اگر قانونی اور ریگولیٹری رکاوٹیں دور ہو گئیں تو اس سال دسمبر میں پاکستان میں 5 جی اسپیکٹرم کی نیلامی کا عمل مکمل ہو جائے گا جس سے ملک میں انٹرنیٹ کی رفتار میں خاطر خواہ اضافہ متوقع ہے۔

یہ بھی پڑھیں: انتظار ختم، پاکستان میں 5جی اسپیکٹرم کی نیلامی کی ٹائم لائن کا اعلان ہوگیا

پاکستان میں آئے روز سیکیورٹی کو درپیش مسائل کے پیش نظر موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس معطل کر دی جاتی ہے جس کے باعث روزمرہ امور کی انجام دہی تعطل کا شکار ہوجاتی ہے تاہم عام حالات میں بھی ملک بھر میں انٹرنیٹ کی رفتار زیادہ متاثر کن نہیں۔

موبائل فون جو بظاہر 4 جی انٹرنیٹ شو کرتا ہے لیکن اکثر اوقات اس کی رفتار 3 جی سے بھی کم ہوتی ہے۔ ملک بھر میں سست رفتار انٹرنیٹ کا بنیادی سبب اسپیکٹرم ہے لیکن پہلے جانتے ہیں کہ یہ ہوتا کیا ہے اور وفاقی حکومت 5 جی اسپیکٹرم کب تک متعارف کرانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

رواں ماہ کے اوائل میں وزیرخزانہ محمد اورنگزیب کی سربراہی میں منعقدہ اسپیکٹرم ایڈوائزری کمیٹی کے اجلاس میں اسپیکٹرم کے ذریعے سے ڈیجیٹلائزیشن کے امور پر غور کیا گیا۔

اجلاس میں کہا گیا کہ بہت اسپیکٹرم کے ذریعے سے ملک میں برآمدات، انفارمیشن ٹیکنالوجی سے منسلک نوکریوں اور معیشت میں اِضافہ کیا جا سکتا ہے۔

اسپیکٹرم کیا ہے؟

اسپیکٹرم بنیادی طور پر ہوا میں موجود ہائی وے ہے جس پر ڈیٹا اور کالز سفر کرتے ہیں جتنی چوڑی اور صاف ہائی وے ہو گی ڈیٹا اتنی ہی آسانی سے بغیر رکاوٹ سفر کرے گا۔

مزید پڑھیے: 5 جی موبائل انٹرنیٹ کی لانچنگ ٹائم لائن میں مزید کتنی تاخیر ہوسکتی ہے؟

ٹیلی کام ایکسپرٹ اسلم حیات کے مطابق ایک ہائی وے ہے جس پر آپ کی آواز اور ڈیٹا سفر کرتا ہے، پرانا لینڈ لائن نظام ریلوے ٹریک کی مانند تھا جس پر ایک وقت میں ایک ہی گاڑی دوڑتی ہے اور اس کا کسی سے مقابلہ نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ا سپیکٹرم کی مثال ایک موٹروے کی طرح ہے جس پر ایک وقت میں کئی گاڑیاں دوڑ سکتی ہیں، اگر سڑک چوڑی اور کشادہ ہوگی تو گاڑیاں تیزی سے دوڑ سکیں گی اور اگر سڑک تنگ ہو گی تو گاڑیاں سست رفتار سے حرکت کریں گی۔

ماہرین کے مطابق آپ 3 جی، 4 جی اور اب 5 جی کو آپ 3 لین، 4 لین یا 5 لین سے تعبیر کر سکتے ہیں اور جب آپ موبائل سے کال یا ڈیٹا استعمال کرتے ہیں تو آپ کی آواز اور ڈیٹا وائر لیس لہروں کے ذریعے ٹرانسفر ہوتا ہے، یہ لہریں فریکوئنسی پر چلتی ہیں یعنی مخصوص رفتار اور رینج میں حرکت کرتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: انٹرنیٹ کی بندش، سال 2024 فری لانسرز کے لیے کیسا رہا؟

