احمد علی بٹ نے سنیما گھروں کی بحالی کیلئے بالی ووڈ فلموں کی نمائش کو ضروری قرار دے دیا
اشاعت کی تاریخ: 14th, March 2025 GMT
پاکستان شوبز کے اداکار اور میزبان احمد علی بٹ نے بالی ووڈ سمیت دنیا بھر کی فلموں کو سنیما گھروں کی بقا کیلئے اہم قرار دے دیا۔
احمد علی بٹ نے تیزی سے بند ہونے والے سنیما گھروں کی دوبارہ بحالی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے انسٹاگرام اسٹوری پر ایک پیغام دیا ہے۔
اداکار نے مقامی سنیما کو سپورٹ کرنے کو ضرور قرار دیتے ہوئے زور دیا کہ انڈسٹری کو زندہ رہنے کے لیے دنیا بھر سے فلموں کی ضرورت ہے۔
View this post on InstagramA post shared by Galaxy Lollywood (@galaxylollywood)
انہوں نے انسٹاگرام اسٹوری پر لکھا کہ ’ہمارے سنیما کو فلموں کی ضرورت ہے ہالی ووڈ، بالی ووڈ، لالی ووڈ، کالی ووڈ یا پھر کوئی بھی اور، ہم مزید سنیما گھروں کو بند کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے‘۔
یاد رہے کہ اس سے قبل ہدایتکار ابو علیحہ نے بھی سنیما گھروں کی ضرورت اور انہیں بند کرنے کی روک تھام کیلئے بالی ووڈ فلموں کی بحالی کو ضروری قرار دیا تھا جن پر کئی سالوں سے پابندی عائد ہے۔
View this post on InstagramA post shared by Galaxy Lollywood (@galaxylollywood)
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سنیما گھروں کی بالی ووڈ فلموں کی
پڑھیں:
پہلگام حملہ : چند پہلو جنہیں سمجھنا ضروری ہے
مقبوضہ کشمیر کے تفریحی مقام پہلگام میں منگل کے روز ہونے والا دہشتگردی کا حملہ نہ صرف خوفناک ہے بلکہ اس نے پورے خطے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق ضلع آننت ناگ کے حسین مقام پہلگام سے چند کلومیٹر دور وادی میں جہاں سینکڑوں سیاح جمع تھے، اچانک جنگل سےچار پانچ حملہ آور آئے اور انہوں نے اندھادھند فائرنگ کر کے 26 کے لگ بھگ سیاح ہلاک کر دیے، کئی زخمی بھی ہوئے۔ اپنی نوعیت کا یہ شدید ترین واقعہ ہے، جس کی کوئی مثال پچھلے چند برسوں میں نہیں ملتی۔
حملے کا پیٹرن کیا تھا؟قابل ذکر بات یہ تھی کہ حملہ آوروں نے خواتین کو نشانہ نہیں بنایا اور صرف مردوں پر فائرنگ کی۔ ایک بھارتی اخبار کے مطابق حملہ آوروں نے بعض خواتین کو چلا کر کہا کہ تمہیں گولی نہیں مار رہے، جا کر اپنے وزیراعظم مودی کو بتا دو کہ ہم یہاں پر غیر لوگوں کو آباد نہیں ہونے دیں گے۔ اس بات کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی، البتہ یہ حقیقت ہے کہ خواتین نشانہ نہیں بنائی گئیں، مرنے والے 26 کے 26 مرد ہی ہیں۔
بعض بھارتی میڈیا چینلز نے یہ بھی رپورٹ کیا کہ حملہ آوروں نے مذہب پوچھ کر صرف غیر مسلموں کو نشانہ بنایا۔ یہ بات درست نہیں۔ عینی شاہدین نے اس بات کو کنفرم نہیں کیا۔ یہی بتایا کہ حملہ آوروں نے اندھادھند فائرنگ کی، مرنے والوں میں کم از کم ایک مقامی کشمیری مسلمان بھی شامل ہے جبکہ زخمی ہونے والوں میں بھی مسلمان شامل ہیں۔
