سرچ کے میدان میں نئی پیش رفت، گوگل نے پاکستان میں ’اے آئی‘ موڈ متعارف کرا دیا
اشاعت کی تاریخ: 26th, August 2025 GMT
گوگل نے پاکستانی صارفین کے لیے انگریزی زبان میں اے آئی موڈ متعارف کرا دیا ہے، جس کے ذریعے دنیا کا سب سے طاقتور اے آئی سرچ تجربہ، یعنی مصنوعی ذہانت سے چلنے والا سرچ انجن، اب مقامی صارفین کے لیے بھی دستیاب ہو گیا ہے۔ یہ نیا موڈ پیچیدہ سوالات کے زیادہ تیز، ہوشیار اور جامع جوابات فراہم کرتا ہے۔
یہ فیچر رواں سال کے اوائل میں سب سے پہلے امریکا میں پیش کیا گیا تھا اور اب تیزی سے دنیا بھر میں پھیل رہا ہے، جہاں صارفین اس کی رفتار، معیار اور تازہ ترین جوابات کی فراہمی کو سراہ رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: نومولود اے آئی پرپلیکسٹی کی 3 ارب صارفین رکھنے والا گوگل کروم خریدنے کی حیران کن پیشکش
گوگل کے مطابق Gemini 2.
پاکستانی صارفین مختلف مواقع پر اس موڈ سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، مثلاً:
سفر کی منصوبہ بندی: ’میں اکتوبر میں ہنزہ کے سفر کی منصوبہ بندی کر رہا ہوں۔ پانچ روزہ پروگرام تجویز کریں جو سیر و سیاحت، مہم جوئی اور مقامی کھانوں کے تجربات کو شامل کرے۔” اس کے بعد صارف مزید سوال کر سکتا ہے کہ “کیا آپ ہنزہ میں آزمانے کے لیے کچھ مقامی پکوانوں یا کھانوں کے مقامات کی سفارش کرسکتے ہیں؟‘
تعلیمی مدد: ’میرا بچہ نویں جماعت میں ہے اور ریاضی میں مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔ کیا آپ الجبرا اور جیومیٹری کے لیے پاکستان میں دستیاب مفت آن لائن وسائل بتا سکتے ہیں؟‘ اس کے بعد یہ سوال بھی کیا جا سکتا ہے کہ ’کیا آپ گریڈ 9 کے طلبہ کے لیے انٹرایکٹو ایپس یا یوٹیوب چینلز کی سفارش کرسکتے ہیں؟‘
گوگل نے بتایا ہے کہ پس پردہ یہ فیچر ’query fan-out‘ تکنیک استعمال کرتا ہے، جو سوال کو ذیلی موضوعات میں تقسیم کرکے متعدد سرچز کرتا ہے۔ اس طریقے سے ویب کو پہلے سے کہیں زیادہ گہرائی میں کھنگالا جاتا ہے تاکہ صارفین کو جامع اور متعلقہ نتائج فراہم کیے جا سکیں۔
یہ بھی پڑھیں: بچوں کے لیے یوٹیوب کو چکمہ دینا مشکل ہوگیا، عمر کی شناخت کرنے والا اے آئی متعارف
یہ فیچر گوگل کے جدید ماڈل کی صلاحیتوں کو کمپنی کے وسیع معلوماتی نظام کے ساتھ یکجا کرتا ہے۔ صارفین نہ صرف اعلیٰ معیار کا ویب مواد حاصل کر سکتے ہیں بلکہ تازہ ذرائع، نالج گراف اور اربوں مصنوعات کے شاپنگ ڈیٹا تک بھی رسائی پا سکتے ہیں۔
اے آئی موڈ کو ملٹی موڈل طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے، جس کے تحت صارفین متن، آواز اور تصاویر کے ذریعے سوالات پوچھ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک دکاندار کراچی کے بازار میں اجنبی مسالوں کی تصویر کھینچ کر پوچھ سکتا ہے: ’یہ کون سے مسالے ہیں اور انہیں پاکستانی کھانوں میں کس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے؟‘ صارفین مزید فالو اپ سوالات بھی کرسکتے ہیں، جس سے انہیں ہموار اور بات چیت جیسے انداز کا براؤزنگ تجربہ ملتا ہے۔
گوگل کے مطابق، ویب پر موجود مواد دریافت کرنے میں مدد دینا کمپنی کے مشن کا بنیادی حصہ ہے۔ اے آئی موڈ کے ذریعے صارفین اپنی تلاش کو باریکیوں کے ساتھ بیان کرسکتے ہیں اور مختلف فارمیٹس میں درست نتائج حاصل کرسکتے ہیں، جو نہ صرف سرچ کے دائرے کو وسیع کرتے ہیں بلکہ نئے مواقع بھی پیدا کرتے ہیں۔
کمپنی نے کہا ہے کہ یہ موڈ معیاری رینکنگ سسٹمز پر مبنی ہے اور درستگی کے لیے نئے طریقے استعمال کرتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ مواقع پر اے آئی سے مبنی جواب فراہم کیا جائے، تاہم اگر اعتماد کی سطح کم ہو تو روایتی سرچ نتائج دکھائے جائیں گے۔ اگرچہ اس کے نتائج ہر بار سو فیصد درست نہیں ہوتے، مگر کمپنی نے اس کی مسلسل بہتری کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مصنوعی ذہانتوں کے بیچ شطرنج ٹورنامنٹ: اوپن اے آئی نے فائنل میں گروگ کو شکست دے کر مقابلہ جیت لیا
