Islam Times:
2025-11-25@00:16:30 GMT

سکردو، اسلامی تحریک کے زیر اہتمام "سیمینار فاطمہ اُمِ ابیہا" کا انعقاد

اشاعت کی تاریخ: 25th, November 2025 GMT

‍‍‍‍‍‍

علامہ ڈاکٹر شبیر حسن میثمی نے اپنے خطاب میں کہا کہ حضرت فاطمہؑ کی تربیت حضور اکرمؐ کے دستِ مبارک سے ہوئی، اسی وجہ سے آپؑ کی شخصیت اُمتِ مسلمہ کے لیے عملی نمونہ ہے۔ متعلقہ فائیلیںاسلام ٹائمز۔ اسلامی تحریک پاکستان گلگت بلتستان کے زیر اہتمام خاتونِ جنت حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا کے یوم شہادت کی مناسبت سے "سیمینار فاطمہ اُمِ ابیہا" کا انعقاد کیا گیا۔ سیمینار میں نوجوانوں اور معزز شخصیات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔سیمینار کی صدارت مرکزی سیکرٹری جنرل اسلامی تحریک پاکستان علامہ ڈاکٹر شبیر حسن میثمی نے کی۔ شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا کی پاکیزہ سیرت، کردار اور حالاتِ زندگی پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ مقررین نے کہا کہ دخترِ رسولؐ حضرت فاطمۃ الزہراءؑ کی زندگی اسلام کے ہر پہلو میں ایک مکمل رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ ان کی شجاعت، ایثار، تقویٰ، عبادت اور خانوادۂ رسالتؐ کی حفاظت کے لیے دی گئی بے مثال قربانی آج بھی مسلمانوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ علامہ ڈاکٹر شبیر حسن میثمی نے اپنے خطاب میں کہا کہ حضرت فاطمہؑ کی تربیت حضور اکرمؐ کے دستِ مبارک سے ہوئی، اسی وجہ سے آپؑ کی شخصیت اُمتِ مسلمہ کے لیے عملی نمونہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ دور میں خواتین کو حضرت فاطمہؑ کی سیرت سے رہنمائی لیتے ہوئے معاشرے کی اصلاح میں کردار ادا کرنا چاہیے۔ مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا کا طرزِ حیات، گھریلو نظم و نسق، اولاد کی تربیت، معاشرتی کردار اور دینِ اسلام کی سربلندی کیلئے ان کی جدوجہد آنے والی نسلوں کے لیے بہترین درس ہے۔ شرکاء نے کہا کہ ان کی سیرت کا فروغ معاشرے میں اخلاقی اقدار، انسانیت، ہمدردی اور عدل کے فروغ کا باعث بنتا ہے۔ سیمینار سے مرکزی سینئر نائب صدر علامہ رمضان توقیر و دیگر نے بھی خطاب کیا سیمینار کے اختتام پر حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا کے حضور نذرانۂ عقیدت پیش کیا گیا اور ملک و ملت کی سلامتی، اتحادِ امت اور گلگت بلتستان کی ترقی و امن کے لیے خصوصی دعا کی گئی۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: حضرت فاطمۃ الزہراء حضرت فاطمہ کہا کہ کے لیے

پڑھیں:

نئی دہلی میں مفتی اعظم مفتی محمد کفایت اللہ دہلوی پر دو روزہ سیمینار اختتام پذیر

اسلام ٹائمز: اپنے صدارتی خطاب میں مفتی محمد راشد اعظمی نے کہا کہ مفتی اعظم محمد کفایت اللہ انتہائی مخلص اور متواضع شخصیت کے حامل تھے، آج ہندو مسلم سبھی انکی عظمتوں کو بیان کر رہے ہیں، یہ انکی عظمت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ انکے دور میں فلسطین کی حمایت میں بڑی تحریک چلائی گئی اور انہوں نے ظالم حکومت کی اس سلسلے میں کوئی پرواہ نہیں کی۔ رپورٹ: جاوید عباس رضوی

