Daily Ausaf:
2025-07-26@00:44:45 GMT

کیا توہین صرف عدلیہ ہی کی ہوتی ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT

میر تقی میر کی لُغت مُستعار لی جائے تو عدل کی کارگۂِ شیشہ گری کا کام بے حد نازُک ہے۔ اتنا نازُک کہ سانس بھی آہستہ لی جائے۔ یہ تلوار کی دھار سے تیز اور بال سے باریک پُل صراط پر سنبھل سنبھل کر پائوں دھرنے اور توازن برقرار رکھنے کا فن ہے جس کے لئے جسمانی تربیّت یا اعضاء کی مخصوص ساخت کی نہیں، صرف اُس حلف کو اپنے ایمان ویقین کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے جو اعلیٰ عدلیہ کا ہر جج، مسندِ عدل پر بیٹھنے سے پہلے اُٹھاتاہے۔
اِس مقدس حلف کا ایک جُملہ ہے__’’ میں ہر حالت میں، ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ بلاخوف و رعایت اور بلارغبت وعناد، قانون کے مطابق انصاف کروں گا۔‘‘ حقیقتِ احوال یہ ہے کہ ہماری تاریخ کے کم وبیش ہر بڑے عدالتی فیصلے پر ’’خوف، رعایت، رغبت یا عناد‘‘ کی مہر ثبت ہے۔ آئین ہی کے آرٹیکل 209 (8) کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل نے ایک نہایت جامع ضابطۂِ اخلاق بھی مرتب کررکھا ہے جس کے تحت ’’ہرجج پر لازم ہے کہ وہ خوفِ خدا رکھتے ہوئے، توازن اور مساوات کے اصول پر قائم رہے۔ مروجہ آداب ورسوم اور اخلاقیات کا خیال رکھے۔ عدالت کے وقار کو ملحوظ رکھتے ہوئے خوش اخلاقی پر عمل پیرا ہو۔ ‘‘
نظامِ عدل وانصاف میں ایک اساسی کُلیے کا درجہ حاصل کرلینے والا قول ہے کہ ’’ملزم، قانون کا لاڈلا بچہ ہوتا ہے۔‘‘ یہ قول بھی اصول بن چکا ہے کہ ’’ہرملزم اُس وقت تک معصوم ہے جب تک اُس کا جرم ثابت نہ ہوجائے۔‘‘ قانون وانصاف کے اِن دونوں اصولی تقاضوں کو جج صاحبان کے حلف اور ضابطۂِ اخلاق کے ہم پہلو رکھ کر پڑھا جائے تو یہ تصوّر کرنا بھی محال ہے کہ انصاف کی مسندِ عالی پر بیٹھا کوئی جج، اپنے سامنے کھڑے ملزم، یا کسی بھی شخص کی عزتِ نفس کے پرخچے اُڑا دے۔ کھڑے کھڑے اُسے بے لباس کر دے، اُس کی توہین وتضحیک کرے اور اُس پر طنز وتشنیع کے زہرناک نشتر چلائے۔ اِس سے جڑا المیّہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ کھُلے بندوں، روزمرّہ کے معمول کی طرح ہوتا رہے، ٹیلی ویژن چینلز، آتش بداماں ریمارکس کی پھلجھڑیوں سے عوام کی تفریحِ طبع کا سامان کرتے رہیں، شام سے رات گئے تک کے ٹاک شوز نشانۂِ تضحیک بننے والے کی قبائے تار تار کے چیتھڑے چُنتے رہیں، اگلے دن کے اخبارات رنگا رنگ سرخیوں سے اپنے عارض ورُخسار نکھارتے رہیں اور سپریم جوڈیشل کونسل کے کانوں پر جوں تک نہ رینگے۔
ساری دنیا کے جج صاحبان، دورانِ سماعت سوال وجواب کرتے اور ریمارکس دیتے رہتے ہیں۔ بالعموم اُن کا مقصد زیرنظر مقدمے کے کسی پہلو کی تفہیم ہوتا ہے۔ ریمارکس میں شُستگی اور شائستگی بھی ہوتی ہے اور لطافت وشگفتگی بھی۔ ہمارے ہاں جج صاحبان کے ریمارکس کیلوں والے ڈنڈوں کی طرح اَن گڑھ اور بے ڈھب ہی نہیں، تضحیک آمیز اور زہرناک بھی ہوتے ہیں۔ نہیں معلوم کون سی دستوری شق اِس اَمر کی اجازت دیتی ہے کہ وہ بلند چبوترے کی کرسی پر بیٹھ کر سامنے کھڑے افراد کو حشرات الارض سے بھی حقیر تر سمجھیں؟
گذشتہ ماہ کے آخری ہفتے کا ذکر ہے۔ عزت مآب جسٹس بابر ستّار نے، محمد سہیل بنام وفاق پاکستان مقدمے کی سماعت کے دوران ڈائریکٹر جنرل امیگریشن اینڈ پاسپورٹس، مصطفیٰ جمال قاضی کی سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیے ’’کیا تمہیں انگریزی پڑھنا آتی ہے؟ آتی ہے تو ہمارا یہ آرڈر پڑھو۔ کیوں نہ تمہارے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائے اور جرمانہ عائد کیاجائے۔ آج کل جسے عدالت سے سزا ملتی ہے اُسے میڈل بھی مل جاتا ہے۔ آپ کے لئے اچھی بات یہ ہے کہ اگر عدالت کی طرف سے کوئی پنلٹی لگ گئی تو آپ کو بھی میڈل مِل جائے گا۔