پاکستان نے بھارت تین رافیل سمیت 5 طیارے گرائے، جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا گیا: لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف
اشاعت کی تاریخ: 7th, May 2025 GMT
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا ہے کہ اب تک افواج پاکستان نے دشمن کی جارحیت کے جواب میں اور دفاع میں بھارت کے پانچ طیارے اور ایک کمبیٹ ڈرون ، جو پاکستان پر حملہ آور ہوئے ، انہیں مار گرایا گیاہے ، گرائے جانے والوں میں تین رافیل، ایک مگ 29 اور ایک ایس یو طیارہ شامل ہے ۔اس کے علاوہ ایک ہیرون کمبیٹ ڈرون بھی اس میں شامل ہے ۔یہ طیارے بھٹنڈا ، جموں ، ایوانتی پور، اکھنور اور ایک سری نگر میں گرایا گیا ۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نےکہا ہے کہ بھارت نے بزدلانہ حملے میں شہری آبادی کو نشانہ بنایا ، اب تک 6 مقامات پر حملوں میں 26 پاکستانی معصوم شہری شہید ہو چکے ہیں اور 46 زخمی ہیں ۔
کور کمانڈر بہاولپورکابھارتی میزائل حملے میں زخمیوں کی عیادت کیلئے وکٹوریا ہسپتال کا دورہ
تفصیلات کے مطابق احمد پور ایسٹ میں مسجد سبحان اللہ کو نشانہ بنایا گیا ، یہاں 13 شہادتیں ہوئیں جن میں دو تین سال کی بچیاں بھی ہیں ، اس کے علاوہ سات خواتین اور 4 مرد ہیں، اس کے علاوہ 37 افراد زخمی ہوئے جن میں 28 مرد اور 9 خواتین ہیں۔
مظفر آباد کے قریب مسجد بلال کو بھارتی جارحیت اور بربریت کا نشانہ بنایا گیا ، یہاں تین شہید ہوئے اس کے علاوہ ایک بچی اور لڑکا زخمی ہے ۔
کوٹلی میں مسجد عباس کو نشانہ بنایا گیا ، یہاں ایک سولہ لڑکی ، ایک اٹھارہ سال کا لڑکا شہید ہوا ، ایک ماں اور بیٹی زخمی ہیں ۔
پاک بھارت جھڑپیں، عالمی منڈی میں گرتی ہوئی خام تیل قیمت اوپر چلی گئیں
مریدکے میں مسجد کو نشانہ بنایا گیا ، یہاں تین افراد شہید ہوئے جبکہ ایک شخص زخمی ہے ۔
سیالکوٹ میں جو نشانہ بنایا گیا اس میں کوئی جانی اور مالی نقصان نہیں ہوا جبکہ شکر گڑھ میں بھی کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا البتہ ایک ڈسپنسری کو نقصان پہنچاہے ۔
بھارت لائن آف کنٹرول پر بلااشتعال فائرنگ جاری رکھی ہوئی ہے ، آرٹیلری کی فائرنگ کی جارہی ہے ، اس میں اب تک معصوم شہری شہید ہو چکے ہیں جس میں ایک پانچ سال کا بچہ بھی شامل ہے ۔
پاکستان کی مسلح افواج نے قوم کی بھرپور حمایت سے دشمن کو پاکستان پر حملہ کرنے کے چند لمحوں کے بعد ہی منہ توڑ اور بھر پور جواب دیا اور دے رہی ہے ، یہ بات ذہن میں رکھیں کہ بھارت نے پاکستان میں مساجد کونشانہ بنایا ہے ، مساجد اور عبادت گاہوں کو نشانہ بنانا اس تنگ نظر سوچ کی عکاسی کر تاہے جو کہ مودی کی حکومت میں ہندوو کے زیر تسلط بڑھ رہی ہے ، جس میں اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کو ، ان کی مذہبی آزادی کو سلب کیا جارہاہے اور نشانہ بنایا جارہاہے ۔
پاکستان کیخلاف بھارتی جارحیت، ترک سفیر نے اسحاق ڈار کو تعاون جاری رکھنے کے عزم کااعادہ
یہ بھی جاننا ضروری ہے جن جگہوں کو نشانہ بنایا گیا یہ وہی جگہیں ہیں جن کو کل انٹرنیشنل اور لوکل میڈیا نے وزٹ کیا اور دیکھا کہ بھارت جو بلا جواز اور بلاثبوت جو الزام لگا تاہے ، ایسا وہاں کچھ بھی نہیں تھا، معصوم شہری اور بچے وہاں موجود تھے ، مریدکے اور بہاولپور کا میڈیا ، باشمول انٹرنیشنل میڈیا کا دورہ پہلے سے طے شدہ تھا ۔