مفتی اعظم ہند حضرت مفتی محمد کفایت اللہ دہلوی (رہ) پر دو روزہ سیمینار کی اہم اور آخری مجلس آج ماؤلنکر ہال، کانسٹی ٹیوشن کلب نئی دہلی میں منعقد ہوئی۔ مولانا محمد سلمان بجنوری نائب صدر جمعیت علماء ہند اور مولانا مفتی محمد راشد اعظمی نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند نے بالترتیب آخری دو نشستوں کی صدارت کی۔ نظامت کے فرائض ناظم عمومی جمعیت علماء ہند مولانا محمد حکیم الدین قاسمی اور مفتی محمد عفان منصور پوری نے انجام دیئے۔ قبل ازیں گذشتہ دیر رات دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے اپنے خطاب میں مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی کی حیات، اخلاق اور ملی خدمات کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ مفتی اعظم کی زندگی دراصل گذشتہ سو سالہ ملکی تاریخ اور اس میں علماء کے عظیم کردار کی جھلک ہے۔ ان کی شخصیت میں تواضع، ایثار، خدمتِ خلق اور اساتذہ سے گہرا تعلق نمایاں تھا۔ اکابر کی حیات کے مطالعے سے نہ صرف تاریخ سمجھ میں آتی ہے بلکہ عملی زندگی کے لئے رہنمائی بھی ملتی ہے۔

مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے کہا کہ مفتی محمد کفایت اللہ دہلوی (رہ) کے اساتذہ، معاصرین اور تلامذہ سب اپنے وقت کے جلیل القدر علماء تھے، جس سے ان کے مقام و مرتبہ کا اندازہ ہوتا ہے۔ آج کی مجلس میں صدر جمعیت علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی نے ایک اہم پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ تقسیمِ وطن کے خلاف ہمارے اکابر کامل اتفاق رکھتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اکابر نے اس سلسلے میں کوئی بات بلا دلیل نہیں کہی، ان کے بے شمار دلائل رسائل، تقاریر اور تحریروں کی صورت میں موجود ہیں۔ موجودہ حالات میں بعض نوجوانوں کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے اکابر نے غلط راہ اختیار کی تھی۔ انہوں نے کہا "میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ حالات واقعی دشوار ہیں، لیکن اس کے دوسرے حصے سے اتفاق نہیں ہے۔"

انہوں نے کہا کہ ہمارا ماننا ہے کہ ہمارے اکابر کا فیصلہ بالکل درست تھا، البتہ ان کے فیصلے پر پوری طرح عمل نہ ہوسکا، اگر ان کی تجویز کو قبول کی جاتی اور مسلمان، علماء اور ذمہ دار سب یکجا ہو کر ایک موقف اختیار کر لیتے تو صورتحال یقیناً مختلف ہوتی۔ مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے امیر مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی نے کہا کہ مفتی صاحب "العالِم خبیر بِزَمانِہ" کے حقیقی مصداق تھے۔ انہوں نے کہا کہ فتویٰ کے ساتھ تقویٰ ضروری ہے اور جب ہم مفتی اعظم کی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تو ان کی حیات علم و اتقان کے ساتھ تقویٰ کی صفت سے متصف نظر آتی ہے۔ مولانا خالد صدیقی صدر جمعیت علماء نیپال نے کہا کہ مفتی اعظم میدانِ سیاست میں بھی اتنے ہی سرگرم تھے جتنے فقہ و فتویٰ کے میدان میں۔ انہوں نے کہا کہ دور حاضر کے علماء کرام کی قیادت کو ان سے نصیحت حاصل کرنی چاہیئے۔

