چیئرمین ایف بی آر کا ادارے میں کرپشن کا اعتراف
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
اسلام آ باد:
چیئرمین ایف بی آر راشد لنگڑیال نے اعتراف کیا ہے کہ ایف بی آر میں اب بھی کرپشن ہورہی ہے تاہم زرمبادلہ کی کمی کا سامنا ہونے کی وجہ سے معیشت پر دباوٴ ہے، قائمہ کمیٹی نے نان فائلرز کو پراپرٹی کی خریداری کی اجازت دینے کا جائزہ لینے کیلئے پانچ رکنی ذیلی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔
تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس منگل کو چیئرمین کمیٹی سید نوید قمر کی زیر صدارت منعقد ہوا، چیئرمین ایف بی آر راشد لنگڑیال نے قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو ٹیکس قوانین پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ٹیکس قوانین میں تبدیلی ٹیکس بیس بڑھانے کیلئے ہے، زیادہ آمدن اورخاص رقم سیزیادہ کا کاروبارکرنے والوں کیلئے قوانین ہیں۔
چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ کچھ اختیارات ایف بی آر افسران کو نئے قوانین کے تحت دیے جارہے ہیں اور کسی کے پاس کالا دھن ہے یا ٹیکس چوری کرتا ہے اس پر پابندی لگا رہے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی نان فائلر ہے تو اکنامک ٹرانزیکشن نہیں کرسکتا، نان فائلر گاڑی، پلاٹ نہیں خرید سکتا اور سرمایہ کاری بھی نہیں کرسکتا، قائمہ کمیٹی نے نان فائلرز کو پراپرٹی کی خریداری کی اجازت کیلئے پانچ رکنی ذیلی کمیٹی تشکیل دے دی ہے، ایم این اے بلال کیانی کی زیرصدارت ذیلی کمیٹی ایف بی آر اورآبادکے ساتھ مل بیٹھ کر بات کرے گی 10 روز میں ذیلی کمیٹی اپنی رپورٹ قائمہ کمیٹی کو دے۔
دوسری جانب چیئرمین کمیٹی نوید قمر کی ہدایت پر کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن کے ارکان کمیٹی شامل ہوں گے، چیئرمین ایف بی آرراشد لنگڑیال نے کہا کہ کابینہ نے آڈیٹرزکی بھرتی کا اختیار دیدیا ہے، کابینہ میں بل پرمکمل غور ہوگا اس کے بعد فیصلہ ہوگا۔
چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) راشد لنگڑیال نے کہا ہے کہ ملک میں سیلز ٹیکس کی مد میں کھربوں روپے کی ٹیکس چوری کا تخمینہ ہے، ماہانہ 50 ہزار تنخواہ والا ٹیکس دیتا ہے، ماہانہ ڈھائی کروڑ کی آمدن کرنے والی کی کمائی 6 لاکھ تو ہوگی ان کو بھی ٹیکس دینا چاہیے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی خزانہ کو بریفنگ کے دوران چیئرمین ایف بی آر کا کہنا تھا کہ بیشتر صنعتی صارفین سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ نہیں ہیں جنہیں ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے نیا قانون لایا گیا ہے، انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں سیلز ٹیکس جنرل آرڈر جاری کیا جائے گا، آرڈر کے تحت بجلی کے بل کی ایک حد مقرر کی جائے گی، یہ لوگ صنعتی بجلی لیتے ہیں اور ان میں بڑے صنعتی یونٹ بھی ہیں۔