‘‘ ڈائریکٹر جنرل نے اپنی صفائی میں کہا کہ ’’جب نیب کی طرف سے، بحریہ ٹائون ریفرنس میں نامزد افراد کے نام پاسپورٹ کنٹرول لسٹ (PCL) پر ڈالنے کے لئے باضابطہ طورپر مطلع کر دیاگیا تو ’ضابطہ بند طریقِ کار‘ (SOP) کے تحت میرے پاس کوئی راستہ نہیں تھا کہ میں اس پر عمل کروں اور نامزد افراد کے نام، پاسپورٹ کنٹرول لسٹ پہ ڈال دوں۔ میرے پاس نہ تو کوئی عدالتی اختیار ہے نہ میں اِس کے میرٹ کاجائزہ لینے کے لئے اپنی سوچ بروئے عمل لاسکتا ہوں۔‘‘ جج صاحب کا بہر طور اصرار تھا کہ ’’تمہیں آنکھیں بند کرکے نیب مراسلے پر عمل کرنے کے بجائے اپنا ’مائینڈ اَپلائی‘ کرنا چاہیے تھا۔‘‘ ڈائریکٹر جنرل کے خلاف کارروائی کے امکانات اور اثرات ونتائج پر راہنمائی کے لئے، ہر نوع کی سیاسی آلائش سے پاک، ساری عمر صرف آئینی وقانونی تقاضوں تک محدود رہنے اور پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو شخصی پسندوناپسند سے بالا تر رکھنے والے دو انتہائی معتبر معزز ماہرینِ آئین وقانون، شعیب شاہین اور عبدالرحیم بھٹی کو عدالتی معاونین نامزد کر دیاگیا۔ اگلی پیشی پر اِن دونوں معاونین نے رائے دی کہ ڈائریکٹر جنرل امیگریشن اور متعلقہ ڈائریکٹر نیب کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی کا بھرپور جواز موجود ہے۔ مصطفیٰ جمال قاضی نے ایک تحریر پیش کرتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار محمد سہیل کانام، پی۔سی۔ایل سے نکال دیاگیا ہے۔ اِس تحریر سے صرفِ نظر کرتے ہوئے جج صاحب نے کہا__ ’’اَب بات بہت آگے نکل چکی ہے۔‘‘
’’جسے عدالت سزا دیتی ہے، اُسے تمغہ مل جاتا ہے‘‘ کے کلمۂِ فضیلت مآب کا اشارا واضح طورپر اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر عرفان نوازمیمن کی طرف تھا جنہیں 9 مئی 2023ء کے بعد مختلف ایجنسیوں کی رپورٹس پر متعدد افراد کو تحفظِ امن عامہ کے لئے زیرحراست رکھتے ہوئے، عدالتی احکامات ’’نظرانداز‘‘ کرنے کی پاداش میں، جسٹس بابر ستّار نے مارچ 2024ء میں چھ سال قید کی سزا سنائی تھی۔ اِس سزا کو ایک ڈویژن بینچ نے معطّل کردیا تھا جو آج تک معطّل چلی آ رہی ہے۔
اِس سال 23 مارچ کو صدرمملکت نے عرفان نواز میمن کو ستارۂِ امتیاز سے نوازا۔ ڈی۔جی امیگریشن کے مقدمے سے عرفان نوازمیمن کا کچھ لینا دینا نہیں تھا لیکن جانے اپنے حلف اور ضابطۂِ اخلاق کی کون سی شق سے صوابدیدی اختیار کشید کرتے ہوئے جج صاحب نے، عرفان نوازمیمن کے ایک پرانے زخم کو کریدنا اور مُٹھی بھر نمک ڈال دینا، تقاضائے انصاف جانا؟ بصد احترام کیا پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا یہ سب کچھ اعلیٰ عدلیہ کے لئے مخصوص حلف اور ضابطۂِ اخلاق کے عین مطابق ہے؟
رُسوائے زمانہ پانامہ کیس میں عالی مقام آصف سعید کھوسہ نے وزیراعظم نوازشریف پر ’گاڈ فادر‘ کی پھبتی کسی تھی۔ چند دِن قبل کسی اخبار کے کسی گوشے میں سنگل کالم خبر دیکھی کہ جسٹس عظمت سعید شیخ انتقال کرگئے۔ اللہ تعالی اُن کی مغفرت فرمائے۔ انہوں نے پانامہ کیس میں ہی شریف خاندان کو ’’سسلین مافیا‘‘ کہا تھا۔ اِس سے بھی قبل 2016ء میں انہوں نے ایک مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے کہا تھا ’’وزیراعظم نوازشریف کو بتا دو کہ ابھی اڈیالہ جیل میں بہت جگہ خالی ہے۔ ہم نے اُسے ایک دفعہ یہاں بلالیا تو وہ دوبارہ دفتر نہیں جاسکے گا۔‘‘ وزیراعظم نے اِن ناروا ریمارکس کے بارے میں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کو خط لکھا۔ ایک عشرہ ہونے کو ہے۔ اُس خط کا جواب نہیں آیا۔ جانے وہ کون سی سیلن زدہ کوٹھڑی کی کس کِرم خوردہ الماری میں پڑا ہے۔
کیا توہین صرف عدلیہ ہی کی ہوتی ہے؟ اُن جیتے جاگتے انسانوں کی کوئی عزت وتوقیر نہیں جن کے بنیادی حقوق سے آئین چھلک رہا ہے لیکن جن کی پیٹھ پر تازیانے برساتے ہوئے جج صاحبان کا دِل اُس خوفِ خدا سے بھی خالی ہوجاتا ہے جس کا ذکر اُن کے ضابطۂِ اخلاق کا مقدس نوشتہ ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ڈائریکٹر جنرل کرتے ہوئے کے لئے