دنیا میں ہر فریکوئنسی کو اسپیکٹرم کا حصہ کہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایف ایم ریڈیو 88 میگا ہرٹز سے 108 میگاہرٹز اسپیکٹرم کے درمیان کام کرتا ہے جبکہ موبائل فون 700، 1800، 2100 میگاہرٹز پر کام کرتے ہیں۔

پاکستان میں 5 جی لانچ میں حائل بڑی رکاوٹ دور

اس ماہ کے آغاز میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ 5 جی کی لانچنگ میں حائل بڑی رکاوٹ دور کر دی گئی ہے۔

دفاعی اداروں کی مدد سے پی ٹی اے نے 700 میگا ہرٹز بینڈ اور 2300 میگاہرٹز بینڈ کا ایک بڑا حصہ خالی کرا لیا ہے۔

 

ملک بھر میں وائرلیس لوکل لوپ سروسز کی ری فریمنگ کے نتیجے میں 3500 میگا ہرٹز بینڈ میں 285 میگا ہرٹز اسپیکٹرم محفوظ کر لیا گیا ہے جو دنیا بھر میں 5 جی ٹیکنالوجی کے لیے سب سے زیادہ استعمال ہونے والا بینڈ ہے اور پاکستان کے لیے بھی کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔

اس سے قبل پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ پاکستانی اسپیکٹرم میں پڑوسی ملکوں کی مداخلت تھی، اگر پاکستان کے کسی سرحدی کے سگنلز فعال ہوں تو یہ لہریں قریبی بھارتی یا افغان علاقوں تک بھی پہنچ سکتی ہیں اور اسی طرح وہاں سے فور جی اور فائیو جی آنے والے سگنلز پاکستان میں داخل ہو سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان نے سائبر کامسیک سی ٹی ایف عالمی مقابلہ جیت لیا

ماہرین کے مطابق اس صورتحال کو ’اسپِل اوور‘ کہا جاتا ہے جو نہ صرف سروس میں رکاوٹ ڈال سکتی ہے بلکہ سیکیورٹی اور آپریشنل نوعیت کے مسائل بھی پیدا کرتی ہے۔

پاکستان کے تناظر میں یہ مسئلہ بھارت، افغانستان اور ایران کی زمینی سرحدوں پر زیادہ نمایاں رہا جبکہ عمان اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ یہ صورتحال سمندری حدود کے قریب دیکھنے میں آئی۔

تاہم یہ بڑی رکاوٹ دور ہونے کے باوجود اسپیکٹرم کی راہ میں کچھ قانونی اور ریگولیٹری مسائل ہیں جن کا حل ضروری ہے۔

اسپیکٹرم لانچ میں حائل رکاوٹیں

گزشتہ 4 دہائیوں سے دنیا کے 14 ممالک کے ٹیلی کام سیکٹر میں خدمات سر انجام دینے والے پرویز افتخار نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اسپیکٹرم لانچ میں بنیادی طور پر 2 رکاوٹیں حائل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک تو یہ کہ کچھ سال پہلے ایک نجی کمپنی کو 2600 میگا ہرٹز اسپیکٹرم کا لائسنس دیا گیا تھا وہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے، وہ اسپیکٹرم واگزار نہیں ہو پا رہا۔

مزید پڑھیں: میرے ہاتھ میں کوئی بٹن نہیں کہ انٹرنیٹ بند کردوں، وزیر مملکت آئی ٹی شزہ فاطمہ

پرویز افتخار کے مطابق دوسرا مسئلہ پی ٹی سی ایل اور ٹیلی نار کے انضمام کا ہے، اس ضمن میں میں گو کہ دونوں پارٹیز راضی ہیں لیکن اس کے لیے ریگولیٹری اپروول چاہیے جو مسابقتی کمیشن دیتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ اپروول نہیں ہو پا رہا، اس لیے اگر حکومت اسپیکٹرم نیلامی کا اعلان کرتی ہے، تو پی ٹی سی ایل اور ٹیلی نار دونوں نیلامی میں حصہ نہیں لے پائیں گے۔

