معززشرکائے مجلس،صاحبانِ ایمان، معزز علمائے کرام،دانشورانِ ملت،دلوں کی دھڑکنوں کو چھولینے والی سچائی اورانسانیت کی وحدت کے متلاشی قلوب کیلئے حددرجہ آداب اور ڈھیروں سلامتی کی دعاؤں کے بعدمیں عالمی بین المذاہب کونسل کا تہِ دل سے ممنون ہوں،جنہوں نے صرف ایک تقریب نہیں بلکہ انسانیت کی بقا،دلوں کی قربت،اور ایک پرامن مستقبل کی جانب ایک روشن قدم اٹھایاہے۔آج ہم ایک ایسےعظیم المرتبت اورجلیل القدرنبی کے ذکرِجمیل سے محفل کو منورکررہے ہیں جن کی داستانِ حیات نہ صرف اہلِ اسلام کیلئے باعثِ فخرہے،بلکہ یہودیت و عیسائیت کےپیروکاروں کیلئے بھی ہدایت وبصیرت کاایک درواکرتی ہے۔یہ وہ کہانی ہےجوتینوں آسمانی مذاہب کے دلوں میں دھڑکتی ہے،ایک نبی،ایک دعا،اورایک اندھیراجس سےروشنی نےجنم لیا۔یہ سفرہےمایوسی سے امیدتک،نفرت سے محبت تک، اور فرقوں سے انسانیت کی طرف کا، جس پرآج بھی عمل کرکے اس دنیاکوامن کا گہوارہ بناسکتے ہیں۔
حضرت یونس،جنہیں قرآن میں ذوالنون اورصاحب الحوت کے القاب سے بھی یاد کیا گیا، ان ہستیوں میں سے ہیں جن کاتذکرہ قرآنِ مجید، بائبل اورعبرانی صحائف تینوں میں یکساں تقدیس وتوقیرکے ساتھ ملتاہے۔ان کی زندگی،محض ایک واقعہ نہیں،بلکہ ایک زندہ روحانی درس گاہ ہے۔ایک دعوتِ توبہ،ایک پکارِمحبت،ایک نوائے امن ہے۔آئیے میں سب سے پہلے بحیثیت مسلمان اللہ کے آخری نبیﷺپرنازل آخری کتاب قرآن کریم کے حوالوں سے اپنی گفتگو کا آغاز کرتاہوں جوہمارے آقاکاایک ایسامعجزہ بھی ہےجس کے ہرایک لفظ کی حفاظت کاذمہ خود اس رب کریم نے اپنے ذمہ لیا ہےجس نےقیامت تک آنے والے ہرفرداورانسانیت کیلئے یہ کتاب نازل فرمائی تاکہ ہم اسے اپنی زندگیوں میں نافذکرسکیں اورفلاح پا سکیں۔
حضرت یونس کاقصہ تینوں ابراہیمی مذاہب اسلام،یہودیت،اورعیسائیت میں ایک مشترکہ روحانی میراث کی حیثیت رکھتاہےجو توبہ،رحمت اورانسانی کمزوری کی گہرائیوں کو اجاگر کرتا ہے۔یہ واقعہ نہ صرف مذہبی متون میں بیان ہواہے بلکہ انسانی ضمیراور اخلاقی بصیرت کاآئینہ بھی ہے۔ یہ وہ کہانی ہےجوتینوں آسمانی مذاہب کے دلوں میں دھڑکتی ہے۔ایک نبی، ایک دعا،اورایک اندھیراجس سے روشنی نےجنم لیا۔یہ سفرہے مایوسی سے امیدتک،نفرت سے محبت تک،اورفرقوں سےانسانیت کی طرف۔۔۔۔یہ وہ آوازہے جووقت کی دھول میں گم ہو چکی تھی اورآج اس مجلس میں،وہی آوازایک بارپھر بین المذاہب محبت،احترام اورہم آہنگی کے ترانے کے طورپرگونج رہی ہے۔قرآنِ حکیم میں حضرت یونس علیہ السلام کا ذکر6 سورتوں میں آیاہےجن میں ان کی نبوت،قوم کی نافرمانی،اورمچھلی کے پیٹ میں ان کا قیام شامل ہیں۔ سورہ الصافات کی آیات 139 – 148 میں فرمایا:اوربے شک یونس پیغمبروں میں سے تھے۔جب وہ بھاگ کربھری ہوئی کشتی کی طرف گئے۔پھرقرعہ اندازی کی،تووہ ہارنےوالوں میں سےہوگئے۔ پھرمچھلی نے انہیں نگل لیااوروہ ملامت زدہ تھے۔