اسلام آباد (نمائندہ خصوصی + اپنے سٹاف رپورٹر سے + خبر نگار خصوصی) پاکستان پیپلز پارٹی کے  انٹراپارٹی انتخابات میں بلاول بھٹو زرداری کو 4 سال کے لئے پی پی پی کا چئیرمین منتخب کر لیا گیا۔ سینٹرل الیکشن کنوینئر، فوزیہ حبیب کے جاری کردہ بیان کے مطابق پیپلز پارٹی کے  انٹر پارٹی الیکشن 12 اپریل 2025ء کو سینٹرل سیکرٹریٹ اسلام آباد میں ہوئے۔ پارٹی آئین کے مطابق عہدیداران کو چار سال کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کو پارٹی کا  چیئرمین، ہمایوں خان  کو سیکرٹری جنرل، ندیم افضل گوندل (چن) کو سیکرٹری اطلاعات اور آمنہ پراچہ  کو سیکرٹری فنانس منتخب کیا گیا۔ علاوہ ازیں شجاعت حسین انٹرا پارٹی الیکشن میں ق لیگ کے صدر منتخب ہو گئے۔ چوہدری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ قرآن ہمارا منشور ہے، منافقت اور تکبر سے اجتناب کریں اور خدمت کی سیاست کریں۔ پاکستان مسلم لیگ نے ملک بنایا تھا، یہی جماعت ملک کو بچائے گی، ایک مرتبہ پھر پارٹی کا صدر منتخب کرنے پر جنرل کونسل کے ارکان کا شکریہ، تمام عہدیداران پارٹی کو منظم، مستحکم اور فعال بنائیں۔ پارٹی کی مرکزی اور صوبائی جنرل کونسل کے اجلاس میں سینئیر نائب صدر چوہدری سالک حسین، پنجاب کے جنرل سیکرٹری چوہدری شافع حسین، چیف آرگنائزر ڈاکٹر محمد امجد، سیکرٹری جنرل طارق حسن خان، سیکرٹری اطلاعات غلام مصطفیٰ ملک، رکن قومی اسمبلی مسز فرخ خان، مرکزی عہدیداران، صوبائی، ڈویژنل اور ضلعی صدور اور جنرل سیکرٹریز، مختلف ونگز کے صدور، جنرل سیکرٹریز اور ملک بھر سے مرکزی جنرل کونسل کے اراکین نے شرکت کی۔ جنرل کونسل کا اجلاس چوہدری شجاعت حسین کی ہدایت پر انٹرا پارٹی الیکشن کے لئے طلب کیا گیا۔ انٹرا پارٹی الیکشن میں چوہدری شجاعت حسین کو آئندہ تین سالوں کے لئے مرکزی صدر، چوہدری سالک حسین کو مرکزی سینئیر نائب صدر، چوہدری شافع حسین کو پنجاب کا جنرل سیکرٹری اور طارق حسن کو مرکزی سیکرٹری جنرل منتخب کیا گیا۔ تمام امیدواران بلا مقابلہ منتخب ہوئے۔ جنرل کونسل کے اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعے آئندہ تین سالوں کے لئے ڈاکٹر محمد امجد کو مرکزی چیف آرگنائزر اور غلام مصطفیٰ ملک کو مرکزی سیکرٹری اطلاعات مقرر کیا گیا۔ اجلاس میں مسئلہ کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں پر مظالم کے حوالے سے مذمتی قراردادیں پیش اور منظور کی گئیں۔ چوہدری شجاعت حسین نے کہا کہ قرآن الحکیم ہمارا منشور ہے۔ پاکستان مسلم لیگ کی مرکزی جنرل کونسل کے اجلاس اور انٹرا پارٹی انتخابات کے انعقاد پر انتظامیہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ایک مرتبہ پھر مسلم لیگ کا صدر منتخب کرنے پر سب کا شکریہ۔ آپ سب نے مسلم لیگ کی چھتری تلے متحد ہو کر اسے مظبوط کرنا ہے۔ سب عہد کریں کے تکبر اور منافقت سے احتراز کرتے ہوئے خدمت کی سیاست کو فروغ دیں گے۔ چوہدری سالک حسین، چوہدری شافع حسین، ڈاکٹر محمد امجد، طارق حسن خان اور غلام مصطفیٰ ملک نے بھی خطاب کیا۔ انہوں نے پارٹی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا، جنرل کونسل کے ارکان کا شکریہ ادا کیا اور اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ پارٹی قائد چوہدری شجاعت حسین کے نظریے کے مطابق خدمت کی سیاست کریں گے اور پارٹی کی ترقی کے لئے دن رات کام کریں گے۔ وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف  نے  چوہدری شجاعت حسین کو مسلم لیگ (ق) کا صدر منتخب ہونے پر مبارکباد دیتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ مسلم لیگ ق بطور  سیاسی جماعت قانون ساز اسمبلیوں میں عوامی امنگوں کی یونہی نمائندگی اور ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا کلیدی کردار ادا کرتی رہے گی۔ انہوں نے مسلم لیگ ق کی نو منتخب قیادت کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ ق حکومت کی اہم اتحادی سیاسی جماعت ہے جس نے گزشتہ دور حکومت میں پاکستان کے معاشی استحکام اور ترقی کیلئے اپنی سیاست کی قربانی میں سب اتحادیوں کا ساتھ دیا۔ وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے اس امید کا اظہار بھی کیا کی بطور سیاسی جماعت مسلم لیگ ق  قانون ساز اسمبلیوں میں عوامی امنگوں کی یونہی نمائندگی اور ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا کلیدی کردار ادا کرتی رہے گی۔شہباز شریف نے بلاول بھٹو زرداری کو پاکستان پیپلز پارٹی کے انتخابات میں پارٹی چیئرمین منتخب ہونے پر دلی مبارکباد دی ہے۔ شہباز شریف نے ہمایوں خان کو سیکرٹری جنرل، ندیم افضل گوندل(چن) کو سیکرٹری اطلاعات اور آمنہ پراچہ کو سیکرٹری فنانس منتخب ہونے پر مبارکباد دی۔ وزیرِ اعظم نے پارٹی کے نو منتخب عہدیداران کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری کی نوجوان قیادت کے تحت پاکستان پیپلز پارٹی عوامی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا کلیدی کردار ادا کرتی رہے گی۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے انٹرا پارٹی الیکشن میں بلاول بھٹو زرداری کو پاکستان پیپلز پارٹی کا دوبارہ بلا مقابلہ چیئرمین منتخب ہونے پر مبارکباد دی اور بلاول بھٹو زرداری کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری کا دوبارہ چیئرمین منتخب ہونا ان پر پیپلز پارٹی کے عہدیداران اور کارکنان کے مکمل اعتماد کا مظہر ہے، بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی نے عوام میں مقبولیت حاصل کی ہے۔ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ جمہوریت کے فروغ اور پارلیمان کی بالادستی کے لیے کردار ادا کیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری ایک مدبر اور زیرک سیاستدان ہیں، بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی مزید مضبوط ہو گی اور جمہوریت کیلئے جد و جہد جاری رکھے گی۔ سردار ایاز صادق نے چوہدری شجاعت حسین کو پاکستان مسلم لیگ کے بلا مقابلہ صدر منتخب کی مبارکباد دی ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کا چوہدری شجاعت حسین کو پاکستان مسلم لیگ کا بلا مقابلہ صدر اور چوہدری سالک حسین کو سینئر نائب صدر منتخب ہونے پر مبارکباد دی۔ سپیکر قومی اسمبلی  نے پاکستان مسلم لیگ کی نو منتخب قیادت کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ چوہدری شجاعت حسین کا پاکستان مسلم لیگ کا صدر منتخب ہونا ان پر پارٹی کے عہدیداران اور کارکنان کے مکمل اعتماد کا اظہار ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ چوہدری شجاعت حسین ایک کہنہ مشق، زیرک اور دور اندیش سیاسی رہنما ہیں۔ چوہدری شجاعت حسین نے ہمیشہ مفاہمت کی سیاست کو فروغ دیا ہے۔ چیئرمین سینٹ سید یوسف رضا گیلانی نے بلاول بھٹو زرداری کو پارٹی چیئرمین منتخب ہونے پر مبارکباد دی ہے۔ چیئرمین سینٹ نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری کا بلامقابلہ چیئرمین منتخب ہونا کارکنان کے بھرپور اعتماد کا مظہر ہے۔ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ جمہوریت اور پارلیمان کی بالادستی کا علم بلند رکھا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری ایک دور اندیش اور باصلاحیت رہنما ہیں، بلاول بھٹو کی قیادت میں پارٹی نے نئی سیاسی سمت حاصل کی ہے۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: منتخب ہونے پر مبارکباد دی بلاول بھٹو زرداری کو چوہدری شجاعت حسین کو بلاول بھٹو زرداری کی پاکستان پیپلز پارٹی انٹرا پارٹی الیکشن سپیکر قومی اسمبلی پاکستان مسلم لیگ چوہدری سالک حسین سیکرٹری اطلاعات پیپلز پارٹی کے چیئرمین منتخب جنرل کونسل کے جنرل سیکرٹری سیکرٹری جنرل کا اظہار کیا کا صدر منتخب بلا مقابلہ شہباز شریف کو سیکرٹری کو پاکستان مسلم لیگ ق اعتماد کا نے کہا کہ منتخب کی کا شکریہ پارٹی نے کی سیاست کو مرکزی کیا گیا کے لئے

پڑھیں:

امریکہ میں سفارتکاری: بلاول بمقابلہ بینظیر بھٹو،ا یک تجز یہ

واشنگٹن   (ڈیلی پاکستان آن لائن)  تجز یہ  نگا ر  نسیم حیدر کے مطابق پاکستان پیپلزپارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری کٹھن ترین اوقات میں سے ایک میں بھارت کے خلاف انتہائی مؤثرانداز سے پاکستان کا مقدمہ پیش کرنے کے بعد اب برطانیہ اور یورپ کےدورے پر ہیں۔
 نجی ٹی وی جیو نیوز کے مطابق یہاں سوال ذہن میں آتا ہے کہ اگر بے نظیربھٹو اس مشن پر ہوتیں تو کیا وہ اس سے بھی زیادہ پراثرانداز اپناتیں یا ذوالفقار علی بھٹو اس چیلنجنگ لمحے پر مغربی ممالک کا دورہ کرتے تو بھارت کا کیا حشر کرتے؟
سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو کا شہید بے نظیر بھٹو یا شہید ذوالفقار علی بھٹو سے موازانہ کرنا لاکھ قبل ازوقت سہی مگر میرے ذہن میں اس کا خیال آنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ 
وہ وجہ یہ کہ اگست 2007 میں جب میں نے بے نظیر بھٹو کا جیونیوز کے لیے تاریخی انٹرویو کیا تھا اس وقت لڑکپن میں داخل بلاول بھٹو پڑھنے کے لیے آکسفورڈ یونیورسٹی جارہے تھے۔بے نظیر بھٹو نے مجھے بتایا تھا کہ بلاول کے لیے انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی کے ہاسٹل میں وہ کمرہ ریزرو کرایا ہے جہاں بلاول کے نانا شہید ذوالفقار علی بھٹو اپنے زمانہ طالب علمی میں رہے تھے۔ یعنی بھٹو خاندان ان چند سیاسی خاندانوں میں سے ایک ہے جہاں روایات کا اس درجے تک لحاظ رکھا جاتا ہے۔