پرویز افتخار کا کہنا ہے کہ نیلامی سے قبل مسابقتی کمیشن کی جانب سے ان 2 کمپنیوں کے انضمام پر فیصلہ دیا جانا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ وہ غیر یقینی صورتحال ہے جس کی وجہ سے اسپیکٹرم کی نیلامی کا عمل تاخیر کا شکار ہے۔

انہوں نے کہا کہ معیشت اور نظام حکومت کو ڈیجیٹلائزیشن کی جانب لے جانے کا حکومتی ایجنڈا اسپیکٹرم کے بغیر ممکن نہیں، 5 جی اسپیکٹرم زراعت، صنعت، بینکنگ، تعلیم، صحت تمام شعبوں کے لیے ضروری ہے، کیونکہ یہ انفرا اسٹرکچر ہے اور مواصلاتی انفرا اسٹرکچر کے بغیر آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔

مزید پڑھیے: ایلون مسک کے اسٹار لنک سے پاکستانیوں کو کیا فائدہ ہوگا؟

پرویز افتخار کے مطابق اسپیکٹرم لانچ ایک الگ چیز ہے اور 5 جی اس اسپیکٹرم پہ چلے گا لیکن اسپیکٹرم لانچ سے آپ کی 4 جی سروسز میں بہت بہتری آئے گی۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت تو 4 جی بھی بہت سست ہے، آپ اسلام آباد سے باہر جائیں تو آپ کا انٹرنیٹ درست طریقے سے کام نہیں کرتا، اس وقت 4 جی کا برا حال ہے۔

5 جی اسپیکٹرم 4 جی سروسز کی بہتری کا ضامن

گزشتہ کئی سالوں سے ٹیلی کمیونیکشن شعبے کے بڑے ناموں اعلیٰ عہدوں پر کام کرنے والے، ورلڈ بینک، بنگہ دیش کے گرامین بینگ اور کئی بین الاقوامی اداروں کو بطور ماہر خدمات مہیّا کرنے والے اسلم حیات نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا اسپیکٹرم کی نیلامی معیشت کے لیے انتہائی اہم ہے۔

ان کے مطابق 5 جی اسپیکٹرم کی نیلامی سے بنیادی طور پر ملک بھر میں 4 جی سروسز کے معیار میں بہتری آئےگی جو کہ آنی چاہیے جہاں تک 5 جی کا تعلق ہے تو صنعتی استعمال کی ایک چیز ہے اور اُس کا محدود استعمال ریموٹ آپریشنز، ڈرائیورلیس کاروں یا زیادہ سے زیادہ گیمنگ میں ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بارے معلومات پر معاشی ماہرین کو خوشگوار حیرت

اسلم حیات نے کہا کہ انہی معاملات سے وابستہ صارفین کو ریئل ٹائم ڈیٹا کی ضرورت ہوتی ہے، بنگلہ دیش میں بھی اگر دیکھیں تو 5 جی اسپیکٹرم سے بنیادی طور پر 4 جی سروس کے معیار میں بہتری آئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سنہ 2014 میں جب ٹیلی نار نے اسپیکٹرم میں حصہ لیا تو اس نے 5 میگا ہرٹز خریدا جو اس کے صارفین کی ضروریات کے لیے کم پڑ گیا تھا، یہی وجہ ہے کہ بعد میں اُس نے 8 میگا ہرٹز خریدا، اسی طرح سے جیز جس کے پاس 39 فیصد صارفین ہیں اُس نے 2017 میں مزید اسپیکٹرم خریدا۔

اسلم حیات کے مطابق اسپیکٹرم کی بہتری کے 2 طریقے ہیں، ایک طریقہ یہ ہے کوئی کمپنی مزید اسپیکٹرم خرید کر صارفین کو بہتر سہولیات دے، جبکہ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جہاں ایک موبائل ٹاور نصب ہے وہاں 2 ٹاور لگا دیے جائیں۔

