کینال منصوبے سے دستبرداری کا اعلان نہیں کیا گیا تو حکومت چھوڑ دیں گے، نثار کھوڑو
اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی پی سندھ کے صدر نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی پر سندھ کارڈ کا الزام لگانے والے ماضی میں کالاباغ ڈیم اور گریٹر تھل کینال کے حامی رہے ہیں، چاول اور گنے کی فصل کے لیے بھی سندھ میں پانی میسر نہیں۔ اسلام ٹائمز۔ پیپلز پارٹی سندھ کے صدر نثار کھوڑو نے کہا ہے کہ کینال منصوبے سے دستبرداری کا اعلان نہیں کیا گیا تو پیپلز پارٹی وفاقی حکومت کی حمایت چھوڑ دے گی۔ انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ متنازع کینال منصوبے کے خلاف کراچی، میر پور خاص اور سکھر میں احتجاجی جلسے ہوں گے۔ نثار کھوڑو نے مزید کہا ہے کہ پیپلز پارٹی پر سندھ کارڈ کا الزام لگانے والے ماضی میں کالاباغ ڈیم اور گریٹر تھل کینال کے حامی رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا ہے کہ چاول اور گنے کی فصل کے لیے بھی سندھ میں پانی میسر نہیں۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: پیپلز پارٹی کہا ہے کہ
پڑھیں:
قوم پرستی اور علیحدگی پسند
سندھ میں مختلف جماعتوں کے سیاسی اتحاد جی ڈی اے کے چیف کوآرڈینیٹر سید صدرالدین شاہ راشدی، جن کا تعلق پیرپگاڑا خاندان سے ہے، نے کہا ہے کہ حکومت قوم پرستوں اور علیحدگی پسندوں میں فرق کو سمجھے، ہمیں کسی سے محب وطن ہونے کا سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں، ہمارے خاندان نے اسلام اور پاکستان کے لیے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ سندھ طاس معاہدے پر بھارتی دھمکیوں کے بعد دریائے سندھ بچاؤ تحریک کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔
دریائے سندھ سے متعدد نہریں نکالنے کا منصوبہ جس کی مبینہ طور پر پہلے صدر آصف زرداری نے حمایت کی تھی بعد میں اس منصوبے کی مخالفت کی تھی اور پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے بھی سندھ میں اس لیے جلسے کیے تھے کہ جی ڈی اے اور علیحدگی پسند تنظیموں نے کینال منصوبے پر پیپلز پارٹی پر سخت تنقید کی تھی اور پی پی قیادت پر سندھ کے مفادات پر سودا کرنے کے الزامات لگائے تھے اور سندھ میں پی پی کے خلاف سخت احتجاج کیا تھا جس پر سندھ میں اپنی سیاست بچانے کے لیے پیپلز پارٹی نے کینال منصوبہ واپس لینے پر وفاقی حکومت کو مجبور کر دیا تھا جس کے بعد بھی جی ڈی اے اور علیحدگی پسند مطمئن نہیں ہیں۔
دریائے سندھ بچاؤ کمیٹی میں جی ڈی اے کا اہم کردار ہے جس میں بعض قومی پارٹیاں اور سندھ کی قوم پرست پارٹیاں شامل ہیں اور اسی سلسلے میں جی ڈی اے کا اہم اجلاس ہوا جس میں صدر الدین شاہ راشدی کو کہنا پڑا کہ حکومت قوم پرستوں اور علیحدگی پسندوں کے درمیان فرق کو سمجھے اور سوچ سمجھ کر فیصلے کرے۔
واضح رہے کہ کینالز نکالنے کے حکومتی منصوبے پر جی ڈی اے، پیپلز پارٹی کے بعد کراچی کے وکلا کا ایک گروپ بھی احتجاج میں شامل ہو گیا تھا اور سندھ پنجاب کے بارڈر پر انھوں نے احتجاجی دھرنا بھی دیا تھا جس کی قیادت کراچی بار کے رہنما کر رہے تھے اور اس احتجاج میں سندھ کی وہ علیحدگی پسند جماعتیں بھی شامل تھیں جن کے پرچم نمایاں تھے اور ان کی طرف سے بعض دفعہ اپنے مقررہ نعرے بھی لگائے جاتے تھے۔ سندھ کے دریا پر کینال منصوبہ چونکہ سندھ کے مفاد کے خلاف تھا جہاں پہلے ہی نہری پانی کے مسائل موجود ہیں ، مگر جی ڈی اے کسی الزام تراشی کا حصہ نہیں ہے اور علیحدگی پسند ہی مختلف الزامات لگاتے ہیں ۔
