Islam Times:
2025-11-03@06:55:15 GMT

نتن یاہو، اسرائیل کے وجود کو لاحق اندرونی خطرہ

اشاعت کی تاریخ: 13th, April 2025 GMT

نتن یاہو، اسرائیل کے وجود کو لاحق اندرونی خطرہ

اسلام ٹائمز: چینل 12 پر تجزیئے میں ایہود بارک نے کہا ہے کہ موجودہ اسرائیلی وزیراعظم کا وطیرہ یہ ہے کہ وہ ان احمقانہ اقدامات کو  اشتہارات، ٹیلی ویژن شوز اور قومی یکجہتی کے کھوکھلے نعروں کے دھوئیں اور غبار کے نیچے چھپانے کی کوشش کرتا ہے، یہ سب کچھ اسرائیلی جمہوریت کو آمرانہ ریاست کی طرف دھکیلنے کی کوشش ہے، جسے ایک مسلسل اور جاری جنگ کی آڑ میں انجام دیا جا رہا ہے۔ باراک نے شن بیٹ کے سربراہ کو برقرار رکھنے کے اسرائیلی سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ شاید اسرائیلی سپریم کورٹ کے اس ہفتے کے فیصلے نے ہمیں چند ہفتوں کی مہلت دی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم گہری کھائی میں گرنے سے ایک قدم دور ہیں۔ خصوصی رپورٹ:

غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے سابق وزیراعظم ایہود باراک نے بینجمن نیتن یاہو کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی ریاست ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو سکتی ہے۔ اسرائیل کے چینل 12 ٹیلی ویژن کی نیوز ویب سائٹ پر شائع ہونے والی یاداشت کی ابتدا میں انہوں نے کہا کہ نیتن یاہو کے پاگل پن پر مبنی اقدامات اور ان کے ساتھ ظالم و جابر ٹولے کی موجودگی متنبہ کرتی ہے کہ ہم اپنے الفاظ میں مبالغہ آرائی سے کام نہ لیں، جیسا کہ ان لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ہمیں کوئی شکست نہیں ہوئی نہ ہی ہو سکتی ہے، ان اقدامات کے تسلسل سے اسرائیلی ریاست کے خاتمے کا آغاز ایک غیر متوقع انداز میں ظاہر ہوگا اور ہمیں ایسی صورت حال پیش آئے گی کہ جسے ہم روک نہیں سکیں گے۔

ایہود باراک نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اسرائیل کچی مٹی اور ڈھلوان کے کنارے پر کھڑا ہے، آج اسرائیل کو واضح طور پر ایک ایسے خطرے کا سامنا ہے جس سے ریاست کی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہیں اور اندرونی طور پر داخلی قوتیں انتشار کا شکار ہیں، جو پورے ریاستی ڈھانچے پر سوالیہ نشان ہے، ان واضح اور شفاف حقیقتوں سے آنکھیں چرانے کے لیے کسی کو اندھا، احمق یا بزدل ہونا پڑے گا، یہ حقائق بہت تکلیف دہ بھی ہیں، دو سال  سے نیتن یاہو ایک ایسے بھگوڑے کی طرح کام کر رہے ہیں جو سب کچھ تباہ کرنے پر تلا ہو، وہ اسرائیل میں قائم ہر چیز کو تباہ کر رہا ہے اور اسرائیلیوں کے باہمی تعلقات کو کمزور کر رہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ موجودہ اسرائیلی وزیراعظم کا وطیرہ یہ ہے کہ وہ ان احمقانہ اقدامات کو  اشتہارات، ٹیلی ویژن شوز اور قومی یکجہتی کے کھوکھلے نعروں کے دھوئیں اور غبار کے نیچے چھپانے کی کوشش کرتا ہے، یہ سب کچھ اسرائیلی جمہوریت کو آمرانہ ریاست کی طرف دھکیلنے کی کوشش ہے، جسے ایک مسلسل اور جاری جنگ کی آڑ میں انجام دیا جا رہا ہے۔ باراک نے شن بیٹ کے سربراہ کو برقرار رکھنے کے اسرائیلی سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ شاید اسرائیلی سپریم کورٹ کے اس ہفتے کے فیصلے نے ہمیں چند ہفتوں کی مہلت دی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم گہری کھائی میں گرنے سے ایک قدم دور ہیں۔

