Express News:
2025-06-09@16:26:10 GMT

اچھی زندگی

اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT

’’چلیں آپ بیڈ پر لیٹ جائیں‘ انجیکشن کا وقت ہو گیا ہے‘‘ نرس نے کمرے میں داخل ہوتے ہی سختی سے کہا‘ ہم دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر نرس کو دیکھا‘ وہ انجیکشن کا سامان اٹھا کر سامنے کھڑی تھی اور اس کے چہرے پر بیزاری اور تھکاوٹ تھی۔

میں نے گھبرائے ہوئے لہجے میں پوچھا ’’ہم بیڈ پر کیوں لیٹیں‘ ہمیں انجیکشن کیوں لگے گا؟‘‘ اس نے گھور کر ہماری طرف دیکھا اور پھر پوچھا ’’تم دونوں میں مریض کون ہے؟‘‘میں نے اپنے دوست کی طرف دیکھا اور دوست نے میری طرف اور پھر ہم نرس سے مخاطب ہوئے ’’کیا ہم آپ کو مریض دکھائی دے رہے ہیں؟‘‘

نرس نے سختی سے جواب دیا ’’یہ مذاق کا ٹائم نہیں‘ میرے پاس اور بھی مریض ہیں‘ پلیز بیڈ پر آ جائیں‘‘ اب اس کی نظروں کا فوکس میرا دوست تھا‘ مجھے محسوس ہوا نرس اس کی پشت پر انجیکشن ٹھوک کر رہے گی‘ اس نے فوراً ہاتھ جوڑ دیے اور مسکین لہجے میں بولا ’’میری بہن میں مریض نہیں ہوں‘ مریض باہر لان میں سگریٹ پی رہا ہے‘ ہم اس کی عیادت کے لیے آئے ہیں‘‘

نرس کو کرنٹ سا لگا اور غصے سے بولی ’’کیا مریض کیموتھراپی میں سگریٹ پی رہا ہے‘‘ ہم دونوں نے ہاں میں سر ہلا دیا‘ نرس پائوں پٹختی ہوئی باہر چلی گئی‘ ہم دونوں اٹھے اور باہر لان میں آ گئے‘ ہمارا مریض درخت کے سائے میں کھڑا ہو کر سگریٹ پھونک رہا تھا‘ دائیں بائیں اس کے زائرین کھڑے تھے‘ وہ انھیں شعر سنا رہا تھا اور وہ قہقہے لگا رہا تھا‘

مریض نے ہمیں دیکھا اور مسکرا کر کہا ’’چوہدری صاحب آپ بیٹھیں میں سوٹا لگا کر آ رہا ہوں‘‘ ہمیں مریض کی بات پر یقین نہیں تھا لہٰذا ہم وہاں کھڑے رہے‘ مریض نے آخری کش لگایا‘ سگریٹ نیچے پھینکا‘ پائوں سے مسلا اور ہمارے ساتھ اسپتال کے کمرے میں آ گیا‘ ہم نے مریض کو راستے میں نرس کی واردات سنائی۔ 

مریض نے قہقہہ لگا کر بتایا ’’نرس نئی ہو گی‘ پرانی تمام نرسیں مجھے جانتی ہیں‘ دوسرا تم لوگ اپنے چہرے اور حلیے دیکھو‘ تم دونوں شکل سے مریض لگتے ہو‘ شکر کرو وہ زبردستی تم لوگوں کی۔۔۔۔پر انجیکشن نہیں لگا گئی‘‘ ہم نے بھی قہقہہ لگایا اور مریض کے ساتھ کمرے میں آگئے۔ 

اس مریض کا نام سینیٹر مشاہد اللہ تھا‘ یہ دوسری مرتبہ کینسر جیسے موذی مرض کا شکار ہوئے تھے‘ انھیں پہلی مرتبہ 2011میں کینسر ہوا‘ علاج ہوا‘ یہ ٹھیک ہو گئے لیکن پھر دس سال بعد کینسر دوبارہ پھیل گیا اور یہ اسپتال پہنچ گئے لیکن ان کا جذبہ مکمل صحت مند تھا‘ یہ دیکھنے والوں کو شکل سے قطعاً بیمار محسوس نہیں ہوتے تھے‘کیموتھراپی کے دوران سیشن اٹینڈ کرتے تھے اور پورے ملک کو شعروشاعری سے قہقہے لگانے پر مجبور کر دیتے تھے‘ میں نے ان سے سیکھا انسان خواہ کتنا ہی بیمار کیوں نہ ہو لیکن اسے حوصلہ قائم رکھنا چاہیے اور بیمار دکھائی نہیں دینا چاہیے۔

میری طالب علمی کے دور میں ایک مشہور پامسٹ ہوتے تھے‘ ایم اے ملک‘ پنجاب یونیورسٹی کے قریب وحدت روڈ پر ان کا گھر تھا‘ میں ان دنوں شدید ڈپریشن سے گزر رہا تھا‘ میں اس فیز میں ان کے گھر چلا گیا‘ وہ گھر کے چھوٹے سے لان میں بیٹھے تھے‘ میں ان سے ملا‘ انھوں نے میرے ہاتھ کے پرنٹس لیے اور اس کے بعد ہنس کر کہا ’’بیٹا تم جب میرے گھر میں داخل ہوئے تو تمہارے کندھے جھکے ہوئے تھے‘ سینہ اندر تھا اور گردن آگے کی طرف گری ہوئی تھی۔ 

