دریائے راوی کا سیلاب کئی گھروں کے خواب اور امیدیں بھی بہا کر لے گیا
اشاعت کی تاریخ: 30th, August 2025 GMT
لاہور:
دریائے راوی میں آنے والے سیلاب سے لوگوں کے صرف گھر، سامان اور فصلیں تباہ نہیں ہوئیں بلکہ سیلاب کا پانی کئی گھروں کے خواب اور امیدیں بھی بہا کر لے گیا ہے۔
سیلاب کا پانی دریائے راوی کنارے آباد فرخ آباد، شفیق آباد، افغان کالونی، تھیم پارک سمیت درجنوں بستیوں کے نشیبی حصوں میں بنے گھروں میں جمع ہے، جس نے فرنیچر، برقی آلات، جہیز اور زندگی بھر کی جمع پونجی بہا کر رکھ دیا ہے۔
سیلاب متاثرین کے چہروں پر کرب، دکھ اور بے بسی کے آثار نمایاں ہیں جبکہ امدادی سرگرمیاں جاری رہنے کے باوجود لوگوں کی ضرورتیں تاحال پوری نہیں ہو سکیں۔
فرخ آباد کے رہائشی محمد یاسین نے اپنے ڈوبے ہوئے مکان کے سامنے کھڑے آنکھوں میں نمی لیے بتایا کہ ہم نے برسوں کی محنت سے یہ گھر بنایا تھا، بیٹی کے جہیز کا سامان بڑی مشکل سے خریدا تھا، سب کچھ پانی میں ڈوب گیا، اب نہ گھر بچا ہے اور نہ امید باقی رہ گئی ہے۔
اسی گلی میں رہنے والی خاتون روبینہ بی بی نے دکھ بھری آواز میں کہا کہ کئی دنوں سے بچے پانی میں پڑے ہیں، کھانے کو کچھ نہیں، فریج، واشنگ مشین، ٹی وی، ہر چیز خراب ہوگئی، ہماری زندگی بھر کی جمع پونجی اور خواب سب ختم ہوگئے، حکومت کہتی ہے امداد ملے گی لیکن ابھی تک کچھ ہاتھ نہیں آیا۔
شفیق آباد کے شہری عبدالغفار نے کہا کہ پانی اتنی تیزی سے آیا کہ سنبھلنے کا موقع ہی نہ ملا، بیوی زیور سمیٹ رہی تھی اور بچے کتابیں بچانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن سب کچھ ڈوب گیا اور ہمارے ساتھ صرف ہمارا دکھ بچا ہے۔
دریا کنارے قائم ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مکین شاہد محمود نے گہرے دکھ کے ساتھ بتایا کہ مکان کے تین کمروں میں چار فٹ تک پانی بھرا ہوا ہے، ہم نے قسطوں پر گھر خریدا تھا، خواب تھا کہ یہاں سکون سے رہیں گے لیکن سیلاب نے یہ خواب بھی بہا دیا، اب ہمیں سمجھ نہیں آ رہی کہ کہاں جائیں۔
متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے، الخدمت فاؤنڈیشن اور پاکستان مرکزی مسلم لیگ کے رضا کاروں نے سیلاب زدہ بستیوں میں میڈیکل کیمپ قائم کیے ہیں اور متاثرہ خاندانوں میں کھانا تقسیم کر رہے ہیں، ان رضاکاروں کے مطابق روزانہ سیکڑوں افراد کو بنیادی طبی سہولیات اور پکا ہوا کھانا فراہم کیا جا رہا ہے۔
ادھر حکومت پنجاب کی جانب سے بھی ریلیف آپریشن جاری ہے، محکمہ آب پاشی اور ضلعی انتظامیہ کے تعاون سے کشتیوں کے ذریعے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے جبکہ بعض علاقوں میں فوری طور پر خیمہ بستیاں قائم کر دی گئی ہیں۔
ریلیف کمشنر کے مطابق متاثرین کو خشک راشن، خیمے اور ادویات فراہم کی جا رہی ہیں، تاہم بڑی تعداد میں متاثرین اب بھی امداد کے منتظر ہیں۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ امداد ناکافی ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ متاثرہ خاندانوں کو دوبارہ اپنے گھروں کی بحالی کے لیے مالی تعاون فراہم کیا جائے۔
فرخ آباد کی ہی ایک متاثرہ خاتون نصرت بیگم، جن کا جہیز کا سامان پانی میں ضائع ہوگیا، نے جذبات سے لبریز آواز میں بتایا میری بیٹی کی شادی چند ماہ بعد تھی، صندوق بھر کے کپڑے، برتن اور فرنیچر سب کچھ بہہ گیا، اب سوچ رہی ہوں بیٹی کے سامنے کیا جواب دوں گی، یہ صرف سامان کا نقصان نہیں، ہماری عزت اور خواب سب پانی کے ساتھ بہہ گئے ہیں۔
