اکادمی ادبیات کا اندھا یدھ
اشاعت کی تاریخ: 21st, April 2025 GMT
پہلی بار نہ سہی مگر اکادمی ادبیات پاکستان نے ادبی ایوارڈ زکی صورت میں جو اندھا یدھ برپاکیا ہے اس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی ۔قومی معاملات میں مقتدرہ یا اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر تو ہوہکار کے طوفان تو اٹھتے اور بیٹھ جاتے ہو ئے دیکھے ہیں مگر علم و دانش اور شعر و ادب کے حوالے سے ایسی رستاخیز کبھی برپا نہیں ہوئی تھی۔اس پر مستزاد اہل قلم مداہنت آمیز خاموشی…! اور تو اور جن کا قلم درد و الم کی گنگا بہانے کی’’خیالی نقش گری‘‘ میں کمال مہارت رکھتا ہے ، جن کی زنبیل میں سیاسی بد عنوانیوں اور بداعمالیوں پر ڈالنے کے لئے اطلس و کم خاب کے پارچہ جات کی کمی نہیں ،وہ جو ہر فیصلے اپنی پسند و ناپسندی کی جہت دینے کے وسیع اختیارات رکھتے ہیں ۔جو سفید کو سیاہ اور سیاہ کے سفید ہونے کی تصدیقی مہریں ہر پل اپنی جیبوں میں رکھتے ہیں اور طاقت پرواز ایسی کہ کاغذی بیمانوں پر سوار ہوکر جدہ پیلس پناہ جلینے میں ساعت بھر نہیں لگاتے ۔اپنا یہ حسن ظن بھی خیال خام ثابت ہوا کہ اس بار وہ بچ بچا کر ہونے والے امکانات کی روشنی میں فیصلے صادر کروائیں گے کہ اس پیرانہ سالی میں کفاروں کی ادائیگی کا اہتمام صاف و شفاف دکھائی دے گا ۔مگر وائے افسوس وہ دہکتے ہوئے ادبی ماحول کی بابت کچھ کہنے کی بجائے ’’لق و دق صحرا میں بگولے کی طرح رقص کرتے گھمن گھیریاں کھاتے‘‘
پی ٹی آئی کے وجود کا نوحہ لکھنے ہی میں مست رہے ،کیونکہ ان کے حکم اذاں کی تعمیل کے لئے عمرہ جاتی یا جاتی عمرہ کی جانب رخ انور سجائے رکھنا ضروری ہے ۔ اکادمی ادبیات کی نیاز بانٹنے والوں نے جو ’’یدھ‘‘ مچایا اس کی مثال نہیں ملتی اور مجال کا تو یہاں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ قومی خزانے پر انہیں کا حق ہے جنہیں ان کے اجداد سانپ کی طرح اس کی نگرانی پر مامور کر گئے تھے۔یوں بھی اپنے اپنے خدا گھڑلینے کا رواج اب نہیں پڑا یہ بہت پرانی رسم ہے زمین پر خدا بنالینے والوں کی اپنی احتیاجات اور اپنی ضروریات ہوتی ہیں ۔مورت گری کے فن پر دسترس ہوتو ضمیر آڑے نہیں آتا کہ یہ تو ہنر ہی باد فروشوں ہی کا ہے ۔اب کی بار اکادمی ادبیات کی شہ نشین صنف نازک ہیں نزاکتوں بھرے فیصلے ہی ان کی زبانی سنوائے جانے تھے ،انہیں کیا خبر عدل کیا ہوتا ہے ؟ انصاف کسے کہتے ہیں ؟ کہ ان کے زریں دور میں تو ایسے ہی غیر شفاف فیصلوں کا چلن ہے ،پھر ان پر کیا دوش کہ ان کے گرد بھی تو باد سنجوں کی ایک فوج ظفر موج ہوگی ، جنہیں سچ کہنے اور حق کرنے کا بھلے یارہ ہی کس نے بخشا ہوگا اور وہ بھی لکھے ہوئے فیصلوں پر دستخط کرنے کا اختیار رکھتی ہیں، خط تنسیخ کی اجازت آنہیں کہاں تفویض کی گئی یہ اختیار تو سنا ہے ریاست اور حکومت کے سربراہ کے پاس بھی نہیں ہوتا ،سوائے اس کے کہ فیصلے سارے اسی کے ہیں ہماری بابت اختیار بس اتنا کہ خبر میں رہنا ہے کتنے سخن ساز ہیں ،قلم کار ہیں بھوک رات دن جن کے آنگنوں میں رقص کرتی ہے مگرکسے خبر ہے ہمارے اندر ہر ایک منظر بہ چشم تر ہے کسے خبر ہے (مصدق سانول) ایک نابغہ روزگار نوجوان شاعر تھا عین شباب میں داعی اجل ہوا ۔آج تک کسی کی نظر سے نہیں گزرا ،اس کی نظمیں ،اس کی گائی ہوئی کافیاں ،سرائیکی شعری سرمایہ سب حالات کی بھینٹ چڑھ گیا ۔