اسپیکٹرم کی نیلامی میں حائل رکاوٹیں

5 جی اسپیکٹرم کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے ضمن میں اسلم حیات کا مؤقف تھا کہ اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں اگر حکومت اسے لانچ کرنا چاہے تو کر سکتی ہے، 2016 اور 2017 میں جب نیلامی کی گئی تو نیلامی میں ایک ایک کمپنی نے ہی حصّہ لیا تھا تو یہ کہنا کہ نیلامی میں سب کا موجود ہونا ضروری ہے قرین از قیاس وضاحت نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’پارلیمنٹ کو بتایا جا رہا ہے کہ مسابقتی کمیشن میں پی ٹی سی ایل اور ٹیلی نار کے زیرالتوا انضمام کا معاملہ حائل ہے، کسی کمپنی کے پاس پہلے سے موجود اسپیکٹرم اور اُس سے متعلق عدالتی مقدمات حائل ہیں، جی ایس ایم اے رپورٹ میں صارفین کے لیے لاگت سے متعلق مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے‘۔

اسلم حیات نے کہا کہ اِن وجوہات میں زیادہ وزن نہیں کیونکہ 2014 میں حکومت نے 4 کمپنیوں کو اسپیکٹرم دیا، جبکہ 2016 اور 2017 میں ایک ایک کمپنی نے نیلامی میں حصّہ لیا۔

یہ بھی پڑھیے: سینیٹ کمیٹی کا اسپیکٹرم کی نیلامی میں تاخیر اظہار تشویش، سائبر فراڈز پر فوری اصلاحات کا مطالبہ

ان کا کہنا ہے کہ اگر نیلامی میں 3 کمپنیاں حصہ لیں گی تو 2 بلاکس کی نیلامی کی جائے گی، اگر 2 ہوں گی تو ایک بلاک نیلام کیا جائے گا جس سے ٹیلی کام آپریٹرز کے نیٹ ورک پر زیادہ لوڈ آئے گا اور سروسز متاثر ہوں گی۔

اسپیکٹرم کی نیلامی معیشت کے لیے ناگزیر کیوں؟

ٹیلی کام ایکسپرٹ اسلم حیات نے سمجھتے ہیں کہ سنہ 2014 میں اگر اسپیکٹرم نیلام نہ کیا جاتا تو ملک میں اوبر، کریم، دراز اور اِس طرح کی بے شمار آن لائن کمپنیوں کا کوئی وجود نہیں ہوتا اور اسی طرح نہ ہی کسی نئے کاروبار کا آغاز ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ ٹیلی کام سیکٹر ملکی معیشت کا گروتھ انجن ہے، اس وقت پاکستان میں دنیا کی چوتھی بڑی فری لانسرز کمیونٹی موجود ہے جو ملکی معیشت میں حصہ ڈال رہی ہے، کورونا کے دنوں میں اگر ملک میں اسپیکٹرم نہ ہوتا تو زندگی بالکل رک جاتی۔

مزید پڑھیں: پاکستان نے سائبر کامسیک سی ٹی ایف عالمی مقابلہ جیت لیا

حکومت اس وقت اپنے اڑان پاکستان منصوبے کے ذریعے ’ڈیجیٹل معیشت اور ڈیجیٹل گورننس‘ کی طرف پیش قدمی کی خواہاں ہے اور ماہرین کے مطابق اس ضمن میں درکار پیشرفت کا بھی اسپیکٹرم کے بغیر تصور ممکن نہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

5 جی اسپیکٹرم انٹرنیٹ انٹرنیٹ اسپیڈ فائیو جی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسپیکٹرم انٹرنیٹ انٹرنیٹ اسپیڈ فائیو جی اسپیکٹرم کی نیلامی انہوں نے کہا کہ جی اسپیکٹرم کی اسپیکٹرم لانچ بنیادی طور پر پرویز افتخار اسلم حیات نے پاکستان میں اسپیکٹرم کے ملک بھر میں کے مطابق اس نیلامی میں نے کہا کہ ا انٹرنیٹ کی کے مطابق ا میگا ہرٹز ٹیلی نار ضروری ہے ٹیلی کام کے ذریعے ملک میں کے لیے یہ بھی ہے اور

پڑھیں:

ہمارے قول و فعل میں تضاد کیوں ہے؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250921-03-7

 