صدر مجلس قائمہ جمعیت علماء ہند مولانا رحمت اللہ میر کشمیری نے کہا کہ مفتی محمد کفایت اللہ کی شخصیت عالمگیر تھی، وہ صرف موجودہ ہندستان کے نہیں بلکہ غیر منقسم ہندستان کے متفقہ عالم تھے، سبھی مسالک کے علماء نے ان کو اپنا صدر بنایا تھا، ان کی کتاب تعلیم الاسلام نے بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔ صدر مجلس مفتی محمد سلمان بجنوری نائب صدر جمعیت علماء ہند نے کہا کہ مفتی محمد کفایت اللہ کے ہم عصر حضرت علامہ انور شاہ کشمیری (رہ) ان کو عالم الدین و الدنیا کہتے تھے۔ اسی طرح حضرت مدنی ان کی صلاحیتوں سے کافی متاثر تھے۔ ان کے مشورے پر حضرت مدنی ؒ اپنی رائے بدل دیتے تھے، ضرورت ہے کہ ہم شخصیت سازی پر کام کریں، تاکہ آج کے دور میں بھی مفتی اعظم جیسی شخصیت پیدا ہو۔

دارالعلوم ندوۃ العلماء کے استاذ مولانا عتیق احمد بستوی نے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ مفتی محمد کفایت اللہ علماء کی صف میں ممتاز مقام رکھتے تھے، انہوں نے اپنی محنت سے جمعیت کے وقار و اعتبار میں اضافہ کیا۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ اکابر کے افکار کی روشنی میں موجودہ وقت میں رہ نمائی حاصل کی جائے۔ جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد کے شیخ الحدیث مفتی شبیر احمد قاسمی نے مفتی محمد اعظم کی کتاب کفایت المفتی پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اسّی سالہ زندگی میں چھپن سال فتویٰ نویسی میں صرف کئے۔ مفتی سید محمد صالح امین عام مظاہر علوم سہارن پور نے اپنے مقالہ میں علماء مظاہر سے مفتی اعظم کے تعلق پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔

نائب امیر الہند و کنوینر سیمینار مولانا مفتی محمد سلمان منصور پوری نے کہا کہ مذہبی طور پر انفرادیت پیدا کرکے سیاسی محنت کو آگے بڑھانے کی کوششیں پہلے بھی جاری رہی ہیں اور آج بھی جاری ہیں، ایسے حالات میں مفتی محمد کفایت اللہ کا نظریہ و نکتہ سب سے بہتر راہ عمل ثابت ہوسکتا ہے۔ سپریم کورٹ کے معروف وکیل اور مورخ انل نوریا نے کہا کہ مہاتما گاندھی سے لے کر جواہر لال نہرو تک سبھی مفتی اعظم محمد کفایت اللہ کے مداح تھے۔ کانگریس پارٹی کی طرف سے تیار کردہ پشاور سانحہ کی رپورٹ میں مفتی اعظم ہند کا بڑا کردار تھا، اسی طرح راول پنڈی میں منعقد کانگریس ورکنگ کمیٹی کی انہوں نے بہت شاندار رپورٹ تیار کی تھی۔

معروف مورخ ڈاکٹر سوربھ باجپائی نے کہا کہ مفتی اعظم محمد کفایت اللہ متحدہ قومیت کے علم بردار تھے۔ انہوں نے مہاتما گاندھی اور مدنی کے ساتھ مل کر ہندو مسلم اتحاد کو مستحکم کیا۔ کانگریس لیڈر عمران پرتاپ گڑھی نے کہا کہ سبھاش چندر بوس نے مفتی اعظم کو آزادی ہند کا بہادر رہنماء قرار دیا تھا، جمعیت علماء ہند کا نظریہ اور دائرہ انتہائی وسیع رہا ہے۔ اس کے اکابر نے نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی مسائل میں بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔ جمعیت علماء ہند نے مظلوموں کی جو خاموش لڑائی رہی ہے، وہ انتہائی مبارک باد کے مستحق ہے۔