ایہود باراک کے اعتراف کے مطابق نیتن یاہو حالیہ دورہ امریکہ سے شکست خوردہ اور ذلیل ہو کر واپس آیا ہے، جبکہ امریکہ نے ایران کے ساتھ براہ راست مذاکرات شروع کر دیئے ہیں اور اردگان ٹرمپ کے اچھے دوست بن چکے ہیں اور صدر ٹرمپ ان لوگوں کے ساتھ اپنے مسائل حل کرلیں گے۔ کسٹم ٹیرف کے بارے میں امریکیوں نے کہا ہے کہ آپ جو ہم سے سالانہ 4 بلین ڈالر کی امداد لیتے ہیں، (اب آپ کو ایسا کوئی اور مطالبہ نہیں کرنا چاہیے)، شاید یہ کہنا بجا ہوگا کہ ٹرمپ نیتن یاہو کے متعلق مزید صبر سے کام نہیں لیں گے، جو ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں اس خطے کا سفر کرنے والے ہیں اور توقع ہے کہ وہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے اس دورے کے دوران 1 ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کر لیں گے۔

ان کا کہنا ہے کہ ٹرمپ ممکنہ طور پر اس سفر کے دوران غزہ کی جنگ کو ختم کرنے کی کوشش بھی کریں گے اور اس کے لئے وہ اسرائیل پر دباؤ ڈالیں گے۔ شاید اس مرحلے پر، وہ نیتن یاہو کو فری ہینڈ بھی دیں لیکن وہ انہیں یاد دلائیں گے کہ یہ جنگ مستقبل قریب میں ختم ہونی چاہیے۔ اس لئے ایسے حالات اور اتنے قلیل عرصے کے دوران اس جنگ سے کوئی تزویراتی نتیجہ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ سابق اسرائیلی وزیراعظم نے خبردار کیا ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے اس سے ایک خطرناک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نیتن یاہو نے اسرائیل ہی کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا ہے، وہ جنگی قیدیوں کو اپنے اقدامات کے ذریعے اپنے سیاسی اور ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھا رہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ جنگ ایک فریب ہے، اسی لئے نتن یاہو تحققیاتی کمیٹی کو کام نہیں کرنے دے رہا تاکہ اس کا بھانڈا نہ پھوٹ جائے، نیتن یاہو کا طرزعمل مفادات کے ٹکراؤ پر مبنی ہے اور جس سے ہمارے قومی باہمی رشتے اور اعتماد کو ٹھیس پہنچ رہی ہے۔ ایہود باراک نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ہمیں کھائی میں گرنے سے روکنے کا واحد طریقہ نیتن یاہو کی برطرفی ہے اور انہیں وزیراعظم کے طور پر کام جاری رہنے سے روکنا ہے، عدلیہ میں اس کی ہمت ہونی چاہیے، شاید یہ پراسیکیوٹرز اور ان کے معاونین یا شن بیٹ کے سربراہ کے تعاون سے کیا جاسکتا ہے۔ میرے خیال میں سپریم کورٹ کو بغیر کسی خوف اور خدشے کے اس حوالے سے صحیح فیصلہ کرنا چاہیے۔ 

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اسرائیلی سپریم کورٹ کے نیتن یاہو کہا ہے کہ کے فیصلے باراک نے ہے کہ ہم یہ ہے کہ ہیں اور کی کوشش اور ان رہا ہے سے ایک

پڑھیں:

اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات

اسلام ٹائمز: ان تمام خبروں کو ایک ساتھ رکھ کر ہم ایک نکتے پر پہنچیں گے اور وہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ انہیں اسرائیل کی وجہ سے جو قیمت چکانی پڑی ہے، وہ فائدہ مند نہیں۔ بہرحال سب سے اہم حکمت عملی وہ ہے، جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں نے اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں امریکیوں کو اسرائیلی خطرات سے آگاہ کرنا چاہیئے، تاکہ انہیں اسرائیل کی حمایت کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔ اس سے خطے میں اسرائیلی فلسفہ کے نابود ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ تحریر: علی مہدیان