شاہنواز فاروقی

پاکستانی اخبارات کے کالم نویس اندھوں میں کانوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ مسئلہ بیان کرتے ہیں، کبھی کبھی مسئلے کا تجزیہ بھی کرتے ہیں مگر وہ یہ کبھی نہیں بتاتے کہ مسئلہ کس نے پیدا کیا۔ مثلاً اکثر کالم نگار پاکستان کے سیاسی بحران پر لکھتے رہتے ہیں مگر وہ کبھی یہ نہیں بتاتے کہ یہ بحران جرنیلوں اور ان کے آلہ کار سیاست دانوں کا پیدا کردہ ہے۔ اکثر کالم نگار بتاتے ہیں کہ ملک میں آزادی رائے موجود نہیں، مگر وہ یہ نہیں بتاتے کہ آزادی رائے کو فوجی اسٹیبلشمنٹ نے غائب کیا ہے۔ یاسر پیرزادہ روزنامہ جنگ کے کالم نویس ہیں اپنے ایک حالیہ کالم میں انہوں نے اس بات کا ماتم کیا ہے کہ پاکستان کے مذہبی لوگوں کے قول و فعل میں گہرا تضاد پایا جاتا ہے مگر انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ہمارے مذہبی لوگوں کے قول و فعل میں تضاد کیوں موجود ہے۔ اس سلسلے میں یاسر پیرزادہ نے کیا لکھا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں۔

’’پرانی بات ہے، دو صاحبان میرے دفتر تشریف لائے، دونوں کی وضع قطع شرعی تھی، پانچ وقت کے نمازی تھے، رمضان کے روزے رکھتے تھے، ایک سے زائد مرتبہ حج کر چکے تھے اور عمروں کی ادائیگی کا کوئی حساب ہی انہیں یاد نہیں تھا۔ انہوں نے سفارش کی کہ ان کے کسی جاننے والے کو اسلام آباد کے فلاں سرکاری اسپتال میں ہائوس جاب کی اجازت دے دی جائے۔ اس اسپتال کے ایم ایس سے میری شناسائی تھی، میں نے اسے فون کیا تو اس نے بتایا کہ ہائوس جاب کے لیے اسپتال نے میرٹ پر مبنی ایک شفاف نظام بنایا ہوا ہے، جن صاحب کی سفارش ہے وہ میرٹ پر پورا نہیں اُترتے۔ یہ بات سن کر میں نے ایم ایس کا شکریہ ادا کیا اور فون بند کرکے ان صاحبان سے معذرت کر لی۔ مجھے یہ خوش فہمی تھی کہ وہ اِس میرٹ کی تعریف کریں گے مگر وہ الٹا مجھ سے ناراض ہو گئے اور یہ کہہ کر چل دیے کہ ایک معمولی سا کام آپ سے نہیں ہو سکا۔

اِس قسم کے واقعات معمول ہیں، پہلے مجھے ایسی باتوں پر غصہ آجایا کرتا تھا، اب نہیں آتا، اب صرف حیرت ہوتی ہے اور وہ بھی اس صورت میں جب کوئی ’’با عمل مسلمان‘‘ ایسی حرکت کرتا ہے۔ اگر اِس واقعے میں دو با عمل مسلمانوں کی جگہ دو ملحد کردار ہوتے تو پھر یہ واقعہ لکھنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی کیونکہ مذہبی لوگوں کے نزدیک ملحد کا تو کوئی اخلاقی پیمانہ ہی نہیں ہوتا لہٰذا اس سے آپ کسی بھی غیر اخلاقی رویے کی توقع کر سکتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ یہ مفروضہ سراسر غلط ہے، تاہم فی الحال یہ سوال زیر ِ بحث نہیں، ابھی موضوع بحث یہ ہے کہ جو لوگ مذہب کی دی ہوئی اخلاقیات کے تابع ہیں وہ اِس قدر اطمینان کے ساتھ اور بغیر کسی شرمندگی اور احساسِ جرم کے، قانون کی خلاف ورزی پر کیسے آمادہ ہو جاتے ہیں؟ پاکستان میں چپے چپے پر مساجد ہیں اور الحمدللہ آباد ہیں، ہر سال ہم پورے احترام کیساتھ رمضان کے روزے رکھتے ہیں، حج اور عمرے کرتے ہیں، دس محرم کو امام حسینؓ کا سوگ مناتے ہیں اور 12 ربیع الاوّل کی شان و شوکت کا تو کوئی موازنہ ہی نہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ فجر کی اذان کے ساتھ صبح کا آغاز کرنے والے اور عشا کے تین وتر پڑھ کر شب بخیر کہنے والے، اپنا پورا دن کسی بے دین کی طرح گزارتے ہیں؟ وہ قوم جو شریعت کی پابندی کا دم بھرتی ہے، وہ اپنے ہی ملک کے دستور اور قوانین کو اتنی آسانی سے نظر انداز کیوں کر دیتی ہے؟ یہ کروڑوں مسلمان جو ہمہ وقت دین کی عزت و حرمت پر مر مٹنے کو تیار ہوتے ہیں، 10سیکنڈ کے لیے ٹریفک کے اشارے کی پاسداری کیوں نہیں کرتے، سڑکوں پر گندگی کیوں پھیلاتے ہیں، وضو کرتے وقت پانی کا ضیاع کیوں کرتے ہیں اور روز مرہ کے دنیاوی اور کاروباری معاملات میں اس اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیوں نہیں کرتے جس کی تعلیم ہمیں اللہ اور اس کے رسولؐ نے دی ہے؟‘‘ (روزنامہ جنگ، 10 ستمبر 2025ء)