حملہ آور کون ہیں؟ابھی تک حملہ آوروں کے بارے میں ٹھوس شواہد سامنے نہیں آئے۔ حملے کے پیٹرن سے یہ لگتا ہے کہ حملہ آوروں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ کشمیری جہادی تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں اور انہوں نے ’اخلاقیات‘ دکھاتے ہوئے دانستہ خواتین کو نشانہ نہیں بنایا۔
البتہ یہ بات عجیب اور مضحکہ خیز تھی کہ سیاحوں پر گولیاں چلاتے ہوئے کہنا کہ ہم یہاں غیر کشمیریوں کو آباد نہیں ہونے دیں گے۔ یہ لوگ سیاح تھے جو صرف چند گھنٹوں کے لئے یہاں آئے، ان کا کون سا کشمیر میں گھر لینے کا ارادہ تھا۔ یہ بات صرف ایک ڈھکوسلہ ہی لگی ہے اور شاید اس کا مقصد کشمیر میں مزاحمت کرنے والی تنظیموں کو بدنام کرنا ہو۔
بظاہر حملے کے لیے اس وادی کا انتخاب اس لیے کیا گیا کہ وہاں سڑک کا راستہ نہیں اور صرف پیدل یا خچر پر سواری کر کے ہی پہنچا جا سکتا ہے۔ اسی وجہ سے بعض زخمیوں کو خچروں پر ہی طبی امداد کے لیے پہلگام پہنچایا گیا۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ جہاں حملہ ہوا، وہ جگہ کنٹرول لائن سے 400 کلومیٹر دور ہے، یعنی یہ ممکن نہیں تھا کہ حملہ آور پاکستان سے داخل ہو کر وہاں پہنچے ہوں، راستے میں بے شمار چیک پوسٹیں اور فوجی چھاؤنیاں موجود ہیں۔
ذمہ داری قبول کرنے والا گمنام گروپاس واقعے کی ذمہ داری ایک غیر معروف گروپ دی رزیسٹینس فرنٹ (ٹی آر ایف) نے قبول کی۔ بی بی سی کے مطابق یہ گروپ سنہ 2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سامنے آیا اور مبینہ طور پر ایک سرگرم عسکریت پسند نیٹ ورک میں تبدیل ہونے سے پہلے انڈیا کے خلاف آن لائن پروپیگنڈا کرنے میں مصروف رہا۔
انڈین حکومت نے سنہ 2023 میں اسے ایک دہشتگرد گروپ قرار دیا تھا اور اس پر نوجوانوں کو بھرتی کرنے، دہشتگردی کے مواد کو آن لائن پھیلانے اور جموں و کشمیر میں ہتھیاروں کی اسمگلنگ کا الزام عائد کیا تھا۔بیان میں کہا گیا تھا کہ ٹی آر ایف کی سرگرمیاں انڈیا کی قومی سلامتی اور خودمختاری کے لیے نقصان دہ ہیں۔
بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے حملہ آوروں کے سکیچز جاری کیے ہیں، یہاں تک تو بات ٹھیک ہے کہ عینی شاہدین سے حلیہ پوچھ کر سکیچ بنوا لیے۔ بھارتی خفیہ اداروں نے باقاعدہ 3 نام بھی بتائے کہ ان لوگوں نے کوڈ نیم استعمال کیے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان عام سے سکیچز سے ان حملہ آوروں کے نام کیسے معلوم ہوگئے؟
بھارتی اخبار ہندو نے رپورٹ دی ہے کہ ان میں سے 2 مقامی کشمیری تھی جو پاکستان ٹریننگ کے لیے گئے۔ حد ہوتی ہے الزام تراشی کی۔ ابھی حملہ آور پکڑے نہیں گئے، ان کے بارے میں کچھ بھی نہیں معلوم، کوئی سہولت کار بھی نہیں پکڑا گیا اور یوں ہی تکے سے 3 نام بھی بتا دیے اور یہ بھی کہ ان میں سے 2 فلاں تھے جو ٹریننگ کے لیے گئے۔ اسے ہی بے پر کی کہانی بنانا کہتے ہیں۔ بھارتی اداروں کو چاہیے کہ اپنے تفتیش کاروں کو کسی ڈھنگ کے یورپی ملک سے ٹریننگ دلوائیں۔