میں نے بڑے عرصے بعد اتنا ڈپریس نوجوان دیکھا‘ آپ پامسٹری اور پام ریڈنگ کو چھوڑو‘ میں تمہیں ایک مشورہ دیتا ہوں‘ انسان کی اندرونی صورت حال کتنی ہی بری کیوں نہ ہو لیکن وہ اس کے چہرے اس کے جسم سے نظر نہیں آنی چاہیے‘ آپ کے اندر کیا چل رہا ہے اسے ہمیشہ اندر چھپا کر رکھو‘ باہر سے سر اٹھا کر‘ سینہ پھلا کر پورے اعتماد کے ساتھ چلو‘ تمہاری زندگی اچھی گزرے گی۔

میں نے یہ بات پلے باندھ لی اور وہ دن ہے اور آج کا دن ہے میں کبھی گردن اور سر جھکا کر نہیں چلتا‘ حالات جو بھی ہوں میں انھیں کبھی اپنی چال‘ اپنے چہرے اور اپنی آواز میں نہیں آنے دیتا‘ مشاہد اللہ کی نرس نے مجھے اس دن ایک بار پھر ایم اے ملک یاد کرا دیا اور مجھے محسوس ہوا شاید ہمارے چہرے بیمار دکھائی دیتے ہیں۔

جب کہ مشاہد اللہ نے اپنی بیماری اپنے چہرے پر بھی نہیں آنے دی‘ اس کے جسم میں کینسر کتنا پھیل چکا ہے ‘یہ کتنا کم زور ہو گیا ہے اور اس کے بدن میں کہاں کہاں درد ہوتا ہے یہ اسے اپنے چہرے تک نہیں آنے دے رہا اور یہ اس کا کمال ہے۔

میں نے ظہیر الدین بابر کے بارے میں پڑھا تھا اسے ایک بار جسم پر خارش ہو گئی‘ خارش اتنی شدید تھی کہ اگر کوئی کپڑا اس کے جسم سے چھو بھی جاتا تھا تو اس کے منہ سے چیخ نکل جاتی تھی‘ اس کے مخالف شیبانی خان کو پتا چلا تو وہ عیادت کے بہانے اس کی تکلیف انجوائے کرنے کے لیے آ گیا‘ بابر کو اطلاع ہوئی تو اس نے سر سے لے کر پائوں تک شاہی لباس پہنا‘ سر پر تاج رکھا اور دربار میں آ کر اس کے سامنے بیٹھ گیا۔ 

شیبانی خان سارا دن اس کے ساتھ بیٹھا رہا‘ اس نے کھانا بھی اس کے ساتھ کھایا لیکن بابر نے اپنی تکلیف اپنے چہرے اور آواز تک نہیں آنے دی یہاں تک کہ آخر میں شیبانی خان مایوس ہو کر چلا گیا‘ مہمان جوں ہی محل سے نکلا‘ بابر نے فوری طور پر اپنا سارا لباس اتار کر پھینک دیا‘ پورے دربار نے دیکھا‘ اس کا پورا جسم سرخ تھا اور اس پر بڑے بڑے آبلے بن چکے تھے اور وہ سارا دن انھیں برداشت کرتا رہا تھا۔

میرے ساتھ خود ایک عجیب واقعہ پیش آیا تھا‘ راولپنڈی میں میرے ایک دوست ہوتے تھے‘ میں لاہور میں رہتا تھا‘ ان سے خط اور فون کے ذریعے رابطہ رہتا تھا‘ مجھے انھوں نے بہت اصرار کر کے راولپنڈی بلایا‘ سردیوں کا موسم تھا‘ کڑاکے کی سردی پڑ رہی تھی‘ میں بس کے ذریعے بڑی مشکل سے ان کے گھر پہنچا لیکن خلاف معمول ان کے رویے میں گرم جوشی نہیں تھی‘ انھوں نے بڑے ڈھیلے انداز سے میرے ساتھ ہاتھ ملایا‘ مجھے بٹھایا‘ کھانا کھلایا اور چائے پلائی‘ وہ میری خدمت کر رہے تھے لیکن مجھے اس خدمت میں حرارت محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ 

میں تین گھنٹے ان کے پاس بیٹھا رہا‘ ان سے گپ لگاتا رہا‘ وہ میرا ساتھ بھی دیتے رہے لیکن مزا نہیں آیا‘ میں نے آخر میں ان سے تکلفاً کہا‘ آپ مجھے اجازت دیں‘ میں واپس لاہور چلا جاتا ہوں‘ میرا خیال تھا وہ مجھے رکنے کا کہیں گے مگر توقع کے خلاف انھوں نے کہا ’’جیسے آپ کی مرضی‘‘ مجھے بہت برا لگا اور میں ان سے مل کر لاہور واپس چلا گیا۔ 

واپسی کا سفر بہت اذیت ناک تھا‘ بہرحال قصہ مختصر میرا دل ٹوٹ گیا اور میں نے ان سے قطع تعلق کر لیا‘ دس بارہ سال بعد ان سے سرراہ ملاقات ہوئی تو میں نے شکوہ کیا‘ وہ خاموشی سے سنتے رہے۔ 

میں جب اپنی بھڑاس نکال چکا تو وہ آہستہ سے بولے ’’جاوید صاحب میں آپ سے شرمندہ ہوں‘ میں نے خود آپ کو بلایا تھا لیکن جس وقت آپ میرے گھر پہنچے تھے اس وقت تازہ تازہ میرے بیٹے کا انتقال ہوا تھا‘ میرے گھر میں میت پڑی تھی‘ میں نہیں چاہتا تھا آپ کو پتا چلے اور آپ کی چھٹی خراب ہو جائے چناں چہ میں نے اپنی بیوی کو سختی سے کہا اندر سے رونے کی آواز نہیں آنی چاہیے‘ میرے مہمان کو ڈسٹرب نہیں ہونا چاہیے‘ میری بیوی نے اس صورت حال میں چائے بھی بنائی اور کھانے کا بندوبست بھی کیا۔ 

