اہل غزہ سے اظہارِیکجہتی کیلئے پنجاب بار کونسل کی اپیل پر وکلاء کی ہڑتال
اشاعت کی تاریخ: 26th, April 2025 GMT
ہڑتال کے باعث سیشن و سول کورٹس کے علاوہ خصوصی عدالتوں میں بھی وکلا پیش نہیں ہو رہے۔ صدر لاہور بار ایسوسی ایشن مبشر رحمان کا کہنا ہے کہ عالمی برادری غزہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اسرائیل پر دباؤ ڈالے،اور غزہ میں جاری قتل عام فی الفور رکوایا جائے۔ اسلام ٹائمز۔ مظلوم اہل غزہ سے اظہاریکجہتی اور اسرائیل کے ہاتھوں بے گناہ فلسطینیوں کے قتل عام کیخلاف لاہور سمیت پنجاب بھر کے وکلاء کی جانب سے آج مکمل ہڑتال کی گئی ہے۔ پنجاب بار کونسل کی اپیل پر وکلاء نے آج ہڑتال کی ہے۔ ہڑتال کے باعث سیشن و سول کورٹس کے علاوہ خصوصی عدالتوں میں بھی وکلا پیش نہیں ہو رہے۔ صدر لاہور بار ایسوسی ایشن مبشر رحمان کا کہنا ہے کہ عالمی برادری غزہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اسرائیل پر دباؤ ڈالے،اور غزہ میں جاری قتل عام فی الفور رکوایا جائے۔
صدر لاہور بار مبشر رحمان کا مزید کہنا تھا کہ اسرائیلی بربریت کی پرزور مذمت کرتے ہیں، اسرائیل کے حوالے سے عرب حکمرانوں کی خاموش افسوسناک ہے، فلسطینی بچوں کا قتل عام اور غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنانے والوں کو اس کا حساب دینا ہوگا۔ مبشر رحمان کا مزید کہنا تھا کہ مسئلہ فلسطین کا واحد حل ناجائز ریاست اسرائیل کا مکمل خاتمہ ہے، تمام یہودی جو دوسرے ممالک سے لا کر فلسطین میں بسائے گئے ہیں، انہیں فی الفور واپس بھیجا جائے اور فلسطین کو مکمل آزاد کرکے اقتدار مسلمانوں کو سونپا جائے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: مبشر رحمان کا قتل عام
پڑھیں:
ریاست کو شہریوں کی جان بچانے کیلئے ہر ممکن قدم اٹھانے کا جذبہ دکھانا ہو گا: لاہور ہائیکورٹ
لاہور (خبر نگار) لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس امجد رفیق نے ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے آئی جی پنجاب کو درخواستگزار کو فوری طور پر پولیس پروٹیکشن دینے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ اگر کسی شہری کی جان کو خطرہ ہو تو اسے پولیس پروٹیکشن اس کا حق ہے۔ 10صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین میں شہریوں کی جان کا تخفظ مشروط نہیں بلکہ اسے ہر قیمت پر بچانا ہے۔ قرآن پاک میں بھی ہے کہ جس نے ایک جان بچائی اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔ ریاست کو اپنے شہریوں کی جان بچانے کے لئے ہر ممکن قدم اٹھانے کا جذبہ دکھانا ہوگا۔ درخواست گزار کے مطابق وہ قتل کے متعدد کیسز میں بطور گواہ ہے۔ درخواستگزار کے مطابق وہ اپنی بہن اور بہنوئی کے قتل کا سٹار گواہ ہے۔ درخواستگزار کے مطابق مقدمے میں نامزد ایک ملزم کا پولیس مقابلہ ہو گیا، مقتول کی فیملی اسے دھمکیاں دے رہی ہے۔ آئی جی پنجاب نے رپورٹ جمع کرائی کہ ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی نے درخواستگزار کو دو پرائیوٹ گارڈ رکھنے کی تجویز دی، ہوم ڈیپارٹمنٹ پالیسی 2018 کی تحت پولیس پروٹیکشن کی 16مختلف کیٹگریز بنائی گئی ہیں، جن میں وزیر اعظم، چیف جسٹس، چیف جسٹس ہائیکورٹ، بیوروکریٹس سمیت دیگر شامل ہیں، پالیسی کے پیرا چار میں معروف شخصیات کو پولیس پروٹیکشن دینے کا ذکر ہے۔ آئی جی پولیس مستند رپورٹ پر 30 روز تک پولیس پروٹیکشن دے سکتا ہے، غیر ملکیوں اور اہم شخصیات کو سکیورٹی دینے کیلئے پنجاب سپشل پروٹیکشنز یونٹ ایکٹ 2016 لایا گیا۔ پولیس آرڈر 2002 شہریوں کی جان، مال اور آزادی کے تحفظ کی ذمہ داری واضح کرتا ہے، آرٹیکل 4 کے تحت ہر پولیس افسر پر شہریوں کے تحفظ کی قانونی ذمہ داری عائد ہے، اضافی پولیس کی تعیناتی صوبائی پولیس افسر کی منظوری سے مشروط ہوگی۔ درخواست گزار کاروباری ہونے کے ناطے سنگین دھمکیوں کے پیش نظر پولیس تحفظ کا حق رکھتا تھا، ایف آئی آرز میں گواہ ہونے کے باعث اسے پنجاب وِٹنس پروٹیکشن ایکٹ 2018 کے تحت بھی تحفظ دیا جا سکتا تھا، پنجاب کے تمام قوانین اور پالیسیز شہری کے تحفظ کے حق کی ضمانت دیتے ہیں۔ درخواست گزار کو پولیس تحفظ سے محروم کرنا غیر مناسب ہے۔ پولیس کسی شہری کو جان کے خطرے کی صورت میں خود تحفظ فراہم کرنے کی مجاز ہے۔ ڈی آئی سی کی رپورٹ محض سفارشاتی حیثیت رکھتی ہے، حتمی اختیار پولیس کو حاصل ہے۔