گوگل کا یہ نیا فیچر اب پاکستان میں انگریزی زبان میں گوگل ایپ (اینڈرائیڈ اور iOS) کے ساتھ ساتھ موبائل اور ڈیسک ٹاپ ویب پر بھی دستیاب ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اے آئی موڈ پاکستانی صارفین سرچ کے میدان میں پیشرفت گوگل وی نیوزذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اے ا ئی موڈ پاکستانی صارفین سرچ کے میدان میں پیشرفت گوگل وی نیوز کرسکتے ہیں اے ا ئی موڈ کے ذریعے سکتے ہیں کرتا ہے کے ساتھ سکتا ہے کے لیے سرچ کے
پڑھیں:
بھارت کی انتہا پسندی کرکٹ میدان میں بھی
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
کرکٹ کی تاریخ میں ایک نہایت منفرد اور افسوسناک لمحہ اس وقت سامنے آیا جب ایشیا کپ کے ایک میچ کے بعد بھارتی کھلاڑیوں نے روایت سے ہٹ کر پاکستانی کھلاڑیوں سے مصافحہ کرنے سے گریز کیا۔ یہ واقعہ اس کھیل کی اصل روح پر ایک کاری ضرب ہے ، کیونکہ کرکٹ کو ہمیشہ "جنٹل مینز گیم” کہا جاتا رہا ہے ، جہاں نہ صرف کھیل کے اصول بلکہ باہمی احترام اور تعلقات کی نزاکت بھی اہم سمجھی جاتی ہے ۔ لیکن بھارت کے کھلاڑیوں کا یہ رویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انتہا پسندی کی لہر نے وہاں کھیل کے میدانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ یہ محض ایک لمحاتی رویہ نہیں تھا بلکہ ایک سوچ اور بیانیہ کی عکاسی تھی جسے بھارتی میڈیا اور سیاستدان بڑی شدت کے ساتھ پروان چڑھا رہے ہیں۔پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ ہمیشہ سے محض کھیل نہیں بلکہ ایک بڑے اعصابی معرکے کے طور پر دیکھی جاتی ہے ۔ دونوں ملکوں کے عوام کا جوش و خروش اپنی جگہ، لیکن کھیل کے بعد کھلاڑیوں کا ایک دوسرے کے ساتھ مصافحہ اور خوشگوار ملاقات ہمیشہ ہی ایک مثبت پیغام دیتی رہی ہے ۔ چاہے ماضی میں کتنے ہی کشیدہ حالات کیوں نہ رہے ہوں، کرکٹ نے دونوں ملکوں کے عوام کو قریب لانے کا ایک ذریعہ فراہم کیا ہے ۔ لیکن حالیہ رویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت میں کھیل کی روایات بھی نفرت کی سیاست کے سامنے دم توڑ رہی ہیں۔
اس سے بھی زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ کھیلنے سے پہلے ہی بھارتی میڈیا نے ایک عجیب ہنگامہ برپا کیا۔ "گودی میڈیا”کہلانے والے بھارتی چینلز نے یہ بحث چھیڑ دی کہ بھارت کو پاکستان سے کھیلنا ہی کیوں چاہیے ؟ گویا کھیل کی دنیا میں بھی تعلقات کو دشمنی اور سیاست کی عینک سے دیکھنے کی عادت بن گئی ہے ۔ بھارتی میڈیا کا یہ کردار نہ صرف کھیل کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ بھارتی عوام کے ذہنوں میں بھی نفرت اور دوریاں بڑھا رہا ہے ۔ کرکٹ جیسے کھیل کو جنگ کا متبادل بنانے کی کوشش دراصل ایک خطرناک رجحان ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ جنگ اور کھیل میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے ۔ کھیل ایک ایسا ذریعہ ہے جو دشمنی کے بادل چھانٹ کر امن کا پیغام دیتا ہے ، جب کہ جنگ تباہی اور بربادی لاتی ہے ۔ کھیل کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کے عوام ایک دوسرے کو قریب سے جان سکیں، تعلقات میں نرمی پیدا ہو اور اعتماد کی فضا قائم ہو۔ لیکن بھارت کی موجودہ انتہا پسندانہ روش نے اس فرق کو مٹا کر کھیل کو بھی نفرت کا اکھاڑا بنانے کی کوشش کی ہے ۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ کی تاریخ شاندار لمحوں سے بھری ہوئی ہے ۔ 1987ء میں جب بھارتی ٹیم پاکستان آئی تو جنرل ضیاء الحق نے "کرکٹ ڈپلومیسی” کے تحت راجیو گاندھی سے ملاقات کی، جس نے دونوں ملکوں کے تعلقات میں وقتی بہتری پیدا کی۔ اسی طرح 2004ء میں جب بھارتی ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی تو لاہور، کراچی اور راولپنڈی کے عوام نے بھارتی کھلاڑیوں کو بے مثال محبت دی۔ حتیٰ کہ شائقین نے بھارتی کھلاڑیوں کے لیے تالیاں بجائیں، ان کی کارکردگی کو سراہا اور دنیا کو دکھایا کہ کھیل کس طرح دشمنیوں کو مٹا سکتا ہے ۔ لیکن آج کا بھارت اپنی اسی تاریخ کو بھلا بیٹھا ہے اور کھیل کو بھی سیاست کی بھینٹ چڑھا رہا ہے ۔