میں بھی آپ کے ساتھ گپ لگاتا رہا لیکن باپ ہوں گفتگو کے دوران میرا مائنڈ آف ہو جاتا تھا‘ آپ نے یقینا اسے سردمہری سمجھا ہو گا بہرحال قصہ مختصر آپ جوں ہی رخصت ہوئے‘ میں اور میری بیوی سیدھے بیٹے کی لاش پر گئے اور اس سے لپٹ کر دھاڑیں مار مار کر روئے‘ ہم نے اپنے رشتے داروں اور عزیزوں کو بھی اس کے بعد اطلاع دی‘میرے دوست اس کے بعد پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے جب کہ مجھ پر سکتہ طاری ہو گیا اور میں ان کے پائوں میں بیٹھ گیا۔ 

آپ اس شخص کا حوصلہ دیکھیں وہ اس حالت میں بھی میری خدمت کرتا رہا تھا‘ میرے لطیفے اور واہیات گفتگو سنتا رہا تھا اور اس نے اپنے دکھ کو اپنے چہرے‘ اپنی آنکھوں تک نہیں آنے دیا تھا۔

میری زندگی کا نچوڑ ہے دنیا کو ہمارے دکھوں اور تکلیفوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا لہٰذا ہمیں چاہیے ہم اگر بیمار ہیں تو مشاہد اللہ کی طرح اپنی بیماری کو گردن سے نیچے چھپا لیں‘ اسے چہرے پر نہ آنے دیں‘ ہم اگر غریب ہیں تو غربت ہماری شکل اور ہمارے جسم پر دکھائی نہیں دینی چاہیے۔ 

ہم اگر ناکام ہیں تو ناکامی ہمارے حلیے‘ ہماری صورت پر نہیں آنی چاہیے‘ ہم اگر خوف زدہ ہیں تو خوف ہماری آواز‘ ہماری آنکھوں اور ہماری شکل پر نظر نہیں آنا چاہیے اور ہم اگر جاہل ہیں تو بھی ہماری جہالت ہماری صورت اور ہماری گفتگو تک نہیں پہنچنی چاہیے‘ یقین کریں زندگی اچھی گزرتی ہے ورنہ لوگ لوگوں کو جیتے جی دفن کر کے چلے جاتے ہیں۔
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مشاہد اللہ دیکھا اور اپنے چہرے انھوں نے نہیں آنے رہا تھا تھا اور کے ساتھ تک نہیں نہیں ہو اور ہم اور اس ہم اگر ہیں تو

پڑھیں:

مریخ کی کھوج۔۔۔۔

انسان کی فطرت میں ہمیشہ سے خلاء کی گہرائیوں میں جا کر نئی دنیاؤں کی تلاش کرنا شامل رہا ہے۔ مریخ، جسے ریڈ پلانٹ یا سرخ سیارہ بھی کہا جاتا ہے، ہماری زمین کے سب سے قریبی ہمسایہ سیاروں میں سے ایک ہے۔

مریخ کی خصوصیات، جیسے اس کی زمین سے ملتی جلتی ساخت، پانی کی ممکنہ موجودگی، اور موسمیاتی حالات نے اسے تحقیق اور ممکنہ انسانی آبادکاری کا مرکز بنا دیا ہے۔ مریخ پر پانی کی موجودگی کی دریافت نے سائنس کی دنیا میں انقلاب برپا کیا ہے کیوںکہ پانی زندگی کی بنیادی شرط ہے۔ یہاں ہم مریخ پر پانی کی دریافت، اس کے سائنسی اور عملی اثرات، جدید خلائی مشنز، اور مستقبل میں مریخ پر انسانی بستی کے امکانات کا تفصیلی جائزہ لیں گے۔

مریخ کی تحقیقات نے حال ہی میں ایک اہم انکشاف کیا ہے جو ہمارے سرخ سیارے کی تفہیم میں ایک نئی تبدیلی لاسکتا ہے۔ یورپی خلائی ایجنسی کی مارس ایڈوانسڈ ریڈار فار سبسرفیس اینڈ آیونوسفیرک ساؤنڈنگ (MARSIS) نے مریخ کی سطح کے نیچے خط استوا کے قریب ایک وسیع پانی کے ذخیرے کی دریافت کی ہے، جو زمین کے سرخ سمندر کے سائز کے برابر ہے۔ یہ غیر معمولی دریافت مستقبل کی مریخی مشنوں کے لیے نئی راہیں ہموار کرتی ہے اور اس سیارے کی ہائیڈرو لوجیکل تاریخ کو سمجھنے میں مدد کرتی ہے۔

سائنس دانوں نے میڈوسا فوسے کی تشکیل (MFF) کے نیچے ایک وسیع آئس سے بھرپور ذخیرہ متعین کیا ہے، جو کہ مریخ کے خط استوا کے قریب واقع ایک جغرافیائی ڈھانچا ہے۔ یہ پانی کا ذخیرہ 2.7 کلومیٹر کی گہرائی تک پھیلا ہوا ہے، جو پچھلی سائنسی تخمینوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ اگر یہ آئس پگھل جائے تو یہ ممکنہ طور پر تقریباً 2.7 میٹر پانی کے ساتھ پورے مریخی سطح کو بھر سکتی ہے۔