مذہب انسان کو انسان بنانے والی سب سے بڑی قوت ہے مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں مذہب کا چرچا جتنا بڑھ رہا ہے معاشرہ اتنا مذہبی نہیں بن پارہا۔ اس کی وجہ ہے قرآن اہل ایمان سے مخاطب ہو کر صاف کہتا ہے کہ تم جو کہتے ہو وہ کرتے کیوں نہیں۔ یعنی ہمارے قول و فعل میں ایک فاصلہ ہے ہمارا عمل ہمارے قول کے مطابق نہیں۔ یعنی ہم نفاق کا شکار ہیں اور نفاق کی حالت میں ہمارا قول اور فعل ہم آہنگ ہو ہی نہیں سکتا۔ سیرت طیبہ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ رسول اکرمؐ نے جو کچھ کہا اسے پہلے خود بسر کرکے دکھایا۔ کہنے کو ہمارے معاشرے میں کروڑوں لوگ نمازیں پڑھ رہے ہیں اور کروڑوں لوگ رمضان کے پورے روزے رکھتے ہیں۔ مگر ہماری نمازیں اور ہمارے روزے تک ہمارے کردار کو بدلنے میں ناکام ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مذہب صرف ہمارا ’’قال‘‘ ہے مذہب ہمارا ’’حال‘‘ نہیں حالانکہ ہمارے دین کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ اپنے قال کو حال بنا کر دکھائو۔ لیکن چونکہ ایسا نہیں ہورہا اس لیے ہماری نمازیں اور ہمارے روزے بھی بے اثر ثابت ہورہے ہیں۔ ہمارا مذہب کہتا ہے کہ نماز اس طرح پڑھو گویا تم خدا کو دیکھ رہے ہو یا اگر تم اس طرح نماز نہیں پڑھ سکتے تو کم از کم اس طرح تو نماز پڑھو گویا خدا تم کو دیکھ رہا ہے۔ لیکن ہماری نمازوں میں یہ دونوں کیفیات موجود نہیں۔ چنانچہ ہماری نمازیں بھی ہمیں جھوٹ بولنے، دھوکا دینے، حرام کھانے، دوسروں کا حق مارنے اور قانون توڑنے سے نہیں روکتیں۔ اللہ تعالیٰ نے روزے کے بارے میں صاف کہا ہوا ہے کہ مجھے روزے دار کی بھوک پیاس نہیں اس کا تقویٰ پہنچتا ہے مگر کروڑوں لوگ تقوے کے ساتھ روزہ رکھتے ہی نہیں۔ چنانچہ ان کا روزہ کبھی ان کے کردار کو نہیں بدل پاتا۔ ہمارے معاشرے میں ہزاروں لوگ مبلغ بن کر گھوم رہے ہیں مگر ان کی بات کا کسی پر کوئی گہرا اثر نہیں ہوپاتا۔ اس لیے کہ ان مبلغین میں اخلاص موجود نہیں ہوتا۔ مولانا روم کی زندگی کا ایک واقعہ ہے کہ ایک عورت اپنے لڑکے کو لے کر مولانا کے پاس آئی اور کہا کہ مولانا یہ لڑکا بہت میٹھا کھاتا ہے۔ آپ اسے تلقین کریں کہ یہ زیادہ میٹھا کھانا چھوڑ دے۔ مولانا نے عورت سے کہا تین ہفتے بعد آنا۔ تین ہفتے بعد وہ عورت پھر آئی تو مولانا نے کہا تین ہفتے بعد آنا۔ وہ عورت تین ہفتے بعد پھر آئی تو مولانا نے عورت کے لڑکے کو تلقین کی کہ تم زیادہ میٹھا کھانا چھوڑ دو۔ عورت نے کہا مولانا یہ بات تو آپ پہلے دن بھی کہہ سکتے تھے۔ مولانا نے کہا کہ اس دن تک تو میں خود زیادہ میٹھا کھا رہا تھا۔ اب میں نے زیادہ میٹھا کھانا چھوڑ دیا ہے تو تمہارے بیٹے کو اسے ترک کرنے کی تلقین کی ہے۔ ہمارے مبلغین کی عظیم اکثریت کا حال یہ ہے کہ وہ لوگوں کو وہ خرابیاں چھوڑنے کا حکم دیتے ہیں جن میں وہ خود مبتلا ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نہ وہ خود اپنے اندر انقلاب برپا کرپاتے ہیں نہ دوسروں کو کسی انقلاب سے ہمکنار کرپاتے ہیں۔

