Jasarat News:
2025-10-25@23:50:46 GMT

جنگ بندی کے باوجود غزہ کے زخم ہنوز تازہ

اشاعت کی تاریخ: 26th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251026-03-2

 

غزہ میں ابھی بھی بہت کچھ نہیں بدلا۔ جنگ بندی کے اعلان کے باوجود وہاں زندگی گزارنا مشکل ہے۔ عالمی طاقتوں کی خاموشی، مسلسل اسرائیلی دہشت گردی، امدادی قافلوں پر پابندیاں اور لاکھوں بے گھر فلسطینی، یہ سب اس حقیقت کی گواہی دیتے ہیں کہ جنگ بندی صرف کاغذی حقیقت ہے، زمینی نہیں۔ فلسطینی عوام اب بھی زندہ رہنے کی جنگ لڑ رہے ہیں، ایک ایسی زمین پر جو بموں، ملبے اور بارود سے بھری ہوئی ہے۔ الجزیرہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق، اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے باوجود غزہ میں انسانی بحران بدترین شکل اختیار کرچکا ہے۔ اسرائیلی حکام نے امدادی سامان کے داخلے پر سخت پابندیاں برقرار رکھی ہوئی ہیں، جس کے باعث لاکھوں فلسطینی خوراک، پانی اور طبی سہولتوں کے بغیر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ہزاروں زخمی افراد کو فوری علاج کی ضرورت ہے، مگر اسپتالوں کے پاس نہ دوائیں ہیں اور نہ ہی بجلی، خواتین اور بچے کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں، جب کہ شدید غذائی قلت نے بھوک اور بیماری کو ایک مستقل مسئلہ بنا دیا ہے۔ غزہ کی پٹی کے شمال سے جنوب تک صورتِ حال یکساں ہے۔ کوئی علاقہ محفوظ نہیں، کوئی خاندان پرسکون نہیں۔ لوگ کھنڈرات میں پناہ ڈھونڈ رہے ہیں، پانی کے چند قطروں کے لیے گھنٹوں قطاروں میں کھڑے رہتے ہیں، اور ادویات نایاب ہو چکی ہیں۔ بین الاقوامی امدادی ادارے مسلسل انتباہ کر رہے ہیں کہ اگر امداد کی فراہمی میں رکاوٹیں برقرار رہیں تو غزہ میں قحط جیسی صورتِ حال جنم لے سکتی ہے۔ یہ انسانی بحران صرف خوراک یا رہائشی مسائل تک محدود نہیں ہے۔ اسرائیلی جارحیت نے غزہ کو ایک ایسے کھلے بارودی میدان میں بدل دیا ہے جو لاکھوں ٹن دھماکا خیز مواد سے بھرا ہوا ہے۔ مرکز برائے انسانی حقوق غزہ نے خبردار کیا ہے کہ قابض اسرائیلی فوج کے پھینکے گئے لاکھوں بموں، گولوں اور میزائلوں میں سے ہزاروں اب تک نہیں پھٹے۔ ان غیرمنفجر بموں کی باقیات شہریوں اور امدادی کارکنوں کے لیے ایک مستقل خطرہ بن چکی ہیں۔ ابتدائی تخمینوں کے مطابق غزہ میں تقریباً 71 ہزار ٹن ناکارہ بارودی مواد دفن ہے، جو کسی بھی لمحے پھٹ کر مزید تباہی پھیلا سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دو سالہ جنگ کے دوران تباہ شدہ عمارتوں، بنیادی ڈھانچے اور رہائشی علاقوں سے ستر ملین ٹن ملبہ جمع ہو چکا ہے، جس کے نیچے یہ بم چھپے ہوئے ہیں۔ اس خوفناک صورتحال نے نہ صرف تعمیر ِ نو بلکہ روزمرہ کی زندگی کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ غزہ کے شہری جب اپنے گھروں کا ملبہ ہٹانے یا امدادی کارروائی میں شریک ہوتے ہیں تو ہر قدم پر موت ان کا تعاقب کرتی ہے۔ غزہ کے محکمہ دفاعِ کے مطابق امدادی عملہ روزانہ اپنی جان خطرے میں ڈال کر کام کر رہا ہے۔ ’’ہم ہر ملبے کے نیچے موت چھپی محسوس کرتے ہیں، کسی بھی لمحے ایک دھماکا ہمارے کارکنوں یا عام شہریوں کی زندگی ختم کر سکتا ہے‘‘۔ ان کے مطابق رہائشی عمارتوں، گلیوں، کھیتوں اور اسکولوں تک میں ایسے بم موجود ہیں جو پھٹنے سے رہ گئے تھے۔ گزشتہ چند مہینوں میں کئی ہلاکت خیز واقعات پیش آ چکے ہیں۔ غزہ شہر کے الزیتون محلے میں ملبہ صاف کرتے ہوئے ایک زیرِ زمین گولہ پھٹ گیا جس سے تین شہری شہید ہو گئے۔ اسی طرح النصیرات کیمپ اور خان یونس میں بھی اسی نوعیت کے دھماکے ہوئے، جن میں کئی مزدور زخمی ہوئے۔ یہ صورتحال بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ جنیوا کنونشنز کے مطابق، قابض طاقت پر لازم ہے کہ جنگ کے بعد غیرمنفجر ہتھیاروں کو ختم کرے، شہریوں کی سلامتی کو یقینی بنائے اور دنیا کو ان کے مقامات سے آگاہ کرے۔ مگر اسرائیل نے نہ صرف یہ ذمے داری پوری نہیں کی بلکہ غزہ میں امدادی سرگرمیوں پر رکاوٹیں کھڑی کر کے انسانی المیے کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ بین الاقوامی امدادی تنظیم ہیومینیٹی اینڈ انکلوژن کے سینئر عہدیدار نِک اور کے مطابق، غزہ کو مکمل طور پر صاف کرنے میں 20 سے 30 سال لگ سکتے ہیں۔ ان کے بقول ’’غزہ کی زمین بارود سے بھرا ایک کھلا قبرستان بن چکی ہے، جہاں ہر قدم موت کا پیغام ہے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ صورتحال دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانیہ کے بعض شہروں سے مشابہ ہے، جہاں برسوں تک لوگ زیر ِ زمین موجود بموں کے خوف میں زندگی گزارتے رہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسدادِ بارودی خطرات نے بھی اعتراف کیا ہے کہ اسرائیلی پابندیوں کی وجہ سے غزہ میں کسی بڑے پیمانے پر جانچ یا صفائی کا عمل ممکن نہیں ہو سکا۔ ان کے مطابق تقریباً 5 سے 10 فی صد بم پھٹنے سے رہ گئے ہیں۔ ان تمام خطرات کے باوجود فلسطینی عوام کا حوصلہ کم نہیں ہوا۔ وہ اپنے نصب العین، آزادی اور بقا کے عزم پر قائم ہیں۔ یہی مزاحمت ان کی شناخت ہے، اور یہی ان کی زندگی کا استعارہ ہے۔ اسی عزم کے تسلسل میں، قاہرہ میں فلسطینی دھڑوں کا دو روزہ اجلاس ایک اہم پیش رفت کے طور پر سامنے آیا۔ عرب جمہوریہ مصر کی دعوت اور صدر عبدالفتاح السیسی کی سرپرستی میں ہونے والے اس اجلاس میں مختلف فلسطینی گروہوں نے جنگ بندی کے استحکام، تعمیر ِ نو کے آغاز اور قومی اتحاد کی بحالی پر اتفاق کیا۔ اجلاس میں اس امر پر زور دیا گیا کہ فلسطینیوں کی بقا اور ان کے حقوق کی حفاظت صرف اتحاد میں مضمر ہے۔ اجلاس میں کئی اہم نکات پر اتفاق کیا گیا جن میں قابض افواج کا مکمل انخلا، محاصرے کا خاتمہ، رفح سمیت تمام گزرگاہوں کی بحالی، اور غزہ کی جامع تعمیر ِ نو شامل ہیں۔ فیصلہ کیا گیا کہ ایک فلسطینی تکنیکی کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو مقامی ماہرین پر مشتمل ہو اور عرب ممالک و بین الاقوامی اداروں کے تعاون سے بنیادی خدمات بحال کرے۔ مزید یہ کہ ایک بین الاقوامی نگران کمیٹی تعمیر ِ نو کے عمل کی شفاف نگرانی کرے گی۔ تاہم ان حقائق کے ساتھ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری کا اصل کردار اب شروع ہوا ہے اور وہ اسرائیل کو اس کے جرائم پر جواب دہ نہیں ٹھیراتی منظر زیادہ نہیں بدلے گا، مغربی دنیا، خاص طور پر امریکا اور یورپی ممالک، نے ہمیشہ اسرائیل کی پشت پناہی کی ہے۔ وہ انسانی حقوق کے نام پر دوسروں پر پابندیاں عائد کرتے ہیں مگر اسرائیل کے مظالم پر آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ یہی دوہرا معیار غزہ کے المیے کو طول دے رہا ہے۔ مسلمان ممالک کی ذمے داری اس موقع پر سب سے زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ صرف بیانات اور قراردادوں سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم کو فوری طور پر ایک متفقہ لائحہ عمل طے کرنا چاہیے، تاکہ اسرائیل پر دباؤ ڈالا جا سکے اور غزہ کی تعمیر ِ نو کے لیے مشترکہ فنڈ قائم ہو۔ قطر، ترکیہ اور مصر کو مزید رول امریکا کی چھتری سے الگ بھی ادا کرنا ہو گا اور امت ِ مسلمہ کو اجتماعی قوت کے ساتھ میدان میں آنا ہوگا۔ دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی ضرورت ہے۔ اگر اقوام متحدہ اور عالمی عدالت ِ انصاف واقعی اپنی غیرجانبداری پر یقین رکھتی ہیں تو اسرائیل کے جنگی جرائم کی تحقیقات اور مجرموں کو سزا دینا لازم ہے۔ حقیقت اس وقت ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ جنگ بندی کے باوجود غزہ کے زخم ہنوز تازہ ہیں۔ وہاں کے بچے بارود میں کھیل رہے ہیں، مائیں کھنڈرات میں اپنے لخت ِ جگر تلاش کر رہی ہیں، اور بوڑھے اپنی بستیوں کے ملبے پر بیٹھے انصاف کے منتظر ہیں۔ اگر دنیا نے اب بھی خاموشی اختیار کی تو آنے والی نسلیں اسے ظالموں کے ساتھ کھڑا دیکھیں گی، مظلوموں کے ساتھ نہیں۔ اہل ِ غزہ کے لیے اب صرف ہمدردی نہیں، عملی قدم اٹھانے کی ضرورت ہے، کیونکہ امن صرف جنگ کے ختم ہونے کا نام نہیں، بلکہ انصاف کے قیام کا دوسرا نام ہے۔

اداریہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: بین الاقوامی جنگ بندی کے کی ضرورت ہے کے باوجود کے مطابق رہے ہیں کے ساتھ جنگ کے دیا ہے غزہ کے غزہ کی کے لیے

پڑھیں:

کراچی میں امارات ایئرلائن کے آپریشنز کے 40 سال مکمل، پہلے بین الاقوامی فضائی سفر کی یاد تازہ

متحدہ عرب امارات کی ایئرلائن امارات نے کراچی میں اپنی پاکستان میں 40 سالہ خدمات کا جشن منایا، جو 1985 میں دبئی سے اس کے پہلے بین الاقوامی فضائی سفر کے آغاز کی یاد میں منعقد ہوا۔

جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر منعقدہ تقریب میں سینیئر سرکاری حکام، سفارت کاروں اور ہوابازی کے شعبے سے وابستہ شخصیات نے شرکت کی، جن میں متحدہ عرب امارات کے قونصل جنرل بخیت عتیق الرمیثی بھی شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیے: امارات ایئرلائن اور دبئی ڈیوٹی فری میں کرپٹو کرنسی کے ذریعے ادائیگی کب ممکن ہوگی؟

اس موقع پر مہمانوں کو ایمریٹس کے جدید بوئنگ 777 طیارے کا معائنہ کرایا گیا جس میں پریمیم اکانومی کیبن کو پہلی بار پاکستانی مسافروں کے لیے متعارف کرایا گیا۔

امارات ایئرلائن کے پاکستان میں نائب صدر محمد الہاشمی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایمریٹس کا 40 سالہ سفر 23 اکتوبر 1985 کو کراچی سے ہی شروع ہوا، جب ہماری پہلی بین الاقوامی پرواز EK600 دبئی سے یہاں اتری۔ یہ پاکستان اور ایمریٹس کے درمیان ایک پائیدار تعلق کی بنیاد تھی۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ 4 دہائیوں میں ایمریٹس نے پاکستان کے عوام، کاروبار اور کمیونٹیز کے ساتھ گہرے تعلقات قائم کیے ہیں۔ ہم پاکستان کی ترقی کی کہانی کا حصہ ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں، چاہے وہ سیاحت ہو، تجارت یا روزگار کے مواقع۔

ایئرلائن کے مطابق، گزشتہ 40 برسوں میں ایئرلائن نے کراچی اور دبئی کے درمیان 87 ہزار سے زائد پروازوں کے ذریعے 1.9 کروڑ سے زیادہ مسافروں کو سفر کی سہولت فراہم کی۔ مجموعی طور پر پاکستان کے 5 شہروں کراچی، لاہور، اسلام آباد، پشاور اور سیالکوٹ سے 3.6 کروڑ سے زائد مسافر امارات ایئرلائن کے ذریعے دبئی جا چکے ہیں، جب کہ ہر سال 73 ہزار ٹن سے زیادہ کارگو بھی پاکستان سے اور پاکستان کے لیے منتقل کیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: شامی ایئرلائنز کا متحدہ عرب امارات کے لیے براہِ راست پروازیں بحال کرنے کا اعلان

محمد الہاشمی نے کہا کہ ایمریٹس کی پروازیں متحدہ عرب امارات میں مقیم 17 لاکھ پاکستانیوں سمیت سیاحوں اور کاروباری افراد کو جوڑنے کا ذریعہ ہیں۔ اگرچہ مسابقت بڑھ رہی ہے، پھر بھی پاکستان ایک غیر مکمل طور پر خدمات یافتہ مارکیٹہے، جہاں ترقی کے وسیع امکانات موجود ہیں۔

تقریب کے دوران، ایمریٹس نے پہلی بار کراچی میں پریمیم اکانومی کلاس کا مظاہرہ کیا۔ الہاشمی کے مطابق یہ سہولت ان مسافروں کے لیے ہے جو آرام دہ سفر کے ساتھ معتدل کرایوں میں بہتر تجربہ چاہتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آپریشن امارات ایئرلائن فضائی آپریشن کراچی

متعلقہ مضامین

  • جنگ بندی کے بعد اب تک اسرائیلی فوج کے حملوں میں 97 فلسطینی شہید
  • جنگ بندی معاہدے کی پاسداری کیلیے اسرائیل پر دباؤ ڈالا جائے: حماس کا مطالبہ
  • غزہ جنگ بندی کے بعد(1)
  • کراچی میں امارات ایئرلائن کے آپریشنز کے 40 سال مکمل، پہلے بین الاقوامی فضائی سفر کی یاد تازہ
  • پاک افغان جنگ بندی کا مستقبل؟
  • جنگ بندی کے باوجود غزہ میں بدترین حالات، فلسطینی خاندان قبرستانوں میں پناہ لینے پر مجبور
  • غزہ میں بھوک کا بحران بدستور سنگین، جنگ بندی کے باوجود انسانی المیہ برقرار
  • آئی فون کی 20 ویں سالگرہ پر ایپل کیا کرنے جا رہا ہے؟
  • امریکا کی روس پر نئی پابندیاں، یوکرین جنگ بندی کیلئے بھی پرامید ہوں: ٹرمپ