’’ہم نے مارس ایکسپریس کی MARSIS ریڈار کے حالیہ ڈیٹا کا دوبارہ جائزہ لیا اور دریافت کیا کہ ذخائر ہماری ابتدائی توقع سے بھی زیادہ موٹے ہیں۔‘‘ تھامس واٹرز، تحقیق کے مصنف اور اسمتھسن انسٹیٹیوشن کے محقق نے وضاحت کی۔ اس دریافت کی اہمیت کو کم نہیں کیا جاسکتا، کیوںکہ یہ مریخ کی قابلیت کے بارے میں اہم بصیرت فراہم کرتی ہے کہ یہ ممکنہ طور پر مستقبل کی انسانی مشنز کی حمایت کر سکتا ہے۔

ایم ایف ایف (MFF) کے اندر برف کی موجودگی کی تصدیق اس کے بعد ہوئی جب ریڈار اسکینز نے ایک ایسی ساخت ظاہر کی جو غیرمعمولی کثافت رکھتی ہے اور ریڈار سگنلز کے لیے شفاف ہے۔ سائنس داں اب اس چیلینج کا سامنا کر رہے ہیں کہ یہ آئس کے ذخائر کب بنے اور اس وقت مریخ کے ماحول کیسا تھا۔

ایس اے کی مارس ایکسپریس اور ایکسو مارس ٹریس گیس آربٹر کے پروجیکٹ سائنس داں کولن ولسن نے ایک اہم سوال پوچھا:’’یہ آئس کے ذخائر کب بنے، اور اس وقت مریخ کیسا تھا؟‘‘ یہ سوال انتہائی اہم بنتا جا رہا ہے کیوںکہ ہم سرخ سیارے کا دورہ کرنے کی ٹیکنالوجیوں کو ترقی دے رہے ہیں، جس طرح ناسا زمین کے قریب موجود اشیاء کی نگرانی کرتا ہے۔

ایم ایف ایف (MFF) کا سطح خلا کے مشنوں کے لیے اہم اترنے کی مشکلات پیش کرتا ہے۔ ایک موٹی دھول یا راکھ کی تہہ آئس کے ذخائر پر موجود ہے، جو خلا کی عظیم راہوں کے لیے ایک پیچیدہ سرزمین تخلیق کرتی ہے۔ تاہم، یہ دھول والا پوشش خود منفرد تحقیقی مواقع فراہم کرتا ہے۔

سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ دھول سے بھرپور ذخائر، جو ہوا کے ذریعے تیز وادیاں بنائی گئی ہیں، نے مریخ کے ماحول پر ملینوں سالوں سے اثر ڈالا ہے۔ ’’مریخ کی موسمی تاریخ کو سمجھنا قیمتی موازناتی ڈیٹا فراہم کرتا ہے۔ یہ دریافت مریخ کی پانی کی تاریخ کے بارے میں پچھلی نظریات کی تصدیق کرتی ہے۔‘‘ ولسن نے بیان کیا۔ جیسے چاند کی مشاہدات نے حیران کن جیولوجیکل خصوصیات کو ظاہر کیا، مریخ بھی ایسے غیرمتوقع انکشافات کو فراہم کرتا ہے جو planetary science کو نئی شکل دیتے ہیں۔

یہ پانی کا ذخیرہ دریافت مستقبل کی مارس مشن کی منصوبہ بندی اور تحقیق کی ترجیحات پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔ سائنس دانوں کو اب ان آئس کے ذخائر کی درست ترکیب کا تعین کرنا ہے اور چیلینجنگ سطحی حالات کے باوجود انہیں حاصل کرنے کے لیے حکمت عملی تیار کرنی ہے۔ یہ دریافت کائناتی مظاہر اور سیاروی تشکیل کے بارے میں اہم سراغ فراہم کرتی ہے۔

اس طرح کے وسیع پانی کے وسائل کی موجودگی مستقبل میں انسانوں کے مریخ پر بسانے کے امکانات کو کافی بہتر بناتی ہے۔ انسانی تاریخ کے دوران، پانی کی رسائی نے بسانے کے نمونوں کا تعین کیا ہے، اور مریخ کی کھوج بھی اسی اصول کی پیروی کرتی ہے۔ جیسا کہ زمین پر محفوظ قدیم نمونے تاریخی بصیرت فراہم کرتے ہیں، مریخ کے پانی کے ذخائر بھی سیارے کے ماضی کا ایک جھلک فراہم کرتے ہیں۔

جیسی جیسے ٹیکنالوجی میں ترقی ہو رہی ہے اور مزید مشن سرخ سیارے کی جانب نشانہ بنا رہے ہیں، مریخ کے ہائیڈرو لوجیکل نظام کو سمجھنے کی ہماری قابلیت بھی بڑھتی جائے گی، ممکنہ طور پر مزید پانی کے ذخائر کا انکشاف ہوگا اور ہمارے سیاروی ہمسائے کے بارے میں ہماری تفہیم کو مزید تبدیل کرے گا۔

مریخ پر پانی کی برف کی موجودگی انسانی آبادکاری کے لیے کئی اہمیت رکھتی ہے۔ درج ذیل نکات میں ان اہمیتوں کا تجزیہ کیا گیا ہے:

پانی کی رسائی

  پینے کا پانی: مریخ کی سطح کے نیچے موجود پانی کی برف انسانی آبادی کے لیے ایک مستقل پینے کے پانی کا ذریعہ فراہم کر سکتی ہے۔ یہ پانی خلا میں جانے والے مشن کے دوران بنیادی ضروریات میں سے ایک ہے، اور اس کی دستیابی انسانی زندگی کو ممکن بناتی ہے۔