اصل مسئلہ بھارت کی اندرونی سیاست میں پنہاں ہے ۔ بھارتی حکمران جماعت نے اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کے لیے پاکستان دشمنی کو ایک بیانیہ بنا لیا ہے ۔ انتخابی مہمات ہوں یا روزمرہ کی سیاست، پاکستان کے خلاف زہر اگلنا بھارتی رہنماؤں کے لیے ایک آسان ہتھیار ہے ۔ اس بیانیے کو بھارتی میڈیا نے مزید ہوا دی ہے ۔ ہر میچ کو ایک جنگ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور ہر پاکستانی کھلاڑی کو ایک دشمن کے طور پر دکھایا جاتا ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ عوام کے ذہنوں میں یہ نفرت اس حد تک رچ بس گئی ہے کہ کھیل کے بعد ایک مصافحہ بھی انہیں گوارا نہیں ہوتا۔یہ رویہ صرف پاکستان کے ساتھ تعلقات کو ہی نقصان نہیں پہنچا رہا بلکہ بھارت کے اپنے کھیل کی ساکھ کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ دنیا بھر میں کھیل کو امن اور دوستی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے ، لیکن بھارتی کھلاڑیوں کا یہ طرزِ عمل دنیا کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ بھارت کھیل کو بھی اپنی انتہا پسندی کے رنگ میں رنگنا چاہتا ہے ۔ بین الاقوامی سطح پر اس سے بھارت کی شبیہ متاثر ہو رہی ہے ، کیونکہ کرکٹ کے شائقین دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں، وہ کھیل کے اندر دوستی اور عزت کو سب سے زیادہ پسند کرتے ہیں۔
پاکستانی کھلاڑیوں نے ہمیشہ اپنی طرف سے کھیل کی اقدار کا احترام کیا ہے ۔ چاہے جیت ہو یا ہار، انہوں نے بھارتی کھلاڑیوں کے ساتھ مثبت رویہ اپنایا۔ لیکن بھارت کی جانب سے یہ سرد مہری اور غیر روایتی رویہ اس بات کا اظہار ہے کہ کھیل کو نفرت سے آلودہ کر دیا گیا ہے ۔ اس کا نقصان صرف پاکستان کو نہیں بلکہ خود بھارت کو بھی ہوگا، کیونکہ جب کھیل سے رواداری ختم ہو جاتی ہے تو اس کے بعد کھیل کا اصل حسن باقی نہیں رہتا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا حل کیا ہے ؟ سب سے پہلے تو یہ ضروری ہے کہ کھیل کے میدانوں کو سیاست اور نفرت سے پاک رکھا جائے ۔ کرکٹ بورڈز کو چاہیے کہ وہ کھلاڑیوں کو کھیل کی اصل روح یعنی باہمی احترام اور رواداری کی تربیت دیں۔ بین الاقوامی ادارے مثلاً آئی سی سی اور اے سی سی اپنی ذمہ داری ادا کریں اور کھیل میں غیر اخلاقی رویوں کے خلاف سخت اقدامات کریں۔ میڈیا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ کھیل کو سیاست کا میدان نہ بنایا جائے بلکہ اسے امن اور بھائی چارے کا ذریعہ بننے دیا جائے ۔ پاکستان اپنی کرکٹ ڈپلومیسی کو مزید فعال کرے اور دنیا کو یہ باور کرائے کہ کھیل کو سیاست سے بالاتر سمجھنا چاہیے ۔ دونوں ملکوں کے عوام کو یہ شعور دینا ہوگا کہ کھیل دشمنی نہیں بلکہ تعلقات بہتر بنانے کا ذریعہ ہے ۔آخر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جنگ اور کھیل میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ کھیل دلوں کو جوڑتا ہے ، جب کہ جنگ دلوں کو توڑتی ہے ۔ اگر بھارت واقعی ایک بڑی قوم بننا چاہتا ہے تو اسے کھیل کے میدانوں میں بھی بڑے پن کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ پاکستان کے ساتھ کھیلنا کوئی کمزوری نہیں بلکہ ایک موقع ہے کہ دونوں قومیں قریب آئیں اور نفرت کی دیواریں توڑیں۔ کرکٹ کو نفرت کا نہیں بلکہ محبت اور امن کا ذریعہ بنانا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے ۔