ہارورڈ ماہر فلکیات کا خدا کے وجود پر حیران کن مؤقف، سائنس اور مذہب قریب آ گئے؟
اشاعت کی تاریخ: 28th, August 2025 GMT
سمتھسونین سینٹر فار ایسٹرو فزکس سے وابستہ ماہر فلکیات ڈاکٹر ولی سون نے ایک حیران کن دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کائنات اتنی باریکی سے ترتیب دی گئی ہے کہ اسے محض اتفاق نہیں کہا جا سکتا بلکہ یہ ایک اعلیٰ ہستی کی تخلیق ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جیمز ویب سے یورینس کا نیا چاند دریافت، کل تعداد 29 ہوگئی
سائنس اور مذہب صدیوں سے کائنات کے آغاز کے بارے میں بظاہر ایک دوسرے سے متصادم رہے ہیں لیکن ڈاکٹر سون کا ماننا ہے کہ ان کی پیش کردہ فائن ٹیوننگ تھیوری ان دونوں شعبوں کو باہم جوڑتی ہے۔
واضح رہے کہ یورپی میڈیا نے ایک بار پھر ڈاکٹر ولی سون کی ایک گفتگو شائع کی ہے جو انہوں نے کچھ عرصہ قبل ٹکر کارلسن نیٹ ورک پر کی تھی۔ برطانوی خبر رساں ادارے ڈیلی ریکارڈ کی رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر ولی سون نے کہا کہ کائنات کے اندر پائے جانے والے فزیکل حالات اتنے نازک اور متوازن ہیں کہ ان کی بنیاد پر زندگی کا وجود میں آنا محض اتفاق نہیں ہو سکتا۔
ڈاکٹر سون نے بتایا کہ ان کی دلیل کا مرکزی نکتہ وہ تصور ہے جو سنہ 1963 میں کیمبرج یونیورسٹی کے مشہور فزکس دان پال ڈیرک نے پیش کیا تھا جنہوں نے کہا تھا کہ قدرتی قوانین کی ریاضیاتی خوبصورتی کسی اعلیٰ ڈیزائنر کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
ڈیرک کے مطابق ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فزکس کے بنیادی قوانین ایک عظیم ریاضیاتی خوبصورتی اور طاقت کے تحت بیان کیے گئے ہیں جنہیں سمجھنے کے لیے اعلیٰ سطح کا ریاضی درکار ہے۔ ان کہنا تھا کہ شاید یہی کہا جا سکتا ہے کہ خدا ایک اعلیٰ درجے کا ریاضی دان ہے جس نے کائنات کو انتہائی جدید ریاضی سے تخلیق کیا۔
مزید پڑھیے: کہکشانی مہمان، انوکھے سمندری جاندار، جنگلی کیٹرپلر اور یورپ کی آگ
ڈاکٹر ویلی سون نے بھی اسی نکتہ نظر کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ایسے بے شمار مظاہر ہیں جو ہماری زندگی کو روشن کرتے ہیں اور یہ روشنی دراصل خدا کی دی ہوئی ہے تاکہ ہم اس روشنی کی پیروی کریں اور اپنی زندگی میں بہتری لائیں۔
ان کی دلیل ’ڈیزائن آرگومنٹ‘ کی سائنسی تشریح معلوم ہوتی ہے جو اکثر تعلیمی اداروں میں ’واچ میکر تھیوری‘ کے طور پر بیان کی جاتی ہے یعنی جیسے گھڑی کی پیچیدہ ساخت گھڑی ساز کی موجودگی کا ثبوت ہے ویسے ہی کائنات کی پیچیدگی ایک خالق کی نشاندہی کرتی ہے۔
تاہم ہر کوئی ڈاکٹر سون کے اس دعوے سے متفق نہیں ہے۔ نقادوں کے مطابق ہماری کائنات کے بارے میں معلومات ابھی بھی محدود ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چونکہ ہم کاربن پر مبنی زندگی رکھتے ہیں اس لیے ممکن ہے کہ کسی دوسری کائنات میں زندگی مختلف عناصر پر مبنی ہو۔
