دھکیل سکتی ہے۔

واضح رہے کہ خطے میں پاک بھارت کشیدگی کے بعد امریکا کی مداخلت سے فریقین جنگ بندی پر رضامند ہوئے ہیں۔

امریکی محصولات (ٹیرف) کی پالیسی پر بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے واضح کیا کہ ان کی حکومت نے عالمی سطح پر نئے ٹیرِف نافذ کیے ہیں، جن کا اثر پاکستان سمیت دنیا کے متعدد ممالک پر پڑا ہے۔

پاکستان کی برآمدات پر ٹیرِف کے باعث 29 فیصد تک اضافی محصولات عائد کیے جا سکتے ہیں، جو معیشت پر گہرے اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔

میڈیا ذرائع کے مطابق پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس نے خبردار کیا ہے کہ اگر یہ ٹیرِف مستقل طور پر لاگو رہے تو برآمدی شعبہ سالانہ 1.1 سے 1.4 ارب ڈالر کا نقصان اٹھا سکتا ہے۔

دوسری جانب بھارت کے وزیرِ تجارت پیوش گوئل نے بھی حالیہ دنوں واشنگٹن کا دورہ کیا تاکہ امریکا کے ساتھ جاری تجارتی مذاکرات میں پیش رفت کی جا سکے۔ دونوں ممالک رواں سال جولائی تک ایک عبوری معاہدے تک پہنچنے کا ہدف رکھتے ہیں۔

رپورٹس کے مطابق بھارت امریکی کمپنیوں کو اپنے وفاقی منصوبوں میں 50 ارب ڈالر سے زائد کی شراکت کی اجازت دینے پر غور کر رہا ہے، جو متوقع تجارتی معاہدے کا اہم جزو ہو سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کا وفد تجارت پر مذاکرات کیلئے آئندہ ہفتے امریکا آ رہا ہے، ڈونلڈ ٹرمپ
  • پاک بھارت جنگ چھڑی تو امریکا کو دونوں کیساتھ کسی تجارتی معاہدے میں دلچسپی نہیں ہوگی، ٹرمپ
  • صدر ٹرمپ نے پاکستان کے اعلیٰ سطحی وفد کی امریکا آمد سے متعلق کیا کہا؟
  • پاکستانی نمائندے آئندہ ہفتے امریکا آرہے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ
  • امریکا اور ایران جوہری پروگرام معاہدے کے قریب ہیں، ہم نے پاکستان اور بھارت کو جنگ سے روکا، ڈونلڈ ٹرمپ
  • ٹرمپ انتظامیہ کا چین کے طلبہ کے ویزے جارحانہ انداز میں منسوخ کرنے کا اعلان
  • روس اور یوکرین کے صدور سے ملاقات کو تیار ہوں ، ڈونلڈ ٹرمپ
  • ٹرمپ کے دیگرممالک پرعائد تجارتی محصولات غیرقانونی قرار
  • یو این سمندروں پر تیسری عالمی کانفرنس میں ٹھوس اقدامات کے لیے پرعزم
  • ٹرمپ کا روسی صدر پیوٹن کو سخت انتباہ: وہ آگ سے کھیل رہا ہے!