سرائیکی وسیب کے منفرد لہجے کے شاعر حبیب فائق کسے یاد ہیں،یاد تو فقیر منش سرائیکی شاعر اسلم جاوید بھی کسی کو نہیں جو ابھی زندہ ہے اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔کس کس کا ذکر کریں کہ یہاں یہ رسم رہی ہے کہ ’’منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے‘‘ مقبول تنویر سرائیکی مشاعروں کی جان ہوا کرتے تھے عین جوانی میں داغ مفارقت دے گئے ۔مرحوم ڈاکٹر مقصود زاہدی اردو رباعی کے بادشاہ کبھی کسی ایوارڈ کے مستحق نہیں ٹھہرائے گئے اور ممتاز اطہر اردوغزل کو نئی جہت اور جدید رنگ عطا کرنے والے ،غربت و افلاس کے اندھیروں میں بھٹکرہے ہیں کسی نے ان کی انگلی نہیں تھامی کہ بے روزگاری کے اندھے کنویں سے نکل آتے ۔ایسے کئی اور رتن ہوں گے جو آسودہ خاک ہوئے اور وہ ہیں کہ ابھی بے سمتی اور بے حکمتی کے لق و دق صحرا میں رقص کرتی، پی ٹی آئی پر ہی سوئی اڑائے ہوئے ہیں ۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: اکادمی ادبیات
پڑھیں:
اسٹیٹ بینک کے فیصلے پر صدر ایف پی سی سی آئی کا شدید ردعمل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250916-06-6
کراچی (کامرس رپورٹر)صدرایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے شر ح سود کو 11 فیصد پر برقرار رکھنے کے فیصلے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے اس فیصلے کو ”ناقابلِ فہم” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ کاروباری ماحول، سرمایہ کاری اور مجموعی قومی معیشت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گا۔صدر عاطف اکرام شیخ نے کہا کہ موجودہ معاشی حقائق، خصوصاً مہنگائی میں نمایاں کمی، شرح سود میں فوری کمی کا تقاضا کرتے ہیں۔ ان کے مطابق:”جب اگست 2025 میں حکومت کے اپنے اعدادو شمار کے مطابق مہنگائی کی شرح صرف 3 فیصد تک آ گئی ہے تو پالیسی ریٹ کو کم کر کے اصولی طور پر 6 سے 7 فیصد کے درمیان لایا جانا چاہیے تھا؛ تاکہ معیشت کو سہارا مل سکے ”۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر شرح سود میں کمی کی جاتی تو حکومت کا قرضوں کا بوجھ تقریباً 3,500 ارب روپے تک کم ہو سکتا تھا؛ جوکہ، مالیاتی دباؤ میں کمی کے لیے نہایت اہم ہے۔سینئر نائب صدر، ایف پی سی سی آئی، ثاقب فیاض مگوں نے کہا کہ بلند شرح سود پیداواری لاگت کو بڑھاتی ہے ؛جس سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ سنگل ڈیجٹ شرح سود کے ذریعے اشیاء سستی ہوں گی؛ عوام کو ریلیف ملے گا اور معیشت میں بہتری آئے گی۔انہوں نے کہا کہ بلند شرح سود کرنسی کی گردش کو بھی محدود کرتی ہے؛ جس سے معاشی سرگرمیوں میں جمود پیدا ہوتا ہے۔ثاقب فیاض مگوں نے مزید کہا کہ شرح سود کو موجودہ سطح پر برقرار رکھنا بزنس کانفیڈنس کو بری طرح متاثر کرے گا؛ سرمایہ کاری میں کمی لائے گا اور معیشت کی بحالی کی رفتار کو سست کر دے گا۔انہوں نے اسٹیٹ بینک سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے اور ایسی پالیسی اپنائے جوکاروبار دوست ہو؛قرضوں کی لاگت کو کم کرے؛صنعتی سرگرمیوں کو فروغ دے اور روزگار کے مواقع پیدا کرے۔نائب صدر و ریجنل چیئرمین سندھ، ایف پی سی سی آئی،عبدالمہیمن خان نے مطالبہ کیا کہ اسٹیٹ بینک شرح سود کو فوری طور پر سنگل ڈیجٹ میں لائے ؛نجی شعبے کے لیے قرضوں کی رسائی آسان بنائے اورکاروباری برادری کو پالیسی سازی میں شامل کرے۔ عبدالمہیمن خان نے واضح کیاکہ کاروباری برادری پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ اس کے لیے ایک مثبت، کاروبار دوست اور حقیقت پسندانہ مالیاتی پالیسی ناگزیر ہے۔ اسٹیٹ بینک کو اب معیشت کی ضرورت کے مطابق فیصلے کرنا ہوں گے ۔