سیلاب نے ان بستیوں کے لوگوں سے صرف گھر، سامان اور معیشت ہی نہیں چھینی بلکہ ان کے خواب اور مستقبل بھی چھین لیے ہیں، بچے اپنی کتابوں سے محروم ہیں، خواتین جہیز اور گھریلو سامان کے نقصان پر غم زدہ ہیں اور مرد بے بسی کے ساتھ اپنے ٹوٹے گھروں کو دیکھ رہے ہیں۔
لاہور کے قریب یہ علاقے آج انسانی المیے کی تصویر بنے ہوئے ہیں، کہیں کوئی اپنی عمر بھر کی کمائی کو پانی میں ڈوبا دیکھ کر رو رہا ہے، تو کہیں کوئی اپنے بچوں کو بھوکا دیکھ کر، ان کی آنکھوں میں بس ایک ہی سوال ہے — کیا ان کے دکھوں کا کوئی مداوابھی ہوگا۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
پڑھیں:
بھارت کی نئی چال؛ طالبان کو چترال سے نکلنے والے دریا پر ڈیم بنانے میں مدد کی پیشکش
بھارت کی مودی سرکار اور افغانستان کی طالبان حکومت کے درمیان بڑھتی ہوئی پینگیں خطے کے امن و استحکام کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں۔
طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے حال ہی بھارت کا دورہ کیا تھا جس کے بعد کابل میں مودی سرکار کے مشن کو باضابطہ سفارت خانے کا درجہ دیدیا گیا۔
اس دورے میں دونوں ممالک کے درمیان متعدد شعبے میں تعاون بڑھانے اور پروجیکٹس کی تکمیل کے معاہدے بھی ہوئے لیکن تفصیلات جاری نہیں کی گئی تھیں۔
تاہم بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ہفتہ وار پریس کانفرنس میں ایک سوال کے جواب میں جو تفصیل بتائی اُس سے مودی سرکار اور طالبان کے جارحانہ عزائم کی عکاسی ہوتی ہے۔
رندھیر جیسوال نے کہا کہ طالبان حکومت کی افغانستان میں ہائیڈروالیکٹرک پروجیکٹس کی تعمیر میں مدد کرنے کو تیار ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ہمارے افغانستان کے ساتھ آبی وسائل اور اس سے جڑے پروجیکٹس میں تعاون کی ایک لمبی تاریخ ہے۔
بھارتی ترجمان نے افغان شہر ہرات میں قائم ڈیم کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ یہ پروجیکٹ بھی بھارت کی مدد اور تعاون کے بغیر ناممکن تھا۔
رندھیر جیسوال کے اس تازہ بیان پر قطر میں موجود طالبان کے سفیر سہیل شاہین نے کہا کہ بھارت کے جذبہ خیرسگالی کا خیرمقدم کرتے ہیں۔
سہیل شاہین نے مزید کہا کہ بھارت کے ساتھ افغانستان کے کئی معاملات پر دو طرفہ معاہدے ہیں اور دونوں کے درمیان مزید تعاون کے بہت سے مواقع اب بھی موجود ہیں۔
بھارت اور افغانستان ک طالبان حکومت کے درمیان بڑھنے والی یہ پینگیں اُس وقت سامنے آئی ہے جب امیرِ طالبان ملا ہبتہ اللہ اخوندزادہ نے ملکی وزارت توانائی کو دریائے کنڑ پر ڈیم کی تعمیر شروع کرنے کا حکم دیا۔
یہاں تک کہ ملا ہبتہ اللہ اخوندزادہ نے یہ بھی کہا کہ اگر ملکی کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں میں تاخیر ہورہی ہے تو غیر ملکی کمپنیوں سے کام کروالیا جائے۔
پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے موقع کی تاک میں رہنے والی مودی سرکار نے جھٹ پٹ دریائے کنڑ پر ڈیم کی تعمیر کے لیے اپنی خدمات پیش کردی ہیں۔
یاد رہے کہ دریائے کنڑ کا ماخذ پاکستان کے خوبصورت علاقے چترال میں ہے اور یہاں سے 482 کلومیٹر کا سفر طے کرنے کے بعد دریائے کابل میں شامل ہوتا ہے اور کنڑ کے مقام پر دریائے کنڑ بن کر واپس پاکستان آتا ہے۔