اس رمضان میں قدرت کا وہ انمول فلکیاتی مظاہرہ؛ جو 33 سال میں صرف ایک بار ہوتا ہے
اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT
اس سال ماہ رمضان المبارک میں قدرت کا ایک انمول فلکیاتی مظہر رونما ہوگا جو ہر 33 ویں سال میں ایک بار ہوتا ہے۔
دنیا میں تاریخ اور دنوں کا حساب رکھنے کے لیے دو کیلنڈرز سب سے زیادہ استعمال ہوتے ہیں ان میں ایک شمسی ہے جسے عیسوی کیلنڈر بھی کہا جاتا ہے۔
دوسرا اسلامی کیلنڈر ہے جسے ہجری کہا جاتا ہے جو چاند کے حساب سے ترتیب دیا جاتا ہے۔
ایسا کم کم ہی ہوتا ہے کہ قمری اور شمسی مہینے کا آغاز ایک ہی تاریخ سے ہوا ہو اور یہ نایاب منظر اس ماہ رمضان میں دیکھا جا سکتا ہے۔
اس بات کا قوی امکان ہے کہ ماہ رمضان 2025 کا آغاز یکم مارچ سے ہو گا یعنی ہجری مہینہ رمضان اور شمسی ماہ مارچ ایک ساتھ شروع ہوں گے۔
ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ ایسا ہر 33 سال بعد ہوتا ہے یہ چاند اور سورج کے مداروں میں چکر میں ایک نایاب ہم آہنگی کی وجہ سے ہوتا ہے۔
فلکیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ نادر لمحہ چاند اور زمین کی حرکتوں میں غیر معمولی ریاضیاتی درستگی کو ظاہر کرتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا ہمیشہ نہیں ہوتا البتہ ہر 33 سال میں کسی نہ کسی مہینے میں ایسا ہوجاتا ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہوتا ہے
پڑھیں:
وقت ایک نہیں بلکہ تین سمتوں کا حامل ہے، نئی تحقیق
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
جدید ترین ٹیکنالوجیز کی مدد سے کائنات کے اسرار بے نقاب کرنے کی بھرپور کوششیں جاری ہیں۔ فطری علوم کے ماہرین نے اب زمین سے ہٹ کر کائنات کی وسعتوں کو کھنگالنا شروع کردیا ہے۔ جو کچھ اب تک نامعلوم تھا وہ معلوم کی منزل تک لایا جارہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جدید ترین تحقیق سے یہ معلوم ہوا ہے کہ وقت کی دراصل تین سمتیں ہوتی ہیں۔ اس تحقیق سے کائنات کے بارے میں ہمارے علم کا بیشتر حصہ یا تو الٹ پلٹ جائے گا یا پھر غیر متعلق سا ہوکر رہ جائے گا۔ کائنات کی وسعتوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کی کوشش کے دوران فلکیات اور ہیئت کے ماہرین محض خلا کے بارے میں نہیں سوچ رہے بلکہ وقت کے بارے میں بھی زیادہ سے زیادہ جاننے کے لیے کوشاں ہیں۔ اب تک یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ وقت کی صرف ایک سمت ہے۔ یعنی اِسے ماضی، حال اور مستقبل کے خانوں میں ہم بانٹتے ہیں۔ اب کہا جارہا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ وقت کی تین سمتیں ہیں اور اِس دریافت سے متبادل مستقبل میں سفر کرنا بھی ممکن ہوسکتا ہے۔ ٹائم ٹریول یعنی ماضی یا مستقبل میں جانا ہر دور میں انسان کے لیے ایک انتہائی پُرکشش تصور رہا ہے۔
وقت کے بارے میں ہر دور کے انسان نے سوچا ہے۔ وقت کی حقیقت کو جاننے کی خواہش اور کوشش ہر دور میں رہی ہے۔ ہر دور کے فطری علوم و فنون کے ماہرین نے وقت کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کی سعی کی ہے تاکہ کائنات کو سمجھنے میں نمایاں حد تک مدد مل سکے۔ کبھی کہا گیا کہ وقت نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں اور یہ کہ وقت کا احساس تو دراصل کائنات کے مظاہر میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے ہوتا ہے۔ اگر تمام ستارے، سیارے اور دیگرا اجرامِ فلکی ساکت ہو جائیں تو وقت ختم وہ ہو جائے گا کیونکہ ہمیں تب یا تو دن ہوگا یا رات۔ ایسے میں وقت کے گزرنے کا احساس بھی نہیں ہوگا۔
اب ماہرین کہتے ہیں کہ یہ تصور بالکل بے بنیاد ہے کہ وقت نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ انسان کا ذہن وقت جیسی انتہائی بنیادی کائناتی حقیقت کو پوری طرح سمجھنے سے قاصر ہے۔ وقت کو سمجھنے کی کوشش کرنے والوں کے ذہن اکثر انتہائی نوعیت کی الجھن سے دوچار دیکھے گئے ہیں۔
ٹائم ٹریول کا تصور بھی دراصل وقت کو سمجھنے کی خواہش اور کوشش ہی کا مظہر ہے۔ ہر دور کا انسان اپنے دور سے گبھراکر یا تو ماضی یا پھر مستقبل میں جانے والا متمنی رہا ہے۔ چند ایک سائنس دانوں نے اِس حوالے سے کوششیں بھی کیں۔ کائنات کی چند بڑی گتھیوں میں وقت بہت نمایاں ہے۔ وقت کو سمجھنے کی کوشش میں ہر دور کے ماہرین نے اپنی طبیعت کی بھرپور جولانی دکھائی ہے مگر مکمل کامیابی کسی کو حاصل نہیں ہوسکی ہے۔