پی ایس ایل: بائننس اور اسلام آباد یونائیٹڈ کی پارٹنرشپ کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT
دنیا کی معروف بلاک چین ایکو سسٹم، بائننس کو پی ایس ایل کی معروف ٹیم اسلام آباد یونائیٹڈ کا آفیشل ایکسچینج پارٹنر مقرر کردیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان سپر لیگ 10: پشاور زلمی اور اسلام آباد یونائیٹڈ نے متبادل کھلاڑی چُن لیے
اس تعاون کا مقصد پاکستان میں شائقین کی مصروفیت اور تعلیم کو بڑھا کر کھیلوں اور بلاک چین ٹیکنالوجی کی دنیا کو ملانا ہے۔ شراکت داری کے مقاصد میں مداحوں کی شمولیت کی مہمات اور ڈیجیٹل ایکٹیویشن کے ذریعے بلاک چین کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے اقدامات شامل تھے۔
بائننس کا خیال ہے کہ حقیقی ترقی وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں آرام پسندی ختم ہوتی ہے اور یہ عقیدہ ’بیونڈ دی باؤنڈری‘ کی بنیاد ہے ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو ان لوگوں کو سراہنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے جو قدم بڑھاتے اور حدوں کو آگے بڑھاتے ہیں۔ اس مشن کا محور کرکٹ چیلنج ہے۔ اس حوالے سے مختلف مہمات کے ذریعے شائقین کو مائل اور چیلنجز میں مشغول کیا جائے گا اور انہیں انعامات دیے جائیں گے۔ یہ کھیل، کرپٹو، اور جرات مندانہ عزائم کی پہچان کا ایک انوکھا امتزاج ہے اور یہ سب کچھ پاکستان میں بلاک چین کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے ہے۔شراکت پر تبصرہ کرتے ہوئے گلوبل برانڈ پارٹنرشپس بائننس کی سربراہ سارہ ڈیل کا کہنا ہے کہ کرکٹ کا مطلب ایسی بولڈ چالیں چلنا اور خطرات مول لینا ہے جن سے نتائج کو تبدیل کیا جاسکے اور کرپٹو اس سے مختلف نہیں ہے۔
مزید پڑھیے: اسلام آباد یونائیٹڈ کا جیت پر جشن: سینیٹر مشتاق احمد خان تنقید کیوں کر رہے ہیں؟
انہوں نے کہا کہ بائنانس اور اسلام آباد یونائیٹڈ دونوں جذبے، درستگی اور انتھک عزم کے ساتھ پروان چڑھتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ مشترکہ یقین ہم دونوں کے درمیان ایک طاقتور ہم آہنگی پیدا کرتا ہے۔
اسلام آباد یونائیٹڈ کے سی ای او احسن لطیف نے بھی اپنے جوش و خروش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد یونائیٹڈ-بائنانس پارٹنرشپ ہمارے شائقین کو بلاک چین ٹیکنالوجی کے بارے میں بصیرت حاصل کرنے کا ایک منفرد موقع فراہم کرے گی۔
جس طرح کرکٹ پاکستان بھر میں لاکھوں لوگوں کو متحد کرتی ہے بالکل اسی طرح کرپٹو کرنسی عالمی برادری کو اکٹھا کرتی ہے جو اسی جذبے، توانائی اور جوش سے چلتی ہے۔ اس مشترکہ نقطہ نظر میں، بائننس اسلام آباد یونائیٹڈ کے درمیان شراکت داری ایک بہترین امتزاج ہے۔
مزید پڑھیں: پی ایس ایل 10 کے ٹیم کپتانوں کی مشترکہ پریس کانفرس، کس نے کیا کہا؟
بائننس کرپٹو کرنسی ایکسچینج میں تجارتی حجم اور رجسٹرڈ صارفین کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا اور سرکردہ عالمی بلاک چین ایکو سسٹم ہے اور اسے 100 ممالک کے 25 کروڑ سے زیادہ افراد کا اعتماد حاصل ہے۔یہ بنیادی ذرائع کے طور پر کرپٹو کے ساتھ دنیا بھر کے لوگوں کے لیے پیسے کی آزادی اور مالیاتی رسائی کو بڑھانے کے لیے ایک جامع کرپٹو ایکو سسٹم بنانے کے لیے وقف ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسلام آباد یونائیٹڈ بائننس بائننس اور اسلام آباد یونائیٹڈ کی پارٹنرشپ پی ایس ایل.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسلام ا باد یونائیٹڈ پی ایس ایل اسلام ا باد یونائیٹڈ اسلام آباد یونائیٹڈ پی ایس ایل اور اسلام بلاک چین کے لیے
پڑھیں:
غزہ میں قحط کا اعلان کیوں نہیں ہو رہا؟