انڈین میڈیا کا خوفناک ردعملاس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک افسوسناک واقعہ تھا، کسی بھی سیاحتی مقام پر اگر شہریوں کو فائرنگ کا نشانہ بنایا جائے تو ظاہر ہے اس کی حمایت کون کر سکتا ہے؟ ہم پاکستانیوں سے زیادہ کون یہ جانتا ہے جو ایسے بہت سے تکلیف دہ، افسوسناک واقعات بھگت چکے ہیں، ابھی حال ہی میں جعفر آباد ایکسپریس پر حملہ بھی ایسا ہی تھا جس میں نہتے مسافروں کو بے دردی سے نشانہ بنایا۔
یہ واقعہ افسوسناک اور ڈسٹربنگ ہونے کے ساتھ شاکنگ تھا، مگر جس انداز میں انڈین میڈیا اور وہاں کی سیلیبریٹیز نے شدید ردعمل ظاہر کیا، وہ بھی مریضانہ تھا۔ بڑے بھارتی اخبارات اور چینلز نے معمولی سا بھی انتظار کیے بغیر اس کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دے دیا اور پھر اینکرز، نام نہاد تجزیہ کاروں نے طوفان اٹھادیا اور جواب میں پاکستان پر شدید ترین حملہ کرنےکا مطالبہ کر ڈالا۔
یہ نہایت غیر ذمہ دارانہ رویہ تھا۔ اس طرح کے حملے کی ذمہ داری پاکستان پر کیسے ڈالی جا سکتی ہے؟بیان بازی کے طور پر ایک آدھ بیان دینا الگ بات ہے، مگر یوں میڈیا اور سوشل میڈیا پر منظم مہم چلانا تو حیران کن تھا۔ اطلاعات کے مطابق بی جے پی کے سینکڑوں سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے یوں منظم انداز میں پاکستان مخالف مہم شروع کر دی جس سے یہ تاثر ملا جیسے یہ لوگ پلاننگ کر کے بیٹھے تھے اور انہیں علم تھا کہ ایسا کچھ ہونے والا ہے اور اگلے دو تین گھنٹوں میں ٹوئٹر ایکس، فیس بک اور تمام فورمز پر قیامت برپا کر دو۔ اس سے کئی شکوک نے جنم لیا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ خود بی بی سی اور بھارتی میڈیا کو اس حادثے کی جگہ تک رسائی نہیں دی گئی۔ بی بی سی نے اپنی نامہ نگار کے حوالے سے بتایا کہ ہمیں پہلگام سے 60 کلومیٹر پہلے روک دیا گیا ہے اور کسی کو ہسپتال جا کر زخمیوں سے بات کرنے یا جائے وقوعہ پر عینی شاہدین وغیرہ سے بات کرنے کی اجازت نہیں۔
اس پر بھی شکوک پیدا ہوئے ہیں کیونکہ جب واقعہ ختم ہوگیا، لاشیں بھی ہٹا لی گئیں، 24 گھنٹوں بعد بھی میڈیا کو وہاں کیوں جانے نہیں دیا جا رہا؟ حالانکہ عام طور سے میڈیا ایسے واقعات کی جذباتی رپورٹنگ کرتا ہے جس سے حکومت کو اپنے سخت ردعمل میں آسانی ہوتی ہے۔ پہلگام واقعے میں میڈیا پر پابندی سے تو یہ لگ رہا ہے کہ شاید یہ خدشہ لاحق ہے کہ کہیں کوئی دلیر صحافی وہاں وزٹ کر کے کچھ ایسا معلوم نہ کر لے جو بھارتی سرکاری موقف سے مختلف ہو اور جو پاکستان مخالف تصویر پیش نہ کرے۔