پھراگروہ تسبیح کرنےوالوں میں سے نہ ہوتے،تووہ قیامت کے دن تک اس کے پیٹ میں رہتے۔پھرہم نے انہیں چٹیل میدان میں پھینک دیااوروہ بیمارتھے۔اورہم نے ان پرکدوکادرخت اگایا۔اورہم نے انہیں ایک لاکھ یااس سے زیادہ لوگوں کی طرف بھیجا۔پھروہ ایمان لائے،توہم نے انہیں ایک مدت تک فائدہ پہنچایا۔ رب کریم نے قرآن کی سورہ نساء آیت163میں ارشادفرمایا:اورہم نے نوح اور ان کےبعدآنےوالےنبیوں کی طرف وحی کی، اورہم نے ابراہیم،اسماعیل،اسحاق،یعقوب ، اسباط،عیسی،ایوب،یونس، ہارون اورسلیمان کی طرف وحی کی، اورہم نے دائود کو زبور عطا کی۔ سورہ الانعام کی آیت86میں فرمایا: اوراسماعیل،الیسع،یونس اورلوط کو(بھی ہدایت دی)، اورہم نے ان سب کوجہان والوں پرفضیلت دی۔ ائیے اورآگے بڑھتے ہیں۔رب کریم قرآن میں سورہ یونس کی آیت98میں فرماتے ہیں: توکوئی بستی ایسی کیوں نہ ہوئی جوایمان لاتی اوراس کاایمان اسے نفع دیتا،سوائے یونس کی قوم کے؟جب وہ ایمان لائےتوہم نےان سے دنیاکی زندگی میں رسوائی کاعذاب دورکردیا اور انہیں ایک مدت تک فائدہ پہنچایا۔
سورہ الانبیاک آیت (87)میں فرمایا: اور ذوالنون(کویادکرو) جب وہ(اپنی قوم سے ناراض ہوکر) غصےکی حالت میں چل دیئےاورخیال کیا کہ ہم ان پرقابو نہیں پاسکیں گے۔ آخر اندھیرے میں(خداکو)پکارنے لگے کہ تیرے سواکوئی معبودنہیں۔توپاک ہے(اور) بیشک میں قصوروار ہوں۔ یہ وہ لمحہ ہے جب نبی اپنی قوم سے دل برداشتہ ہوکرروانہ ہوا،اور مچھلی کے پیٹ میں تین اندھیروں میں گم ہوکررب کوپکارااوررب نے جواب دیا،کیونکہ اس کی رحمت،اس کے غضب پرغالب ہے۔
قرآن کریم میں حضرت یونس کا ذکر ’’صاحِبِ الحوتِ‘‘مچھلی والے کے لقب سے کیا گیا ہے۔ ’’اوراپنے رب کے حکم کیلئےصبرکرو، اورمچھلی والے(یونس)کی مانندنہ ہوجا،جب اس نے غصے میں پکارااوروہ دل ہی دل میں غم سےبھراہواتھا۔ اگراس کے رب کی طرف سے اس پرنعمت نہ ہوتی تواسے میدان میں پھینک دیاجاتا،اوروہ ملامت زدہ ہوتا۔پس اس کے رب نے اسے چن لیا، اور اسے نیکوکاروں میں شامل کردیا‘‘ (القلم:48-50)۔ یعنی یہ آیات ان کے صبر،توبہ و استغفاراوراللہ کی رحمت سے نجات کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
یہ آیات حضرت یونس کے واقعے کو صبروا ستغفار،ندامت اوررب کی رحمت کامکمل آئینہ بناکر پیش کرتی ہیں۔وہ لمحہ جب وہ دل گرفتہ اور غصے میں رب کوپکارتے ہیں،اورپھراللہ کی طرف سے نعمت یعنی مغفرت اورفضل ان پرنازل ہوتاہے۔ یہ اسباق ہرمومن،ہر انسان کیلئےایک روحانی مشعل راہ ہیں۔ان کانام حدیث میں یونس بن امتی آیا ہے۔آگے بڑھنے سے پہلے میرے آقانبی اکرمﷺ کاقول مبارک بھی ملاحظہ فرمائیں: بہت ہی جلیل القدرصحابی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:کسی بندے کے لائق نہیں کہ وہ کہے کہ میں یونس بن امتی سے بہترہوں۔ حضرت یونس کا تذکرہ بائبل کی کتاب یوناہ میں بڑی تفصیل سے ملتاہے۔یہ کتاب چار ابواب پرمشتمل ہے۔ان میں حضرت یونس کی نبوت، ان کانینوا کی طرف بھیجاجانا،ان کافرار ، مچھلی کے پیٹ میں ان کا قیام،اورنینوا کی قوم کی توبہ کاذکرہے۔میں بائبل کی کتاب یوناہ کے چند اہم اقتباسات پیش کرکے اپنامقف آپ کے سامنے رکھ دیتاہوں۔