اسلام ٹائمز: اقوام متحدہ، سلامتی کونسل، UNHCR، UNRWA، WHO اور اسی قبیل کے دسیوں ادارے اس وقت خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ دنیا کے مابین متفقہ طور تشکیل پانے والے ان اداروں کا مکمل نظام امریکی کنٹرول میں ہے، اب وہ قحط کہیں گے تو قحط ہوگا، وہ جنگ کہیں گے تو جنگ ہوگی، وہ نسل کشی کہیں گے تو نسل کشی ہوگی۔ ان انسانی المیوں کے جو معیارات ہم نے تشکیل دیئے تھے، وہ مالی معاونین کی سیاست اور پالیسیوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ دنیا بہت غیر محفوظ ہوگئی، بالکل ویسی جیسے اقوام متحدہ کے قیام سے قبل تھی بلکہ اس سے بھی بدتر۔ تحریر: سید اسد عباس
9 جولائی 2024ء کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 11 ماہرین نے غزہ میں قحط کے حوالے سے شدید خطرے کی گھنٹی بجائی۔ ان ماہرین نے مشترکہ بیان میں کہا: ”فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کی باہدف، سوچی سمجھی قحط کی صورتحال نسلی کشی کی ایک شکل ہے اور اس کے نتیجے میں پورے غزہ میں قحط پھیل چکا ہے۔ ہم عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ کسی بھی ضروری طریقے سے زمینی راستے سے انسانی امداد کی فراہمی کو ترجیح دے۔ اسرائیل کے محاصرے کو ختم کرے اور جنگ بندی قائم کرے۔" ان ماہرین میں "Right to food" کے خصوصی نمائندے مائیکل فخری، محفوظ پینے کے پانی اورسینیٹیشن کے انسانی حقوق سے متعلق خصوصی نمائندے پیڈرو آروجو-آگوڈو، اور 1967ء سے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں انسانی حقوق کی صورتحال سے متعلق خصوصی نمائندے فرانسسکا البانیز شامل تھے۔
ان کی رائے میں، وسطی غزہ میں بچوں کو طبی امداد فراہم کرنے کی کوششوں کے باوجود بھوک سے ان کی اموات نے کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں چھوڑی کہ غزہ قحط کا شکار ہوچکا ہے۔ "قحط" کو عام طور پر غذائیت کی شدید کمی سمجھا جاتا ہے، جو لوگوں کے ایک گروہ یا پوری آبادی کی بھوک اور موت کا باعث بنتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بین الاقوامی قانون میں قحط کے تصور کی کوئی متفقہ تعریف نہیں ہے۔ 2004ء میں فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (FAO) نے انٹیگریٹڈ فوڈ سکیورٹی فیز کلاسیفیکیشن (IPC) تیار کی، جو آبادی کی غذائی عدم تحفظ کا نقشہ بنانے کے لیے ایک پانچ مراحل پر مشتمل پیمانہ ہے۔ اس تشخیصی نظام کا مقصد یہ ہے کہ جب غذائی عدم تحفظ کی نشاندہی کی جائے تو اجتماعی کارروائی کو تیز کیا جائے اور ایسی صورتحال کو IPC پیمانے پر لیول 5 تک پہنچنے سے روکا جائے، جہاں قحط کی تصدیق اور اعلان کیا جاتا ہے۔ اسے FAO، ورلڈ فوڈ پروگرام (WFP) اور ان کے شراکت داروں نے گذشتہ 20 سالوں سے ایک سائنسی، ڈیٹا پر مبنی پیمانے کے طور پر استعمال کیا ہے۔
انٹیگریٹڈ فوڈ سکیورٹی فیز کلاسیفیکیشن (IPC) کے تحت قحط کے اعلان کے لیے قابلِ پیمائش معیار خوفناک حد تک سیدھے سادھے ہیں: کسی علاقے میں 20 فیصد یا اس سے زیادہ گھرانوں کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہو اور ان کے پاس مقابلہ کرنے کی محدود صلاحیت ہو؛ بچوں میں شدید غذائی قلت 30 فیصد سے تجاوز کر جائے اور یومیہ اموات کی شرح فی 10,000 افراد میں دو سے زیادہ ہو تو یہ قحط ہے۔ جب یہ تینوں معیار پورے ہو جائیں، تو "قحط" کا اعلان کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ اعلان کسی قانونی یا اداراتی ذمہ داری کے نفاذ کا باعث نہیں بنتا ہے، لیکن بین الاقوامی انسانی ہمدردی کی کارروائی کو راغب کرنے کے لیے ایک اہم سیاسی اشارہ ہے۔ اگر مذکورہ بالا ماہرین ایک سال سے بھی پہلے، متفقہ طور پر یہ نتیجہ اخذ کرسکتے تھے کہ محاصرہ زدہ غزہ کی پٹی میں قحط موجود ہے، تو یہ سمجھنا مشکل ہے کہ متعلقہ اقوام متحدہ کے ادارے اور ایگزیکٹو سربراہان اب تک اس نتیجے پر کیوں نہیں پہنچے کہ اس سال جولائی تک غزہ میں قحط کی سطح 5 (Level 5) تک پہنچ چکی ہے۔