پاکستان پر ہی ملبہ کیوں؟ایک اہم سوال یہ ہے کہ آخر بھارت میں جو بھی دہشتگردی کا بڑا واقعہ ہو، اپنی انٹیلی جنس ناکامی اور انتظامی نااہلی پر تنقید کرنے کے بجائے اس کا ملبہ ہمیشہ پاکستان پر کیوں گرایا جاتا ہے؟ پاکستان پر جنگ کے بادل کیوں منڈلانے لگتے ہیں اور ہمارا کیا قصور ہے کہ ایسے ہر واقعے کے بعد ہمیں ملزم قرار دیا جائے؟
غیر جانبداری سے اس معاملے کا تجزیہ کیا جائے تو 4 ایسے ٹھوس پوائنٹس موجود ہیں جو پاکستان کی بریت کی گواہی دیتے ہیں :
1: امریکی نائب صدر کی بھارت میں موجودگی۔
جب یہ حملہ ہوا تب امریکی نائب صدر جے ڈی وینس بھارت کا دورہ کر رہے ہیں۔ وہ اپنی فیملی کے ساتھ تاج محل کا وزٹ کر رہے تھے جب واقعے کی تفصیل پہنچی۔ اس وزٹ کے بعد امریکی نائب صدر کو میڈیا سے بات بھی کرنا پڑی۔ ایسے اعلیٰ سطحی امریکی دورے کے دوران کوئی احمق ترین تنظیم ہوگی جو ایسی کارروائی کرے گی۔ جو شخص صدر ٹرمپ اور ان کے سرپھرے نائب صدر کو جانتا ہے، وہ تو ایسی حماقت نہیں کر سکتا۔ کشمیری مزاحمت کار ماضی میں غیر ملکی سیاحوں کو نشانہ بنا کر بہت نقصان اٹھا چکے ہیں، اب وہ اس سے گریز کرتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنی جدوجہد کو مقامی رکھا جائے، اسے انٹرنیشنل نہ بنایا جائے کہ اس کا انہیں نقصان ہوتا ہے۔
2: پاکستان امریکا سے خوشگوار تعلقات بگاڑنے کا رسک کیوں لے گا؟
یہ حقیقت ہے کہ پاکستانی اداروں نے بڑی سمجھداری اور دانشمندی سے امریکا کے ساتھ تعلقات بہتر کیے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ تعلقات میں مسلسل بہتری آ رہی ہے۔ ٹرمپ نے اپنے کانگریس سے خطاب میں پاکستان کو سراہا۔ جبکہ پاکستان اور امریکا افغانستان اور افغان طالبان کے حوالے سے ایک ہی پیج پر آ چکے ہیں۔
پاکستان کی کوشش ہے کہ بلوچستان میں مائنز اینڈ منرلز کے حوالے سے امریکی کمپنیوں کو بھی انویسٹمنٹ کے لیے آمادہ کیا جائے۔ خاصا کچھ پائپ لائن میں چل رہا ہے۔ بہت کچھ ایسا جو سردست بیان کرنا بھی مناسب نہیں۔
ایسے میں کیا پاکستان ایسی حماقت کر سکتا ہے کہ بھارتی زیر تسلط کشمیر میں کوئی ایسا بڑا حملہ کرا دے جس کی دنیا بھر میں شدید مذمت ہو اور صدر ٹرمپ کے لیے آؤٹ آف دا وے انڈیا کے ساتھ جانا پڑے۔ ایسی حماقت پاکستان قطعی نہیں کر سکتا۔ اگر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجی کانوائے پر کوئی حملہ ہو تو دنیا اسے الگ نظروں سے دیکھے گی، مگر کسی سیاحتی مقام پر نہتے سیاحوں پر ہونے والی اندھادھند فائرنگ کو ظاہر ہے دنیا بھر میں دہشتگردی ہی تصور کیا جائے گا۔ پاکستان اپنے پیروں پر کلہاڑی کیوں مارے گا؟
3: پاکستان کا شدید معاشی بحران:
پاکستان اس وقت جس قسم کے معاشی حالات سے گزر رہا ہے، اس میں ہرگز ہرگز کسی ایڈونچر کی گنجائش نہیں۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا پورا فوکس ملکی معیشت کو سنبھالنے پر ہے، زیادہ سے زیادہ غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے، ہر ممکن کوشش ہو رہی ہے کہ ملکی معیشت سنبھل جائے اور استحکام پیدا ہو۔ ایسے میں جنگ جوئی کی حماقت کون کرتا ہے؟