خداوند کاکلام یونس بن امتی پرنازل ہوا: اٹھ، نینوا،اس عظیم شہر،کی طرف جااوراس کے خلاف منادی کر،کیونکہ ان کی بدی میرے حضور آگئی ہے۔لیکن یونس خداوندکے حضورسے ترسیس کی طرف بھاگ گیا۔(یوناہ:3-1:1 )
تب خداوندنے ایک بڑی مچھلی مقررکی کہ یونس کونگل لے۔اوریونس تین دن اورتین رات مچھلی کے پیٹ میں رہا۔(یوناہ:17:1)
عیسائی اور یہودی متون میں حضرت یونس کو یوناہ کے نام سے جاناجاتاہے۔بائبل کی کتاب یوناہ میں بیان ہےکہ خدانے انہیں نینوہ کی قوم کو خبردارکرنے کاحکم دیا،لیکن وہ فرارہو گئے ۔ ایک طوفان کے دوران،انہیں سمندرمیں پھینک دیا گیا، جہاں ایک بڑی مچھلی نے انہیں نگل لیا۔ (یوناہ:117)
اورخداوندنے ایک بڑی مچھلی کو مقررکیاکہ یوناہ کونگل لے،اوریوناہ تین دن اورتین راتیں مچھلی کے پیٹ میں رہا۔یہاں بڑی مچھلی کا ذکر ہے،نہ کہ ویل یاوہیل کا،جیساکہ بعض ترجموں میں آیا ہے۔اصل عبرانی لفظ(داگ گادول) استعمال ہواہے،جس کامطلب بڑی مچھلی ہے۔
اورخداوندکاکلام یوناہ بن امتی کے پاس پہنچا،کہ اٹھ،نینوہ،اس بڑے شہرکوجا،اوراس کے خلاف منادی کر،کیونکہ ان کی شرارت میرے حضورآ پہنچی ہے۔(یوناہ:11-2)
تب یوناہ نے مچھلی کے پیٹ سے خداوند اپنے خداسے دعاکی،اورکہا’’میں نے اپنی مصیبت میں خداوندکوپکارا،اوراس نے مجھے جواب دیا،میں نے پاتال کے پیٹ سے فریادکی، اورتونے میری آوازسنی۔(یوناہ:21-2)
اوریوناہ شہرمیں داخل ہوکرایک دن کی مسافت تک گیا،اورمنادی کی،اورکہا”چالیس دن کے بعدنینوا الٹ دیاجائے گا۔تب نینوا کے لوگوں نے خداپرایمان لایا،اورروزہ کااعلان کیا، اور بڑے سے لے کرچھوٹے تک نے ٹاٹ پہنا۔ (یوناہ:34-5)(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: میں حضرت یونس نے انہیں اورہم نے یونس کی بن امتی کی طرف
پڑھیں:
بلوچستان میں کتنے بچے اسکولوں سے باہر ہیں اور انہیں تعلیمی اداروں میں واپس کیسے لایا جاسکتا ہے؟ (Eid Story)
بلوچستان پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا مگر تعلیمی لحاظ سے سب سے پسماندہ صوبہ ہے۔ یہاں تعلیمی سہولیات کی کمی، اسکولوں کی ناکافی تعداد، اساتذہ کی غیر حاضری اور والدین میں تعلیم کی اہمیت کا شعور نہ ہونا جیسے عوامل نے تعلیمی ترقی کو سخت متاثر کیا ہے۔ دیگر صوبوں کی نسبت بلوچستان میں اسکول جانے والے بچوں کی شرح کم اور شرح خواندگی بھی نہایت کم ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا کہ بلوچستان میں اسکولوں سے باہر بچوں کی تعداد کیا ہے؟