آج جبکہ حقیقی معلومات سمٹ کر اسمارٹ فونز پر منتقل ہوچکی ہیں، غذائی عدم تحفظ کے مہلک درجے کی حقیقت عیاں اور قابل مشاہدہ ہے۔ لاغر جسموں کی تصاویر جو نازی حراستی کیمپوں میں لی گئی تصاویر کی یاد دلاتی ہیں، غزہ کی حقیقت کی المناک کہانی بیان کرتی ہیں۔ اس کے باوجود، 20 جولائی کو فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی (UNRWA) کی ان وارننگز کے باوجود کہ غزہ میں دس لاکھ بچوں کو فاقہ کشی کا خطرہ ہے، "قحط" کا ابھی تک اعلان نہیں کیا گیا۔ کہا جا رہا ہے کہ عالمی اداروں کے پاس IPC کے لیے درکار ضروری ڈیٹا موجود نہیں ہے، اسرائیلی پابندیوں کے باعث IPC کے تجزیہ کار غزہ نہیں جا پا رہے یا جانا نہیں چاہ رہے۔ اس کی کئی ایک وجوہات ہیں، جن میں سے ایک اہم وجہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ میں بیٹھے افسران اپنی نوکریوں کو محفوظ نہیں سمجھتے۔
امریکی حکومت کے بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کے چیف پراسیکیوٹر کریم خان اور اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانیز پر ذاتی حملے اور ان پر عائد پابندیاں اس بات کی واضح یاد دہانی ہیں کہ یہ ملازمتیں خطرات سے خالی نہیں ہیں، نیز یہ کہ امریکہ اقوام متحدہ کے نظام میں سب سے بڑا مالی معاون ہے۔ کسی بھی ادارے یا افسر کے لیے امریکی ناراضگی مول لینا آسان نہیں ہے۔ آج فلسطینی دنیا کی گونجتی خاموشی کے درمیان بھوک سے مر رہے ہیں، جبکہ سرحد کے مصری حصے پر ٹنوں خوراک غزہ میں داخلے کی اجازت کا انتظار کرتے ہوئے ضائع ہو رہی ہے۔ اسرائیلی فوجیوں اور غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن کے ذریعے بھرتی کیے گئے غیر ملکی کرائے کے فوجیوں نے نام نہاد انسانی امداد کی تقسیم کی جگہوں پر امداد کے خواہاں 900 سے زیادہ فلسطینیوں کو ہلاک کر دیا ہے۔
ورلڈ فوڈ پروگرام (WFP) کے مطابق تقریباً 90,000 بچے اور خواتین غذائی قلت کے فوری علاج کے محتاج ہیں؛ غزہ کی وزارت صحت نے رپورٹ کیا ہے کہ 20 جولائی کو ایک ہی دن میں 19 افراد بھوک سے ہلاک ہوئے اور اس سے بدتر حالات ابھی باقی ہیں۔ اقوام متحدہ، سلامتی کونسل، UNHCR، UNRWA، WHO اور اسی قبیل کے دسیوں ادارے اس وقت خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ دنیا کے مابین متفقہ طور تشکیل پانے والے ان اداروں کا مکمل نظام امریکی کنٹرول میں ہے، اب وہ قحط کہیں گے تو قحط ہوگا، وہ جنگ کہیں گے تو جنگ ہوگی، وہ نسل کشی کہیں گے تو نسل کشی ہوگی۔ ان انسانی المیوں کے جو معیارات ہم نے تشکیل دیئے تھے، وہ مالی معاونین کی سیاست اور پالیسیوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ دنیا بہت غیر محفوظ ہوگئی، بالکل ویسی جیسے اقوام متحدہ کے قیام سے قبل تھی بلکہ اس سے بھی بدتر۔
اقوام متحدہ کے قیام سے قبل ہمارے پاس انسانی المیوں سے نمٹنے کا نظام اور معیارات موجود نہیں تھے، تاہم آج ہمارے پاس نظام اور معیارات تو ہیں، تاہم جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے محاورے کا ہمارے پاس کوئی حل نہیں ہے۔ علامہ اقبال کا شعر ایک مرتبہ پھر یاد آگیا، جنھوں نے لیگ آف نیشنز کے قیام کے وقت کہا تھا:
برفتد تا روش رزم دریں بزم کہن
دردمندان جھان طرح نو انداختہ اند
من ازیں بینش ندانم کہ کفن دزدے چند
بہر تقسیم قبور انجمنے ساختہ اند
جہاں کا دُکھ درد رکھنے والوں نے نئی بنیاد ڈالی ہے، تاکہ دنیا سے جنگ کی ریت کو ختم کیا جائے، لیکن میں اس سے زیادہ نہیں جانتا کہ کچھ کفن چوروں نے قبروں کو آپس میں بانٹنے کے لیے ایک انجمن بنائی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے مسلمان ممالک میں مشترکہ طور پر یک نکاتی ایجنڈے پر امریکی سفارتخانوں کے باہر مظاہرے ہوں، جس میں فقط ایک مطالبہ کیا جائے کہ مصر سے خوراک کے ٹرک بلا روک ٹوک غزہ پہنچنے چاہییں۔ یقیناً ہم سب مل کر یہ تو کر ہی سکتے ہیں۔