ایک لاکھ میں ایک فیصد سے کم امکان ہوسکتا ہے کہ ایسے بحرانی حالات میں کوئی حماقت کی جائے۔ پاکستانی اسٹیٹ ایکٹرز ک ے بارے میں تو خیر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں اگر کوئی بچا کچا نان اسٹیٹ ایکٹر ہے تو وہ بھی ایسی حماقت یا جرات نہیں کر سکتا۔ جب روٹی کے لالے پڑے ہوں تو جنگ کی طرف کون جاتا ہے؟ اس طرح کا حملہ دونوں ممالک کو کسی جنگ کی طرف اگر نہ لے جائے، تب بھی خطے کی صورتحال ازحد کشیدہ ضرور ہوجائے گی اور یہ پاکستان کے بالکل مفاد میں نہیں۔
4: کیا یہ بھارتی فالس فلیگ آپریشن ہے؟
فالس فلیگ آپریشن سے مراد ایسا جھوٹا، دھوکہ دینے والا حملہ ہے جس کا الزام مخالف پرلگایا جائے جبکہ وہ دانستہ طور پر خود ہی کرایا گیا ہو۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ بھارتی فالس فلیگ ہے؟
دیانت داری کی بات ہے کہ میرے پاس اس کا کوئی حتمی جواب موجود نہیں مگر جس سرعت سے بھارت نے پاکستان پر مدعا ڈالنے کی کوشش کی اور جس طرح بھارتی ایجنسیوں سے منسلک سوشل میڈیا اکاؤنٹس کل سے ایکٹو ہوئے ہیں اس سے فالس فلیگ والے الزام کو تقویت ضرور ملتی ہے۔
ایک اور پہلو ہے کہ بی جے پی حکومت مسلم وقف بل کے حوالے سے شدید عوامی دباؤ میں ہے، سپریم کورٹ میں یہ کیس جا چکا ہے، بھارتی مسلمان متحد ہو کر وزیراعظم مودی اور ان کی جماعت کے خلاف موقف اپنا چکے ہیں۔ بھارت کی سیکولر اور لبرل قوتیں بھی ان کے ساتھ ہیں۔
ایسے میں پہلگام حملہ جیسا واقعہ جو جنگی جنون بھارت میں پیدا کر دے گا، اس کا پورا فائدہ مودی حکومت ہی کو ملنا ہے۔ اب بھارتی مسلمان مزید سہم جائیں گے۔ انہیں یہ خدشہ لاحق ہوجائے گا کہ کہیں انہیں پاکستان کے ساتھ منسلک نہ کر دیا جائے۔ پہلگام حملہ ہر اعتبار سے انڈیا اور مودی حکومت کے حق میں جا رہا ہے۔ جو وقتی شاک وہاں کے عوام کو ملا ہے، وہ انہیں پاکستان پر دباؤ بڑھانے اور عالمی رائے عامہ کو پاکستان مخالف بنانے کے لیے استعمال کریں گے۔
بھارت کیا کر سکتا ہے؟
سوال اب یہی ہے کہ آئندہ چند دنوں میں کیا ہونے والا ہے۔ بھارتی وزیروں کا بار بار یہ کہنا کہ بھارتی ردعمل واضح اور بلند ہوگا، یہ دراصل کسی عسکری حملے کی طرف اشارہ ہے۔ کیا پاکستان پر کوئی سرجیکل سٹرائیک یا اس سے بھی بڑا فوجی حملہ ہوسکتا ہے؟ اس کا خدشہ موجود ہے۔ تاہم بھارت نے یہ حماقت کی تو اسے منہ کی کھانی پڑے گی۔ پاکستانی فوج کو کمزور سمجھنا وہی غلطی ہو گی جس کی سزا ابھی نندن کو تاحیات شرمندگی کی صورت میں بھگتنا پڑی۔ ضروری نہیں کہ اب کی بار بھارتی فوجی پائلٹ اتنے خوش نصیب ہوں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔
پہلگام حملہ عامر خاکوانی