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان میں 85 فیصد غیر فعال اسکولوں میں تدریس کا آغاز
یہ سوال وی نیوز نے اسکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر ڈیویلپمنٹ، مانیٹرنگ اینڈ ایویلیوایشن منیر احمد سے کیا جنہوں نے بتایا کہ موجودہ تعلیمی صورتحال کے پیش نظر وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے ملک میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی گئی ہے، ملک بھر میں 2 کروڑ 62 لاکھ بچے جبکہ بلوچستان میں 29 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان کی ہدایت پر صوبے میں اسکولوں سے باہر بچوں کو اسکولوں تک لانے کا پروگرام شروع کیا گیا ہے جس کے لیے ہم نے 2 لاکھ 10 ہزار بچوں کو اسکول لانے کا ہدف مقرر کیا جس کے لیے کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔
ڈائریکٹر اسکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ بلوچستان کے مطابق یہ ٹیمیں ایک سال کے دوران 2 لاکھ 26 ہزار 563 طلبا کو اسکول لانے میں کامیاب ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کے رواں ماہ کے اختتام تک ہم ڈھائی لاکھ بچوں کو اسکول لانے میں کامیاب ہو جائیں گے، اس دوران جہاں وزیر تعلیم راحیلہ درانی اور محکمہ تعلیم نے دن رات کوششیں کیں وہیں یونیسف کے تعاون کے بغیر یہ سب ناممکن ہوتا۔
ڈائریکٹر نظامت اسکولز اختر محمد کھیتران نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں بلوچستان کے تعلیمی نظام میں کئی مسائل موجود تھے لیکن محکمہ تعلیم کی کاوشوں اور یونیسف کے مشکور ہیں جنہوں نے بلوچستان میں تعلیمی نظام کو بہتر بنانے میں احسن قردار ادا کیا۔
مزید پڑھیے: محکمہ تعلیم بلوچستان کا 29 لاکھ بچوں کو اسکولوں میں واپس لانے کا عزم، 372 غیر حاضر اساتذہ نوکری سے فارغ
انہوں نے کہا کہ دراصل بلوچستان میں بڑے پیمانے پر بچے اسکولوں سے باہر ہیں جس کی کئی بنیادی وجوہات ہیں جن میں ایک وجہ فاصلے کا زیادہ ہونا سب سے بڑی وجہ تھا جس پر قابو پانے کے لیے ہم نے صوبے بھر کے لیے 140 بسیں منگوائی ہیں جن میں سے 5 آچکی ہیں جبکہ باقی مرحلہ وار پہنچ جائیں گی۔
یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ بلوچستان میں بچوں کے اسکولوں سے باہر ہونے کی کیا وجوہات ہیں؟
پروگرام منیجر ڈائریکٹر آف اسکول ایجوکیشن نقیب اللہ نے بتایا کہ بلوچستان میں تعلیمی صورتحال اب بھی کئی چیلنجز سے دوچار ہے، جہاں اندازاً 30 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ اس تعلیمی پسماندگی کی کئی اہم وجوہات ہیں جن میں غربت، اسکولوں کا طویل فاصلہ، موسمیاتی تبدیلیاں، کورونا کی وبا، روزگار کے مواقع کی کمی، تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی، تقریباً 3 ہزار اسکولوں کی بندش اور تعلیمی نظام میں ناقص تدریسی و جانچ کے طریقہ کار شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں پرائمری اسکولوں کی تعداد زیادہ جبکہ مڈل اور ہائی اسکولوں کی تعداد نسبتاً کم ہے جس سے تعلیمی تسلسل میں خلل پیدا ہوتا ہے۔ سیکیورٹی کے مسائل، اساتذہ کی کمی اور طلبہ کی کم حاضری بھی تعلیم کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ان مشکلات کے مقابلے کے لیے یونیسف بلوچستان کے تعلیمی شعبے میں مدد فراہم کر رہا ہے۔ یونیسف کی معاونت سے بلوچستان ایجوکیشن سیکٹر پلان تیار کیا گیا، جس کے تحت اساتذہ کی پیشہ ورانہ تربیت، اسیسمنٹ میکینزم کی بہتری اور اسکولوں کی بنیادی سہولیات کی فراہمی پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔
نقیب اللہ نے بتایا کہ ہم نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ٹرانزیشنل اسکول شیلٹرز قائم کیے گئے اور اسکول مانیٹرنگ کے لیے ریئل ٹائم سسٹم متعارف کرایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ متبادل تعلیمی راستے (Alternative Learning Pathways) بھی متعارف کرائے گئے ہیں، جن کے ذریعے ہزاروں بچوں کو دوبارہ تعلیم کے دائرے میں لایا گیا ہے۔ یونیسف نے اسکل بیسڈ تعلیم کی شروعات کی ہے جس میں مڈل ٹیک اور میٹرک ٹیک کی کلاسز شامل ہیں۔
مزید پڑھیں: بلوچستان میں تعلیم کی تنزلی تیزی سے جاری، غیر فعال اسکول ساڑھے 3 ہزار سے متجاوز
ان کا کہنا تھا کہ کمیونٹی کی شمولیت کے لیے والدین اور ٹیچر ایسوسی ایشنز، اسکول مینجمنٹ کمیٹیاں اور لوکل ایجوکیشن کونسلز فعال کی گئی ہیں۔ بچوں میں قیادت پیدا کرنے کے لیے چیمپئن کلبز قائم کیے گئے ہیں اور ماحولیاتی آگاہی و تعلیمی داخلہ مہمات بھی سالانہ بنیاد پر منعقد کی جاتی ہیں۔
نقیب اللہ نے مزید کہا کہ بچوں میں تعلیم کو فروغ دینے کے لیے لائبریریوں کا قیام، بچیوں کی مخصوص مسائل پر آگاہی اور تعلیمی مواد کی فراہمی جیسے اقدامات بھی جاری ہیں۔ ڈسٹرکٹ سطح پر ایجوکیشن گروپس ماہانہ بنیادوں پر میٹنگز کرتے ہیں جبکہ صوبائی سطح پر لوکل ایجوکیشن گروپ ہر 90 دن بعد تعلیمی اہداف کا جائزہ لیتا ہے۔ حالیہ برسوں میں حکومتی اقدامات، بشمول ٹیچرز کی بھرتی اور بند اسکولوں کی بحالی، تعلیم میں بہتری کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ ڈیجیٹلائزیشن، فیصلہ سازی کے بہتر نظام، اور اسکولوں کی حاضری و سہولیات میں بہتری سے واضح تبدیلی محسوس ہو رہی ہے۔
انہوں نے توقع ظاہر کی کہ اگر موجودہ رفتار سے اقدامات جاری رہے تو بلوچستان کا تعلیمی مستقبل روشن ہونے کی امید ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آؤٹ آف اسکول بلوچستان بلوچستان اسکول سے باہر بچے بلوچستان کے اسکول بلوچستان میں تعلیم کی صورتحال