بلاول بھٹو 2022 اور2023 کےدرمیان مختصر عرصے کے لیے وزیر خارجہ رہے ہیں۔ وہ تاحال نہ تو بےنظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو کی طرح ملک کے وزیراعظم بنے ہیں اور نہ ہی ان تجربات سے گزرے ہیں جن سے ان کی والدہ اور نانا گزرے تھے، تاہم کہا جاتا ہے کہ بچے کے پاؤں پالنے میں نظرآتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے پیپلزپارٹی کے کئی سینئر رہنماؤں سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اگر آج بے نظیر ہوتیں تو پاکستان کا مقدمہ پیش کرنے کا انداز کتنا مختلف ہوتا۔
یہ بات مسلمہ ہے کہ شخصیات کا موازنہ کرنے سے بڑی حد تک گریز کیا جانا چاہیے، خاص طور پر عالمی امور میں سفارتکاری کا مرحلہ ہو اور وہ بھی ایک ایسی جنگ کے بعد جس میں دو ایٹمی طاقتوں نے میزائلوں سے شہروں پر حملے کیے ہوں تو نتائج اخذ کرنا غیر ذمہ دارانہ ہوسکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ بلاول بھٹو کو اپنا مقدمہ ایسے ممالک میں پیش کرنے کا چیلنج درپیش ہے جن کا بھارت چہیتا بنا ہوا ہے۔
یہ 1980  کی دہائی یا 1990 کی دہائی کا اوائل نہیں جب سوویت یونین کے خلاف  امریکہ اور مغربی ممالک کو بھارت سے زیادہ پاکستان کی ضرورت تھی۔ یہ 2000 کی دہائی بھی نہیں جب   امریکہ پر طیارہ حملوں کےبعد بُش انتظامیہ نے افغانستان کو سزاوار ٹھہرا کر ملاعمر حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجانا تھی اوریہ پاکستان کے بغیر انتہائی دشوار تھا۔
حالیہ پاک بھارت جنگ ایسے وقت ہوئی ہے جب افغانستان سے انخلا کے بعد بہت سے تجزیہ کاروں کے مطابق،   امریکہ نے   پاکستان کو ایک بار پھر دہشتگردی بھگتنے کے لیے بڑی حد تک اس کے حال پرچھوڑا ہوا ہے۔ یہ تاریخ کا وہ لمحہ بھی ہے جب چین سے دفاعی، معاشی، سیاسی تعلقات اور عوامی رابطے بڑھا کر پاکستان متوازن خارجہ پالیسی اپنانے کی کوششوں میں تیزی لارہا ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ خطے میں چین کے قدم مضبوط ہونا مغربی ممالک کے لیے ناگوار ترین شے ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ پاکستان نے پچھلے ایک عشرے میں روس سے بھی تعلقات میں بہتری پیدا کی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ صدر ٹرمپ اب بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کا جائز کریڈٹ لے رہے ہیں تاہم پہلگام واقعے کے بعد مغربی ممالک کو بھارت کی جنونی کیفیت کے اثرات پر قائل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ اس کا اندازہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اُس بیان سے بھی کیا جاسکتا ہے جو انہوں نے پہلگام واقعے کے بعد پیدا کشیدگی کے عین موقع پر دیا تھا۔
ائیرفورس ون میں صحافیوں سے بات چیت کے دوران صدر ٹرمپ سے پوچھا گیا تھا کہ کشمیر میں حملے کے بعد سے بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی ہے تو کیا آپ ان ممالک کو کوئی پیغام دیں گے یا ان ممالک کے رہنماؤں سے بات کریں گے؟ صدرٹرمپ نے برملا کہا تھا کہ وہ دونوں ملکوں کے لیڈروں کو جانتے ہیں تاہم پاک بھارت رہنماؤں سے رابطہ کرنے سے متعلق سوال کا جواب دینے سے گریزکیا تھا۔