امریکی معاشرہ اسرائیل کے بارے میں اپنے رویئے تیزی سے بدل رہا ہے۔ آیئے ایک ساتھ کچھ خبروں پر نظر ڈالتے ہیں: امریکہ میں ایک جلسہ عام میں ایک نوجوان نے اتفاق سے امریکہ کے نائب صدر سے پوچھا، "کیا ہم اسرائیل کے مقروض ہیں۔؟ اسرائیلی کیوں کہتے ہیں کہ وہ امریکہ کو چلا رہے ہیں۔؟" اس نوجوان کے سوال پر ہجوم تالیاں بجاتا ہے اور امریکہ کے نائب صدر کے پاس جواب نہیں ہوتا اور کہتے ہیں کہ موجودہ صدر ایسے نہیں ہیں اور۔۔۔۔ ماہر معاشیات اور کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر جیفری سیکس نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کی جنگوں کی قیمت ادا کرتا ہے اور اس سے ہمارا معیار زندگی گر گیا ہے۔ امریکی خبروں اور تجزیات پر مبنی ویب سائٹ "دی نیشنل انٹرسٹ" نے لکھا ہے کہ اسرائیل کی مہم جوئی کی قیمت امریکہ کی جیب سے  چکائی جاتی ہے۔

امریکہ میں میڈیا پریزینٹر اور ایکٹوسٹ اینا کاسپرین ایک ٹیلی ویژن شو میں کہتی ہیں کہ اگر اسرائیل جنگی جرائم کا ارتکاب کرنا چاہتا ہے تو اسے ہمارے پیسوں سے نہیں کرنا چاہیئے۔ امریکی شہری اس ملک میں بہتر زندگی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ اسرائیلی حکومت اور فوج کو اربوں ڈالر دیں۔ سینیٹر ایڈم شیف کی قیادت میں چھیالیس امریکی سینیٹرز کی جانب سے ٹرمپ کو ایک خط لکھا گیا ہے، جس میں اسرائیل کی طرف سے مغربی کنارے کے الحاق کے فیصلے پر امریکہ کی جانب سے  واضح موقف اپنانے پر تاکید کی گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے ڈیلی کولر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی امریکہ میں سب سے طاقتور لابی تھی، جسے انہوں نے تقریباً 15 سال پہلے دیکھا تھا اور اس وقت کانگریس پر صیہونیوں کا مکمل کنٹرول تھا، لیکن اب اسرائیل یہ اثر و رسوخ کھو چکا ہے۔

ان تمام خبروں کو ایک ساتھ رکھ کر ہم ایک نکتے پر پہنچیں گے اور وہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ انہیں اسرائیل کی وجہ سے جو قیمت چکانی پڑی ہے، وہ فائدہ مند نہیں۔ بہرحال سب سے اہم حکمت عملی وہ ہے، جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں نے اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ  ہمیں امریکیوں کو اسرائیلی خطرات سے آگاہ کرنا چاہیئے، تاکہ انہیں اسرائیل  کی حمایت کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔ اس سے خطے میں اسرائیلی فلسفہ کے نابود ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ میں کارروائیوں سے متعلق امریکا سے اجازت نہیں مانگتے: نیتن یاہو
  • غزہ میں کارروائیوں سے متعلق امریکاکو آگاہ کرتے ہیں اجازت نہیں مانگتے: نیتن یاہو
  • غزہ میں کارروائیوں سے متعلق امریکاکو آگاہ کرتے ہیں، اجازت نہیں مانگتے: نیتن یاہو
  • غزہ میں کارروائیوں سے متعلق امریکا کو صرف آگاہ کرتے ہیں، اجازت نہیں مانگتے، نیتن یاہو
  • تم پر آٹھویں دہائی کی لعنت ہو، انصاراللہ یمن کا نیتن یاہو کے بیان پر سخت ردِعمل
  • غزہ میں ہمارے زیرِ قبضہ علاقوں میں حماس اب بھی موجود ہے: نیتن یاہو
  • اسرائیل غزہ امن معاہدے کے تحت امداد پنچانے نہیں دے رہا، اقوام متحدہ
  • اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
  • حزب الله کو غیرمسلح کرنے کیلئے لبنان کے پاس زیادہ وقت نہیں، امریکی ایلچی
  • جب اسرائیل نے ایک ساتھ چونتیس امریکی مار ڈالے