پیر صدرالدین شاہ نے درست کہا ہے کہ دریائے سندھ کے پانی کو محفوظ رکھنے کے لیے جی ڈی اے سندھ کے مفاد کو مقدم رکھے گی۔ کینالز کے مسئلے پر پیپلز پارٹی کو بھی اپنے سیاسی مخالفین کے ہم آواز ہونا پڑا تھا کیونکہ یہ سندھ کی زندگی و موت جیسا مسئلہ تھا مگر حکومت کو مجبوری میں اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ قوم پرستی واقعی کوئی غلط نہیں اپنے علاقے کے لیے متحد ہو کر آواز بلند کرنا، ہر قوم پرست کا حق ہے اور پیپلز پارٹی اور جی ڈی اے نے اپنا یہ حق استعمال بھی کیا ہے جو سیاسی نہیں دریائے سندھ بچانے کے لیے ضروری تھا۔
سندھ اور بلوچستان میں علیحدگی پسند تنظیمیں آج نہیں عشروں سے موجود ہیں۔ سندھ کے مقابلے میں بلوچستان کے علیحدگی پسند انتہائی حد تک پہنچ گئے ہیں جنھوں نے ملک دشمنی میں بی ایل اے جیسی علیحدگی کی تحریکیں شروع کرکے ملک کے سب سے چھوٹے اور غریب صوبے بلوچستان میں انتشار پھیلا رکھا ہے جنھیں بھارت کی طرف سے اسلحہ، مالی اور ہر قسم کی سپورٹ مل رہی ہے جب کہ سندھ میں ایسا نہیں ہے۔
وہ سندھ کی علیحدگی کی تحریک عشروں سے چلا رہے ہیں مگر سندھ کے قوم پرست ان کے حامی نہیں نہ وہ سندھ کی ملک سے علیحدگی پر یقین رکھتے ہیں بلکہ سندھ کے حقوق کے داعی ہیں اور ملک گیر سیاست کرتے ہیں اور ملک کے عام انتخابات میں حصہ لے کر نشستیں بھی جیتتے ہیں جب کہ سندھ کے علیحدگی پسندوں کی سیاسی اہمیت یہ ہے کہ علیحدگی پسندی کی تحریک پر وہ یوسی کا الیکشن بھی نہیں جیت سکتے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پی پی میں ان کے ہمدرد موجود ہیں جس کی وجہ سے سندھ حکومت بھی علیحدگی پسندوں کے لیے نرم رویہ رکھتی ہے جس کا ثبوت کراچی میں ہونے والا علیحدگی پسندوں کے احتجاج میں کھلے عام ملک دشمن نعرے بازی، ان کے مخصوص پرچم اور کلہاڑیوں کی نمائش ہے جو کئی بار کراچی پولیس سے محاذ آرائی پولیس اور ان کی موبائلوں کو نقصان بھی پہنچاتے رہتے ہیں مگر سندھ حکومت ان کے خلاف وہ کارروائی نہیں کرتی جو قوم پرست جی ڈی اے کے رہنماؤں کے خلاف شروع کر دی جاتی ہے۔
سابق نگراں وزیر اعظم اور بھٹو دور سے سندھ میں مقبول قومی رہنما غلام مصطفیٰ جتوئی نے پی پی سے الگ ہو کر اپنی نیشنل پیپلز پارٹی بنائی تھی جن کے انتقال کے بعد ان کے بڑے صاحبزادے اور سابق وفاقی وزیر غلام مرتضیٰ جتوئی این پی پی سے سیاست برقرار رکھے ہوئے ہیں اور جی ڈی اے میں شامل ہیں۔
غلام مرتضیٰ جتوئی اور ان کے بھائی جو صوبائی وزیر رہ چکے ہیں، پر متعدد مقدمات قائم ہیں اور انھیں دو بار گرفتار بھی کیا گیا جو ہر بار عدالتی ضمانت پر رہا ہوئے اور جی ڈی اے جتوئی برادران کے خلاف مقدمات اور گرفتاریوں کو پیپلز پارٹی کا سیاسی انتقام قرار دے کر اس کی مذمت بھی کرتی آ رہی ہے اور اب جی ڈی اے کے سربراہ کو کہنا پڑا ہے کہ سندھ حکومت قوم پرستوں اور علیحدگی پسندوں کے فرق کو سمجھے اور سیاسی بنیاد پر انھیں ہراساں نہ کرے۔ ایم کیو ایم حقیقی کے آفاق احمد بھی سندھ حکومت پر ایسے ہی الزامات لگا چکے ہیں کیونکہ جتوئی برادران کی طرح ان کے ساتھ بھی سندھ حکومت کا یہی سلوک چلا آ رہا ہے۔