اپنے صدارتی خطاب میں مفتی محمد راشد اعظمی نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند نے کہا کہ مفتی اعظم محمد کفایت اللہ انتہائی مخلص اور متواضع شخصیت کے حامل تھے۔ آج ہندو مسلم سبھی ان کی عظمتوں کو بیان کر رہے ہیں، یہ ان کی عظمت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ ان کے دور میں فلسطین کی حمایت میں بڑی تحریک چلائی گئی اور انہوں نے ظالم حکومت کی اس سلسلے میں کوئی پرواہ نہیں کی۔ ان کی کتاب تعلیم الاسلام بچوں کے لئے سب سے بڑا تحفہ ہے۔ آخر میں ناظم عمومی جمعیت علماء ہند مولانا محمد حکیم الدین قاسمی نے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ جمعیت علماء ہند نے ہنوز پانچ سیمینار کئے ہیں، جن میں آٹھ اکابر پر متعدد کتابیں اور مقالے شائع ہوچکے ہیں۔

ان کے علاوہ جن شخصیات نے اپنے مقالے پیش کئے، ان میں مولانا مفتی اختر امام عادل سمستی پور، مولانا عرفات اعجاز قاسمی، حافظ عبدالحی مفتاحی، مولانا سید محمد صالح مظاہری، ڈاکٹر قاسم دہلوی، مولانا ضیاء الدین ندوی قاسمی، نمائندہ مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی، مولانا ڈاکٹر مسعود احمد اعظمی، مولانا مفتی دکاوت حسین قاسمی، مولانا خورشید انور اعظمی جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور، مولانا ضیاء الحق خیرآبادی کے نام شامل ہیں۔ وقت کی قلت کی بنیاد کئی اہم مقالے پیش نہیں ہو پائے، ان میں خاص طور پر مولانا مفتی محمد عفان منصور پوری، مولانا سالم جامعی وغیرہ کے مقالے شامل ہیں۔

مجلس کا آغاز قاری محمد فاروق کی تلاوت سے ہوا، قاری محمد اقرار بجنوری استاذ دارالعلوم دیوبند نے نعت پیش کی جبکہ دوسری نشست میں نعت مولانا عبدالعلیم نے پیش کی۔ اس موقع پر دہلی و بیرون دہلی سے ایک ہزار سے زائد علماء و دانشور حضرات شریک ہوئے۔ حضرت مفتی اعظم محمد کفایت اللہ کے پوتے مولانا انیس قاسمی مدرسہ امینیہ کشمیری گیٹ نے گذشتہ رات کی دوسری نشست کی صدارت کی۔ ان کے علاوہ دہلی سے محمد سالم حفیدہ مفتی اعظم، قاری عبد الغفار مہتمم مدرسہ بیت العلوم جعفرآباد، مولانا محمد قاسم نوری، مولانا قاری اسجد زیبر مہتمم مدرسہ شمس العلوم اور مولانا جمعیۃ علماء یوپی کے ذمہ دارن بالخصوص مولانا سید محمد مدنی نائب صدر جمعیۃ علماء یوپی اور مولانا حسین احمد مدنی سکریٹری جمعیت علماء یوپی، مفتی ظفر احمد قاسمی ناظم اعلیٰ جمعیت علماء وسطی زون بھی شریک تھے۔

متعلقہ مضامین

  • گلگت بلتستان الیکشن، سکردو میں اسلامی تحریک کا اعلیٰ سطحی اجلاس، تیاریوں کا جائزہ
  • حضرت فاطمہؑ کی تشییع جنازہ و تدفین کی پوشیدگی
  • حضرت فاطمہؑ کا پوشیدہ مزار اور غیبت و قیام امامؑ زمانہ
  • خفیہ قبر کے رموز، پوشیدہ مزار بطورِ ابدی احتجاج
  • ایام فاطمہؑ کے تیسری شب کے مراسم میں جنرل اسماعیل قاآنی کی شرکت
  • تہران، ایام فاطمیہؑ کی دوسری شبِ عزاداری رہبرِ انقلاب کی حاضری
  • سکردو، ایام فاطمیہ کی مناسبت سے محفل مسالمہ
  • نئی دہلی میں مفتی اعظم مفتی محمد کفایت اللہ دہلوی پر دو روزہ سیمینار اختتام پذیر
  • اصغریہ آرگنائزیشن اور اے ایس او کے زیر اہتمام 2 روزہ مرکزی مینجمنٹ ورکشاپ کا انعقاد