اس سلسلے میں اقبال بھی ہماری غیر معمولی رہنمائی کرتے ہیں۔ اقبال نے کہا ہے

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی

یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

اقبال کہہ رہے ہیں کہ زندگی میں اصل چیز زبان سے نکلا ہوا لفظ نہیں ہے اصل چیز کہی گئی بات سے، پیدا ہونے والا عمل ہے۔ انسان کو جنت ملے گی تو عمل کی بنیاد پر، انسان جہنم میں جائے گا تو عمل کی وجہ سے۔ اس سلسلے میں اقبال نے ماضی کے مسلمانوں اور حال کے مسلمانوں کا موازنہ کرتے ہوئے فرمایا ہے۔

تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی

کہ تُو گفتار، وہ کردار، تُو ثابت وہ سیارہ

اقبال حال کے مسلمانوں سے کہہ رہے ہیں کہ تمہیں صحابہ، تابعین یا تبع تابعین سے کیا نسبت؟ تم صرف ’’گفتار‘‘ ہو اور تمہارے بزرگ ’’کردار‘‘ تھے۔ تم ایک جامد ستارہ یا Fixed Star ہو اور تمہارے بزرگ اپنے محور پر رواں سیارہ تھے۔ اقبال کے نزدیک عمل اتنا اہم ہے کہ پوری کائنات ’’صاحب ِ عمل‘‘ کا ساتھ دیتی ہے۔

یہی آئین قدرت ہے یہی اسلوبِ فطرت ہے

جو ہے راہِ عمل میں گامزن محبوبِ فطرت ہے

لیکن اقبال ’’مجرّد عمل‘‘ کے قائل نہیں۔ انہوں نے مسلمانوں سے کہا ہے ک اپنے عمل کو ’’عشق مرکز‘‘ بنائو۔ چنانچہ اقبال نے کہا ہے۔

عقل کو تنقید سے فرصت نہیں

عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ

اقبال کے اس شعر کا مطلب یہ ہے کہ عشق کے بغیر عمل بھی بڑے نتائج پیدا نہیں کرتا۔

یہاں سوال یہ ہے کہ علم عشق میں کیسے ڈھلتا ہے؟ ہماری مذہبی روایت میں علم کے تین درجے یا تین مرتبے بیان ہوئے ہیں۔