زرعی مقاصد: اگر پانی کے ذخائر کو مؤثر طریقے سے نکالا جا سکے تو زمین پر زراعت کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، جس سے انسانی آبادی کے غذائی ضروریات پوری کرنے میں مدد ملے گی۔

ایندھن کی پیداوار

ہائڈروجن اور آکسیجن: پانی کو الیکٹرو لائسس (electrolysis) کے ذریعے ہائڈروجن اور آکسیجن میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ یہ ہائڈروجن راکٹ فیول کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے، جو خلا میں نئی مہمات کے لیے ایندھن فراہم کرے گا۔

اسٹیریواسکیپک: مریخ پر برف کے پانی کا استعمال آئندہ کی مشنز میں ایندھن کی تیاری کے لیے بھی موثر ثابت ہو سکتا ہے، جس سے زمین کی جانب موجود ایندھن پر انحصار کم ہوگا۔

آکسیجن کی پیداوار

سانس لینے کے لیے آکسیجن: پانی کی موجودگی انسانی آبادکاری کے لیے آکسیجن کی پیداوار میں اہمیت رکھتی ہے۔ جب پانی کو ہائڈروجن اور آکسیجن میں تقسیم کیا جاتا ہے، تو یہ آکسیجن انسانی زندگی کے لیے بنیادی عنصر ہے۔

موسمی حالات کی بہتری

آب و ہوا میں تبدیلی: اگر مریخی آبادی میں بڑی مقدار میں پانی کا استعمال کیا جائے تو یہ ممکنہ طور پر مریخ کے مقامی موسمی حالات پر بھی اثر ڈال سکتا ہے۔ یہ زمین کے قریب ہونے کی صورت میں ممکنہ آب و ہوا کو بھی متاثر کر سکتا ہے، لہذا مریخ کی آب و ہوا کا مطالعہ بھی اہم ہے۔

انسانی مشنز کی سادگی

لاجسٹک چیلینجز کی کمی: پانی کی برف کی موجودگی سے انسانی مشن کی منصوبہ بندی اور عمل درآمد آسان ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے زمین سے پانی لانے کی ضرورت نہیں رہے گی، جس سے مشن کی لاگت اور سادگی میں اضافہ ہوگا۔

زندگی کی ممکنہ علامات

ماضی میں زندگی کے نشانات:پانی کی موجودگی ہمیں یہ سمجھنے میں مدد کر سکتی ہے کہ آیا مریخ پر کبھی زندگی موجود تھی۔ اگر کبھی زندگی موجود رہی تو یہ معلوم کرنا کہ یہ کب اور کیسے موجود تھی، تحقیق کے لیے بہترین موقع ہوگا۔ اگر مریخ پر زندگی کے آثار ملتے ہیں، تو اس کے نتائج بہت وسیع اور اہم ہو سکتے ہیں۔ یہاں کچھ ممکنہ نتائج کی تفصیل دی گئی ہے:

.1  سائنسی نقطہ نظر: مریخ پر زندگی کے آثار ملنے سے ہماری کائنات کے بارے میں سمجھ بوجھ میں زبردست اضافہ ہوگا۔ یہ ہمیں یہ سمجھنے میں مدد فراہم کرے گا کہ کیا زندگی صرف زمین پر ہی ممکن ہے یا کہ یہ دیگر سیاروں پر بھی وجود رکھ سکتی ہے۔

.2  ایولوشنری بیلنس: اگر ہم دریافت کریں کہ مریخ پر زندگی موجود تھی، تو یہ اس بات کا ثبوت ہوگا کہ مزید کئی سیاروں پر زندگی کا وجود ممکن ہے۔ اس سے زندگی کے وقوع اور ایولوشن کے متعلق ہماری نظریات میں تبدیلی آ سکتی ہے۔

.3  تکنیکی ترقی: مریخ پر زندگی کے آثار کی تحقیق نئی ٹیکنالوجیز کی ترقی کی راہ ہموار کر سکتی ہے، جو خلائی مشنز، روبوٹکس، اور دیگر سائنسی فیلڈز میں نئی پیشرفتوں کا باعث بنیں گی۔

.4  معاشرتی اثرات: یہ خبر زمین پر انسانی معاشرتی سوچ پر بھی گہرے اثر ڈال سکتی ہے۔ لوگ زندگی کے بارے میں اپنے عقائد پر سوال اٹھا سکتے ہیں اور مذہبی نظریات میں تبدیلی آ سکتی ہے۔

.5  بین الاقوامی تعاون: مریخ پر زندگی کے آثار کی دریافت عالمی سطح پر سائنس دانوں کے درمیان تعاون کو فروغ دے سکتی ہے، جس سے مختلف ممالک میں مشترکہ تحقیقی کوششوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

.6  پرہیزی اقدامات: اگر واقعی کسی قسم کی زندگی موجود ہو تو اس کے تحفظ کے لیے نئی قوانین اور اقدامات کی ضرورت پڑ سکتی ہے، تاکہ مکمل تحقیقات کے دوران کسی بھی قسم کی موجودہ زندگی کو نقصان نہ پہنچے۔

.7  کائناتی نقطہ نظر: اگر مریخ پر زندگی کے آثار ملتے ہیں تو یہ ہماری نظر میں کائنات کے مختلف گوشوں میں زندگی کے امکان کو بڑھاتی ہے، اور ممکنہ طور پر دیگر سیاروں اور چاندوں کی مہمات کی طرف توجہ مبذول کراتی ہے۔