دوسرا اعتراض ’اتفاق‘ سے متعلق ہے یعنی اگرچہ امکانات بہت کم تھے لیکن ایسا ہونا ممکن تھا اور یہی ہوا۔
مزید پڑھیں: پراسرار سیارچہ خلائی مخلوق کا بھیجا گیا کوئی مشن ہوسکتا ہے، ہارورڈ کے سائنسدان کا دعویٰ
اس کے باوجود ڈاکٹر سون کے دعوے نے سوشل میڈیا اور فلسفیانہ حلقوں میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے جہاں سائنسی منطق اور روحانی عقائد ایک بار پھر ایک دوسرے کے سامنے کھڑے نظر آ رہے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
خدا کا وجود خدا کے وجود پر بحث خدا کے وجود پر سائنسی تحقیق ڈاکٹر ولی سون فلکیات ہارورڈ ماہر فلکیات ڈاکٹر ولی سون.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: خدا کا وجود خدا کے وجود پر بحث خدا کے وجود پر سائنسی تحقیق ڈاکٹر ولی سون فلکیات ڈاکٹر ولی سون ڈاکٹر سون
پڑھیں:
تلاش
’’ تلاش‘‘ چار حروف پر مشتمل ایک چھوٹا سا لفظ ہے مگر یہ انسان کو بہت تھکاتا ہے اور بعض اوقات خوار کر کے رکھ دیتا ہے۔ ویسے تلاش مختلف اقسام کی ہوتی ہیں لیکن اس کو اگر دو کٹیگریز میں بانٹا جائے تو ایک ’’ ظاہری تلاش‘‘ ہے اور دوسری ’’ باطنی تلاش‘‘۔
غور کیا جائے تو انسان جنت سے نکالا اور زمین پر اُتارا بھی تلاش کے باعث تھا، ابلیس کا بہکانا ہی تو حضرت آدم علیہ السلام اور بی بی حوا کو شجرِ ممنوعہ کے قریب لے گیا تھا پھر جب ربِ کائنات نے دونوں کو دنیا میں الگ الگ مقام پر اُتارا، وہاں تلاش کا دوسرا مرحلہ آیا جس میں حضرت آدم علیہ السلام اور بی بی حوا نے ایک دوسرے کو دو سو سال تک کرہ ارض پر تلاش کیا۔
انسان کی پیدائش سے موت تک تلاش اُس کے وجود سے چمٹی رہتی ہے، میرے مشاہدے کے مطابق انسان کا ہر عمل، حرکت اور اقدام کسی نہ کسی شے کی تلاش سے جُڑا ہوتا ہے، کبھی وہ تلاش دنیاوی نوعیت کی ہوتی ہے اورکبھی روحانی۔
دنیاوی تلاش دنیا کے معاملات سے منسلک ایک ایسا جذبہ انسانی ہے جو حرص و ہوس میں باآسانی تبدیل ہو کر انسان کی شخصیت میں منفی اثرات کو جنم دے سکتا ہے جب کہ روحانی تلاش خلق کو خالق سے ملانے کی سیڑھی ہے جس میں انسان اپنے مشعلِ ایمان کی مدد سے خود کا کھوج لگاتا ہے پھر خود کو پا لینے کے بعد اپنے رب میں ضم ہو جاتا ہے۔
دراصل یہاں بات ساری انسانی ترجیحات کی ہے، اگرکوئی منفی احساسات لیے دوسروں کی زندگیوں میں نظر گاڑھے اُن کے پاس موجود دنیاوی نعمتوں کو چھین کر اپنی زندگی میں لانے کے راستے تلاش کرے گا تو شاید اُسے وقتی کامیابی نصیب ہو جائے مگر دائمی اندھیروں سے اُس کو ہرگز بچایا نہیں جاسکتا ہے۔
مثبت سوچ کے ساتھ سیدھے راستے کا انتخاب انسان پر انعامات برسانے میں دیر ضرور لگاتا ہے لیکن اس تلاش کا حاصل دیرپا سکون و اطمینان کا ضامن ہوتا ہے، طویل انتظار کے بعد ملنے والی بادشاہت ہمیشہ کی فقیری سے قبل کم عرصے کی نوازشات سے لاکھ درجے بہتر ہے۔
