فلاپ بیٹنگ لائن اپ: دہائیوں کا یہ قصہ ہے، سال دو سال کی بات نہیں
اشاعت کی تاریخ: 25th, February 2025 GMT
طویل عرصے بعد ملنے والے کسی بھی آئی سی سی ملٹی ٹیمز ایونٹ کی میزبانی کا پاکستانیوں نے جتنا طویل اور صبر آزما انتظارکیا، قومی ٹیم نے میگا ایونٹ سے باہر ہونے میں اتنی ہی جلد بازی دکھائی۔
اتوار کو جب کنگ کوہلی نے کور ڈرائیو پر خوشدل شاہ کو چوکا رسید کیا تب ہی قومی ٹیم کا چمپئنز ٹرافی کا سفر تمام ہوگیا تھا، مگر اس پر مہر کیویز نے ثبت کی۔
جب بنگال ٹائیگرز کا پنڈی میں ‘کریا کرم’ کیا گیا کسی بھی میگا ایونٹ میں اگر مگر اور پاکستانی ٹیم کی پیش قدمی کا چولی دامن کا ساتھ ہے، مگر اس با ر تو گرین شرٹس نے کسی اگر مگر کو بھی زیادہ زحمت نہیں دی۔
پاکستان کی شکست پر پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر تبصروں، تجزیوں کی بہتات ہے، جن کو دیکھ اور پڑھ کر خیال آتا ہے کہ اتنے ماہرین کرکٹ کی موجودگی میں یہ زوال آخر کیوں ہے۔
ہر کوئی قومی ٹیم کی شکست کے پیچھے چھپی پیچیدہ اور خفیہ وجوہات کی تلاش میں ہے، مگر سامنے پڑی حقیقت یہ ہے کہ چاہیے ٹرائی نیشن سیریز کا فائنل ہو، نیوزی لینڈ کے خلاف چیمپیئن ٹرافی کا پہلا میچ ہو، یا انڈیا کے ہاتھوں دبئی میں ملنے والی ہزیمت، ہر ایک شکست کے پیچھے پاکستانی بیٹنگ لائن اپ کی ناکامی کہتی سنائی دیتی ہے۔ ‘دہائیوں کا قصہ ہے، سال دو سال کی بات نہیں’۔
پاکستانی بیٹنگ کو درپیش لاعلاج مرض: پارنٹر شپس کی کمی، سست بیٹنگ اور ہدف کے تعاقب میں گھبراہٹ
جب سے پاکستان کرکٹ ٹیم نے کرکٹ بالخصوص ون ڈے فارمیٹ میں دنیا کوچیلنج کرنا شروع کیا، تب سے اب تک گزشتہ 40،45 سالوں میں قومی ٹیم کی ہر بڑی ناکامی کے پیچھے بیٹنگ لائن کا ہاتھ ہے۔
سکرینیوں پر بابر اعظم، محمد رضوان، سعود شکیل یا طیب طاہر کو لعن طعن کرتے ساتھ سابق اسٹارز خود بھی کبھی اسی گھن چکر کے موجد تھے۔
پاکستانی بیٹنگ کے 3 مسائل اجتماعی طور پر کبھی حل ہوتے نظر نہیں آئے، چاہے پھروہ گریٹ جاوید میانداد کا زمانہ ہو یا انضمام الحق کا، محمد یوسف ہوں یا سعید انور، یونس خان، مصباح الحق کے ہوتے ہوئے بھی پارنٹر شپس کی کمی، فی اوور ایوریج اور ہدف کے تعاقب میں گھبراہٹ ہر شکست کے بعد یہی وجوہات دوہرائی، لکھی اور بولی گئیں۔
انڈیا کی قدرے کمزور بولنگ کا متبادل: جاندار قیادت، موثر گیم پلان اور دستیاب صلاحیتوں کا درست استعمال
پاکستان نے اپنی کرکٹ کی تاریخ میں کئی بڑے نام پیدا کیے، جنہوں نے انفردی طور پر ٹیم کو میچز جتوائے، مگر اجتماعی طور پر قومی ٹیم نے وہ عرصہ کم ہی دیکھا ہے جب مستقل مزاجی سے اسکور کرنے والے بلے باز اسکواڈ کا حصہ ہوں۔ اسی لیے پاکستان کی ماضی اور حال کی زیادہ تر فتوحات کا سہرا بولرز کے سر رہا ہے۔
پاکستان اور انڈیا کے در میان ہمیشہ ‘باولنگ بمقابلہ بیٹنگ’ کی ٹکر رہی ہے، جہاں انڈیا نے پاکستان کے مقابلے میں بہتر بلے باز پیدا کیے، وہیں بولنگ میں پاکستان کا پلڑہ ہمیشہ بھاری رہا، مگر انڈیا نے قدرے کمزور بولنگ کا توڑ جاندار قیادت، موثر گیم پلان اور دستیاب صلاحیتوں کے درست استعمال کے ذریعے نکالا۔
ون ڈے کرکٹ کے ٹاپ 12 بلے بازوں میں صرف ایک پاکستانی بیٹنگ کے ماضی اور حال کا عکاس۔
بیٹنگ کے شعبے میں پاکستان کی تاریخی کمتری کا وہ چارٹ شاہد ہے، جس میں دنیا کی بڑی ٹیموں کے ان 12 بیٹرز کے نام ہیں، جنہوں نے سب سے زیادہ رنز اسکور کیے ہیں۔
اس فہرست میں پاکستان کا واحد نام انضمام الحق ہیں، جو 11739 رنز کے ساتھ ساتویں نمبر پر ہیں، جبکہ انڈیا کے اس ٹاپ بیٹرز کی فہرست میں 6 کھلاڑی موجود ہیں، جس میں سچن ٹنڈولکر 18 ہزار سے زائد رنز کے ساتھ پہلے اور 14085 رنز کے ساتھ ویرات کوہلی تیسرے نمبر پر ہیں۔
اسی طرح ٹاپ 12 ناموں میں نویں سے بارھویں نمبر پر بھی گنگولی، روہت شرما، ڈریوڈ اور ایم ایس دھونی کی صورت میں انڈین ہی قابض ہیں۔