بات کرتے ہوئے صدرٹرمپ تاریخ میں بھی گڑبڑ کر گئے تھے، پاکستان اوربھارت کے حوالے سے دعویٰ کیا تھا کہ دونوں ممالک کشمیر پر ایک ہزار سال سے لڑ رہے ہیں۔ کشمیر کا مسئلہ ایک ہزار سال سے چل رہا ہے شاید اس سے بھی زیادہ عرصے سےچل رہا ہے اور یہ بری صورتحال ہے۔ طیارے میں موجود مغربی صحافیوں میں سے بھی کسی نے غلطی درست نہیں کی کہ مسئلہ کشمیر 1947 میں غلط تقسیم ہند کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا، ڈیڑھ ہزار سال پہلے نہیں۔
ایک صحافی نے صدر ٹرمپ سے پوچھا کہ آیا آپ کو تشویش ہے کہ دونوں ملکوں کی سرحدوں پر تناؤ ہے جس پر صدر ٹرمپ نے دہرایا تھا کہ اُس سرحد پر 1500سال سے کشیدگی ہے۔ مگر وہ کسی نہ کسی طرح سے مسئلہ کا حل نکال لیں گے۔ مجھے اس بارے میں یقین ہے۔
بھارت نے پہلگام واقعے کے بعد پاکستان کے شہروں پر طیاروں سے میزائل حملے کرکے کیا حل نکالا، یہ دنیا نے دیکھا۔ بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مغربی ممالک سمجھتے تھے کہ بھارت جارحیت پراترا تو پاکستان کی کانپیں ٹانگ جائیں گی اور یہ ملک کبھی سراٹھا کرکھڑا نہیں ہوسکےگا۔ یہ الگ بات ہے کہ وزیراعظم شہبازشریف کی قیادت میں فیلڈ مارشل عاصم منیر نے پاکستان کو چھپا رستم ثابت کیا، بھارت کوناکوں چنے چبوا کر ناگ رگڑوائی اورجنگ بندی پرمجبور کردیا۔
اس پس منظر کو دیکھیں تو پاکستان کے نسبتاً قریب سمجھے جانیوالے مشرق کے سامنے اپنا مؤقف پیش کرنا آسان ہے تاہم   امریکہ سمیت مغربی ممالک کو قائل کرنا کئی گنا کٹھن مرحلہ ہے۔ اسی لیے بلاول بھٹو کی قیادت میں امریکا، برطانیہ اور یورپ جانے والے مشن کی اہمیت زیادہ واضح ہوتی ہے۔
  امریکہ میں سفارتکاری کی نوعیت پردعمل میں شہید ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیربھٹو کے قریب سمجھے جانیوالے پیپلزپارٹی کے کئی رہنماوں نے برجستہ کہا کہ بلاول بھٹو سفارتی میدان میں درحقیقت بےنظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔
ایک انتہائی سینئر اور بے لاگ مؤقف بیان کرنیوالے پیپلزپارٹی کے رہنما نے کہا کہ آپ سابق وزرا خارجہ کا بلاول بھٹو سے موازانہ کرلیں،حقیقت خود روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی۔ انہوں نے نام لے کر کہا کہ گوہر ایوب ہوں، سردار آصف علی ،خواجہ آصف، حنا ربانی کھر یا شاہ محمود قریشی ہوں، اپنے ادوار میں انہوں نے بھی سفارتکاری کی مگر ان میں سے کوئی بھی بلاول بھٹو کے قریب بھی نہیں پہنچ سکا۔ یہی وجہ تھی کہ بلاول کو اس وفد کی قیادت سونپی گئی۔ یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ بلاول بھٹو نسبتاً نوجوان اور سیاست میں کم تجربہ رکھتے ہیں۔ ان رہنما کے مطابق یہ بلاول نہیں بھٹو کا خون بولتا ہے۔