جب انسان کو بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ اُس کو اصل میں تلاش کس چیزکی ہے تب اُس کا اپنے ہدف کو پانے اور خواب کو حقیقت میں تبدیل کرنے کی غرض سے اختیار کیا جانے والا راستہ اُتنا پیچیدہ اور دشوار نہیں ہوتا جتنا جب انسان کو ٹھیک سے اندازہ ہی نہ ہو کہ وہ آخر تلاش کیا کر رہا ہے یا تلاش کرنا کیا چاہتا ہے، یہ انسانی کیفیت انتہائی اذیت ناک ہوتی ہے اور جو افراد اس سے گزر رہے ہیں یا ماضی میں گزر چکے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ یہ کسی طور انگاروں پر ننگے پاؤں چلنے سے کم نہیں ہے۔
ایک انجان منزل کی جانب چلتے ہی چلے جانا، انسان کے جسم اور ذہن دونوں کو بری طرح تھکا دیتا ہے۔سب سے زیادہ انسان کو خوار اُس کی ذات کی تلاش کرتی ہے، اپنی لاپتہ روح کو تلاش کرنے میں کبھی کبھار انسان کو لطف بھی محسوس ہوتا ہے، اس کے پیچھے انسانی طبیعت میں تجسس کا عنصرکار فرما ہوتا ہے۔
کوئی انسان خود سے تب ہی جدا ہوتا ہے جب اُس کی زندگی میں کوئی ایسا حادثہ رونما ہوجائے جو اُس کے جسم کے ساتھ ساتھ روح تک کو جھنجھوڑ کر رکھ دے۔ اس وقت ہم اخلاقی اعتبار سے دنیا کے ایک بد ترین دور سے گزر رہے ہیں، جہاں مفاد پرستی انسانی طبیعت کا اہم جُز بن کر رہ گئی ہے، ہر دوسرا فرد یہاں اپنی جنت حاصل کرنے کے لیے دوسرے کی زندگی جہنم بنا رہا ہے۔
انسان گدھ کا کردار نبھاتے ہوئے جب دوسرے انسان کو جیتے جی مار ڈالے گا تو وہ اضطرابی کیفیت میں مبتلا ہو کر تاریکی کی ہی نظر ہو جائے گا۔ اضطراب کے پاتال سے باہر نکلنے کے لیے روشنی کی تلاش انسان کو اُس کے نئے آپ سے ملواتی ہے جو پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط اور مستحکم ہوتا ہے، اس ترو تازگی سے بھرپور انسانی حالت تک صرف وہی لوگ پہنچ پاتے ہیں جن کی تلاش مثبت نوعیت کی ہو اور جو واقعی خود کو خود ترسی کی دیمک سے بچانا چاہتے ہوں۔
خود ترسی دراصل ایک ایسا خطرناک نشہ ہے جو انسان کی روح کو شل کرکے رکھ دیتا ہے، جس کو اس کی عادت پڑ جائے وہ اپنے پوٹینشل کو فراموش کرکے انسانی ہمدردیوں کی تلاش میں خود کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا کر ختم کر لیتا ہے۔
تلاش کبھی نہ ختم ہونے والا ایک ایسا سفر ہے جو انسان کو چین نہیں لینے دیتا، یہ چلتے پھرتے کرنے والا کام ہرگز نہیں ہے، ہر نوعیت اور فطرت کی تلاش انسان کی پوری توجہ مانگتی ہے۔ انسان کی زندگی میں بے شمار ایسے مواقعے آتے ہیں جب اُس کی تلاش سراب بن جاتی ہے۔
انسان جس شے کے پیچھے بھاگتے بھاگتے ہلکان ہوا جاتا تھا قریب پہنچ کر معلوم ہوتا ہے کہ اُس کی تلاش کا حاصل محض ایک دھوکا ہے کیونکہ یہ وہ ہے ہی نہیں جس کا راہ میں پلکیں بچھائے اُس کا وجود منتظر تھا۔
تلاش اگر زندگی میں بہارکی آمد کی نوید سنائے تو ایسی تلاش سر آنکھوں پر لیکن اگر یہ زندگی کے باغیچے میں موجود پھولوں کو کانٹوں میں تبدیل کر دے پھر اس سے دور رہنے میں ہی عافیت ہے۔