راشد لنگڑیال نے کہا کہ سالانہ 25 کروڑ روپے آمدنی والے کو ٹیکس دینا چاہیے، جب ماہانہ 50 ہزار تنخواہ والا ٹیکس دیتا ہے، تو ان کو بھی دینا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ ایسے لوگوں کا بینک اکاونٹ معطل کرنے کا اختیار ایف بی آر مانگ رہا ہے، اکاوٴنٹ معطل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان کے کاروبار پر اثر پڑے، 10 کروڑ روپے ماہانہ بجلی کا بل ادا کرنے والے کو پابند بنانا چاہ رہے ہیں، ان کو باقاعدہ طور پر پیشگی نوٹس بھیجا جائے گا۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ سیلز ٹیکس رجسٹریشن کے لیے ایسے صنعتی یونٹ کو 15 دن کا وقت دیا جائے گا، اس پر سماعت ہوگی اور اس کے بعد صنعتی یونٹ رکھنے والے کو اپیل کا بھی حق دیا جائے گا۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی رکن حنا ربانی کھر نے کہا کہ بینک اکاوٴنٹ کی بندش نہایت ڈریکونین قانون ہوگا اس پر قوانین میں شفافیت ضروری ہے، کسی کا بینک اکاؤنٹ معطل ہوگا تو وہ تنخواہوں کی ادائیگی کیسے کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس قانون کے تحت بینک اکاوٴنٹس بند کرنے سمیت انتہائی سخت اقدامات لیے جارہے ہیں اس قانون کے تحت ایف بی آر افسران سے ہر طرح سے ڈیل کرنا ہوگا، ایف بی آر افسران پر کسی کو اعتبار نہیں ہے۔
بلال اظہر کیانی نے کہا کہ تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے بینک اکاوٴنٹ بند نہ کیا جائے، نوید قمر نے کہا کہ اتنے سخت اختیارات دینے سے پہلے یقین دلایا جائے کہ ایف بی آر ٹیکس آمدن کو اپنے اخراجات پر خرچ نہیں کرے گا۔
وزیرمملکت خزانہ علی پرویز ملک نے کہا کہ پائیدار ترقی کی بات کرتے ہیں تورسمی معیشت کاعدم توازن دور کرنا ہوگا اور کالے دھن سے گاڑیاں خریدنے کو روکنے کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے۔
چیئرمین نے بتایا کہ سال 2008 میں جتنا ٹیکس اکھٹا کیا تھا اتنا ہی 2024 میں ہوا، ہم نے ایک فیصد سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس کو بھی بڑھایا ہے، تنخواہ دار طبقے پر بھی ٹیکس میں اضافہ کیا گیا، شرح نمو ، مہنگائی کے تناسب سے ٹیکس محصولات میں اضافہ نہیں ہوا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: چیئرمین ایف بی آر قائمہ کمیٹی قومی اسمبلی سیلز ٹیکس نے کہا کہ جائے گا کے تحت
پڑھیں:
جسٹس یحییٰ آفریدی کے چیف جسٹس بننے کے بعد ادارے میں کیا کچھ بدلا؟
پاکستان کی عدالتی اور سیاسی تاریخ ایک دوسرے کے ساتھ جُڑی ہوئی ہے اور عام طور پر عدلیہ خاص طور پر سپریم کورٹ سے صادر ہونے والے فیصلے ملک کی سیاسی تقدیر کا فیصلہ کرتے ہیں۔ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے گزشتہ سال 26 اکتوبر کو اپنے عہدے کا حلف لیا اور اب تک وہ 7 ماہ سے زیادہ عرصے سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ہیں۔ اُنہوں نے اپنے 7 ماہ کے عرصے میں بطور چیف جسٹس سپریم کورٹ خود کو سیاسی معاملات سے الگ کر کے انتظامی معاملات پر زیادہ توّجہ مرکوز کی ہے اور انتظامی سطح پر کچھ ایسے اقدامات کیے ہیں جیسا کہ کیس مینجمنٹ سسٹم میں تبدیلی، جیل اصلاحات، فوجداری مقدمات کی جلد شنوائی وغیرہ۔
یہ بھی پڑھیں سپریم کورٹ میں عوامی سہولت مرکز کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی ترجیحات کا اگر جائزہ لیا جائے تو اُس میں سپریم کورٹ میں زیرالتوا مقدمات کی تعداد میں خاطر خواہ کمی، عدالتی نظام کی جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے ساتھ منسلکی، پیپر لیس عدالتی نظام، عدالتی اصلاحات کے حوالے سے وسیع پیمانے پر اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت، لا اینڈ جسٹس کمیشن میں غیر سرکاری اراکین کے طور پر ریٹائرڈ ججز کے ساتھ ساتھ وکلا کی نمائندگی، عدلیہ میں احتساب کا نظام اور جیل اصلاحات شامل ہیں۔