پڑھیں:

ملک ترقی نہیں کررہا، سیاسی ڈائیلاگ میں فوج اور عدلیہ کو بھی شامل کریں: شاہد خاقان

اسلام آباد (آئی این پی )سابق وزیراعظم  اور سربراہ عوام پاکستان پارٹیشا ہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ 9 مئی بڑا واقعہ ہے، لیکن جب دو سال گزر جائیں تو کوئی فیصلے قبول نہیں کرے گا،  اس طرح کے فیصلے پہلے بھی آئے  تو نہ انھیں سیاستدان قبول کرتے ہیں نہ ہی قانون دان، ایک انٹرویو میں  انہوں نے کہا   ملک ترقی نہیں کر رہا، سیاسی ڈائیلاگ کریں جس میں فوج اور عدلیہ کو بھی شامل کریں۔ سارے اختیارات پاس رکھ لیں، 26 کے بعد 27 ویں ترمیم کر لیں، اگر صلاحیت نہیں تو ملک نہیں چلا سکتے۔ آج جتنے چیلنجز پاکستان کو درپیش ہیں کبھی نہیں تھے، ملک کو آگے لے جانے کی بات کریں۔ سابق وزیراعظم نے  کہا کہ حکومت ناکام ہے اور اسے خود اپنے آپ سے چیلنج ہے، یہ جتنے برس بھی رہیں ملک آگے نہیں بڑھے گا۔ جس ملک میں قانون نہ ہو وہ نہیں چلا چلتا یہ تاریخ کا سبق ہے۔ معاشی اشارے اسٹاک مارکیٹ غریب کی میز پر کھانا نہیں رکھتے، ترقی نہیں ہو رہی تو ملک آگے نہیں جائے گا۔سربراہ عوام پاکستان پارٹی کا کہنا تھا کہ ماضی میں گیس ڈویلپمنٹ چارجز لگائے 6 سو ارب حکومت کو چلے گئے، کاربن لیوی بھی یہی ہے۔ پنجاب کی حقیقت وہی ہے جو باقی صوبوں کی ہے، کرپشن حد سے زیادہ ہے گورننس نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ہمارے بغیردنیا کی معیشت بیٹھ جائے گی، امریکی صدرکا دعوی
  • ملک میں عدلیہ اور انصاف کا کوئی وجود نہیں رہا، عمر ایوب
  • امریکہ،کولڈ پلے کنسرٹ اسکینڈل، اینڈی بائرن کے بعد ایچ آر ہیڈ کرسٹن کیبوٹ بھی مستعفی
  • تکفیر و توہین سے اُمت کمزور ہو رہی ہے، ڈاکٹر طاہرالقادری
  • ملک ترقی نہیں کررہا، سیاسی ڈائیلاگ میں فوج اور عدلیہ کو بھی شامل کریں: شاہد خاقان
  • مستونگ میں سیکیورٹی فورسز کے آپریشن میں 3 دہشت گرد ہلاک، میجر اور سپاہی شہید
  • ایف آئی اے کی بڑی کارروائی؛ غیر قانونی سرحد پار کرتے ہوئے 33 غیر ملکی گرفتار
  • ’ہر شو میں ایک نئی کہانی ہوتی ہے‘، ندا یاسر کو پھر تنقید کا سامنا
  • شدید بارشیں، سیلاب،کسی بھی صوبے کو ضرورت پڑی تو امداد کیلئے حاضر ہیں:شرجیل میمن
  • اربعین پالیسی 2025 ایران کی زائرین کے لیے خدمات قابل تحسین ہیں۔ خواجہ رمیض حسن