ان تمام نتائج کی بناء پر، مریخ پر زندگی کے آثار ملنے کا مطلب انسانی تجربات، سائنسی تلاش، اور معاشرتی تصورات میں نئی جہتوں کا آغاز ہوگا۔

مقامی مواد کا استعمال

اسٹرکچر کی تعمیر: پانی کے ذخائر کا استعمال مقامی مواد کے استعمال کے لیے بھی ممکن ہے۔ مثال کے طور پر، پانی کو بڑھتے ہوئے بنڈلنگ اور تعمیراتی مواد کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے، جو انسانی آبادکاری کے لیے مقامی سٹرکچر بنانے میں مددگار ثابت ہوگا۔

سائنسی تحقیق کا موقع

جدید سائنسی تجربات: یہ پانی کے ذخائر نہ صرف انسانی آباد کاری کے لیے اہم ہیں بلکہ سائنسی تحقیق کے لیے بھی ایک مواقع فراہم کرتے ہیں۔ مریخی پانی کی خصوصیات کا مطالعہ زمین کی ہائیڈرولوجی کے بارے میں بھی ہماری سمجھ کو بڑھا سکتا ہے۔ مریخ پر پانی کی برف کی دریافت انسانی ترقی، زندگی کی ممکنہ نشوونما، اور مستقبل کی خلابازوں کے لیے ایک بنیادی سبب بن سکتی ہے۔ یہ کی موجودگی سرگرمیوں کو ممکن بناتی ہے جو انسانی آباد کاری کی راہیں ہموار کر سکتی ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ مریخ کی کھوج اور تحقیق میں یہ ایک اہم یا نمایاں سنگ milestone ہے۔ جیسے جیسے مزید مشن ہورہے ہیں، ہم یہ امید کر سکتے ہیں کہ اس پانی کے استعمال کے متعلق مزید معلومات حاصل ہوں گی جو مریخ پر انسانی زندگی کے امکانات کو روشن کر سکتی ہیں۔

تحقیق کا پس منظر

مریخ پر مختلف مشنوں کے تجربات نے ہمارے لیے سیارے کی جغرافیائی، کیمیائی، اور ممکنہ حیات کے بارے میں اہم معلومات فراہم کی ہیں۔ ذیل میں کچھ اہم مشنوں کے تجربات اور ان کی دریافتوں کی تفصیل دی گئی ہے:

مارس 3

سخت ناکامی اور پہلا لینڈنگ: یہ سوویت مشن 1971 میں مریخ پر اترا، لیکن یہ صرف 20 سیکنڈ کے لیے کام کر سکا۔ اس نے پہلی بار مریخ کی سطح پر لینڈنگ کا تجربہ کیا، اگرچہ اس کی کامیابی محدود رہی۔

وائکنگ 1 اور وائکنگ 2

1970 کی دہائی میں ان مشنز نے مریخ کی سطح پر پہلے ناکام تجربات کیے کہ آیا وہاں زندگی موجود ہے یا نہیں۔ وائکنگ مشنز نے سائنسی آلات کے ذریعے مٹی کے نمونوں کے تجزیے کے تجربات کیے، جن میں کوئی واضح شواہد نہیں ملے۔ تاہم، انہوں نے نیچے کی سطح کی کیمیائی ترکیب کے اہم ڈیٹا فراہم کیے۔

یورپی خلائی ایجنسی (ESA) نے مارچ 2005 میں Mars Express مشن کا آغاز کیا جس میں  Mars Advanced Radar for Subsurface and Ionospheric Sounding (MARSIS کا استعمال کیا گیا۔ اس ریڈار نے مریخ کی سطح کے نیچے مواد کی تعیین کرنے کی صلاحیت فراہم کی، اور اس کی مدد سے اس بڑی آئس کی تہہ کی دریافت ممکن ہوئی۔ جیسے جیسے مزید مشنز کی منصوبہ بندی ہوتی ہے، یہ امید کی جاتی ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ہم مزید دل چسپ دریافتیں حاصل کریں گے۔ مریخ مشنز کے لیے استعمال ہونے والی روبوٹکس ٹیکنالوجیز کی مختلف اقسام موجود ہیں، جو مشن کی کامیابی اور مریخ کی سطح پر تحقیق کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ یہ ٹیکنالوجیز کئی مختلف کاموں کے لیے ڈیزائن کی گئی ہیں، جیسے کہ سائنسی تحقیقات، مواد کی نقل و حمل، اور انسانی مشن کی حمایت۔ یہاں کچھ اہم روبوٹکس ٹیکنالوجیز کی تفصیلات دی گئی ہیں:

روورز

پرسیورینس روور: ناسا کا یہ روور مریخ کی سطح پر مواد کی جانچ، زمین کی ساخت کا تجزیہ، اور ممکنہ ماضی کی زندگی کے آثار کی تلاش کے لیے ایک جدید مشین ہے۔ اس میں جدید کیمرے، میکانی بازو، اور مختلف سائنسی آلات شامل ہیں۔

کیوریوسٹی روور

یہ 2012 میں مریخ پر اترا تھا اور اس کا مقصد مریخ کی ماضی کی قابل رہائشی زندگی کا مطالعہ کرنا ہے۔ اس کے پاس ہائی ٹیک سائنسی آلات اور تجزیاتی مشینیں موجود ہیں۔