کچھ حلقوں کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ بدلاؤ ایک اچھا فیصلہ ہے جب کہ کچھ حلقے اس امر پر شاکی نظر آتے ہیں کہ سیاسی حوالوں سے اہم مقدمات جو کہیں نہ کہیں عدالتی فیصلوں کے ذریعے ملک میں بے چینی کی فضا کو ختم کرنے کے لیے لازمی ہیں، اُن پر توجہ دیے جانے کی ضرورت ہے۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ آئینی نوعیت کے سیاسی اثرات کے حامل مقدمات اب سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے پاس زیرِ سماعت آتے ہیں اور اُن کے فیصلوں میں براہِ راست چیف جسٹس کا عمل دخل نہیں ہوتا۔
26 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے سے جسٹس یحییٰ آفریدی کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا گیا اور پھر چیف جسٹس نے 26 ویں آئینی ترمیم میں دیے گئے آئینی بینچ کی تشکیل کی جس نے 14 نومبر 2024 سے باقاعدہ سماعتوں کا آغاز کیا۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی عدالتی اصلاحات کتنی کارگر؟21 مئی کو جاری کیے گئے سپریم کورٹ اعلامیے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے 7 ماہ میں 52 فیصد سزائے موت کے مقدمات نمٹا دیے اور چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی قیادت میں سپریم کورٹ نے اس تیزی سے کام کیا ہے جس کی اس سے پہلے مثال نہیں ملتی۔
چیف جسٹس کے 28 اکتوبر 2024 سے لے کر 21 مئی 2025 تک لگ بھگ 7 ماہ کے اندر عدالت عظمیٰ نے سزائے موت کے 238 مقدمات کے فیصلے کیے ہیں جو 454 زیر التوا مقدمات کا 52 فیصد بنتے ہیں۔
جب چیف جسٹس نے حلف لیا تو سزائے موت کی 410 اپیلیں زیر التوا تھیں، بعد میں 44 اور دائر ہوئیں لیکن جلد فیصلوں کی بدولت اس وقت زیر التوا اپیلوں کی تعداد 216 ہے۔
’چیف جسٹس کے پہلے 100 دن‘چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے پہلے 100 دنوں کے اندر عدالتی نظام کو سہل بنانے کے لیے جو سب سے اہم کام کیا وہ الیکٹرانک بیان حلفی یا ای ’ایفی ڈیوٹ‘ کا اجرا اور فوری مصدقہ نقل کا حصول تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ عدلیہ کے احتساب کے نظام کو مؤثر بنانے کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کے لیے علیحدہ سیکریٹریٹ کا قیام عمل میں لایا گیا۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے اپنے پہلے 100 دن میں زیر التوا مقدمات میں تین ہزار کی بڑی کمی کی۔ سپریم کورٹ نے 8 ہزار ایک سو چوہتر (8174) مقدمات کا فیصلہ کیا جبکہ چار ہزار نو سو تریسٹھ (4963) نئے مقدمات کا اندراج ہوا۔
’سپریم کورٹ کے اب تک اہم فیصلے‘اپنے اثرات کے اعتبار سے سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے اس وقت تک جو سب سے اہم فیصلہ کیا ہے وہ سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق ہے جس کو آئینی بینچ نے درست قرار دیا ہے۔ 7 مئی 2025 کو یہ فیصلہ جاری کیا گیا۔