یہ چارٹ ثابت کرتا ہے کہ انفرادی طور پر تو پاکستانیوں نے کئی شاندار اور ریکارڈ پرفارمسز دی ہیں، مگر اجتماعی طور پر’بیٹنگ لائن ریت کی دیوار ثابت’ جیسی سرخیاں صرف آج کل کی دریافت نہیں، بلکہ یہ قصہ ماضی بعید سے ہی چلا آرہا ہے۔
بیٹنگ لائن کی خامیوں پر قابو پانے کے لیے کیوں نہ پڑوسیوں کی حکمت عملی چرائی جائے؟
پاکستان بیٹنگ لائن اپ کا مسئلہ کیسے حل کرسکتا ہے؟ اس سوال کے کل سے سینکڑوں، ہزاروں جواب اسکرینیوں پر دستیاب ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پاس قومی سطح پر اور پورے ڈومیسٹک نظام میں کچھ وافر ایسے بڑے نام دستیاب ہی نہیں، جن کے مستقبل میں ٹنڈولکر، کوہلی، روہت شرما یا ایم ایس دھونی بننے کا گمان کیا جا سکے۔
تو کیوں نہ اس کا حل بھی انڈیا کے اسی فارمولے سے نکالا جائے، جس میں اس نے قدرے کمزور بولنگ لائن اپ کو سہارا دیا۔
جاندار قیادت، موثر گیم پلان اور دستیاب صلاحیتوں کا درست استعمال ہی پاکستان کی بیٹنگ لائن اپ کے اس موروثی مسئلے کا قطعی حل ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستانی بیٹنگ بیٹنگ لائن اپ پاکستان کی انڈیا کے قومی ٹیم
پڑھیں:
پاک فوج کسی بھی جارحیت کو شکست دینے کیلئے پوری طرح تیار ہے، سید عاصم منیر
لائن آف کنٹرول پر اگلے مورچوں کے دورے کے موقع پر افسروں اور سپاہیوں سے گفتگو کرتے ہوے فیلڈ مارشل کا کہنا تھا کہ کشمیری عوام کی بھارتی قبضے کے خلاف منصفانہ اور دلیرانہ جدوجہد کو کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا، انہوں نے جموں و کشمیر کے تنازع کے حل کی ضرورت پر زور دیا۔ اسلام ٹائمز۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے عیدالاضحیٰ کے پہلے روز لائن آف کنٹرول پر اگلے مورچوں کا دورہ کیا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کا دورہ کیا، عیدالاضحیٰ کا پہلا دن فرنٹ لائن پر موجود سپاہیوں کے ساتھ گزارا، ایل او سی پہنچنے پر کمانڈر راولپنڈی کور نے فیلڈ مارشل کا استقبال کیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق دورے کا آغاز عید کی نماز سے ہوا، نماز عید کی ادائیگی کے بعد پاکستان کے دیرپا امن، استحکام اور خوشحالی کیلئے خصوصی دعائیں کی گئیں، وطن عزیز کے دفاع کیلئے عظیم قربانیاں دینے والے شہداء کیلئے بھی دعا کی گئی۔
آئی ایس پی آر کے مطابق فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے فوجی افسران اور جوانوں کو غیر متزلزل وابستگی، پیشہ ورانہ مہارت اور مسلسل چیلنجز کے باوجود ثابت قدم خدمات کو سراہا۔ فیلڈ مارشل نے کہا کہ محاذِ جنگ پر اپنے خاندانوں سے دُور رہ کر عید منانا، ملکی دفاع جیسے اعلیٰ قومی مقصد کی تکمیل ہے جس کیلئے ہر قیمت پر تیار ہیں۔
آئی ایس پی آر کے مطابق فیلڈ مارشل نے "معرکۂ حق" اور "آپریشن بنیان مرصوص" کے دوران فارمیشن کی مثالی کارکردگی کو سراہا اور شہداء اور غازیوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا جن کی قربانیاں قوم کے دفاع اور عزم کو مضبوط کرتی ہیں۔ انہوں نے سپاہیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے معصوم پاکستانی شہریوں بشمول بچوں، خواتین اور بزرگوں کی جانوں کے ضیاع کا دلیری اور مؤثر ردعمل کے ذریعے بھرپور بدلہ لیا۔
فیلڈ مارشل نے مسلح افواج کی جنگی تیاریوں پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ کسی بھی جارحیت کو مؤثر طریقے سے روکنے اور شکست دینے کیلئے ہمہ وقت تیار ہیں۔ پاکستان کے اصولی مؤقف کو اجاگر کرتے ہوئے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا کہنا تھا کہ کشمیری عوام کی بھارتی قبضے کے خلاف منصفانہ اور دلیرانہ جدوجہد کو کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا، انہوں نے جموں و کشمیر کے تنازع کے حل کی ضرورت پر زور دیا، جو کشمیری عوام کی امنگوں اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق ہونا چاہیے۔