ڈنرز

ڈریگن فلائی: یہ ناسا کا ایک منصوبہ ہے جو مریخ کے ساتھ ساتھ دیگر سیاروں پر بھی فضائی تحقیق کے لیے ڈرون طیاروں کا استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہ ہوا میں اڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جو سطح کی روشنی کے علاوہ مختلف زمین کی خصوصیات کی جانچ کر سکتا ہے۔

مٹی کے تجزیے کے آلات

میٹرولوجی سنسرز:مریخ پر موجود مختلف روورز میں میٹرولوجی سنسرز شامل ہیں جو ہوا کے دباؤ، درجہ حرارت، اور نمی کی سطح کو مانیٹر کرتے ہیں۔ یہ معلومات ماحولیاتی تبدیلیوں کے بارے میں بصیرت فراہم کرتی ہیں۔

مٹی اور پتھر کی شناخت

پکسل اور انسپکٹر: یہ آلات مختلف نوعیت کے پتھر، مٹی اور معدنیات کو شناخت اور تجزیہ کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ ان میں لیزر اور اسپیکٹروسکوپی ٹیکنالوجیز شامل ہیں، جو مواد کے کیمیائی اجزاء کو جانچنے کی اجازت دیتے ہیں۔

کمپیوٹر وژن

نیویگیشن اور راستے کی مشینری:مریخ کے مشن میں خودکار نیویگیشن کی تسلسل اور درستگی میں اضافہ کرنے کے لیے کمپیوٹر وڑن ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی روور کو مریخ کی سطح پر مستقل طور پر چلنے اور رکاوٹوں سے بچنے میں مدد دیتی ہے۔

خود کار نظام

ذاتی مشینری:یہ مکمل خودمختار نظام ہیں جو مریخ کی سطح پر مخصوص کام انجام دیتے ہیں، جیسے کہ علاقے کی صفائی، مواد کی کھدائی، یا مخصوص سائنسی مشاہدات کرنا۔ یہ مشینیں بغیر انسانی مداخلت کے کام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

 مکینیکل بازو

سائنسی اور انجنیئرنگ کے کام:روورز کے مکینیکل بازو مختلف سائنسی آلات کے ساتھ مل کر زمین کی سطح سے نمونے لینے، مواد کو منتقل کرنے اور سائنسی تجربات کرنے میں مدد دیتے ہیں۔

معلوماتی نیٹ ورکس

رابطہ قائم کرنے کا نظام: روبوٹکس ٹیکنالوجیز میں مختلف مزاحمتی رابطوں کے نیٹ ورکس شامل ہوتے ہیں جو زمین اور خلا میں موجود دیگر آلات کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کے لیے موثر طریقے مہیا کرتے ہیں۔

کیمرے اور سونار

سائنسی تصویر کشی:مریخ کی سطح کی سائنسی تصویرکشی کے لیے مختلف کیمرے اور سونار کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ تصاویر مریخ کی جغرافیائی خصوصیات اور ممکنہ زندگی کے آثار کی تلاش کے لیے مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔

بیٹری اور توانائی کے نظام

توانائی ذخیرہ کرنے کی ٹیکنالوجی: مریخ کی سطح پر کام کرنے والے روبوٹکس آلات میں مستقل توانائی فراہم کرنے کے لیے جدید بیٹریز اور توانائی کے ذخیروں کا استعمال کیا جاتا ہے۔

اسمال سینیسرز

مختلف سینسرز: جیسے کہ گیس مانیٹرنگ سینسر، درجۂ حرارت اور نمی کے سینسر وغیرہ، مریخ کی سطح پر ماحولیاتی حالات کی نگرانی کے لیے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ سینسرز ریئل ٹائم میں معلومات فراہم کرتے ہیں جو تحقیق اور مشن کی کارکردگی میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔

دور بین

مقامی مناظر کی تفصیل: دوربینیں اور فوٹوگرافی کی ٹیکنالوجیز مختلف جغرافیائی خصوصیات کا مشاہدہ کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں، جیسے کہ وادیاں، پہاڑ، اور ممکنہ پانی کے ذخائر۔

 کنٹرول کا نظام

خودکار نیویگیشن سافٹ ویئر:روبوٹکس آلات میں پیچیدہ سافٹ ویئر نیویگیشن سسٹمز شامل ہوتے ہیں جو مشینوں کے راستے کی منصوبہ بندی کرنے، رکاوٹوں سے بچنے اور مریخ کی سطح پر مستقل حرکت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ٹیمپریچر اور ماحولیاتی مانیٹرنگ

انفرا ریڈ اور UV کیمرے: یہ کیمرے مختلف ماحولیاتی حالات جیسے درجۂ حرارت، گرمی کی ترسیل، اور تابکاری کی سطح کی نگرانی کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ 

مکینیکل انجن اور ڈرائیورز

مریخی روورز کے اندر مکینیکل انجن: مختلف روورز میں مخصوص مکینیکل پارٹس شامل کیے گئے ہیں جو انہیں مریخ کی سطح پر ہموار اور مشکل دونوں جگہوں پر چلنے کی اجازت دیتے ہیں۔

روبوٹ کا تعاون

 مل کر کام کرنے والے روبوٹ: مختلف روبوٹیک آلات کو ایک ساتھ کام کرنے کے لیے ڈیزائن کیا جاتا ہے، تاکہ وہ مشترکہ طور پر سائنسی تجربات کریں اور معلومات جمع کر سکیں۔