اسی طرح سے نورمقدم کے قاتل ظاہر جعفر کی سزائے موت برقرار رکھنے کا فیصلہ بھی اپنی نوعیت کے اعتبار سے اہم تھا۔ 20 مئی کو سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے جسٹس نعیم اختر افغان کی سربراہی میں اس مقدمے کا فیصلہ کرتے ہوئے ظاہر جعفر کی قتل کے مقدمے میں سزائے موت برقرار جبکہ اغوا کے مقدمے میں سزائے موت کو عمر قید سے تبدیل کردیا۔
’سپریم کورٹ رولز 2025 کا ڈرافٹ تیار‘13 مارچ کو سپریم کورٹ نے 1980 سے چلے آ رہے سپریم کورٹ رولز میں ترمیم کا مسودہ تیار کیا، چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے سپریم کورٹ رولز 1980 پر نظرثانی کے لیے سپریم کورٹ کے 4 ججز پر مشتمل کمیٹی قائم کی تھی جس نے سپریم کورٹ رولز 2025 کا ڈرافٹ تیار کرلیا ہے۔
کمیٹی جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سعادت خان، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس عقیل احمد عباسی پر مشتمل ہے، سپریم کورٹ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ رولز پر مکمل نظرثانی کا مقصد عدالتی کارروائی کو مزید فعال، مؤثر اور شفاف بنانا تھا۔
ابتدائی طور پر اس کمیٹی نے سپریم کورٹ ججز، سپریم کورٹ رجسٹرار، بار کونسلز اور بار ایسوسی ایشنز سے اس سلسلے میں تجاویز طلب کیں۔ اس کے بعد اس کمیٹی کے کئی اجلاس ہوئے جس میں سپریم کورٹ رولز کو جدید زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے پر مشاورت کی گئی۔
’چیف جسٹس کی غیر ملکی وفود سے ملاقاتیں‘11 فروری کو آئی ایم ایف وفد نے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے ملاقات کی جو کہ ملکی تاریخ کے تناظر میں ایک نیا واقعہ تھا کیونکہ اس سے قبل کسی چیف جسٹس نے کبھی آئی ایم ایف وفد سے ملاقات نہیں کی۔ ملاقات کے بعد چیف جسٹس نے صحافیوں سے ملاقات کے دوران بتایا کہ آئی ایم وفد نے کچھ قوانین کے حوالے سے اُن سے بات چیت کی۔ بعد ازاں آئی ایم ایف وفد نے ایک بار پھر چیف جسٹس سے ملاقات بھی کی، اور اُس کے بعد 14 فروری کو اس وفد نے پاکستان بار کونسل سے بھی ملاقات کی۔
17 فروری کو چیف جسٹس نے اٹلی کی سفیر سے ملاقات کی، اس کے بعد 14 اپریل کو ایران اور ترکیے کے سفیروں نے بھی چیف جسٹس سے ملاقات کی۔ 28 اپریل کو چیف جسٹس سے ایک امریکی وفد نے بھی ملاقات کی۔
چیف جسٹس یحیٰی آفریدی 26 اپریل کو ترکیے اور چین کے دورے بھی مکمل کرکے واپس آئے۔
31 جنوری کو چیف جسٹس نے یورپی یونین کے نمائندہ خصوصی انسانی حقوق سے ملاقات کی، جس میں جوڈیشل بیک لاگ کے ساتھ ساتھ عدلیہ کی سالمیت اور آزادی کے حوالے سے بات چیت کی گئی۔
’جیل اصلاحات اور فوجداری قوانین میں اصلاحات‘چیف جسٹس نے گزشتہ ماہ 16 مئی کو بنوں کی ضلعی عدلیہ اور بنوں جیل کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے قیدیوں سے ملاقاتیں کیں، ان کے مسائل دریافت کیے اور اس سے قبل وہ پشاور ہائیکورٹ بنوں بینچ بھی گئے۔
اس سے قبل گزشتہ برس دسمبر میں چیف جسٹس نے رحیم یار خان جیل کا دورہ بھی کیا، چیف جسٹس اب تک جیل اصلاحات کے حوالے سے کمیٹیاں قائم کر چکے ہیں اور گزشتہ برس نومبر میں چیف جسٹس نے پنجاب میں جیل اصلاحات کے حوالے سے ایک مشاورتی اجلاس کی صدارت کی جس میں جیل اصلاحات کے حوالے سے ایک کمیٹی قائم کی گئی جس میں 9 مئی مقدمات میں ضمانت پر رہا خدیجہ شاہ کو بھی بطور رکن شامل کیا گیا۔
جیل اصلاحات اور فوجداری قوانین میں اصلاحات کے حوالے سے چیف جسٹس نے چاروں صوبوں میں کمیٹیاں قائم کر رکھی ہیں جن کی رپورٹس کا جائزہ لینے کے بعد اقدامات کا جائزہ لیا جائےگا۔
’چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے دور کے تنازعات‘موجودہ چیف جسٹس کے 7 ماہ سے زیادہ عرصے میں سامنے آنے والے تنازعات کا تعلق زیادہ تر 26ویں آئینی ترمیم سے ہے، وہ چاہے بینچز دائرہ اختیار کا معاملہ ہو یا مقدمات کو سماعت کے لیے مقرر کیے جانے کا معاملہ، اس پر تنازعات سامنے آئے۔
ایسا ہی ایک معاملہ 21 جنوری کو سامنے آیا جب جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں سماعت کرنے والے ایک بینچ کے سامنے کسٹم ایکٹ کا ایک معاملہ زیرسماعت آیا تو اُس پر سرکاری وکیل کی جانب سے کہا گیا کہ یہ مقدمہ آئینی بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا جانا چاہیے تھا۔ اُس کے بعد مقدمے کو جسٹس منصور علی شاہ کے بینچ سے ہٹا دیا گیا تو سوال اُٹھا کہ بینچ کی منظوری کے بغیر یہ اقدام کیسے کیا گیا جس پر ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذرعباس کو معطل کر کے اُن کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی بھی کی گئی لیکن بعد ازاں 28 جنوری کو اُن کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی واپس لیتے ہوئے اُنہیں بحال کردیا گیا۔
اسی طرح سے 10 فروری کو وکلا نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف ملک گیر احتجاج کیا اور یہ مطالبہ کیاکہ 26 ویں آئینی ترمیم مقدمے کے فیصلے تک جوڈیشل کمیشن ججز کی تقرری کے عمل کو روک دے۔ لیکن وکلا احتجاج کے باوجود جوڈیشل کمیشن نے چاروں صوبائی ہائیکورٹس میں ججز کو تعینات کیا۔
24 فروری کو جوڈیشل کمیشن آف پاکستان میں پاکستان بار کونسل کے نمائندہ اختر حسین نے عدلیہ میں ہونے والی تقرریوں پر احتجاجاً استعفیٰ دے دیا۔
26 اپریل کو بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے چیف جسٹس کے نام ایک خط میں اپنے ساتھ ہونے والی مبینہ زیادتیوں پرایکشن لینے کی استدعا کی۔ خط پی ٹی آئی کے جنرل سیکریٹری سلمان اکرم راجا نے چیف جسٹس کے چیمبر میں پہنچایا۔ اس موقع پر عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان اور دیگر قیادت بھی ان کے ہمراہ تھی۔
’سپریم کورٹ اب مرکز نگاہ نہیں‘سپریم کورٹ آف پاکستان کبھی تمام پاکستانی میڈیا کا مرکز نگاہ ہوتی تھی اور ملکی میڈیا کی زیادہ تر ہیڈلائنز وہیں سے آتی تھیں۔ 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد سپریم کورٹ عملی طور پر 2 حصوں میں بٹ چکی ہے۔ عام نوعیت کے مقدمات سپریم کورٹ جبکہ آئینی نوعیت کے مقدمات اب آئینی بینچ سماعت کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں سپریم کورٹ نے 7 ماہ میں سزائے موت کے 52 فیصد مقدمات نمٹا دیے
اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو اس وقت موجودہ چیف جسٹس، جسٹس یحییٰ آفریدی اُس طرح سے مرکز نگاہ نہیں جس طرح ان کے پیشرو چیف جسٹسز ہوا کرتے تھے۔ اُن کے پیشرو چیف جسٹس صاحبان کے زمانے تک وفاقی اور صوبائی حکومتیں ہر وقت سپریم کورٹ کی جانب دیکھتی تھیں کہ نجانے کب کون سا فیصلہ آ جائے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
26 ویں آئینی ترمیم wenews جسٹس یحییٰ آفریدی چیف جسٹس سپریم کورٹ سیاسی تاریخ عدالتی اصلاحات عدالتی تاریخ وی نیوز