بےنظیربھٹو کے دست راست اور صدر زرداری کے سابق ترجمان فرحت اللہ بابر نے کہا کہ بلاول بھٹو درحقیقت بی بی کا نعم البدل ہیں۔موقف بیان کرنے میں ان کے الفاظ کا چناؤ، انداز تخاطب اور بات کرنے کا سلیقہ اس بات کا اظہار ہے کہ وہ کس کمال مہارت سے سفارتکاری انجام دے رہے ہیں۔
فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اس نازک ترین لمحے میں بلاول بھٹو نے انتہائی غیر معمولی طورپر شاندارپرفارمنس سے پاکستان کا نام روشن کیا ہے اور دنیا نے بھٹو کی وراثت دیکھی ہے۔
سینیٹر وقار مہدی نے کہا کہ بلاول بھٹو نے اپنی والدہ کی کمی پورا کردی، نانا کی طرح دو ٹوک انداز میں پاکستان کا مقدمہ لڑا اور مغربی ممالک کو باور کرایا ہے کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے جبکہ بھارت بلااشتعال جارحیت پر اترا ہوا ہے۔ بلاول کے دورہ   امریکہ  سے  واضح ہے کہ انہیں بہت کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے۔ وقار مہدی کے بقول بلاول بھٹو میں آخر بے نظیر اور ذوالفقار علی بھٹو کی روح ہے، وہ پوری طرح جھلکتی نظرآئی۔
جو لوگ بے نظیربھٹو سے ملےہیں، وہ کہتے ہیں کہ 36 سال کے بلاول بھٹو کا موازانہ دو بار وزیراعظم اور مؤثر ترین اپوزیشن لیڈر رہنے والی بے نظیر بھٹو سے کرنا قبل ازوقت ہوگا۔ جو  شہید ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ رہے ہیں جن کی سفارتکاری کا ڈنکا دنیا میں بجتا تھا اور اقوام متحدہ میں ان کے ادا کیے ہوئے الفاظ آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں گونجتے ہیں، وہ کہتےہیں تدبر کی ان منازل تک پہنچنے کے لیے عشق کے امتحان ابھی اوربھی ہیں۔
70 اور 80 کی دہائی میں قدم رکھنے والے یہ جیالےکہتے ہیں کہ بلاول کی سفارتکاری دیکھ کران کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو اور ذہنوں میں یہ شعر آتا ہے کہ
کبھی تو سوچنا تم نے یہ کیا کیا لوگو
یہ تم  نے کس کو سر دار کھو دیا لوگو

’’اس بڑھاپے میں ڈانس کروانا ظلم ہے‘‘، ماہرہ خان اور ہمایوں سعید کا ردعمل وائرل

مزید :

متعلقہ مضامین

  • پانی ہماری ناگزیر ضرورت ہے، اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، بلاول بھٹو
  • پانی ہماری ناگزیر ضرورت ہے اس پر کوئی سمجھوتا نہیں ہو گا: بلاول بھٹو زرداری
  • ہسپانوی اپوزیشن کی میڈرڈ میں بڑی ریلی، نئے الیکشن کا مطالبہ
  • امریکہ میں سفارتکاری: بلاول بمقابلہ بینظیر بھٹو،ا یک تجز یہ
  • بلاول بھٹو نے دورۂ امریکہ کو "کامیاب امن مشن" قرار دے دیا
  • ایم ڈبلیو ایم کے چیئرمین سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے پنجاب اور بلوچستان میں نئے سیٹ اپ کا اعلان کردیا 
  • بلاول بھٹو نے واشنگٹن میں عید منائی، دیگر رہنما کہاں عید منائیں گے؟
  • وفاقی وزیر اوورسیز پاکستانی و انسانی وسائل کی جنیوا کانفرنس میں شرکت انقلابی نتائج مرتب کرے گی۔ کوآرڈینیٹر وفاقی وزیر
  • بلاول بھٹو زرداری کی امریکی چیئرمین سینیٹ سلیکٹ کمیٹی برائے انٹیلی جنس سینیٹر ٹام کاٹن سے ملاقات،پاک بھارت کشیدگی کے دوران صدرٹرمپ کے کردار کی تعریف
  • بلاول بھٹوزر داری کی چیئر مین سینیٹ سلیکٹ کمیٹی انٹیلی جنس سے ملاقات ، بھارت کی اشتعال انگیزبیانات کی مذمت