مریخ کے مشن میں ان روبوٹک ٹیکنالوجیز کا استعمال سنگین چیلنجز کا سامنا کرنے اور مختلف سائنسی مقاصد کے حصول کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ جیسے جیسے انسانی مشن کے منصوبے بڑھتے ہیں، یہ ٹیکنالوجیز مزید ترقیاتی مراحل میں جائیں گی اور مریخ کی سطح پر تحقیق کے امکانات کو بڑھائیں گی۔ یہ روبوٹک ٹیکنالوجی سمیت مریخ کا گہرائی سے مطالعہ کرنے، زمین کی وسائل کو دریافت کرنے، اور یہاں ممکنہ انسانی آبادکاری کے سفر کو ممکن بنانے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔ مریخ کی سطح کے نیچے پانی کے ذخائر کی دریافت نے نہ صرف ہمارے موجودہ نظریات میں انقلاب برپا کیا ہے بلکہ یہ مستقبل کی خلائی کھوج میں بھی ایک نیا باب کھولتا ہے۔ یورپی خلائی ایجنسی کی جانب سے کیے گئے تحقیقی کاموں نے ثابت کیا کہ مریخ پر بڑی مقدار میں آئس کی موجودگی ہمارے لیے یہ وضاحت کرتی ہے کہ ممکنہ طور پر یہاں کبھی ماضی میں پانی بہتا تھا۔

یہ نتائج سائنس دانوں کے لیے کئی اہم سوالات کو جنم دیتے ہیں، جیسے کہ:

٭   یہ آئس ذخائر کب بنے؟

٭   اس وقت مریخ کا ماحول کیسا تھا؟

٭   کیا یہ زندگی کے لیے موزوں حالات فراہم کرتے تھے؟

یہ دریافتیں اس لیے بھی اہم ہیں کہ وہ ہمیں مریخ کے ہائیڈرو لوجیکل تاریخ، اس کی موسمی تبدیلیوں، اور ممکنہ طور پر یہاں موجود زندگی کے آثار کے بارے میں تفصیل فراہم کرتی ہیں۔ مزید برآں، پانی کے یہ ذخائر مستقبل کے انسانی مشنوں کے لیے بنیادی وسائل کی حیثیت رکھ سکتے ہیں، مثلاً:

٭   پانی کی رسائی، جو پینے، ہائڈروجن کے ذریعے ایندھن پیدا کرنے، اور آکسیجن کی پیداوار کے لیے ضروری ہو گی۔

جیسا کہ سائنس داں ایڈوانسڈ ٹیکنالوجی اور نئے مشن کی تیاری کر رہے ہیں، یہ ضروری ہو گا کہ وہ نہ صرف پانی کے ذخائر کی نوعیت بلکہ ان کے استعمال کے قابل ہونے کے مختلف طریقوں پر بھی غور کریں۔ مریخ کا مطالعہ مختلف نئی جہتوں پر روشنی ڈالتا ہے، جہاں پر چیلینجز اور مواقع دونوں موجود ہیں۔ یہاں پر مختلف سائنسی تجربات اور مشنز کے ذریعے ہم مریخ کے بارے میں اور بھی تحقیق کرسکتے ہیں۔ اس کی ہائیڈرو لوجی کی تفہیم، اس کا آب و ہوا اور جغرافیہ، اور یہاں زندگی کی موجودگی کی ممکنہ علامات کے مطالعے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اس انتہائی دل چسپ سیارے کی تفہیم میں مزید گہرائی حاصل کر سکیں۔ یہ پانی کا ذخیرہ عالمی سطح پر ہماری کائناتی سمجھ بوجھ کو بھی نئی جہت دیتا ہے، کیوںکہ مریخ کی ہائیڈرو لوجی کی تفہیم ہمیں زمین کے علاوہ دیگر سیاروں کی زندگی کے امکانات کا اندازہ لگانے میں مدد دیتی ہے۔

آخر کار، جب ہم جدید ٹیکنالوجی میں ترقی کرتے ہوئے نئے مشنوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں تو یہ دریافت ہم سب کے لیے ایک امید کی کرن ثابت ہوتی ہے کہ ہمیں محض اپنے سیارے کی حدود سے باہر دیکھنے کے لیے انتہائی دلچسپ مواقع مل رہے ہیں۔ مریخ نہ صرف ہماری زمین کی تاریخ کا ایک آئینہ ہے بلکہ اس کے پاس مستقبل کے نئے جہانوں کے امکانات بھی موجود ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • عباس آفریدی گیس لیکج دھماکے میں جاں بحق نہیں ہوا، بیٹے کو قتل کیا گیا، سابق سینٹیر شمیم آفریدی
  • عباس آفریدی گیس لیکج دھماکے میں جاں بحق نہیں ہوا، بیٹے کو قتل کیا گیا، سابق سینٹر شمیم آفریدی
  • عباس آفریدی گیس لیکج دھماکے میں جاں بحق نہیں ہوا، بیٹے کو قتل کیا گیا، سابق سینٹیر شمیم آفریدی
  • مریخ کی کھوج۔۔۔۔
  • برین ٹیومر کیخلاف عوامی شعور و آگاہی ہی اصل طاقت ہے، مریم نواز
  • برین ٹیومر کیخلاف عوامی شعور و آگاہی ہی اصل طاقت ہے: مریم نواز
  • داعش خراسان کا بی ایل اے کے خلاف اعلانِ جنگ، پاکستان کے لئے اچھی خبر یا بری؟
  • سیکریٹری جنرل اقوامِ متحدہ اور اراکینِ سلامتی کونسل سے اچھی بات چیت ہوئی: جلیل عباس جیلانی
  • تم ہمارے جیسے کیسے ہو سکتے ہو؟
  • ڈاکٹر، مگر کونسا؟