(1) علم الیقین

(2) عین الیقین

(3) حق الیقین

ان مراتب کی آسان تشریح یہ ہے کہ آپ کو کسی شخص نے بتایا کہ یہ جو آپ کے سامنے گھڑا رکھا ہوا ہے اس میں پانی ہے۔ یہ علم الیقین کی منزل ہے۔ آپ نے آگے بڑھ کر گھڑے میں جھانک کر دیکھ لیا کہ گھڑے میں واقعتاً پانی ہی ہے یہ عین الیقین کا مرحلہ ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر آپ نے ایک گلاس میں پانی انڈیل کر پی لیا تو آپ کو تجربے کی سطح پر معلوم ہوگیا کہ گھڑے میں واقعتا پانی ہی تھا اب اگر آپ سے ساری دنیا بھی یہ کہے کہ گھڑے میں پانی نہیں شربت تھا تو آپ ساری دنیا کو مسترد کردیں گے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری مذہبیت کبھی ’’علم الیقین‘‘ سے آگے نہیں بڑھ پائی اور ’’حق الیقین‘‘ کا تجربہ کروڑوں میں دوچار ہی کو ہو پاتا ہے۔ چنانچہ ہمارے قول و فعل میں تضاد نہ ہو تو اور کیا ہو؟

عالمی منظرنامے پر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ صرف مسلم دنیا ہی قول و فعل کے تضاد کا شکار نہیں۔ جدید مغرب جو اس وقت پوری دنیا کا امام ہے مسلمانوں سے کہیں زیادہ قول و فعل کے تضاد کا شکار ہے۔ اس کا ٹھوس ثبوت یہ ہے کہ جدید مغربی دنیا آزادی کے تصور کو پوج رہی ہے مگر یہ دنیا مسلمانوں کو آزاد نہیں دیکھ سکتی۔ چنانچہ مغرب نے کہیں مسلمانوں پر بادشاہوں کو مسلط کر رکھا ہے کہیں فوجی آمروں کو اور کہیں بدعنوان سول آمروں کو۔ مغربی دنیا جمہوریت کی علمبردار ہے مگر دنیا کے کسی ملک میں اسلامی تحریک جمہوریت کے ذریعے اقتدار میں آجائے تو مغرب اس کے خلاف سازشیں شروع کردیتا ہے۔ 1990ء کی دہائی میں الجزائر میں اسلامی فرنٹ کامیاب ہوا تو مغرب نے اس پر الجزائر کی فوج چڑھا دی۔ مصر میں صدر مرسی اقتدار میں آئے تو یہاں بھی امریکا نے جنرل سیسی کے ذریعے صدر مرسی کی حکومت گرادی۔ حماس نے فلسطین میں جمہوری کامیابی حاصل کی تو اسے اقتدار میں آنے نہیں دیا گیا۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کے کالم نویسوں کو مسلمانوں کے تضادات تو نظر آتے ہیں لیکن مغرب کے بھیانک تضادات نظر نہیں آتے۔

متعلقہ مضامین

  • انٹرنیٹ سروس کو درپیش مسائل کیا 5 جی اسپیکٹرم سے حل ہو جائیں گے؟
  • تعلیم و تربیت
  • امریکی ایچ ون-بی ویزا کی نئی فیس کن افراد پر لاگو نہیں ہوگی؟ تنازع کے بعد وائٹ ہاؤس کی وضاحت جاری
  • ہمارے قول و فعل میں تضاد کیوں ہے؟
  • ٹرینوں کی نجکاری کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا، اوپن نیلامی کا اعلان
  • کراچی کی تقسیم جائز ہے توسندھ کی غلط کیسے؟ پنجاب میں صوبہ بن سکتاہے توسندھ میں کیوں نہیں؟ خالد مقبول
  • جڑواں شہروں میں ہائی اسپیڈ ٹرین چلانے کے منصوبے میں بڑی پیشرفت
  • انٹرنیٹ کا مسئلہ حل کرنے کیلئے حکومت نے بڑا قدم اٹھا لیا
  • حکومت کا اہم قدم، پاکستان میں انٹر نیٹ اسپیڈ تیزہونے کا امکان