اب تک افواج پاکستان نے دشمن کی جارحیت کے جواب میں اور دفاع میں بھارت کے پانچ طیارے اور ایک کمبیٹ ڈرون ، جو پاکستان پر حملہ آور ہوئے ، انہیں مار گرایا گیاہے ، گرائے جانے والوں میں تین رافیل، ایک مگ 29 اور ایک ایس یو طیارہ شامل ہے ۔اس کے علاوہ ایک ہیرون کمبیٹ ڈرون بھی اس میں شامل ہے ۔یہ طیارے بھٹنڈا ، جموں ، ایوانتی پور، اکھنور اور ایک سری نگر میں گرایا گیا ۔
پاکستان کے ہاتھوں رافیل طیاروں کی تباہی، فرانس کو اب تک کا سب سے زور دار جھٹکا لگ گیا
پاکستان ایئر فورس نے ان طیاروں کو اس وقت گرایا جب انہوں نے پاکستان پر حملہ کیا، جب انہوں نے میزائل چھوڑے تو ہی ان کو گرایا گیا ۔ پاکستان کی مسلح افواج ان کے 10 سے زیادہ طیارے گرا سکتی تھی لیکن ہم نے تحمل کا مظاہرہ کیا، بھارت کے ایک بھی طیارے کو پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی جبکہ پاکستان کے بھی کسی طیارے نے سرحد عبور نہیں کی۔
الحمدو اللہ پاک فضائیہ کے تمام طیارے اور اثاثے مکمل طور پر محفوظ ہیں، اس فضائی جنگ کے علاوہ دشمن نے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باونڈری پر بلااشتعال فائرنگ شروع کی جس کا پاک فوج نے منہ توڑ جواب دیا، جس میں بھارت کی متعدد پوسٹیں تباہ کر دی گئیں۔
پاک فضائیہ کے ہاتھوں تباہ ہونے والے بھارتی رافیل کی ویڈیو سامنے آ گئی
ایک اور افسوسناک عمل یہ تھا کہ بھارت نے نیلم جہلم ہائیڈرو پارک پراجیکٹ اور اس میں نوسہری ڈیم کے ڈھانچے کونشانہ بناتے ہوئے نقصان پہنچایا، ہائیڈرو سٹرکچر ز کو نشانہ بنایا ناقابل قبول اور خطرناک کشیدگی ہے ، کیا بھارت پاکستان کے عوام کے پانی کو نقصان پہنچانا چاہتاہے ، کیا وہ جانتاہے کہ اس کے کیا نتائج ہوں گے ؟ کیا بین الاقوامی قوانین اور جنگی قوانین ، روایات اس بات کی اجازت دیتی ہیں کہ آپ کسی اور ملک کے پانی کے ذخائر ، ڈیم اور ہائیڈرو پارک سٹرکچرز کو نشانہ بنائیں۔
بھارت نے گزشتہ بزدلانہ کارروائی کے دوران بہت سی اور قومی اور بین الاقوامی فلائٹس پاکستان کی ایئر سپیس میں موجود تھیں، ان میں ہزاروں مسافروں کی زندگی خطرے میں ڈالی گئی، اس وقت 57 بین الاقوامی فلائٹس پاکستان کی ایئر سپیس میں تھیں۔
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: کو نشانہ بنایا گیا پاکستان پر حملہ اس کے علاوہ پاکستان کی کمبیٹ ڈرون گرایا گیا بھارت نے کہ بھارت اور ایک شامل ہے
پڑھیں:
شہباز شریف ، جنرل اسمبلی کا اجلاس اور امریکی زیادتیاں
پہلے صدرِ مملکت،جناب آصف علی زرداری، ماہِ رواں ہی میں10روزہ دَورے پر چین پہنچے اور اب وزیر اعظم ، جناب شہباز شریف،10دن کے لیے ملک سے باہر چلے گئے ہیں ۔اگرچہ17ستمبر کو ریاض میں ہمارے وزیر اعظم کا پُرتپاک استقبال ہُوا ہے اور سعودیہ کے ساتھ نئے تاریخی اسٹریٹجک معاہدے بھی ہُوئے ہیں، مگرسوال یہ ہے کہ کیا غریب پاکستان ایسے طویل اور مہنگے سرکاری دَورے برداشت کر سکتا ہے؟جناب شہباز شریف 17ستمبرکو پاکستان سے روانہ ہُوئے ہیں اور27ستمبر کو واپس آئیں گے۔
اُنھوں نے پہلے سعودی ولی عہد،محترم محمد بن سلمان،سے ملاقات کی ہے، اور دوسرے اسٹاپ اووَر میں آج بروز جمعہ وہ برطانوی وزیر اعظم ، کیئر اسٹارمر، سے لندن میں ملیں گے ۔لندن سے وہ نیویارک پہنچیں گے جہاں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی(UNGA)کا سالانہ سربراہی اجلاس22 ستمبر2025 کو نیویارک میں شروع ہورہا ہے ۔ ہر سال ہی ماہِ ستمبر میں جنرل اسمبلی یہ سربراہی اجلاس طلب و منعقد کرتی ہے، جو کئی روز جاری رہتا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک کے سربراہانِ مملکت ، وزرائے اعظم یا اہم ترین حکومتی نمائندگان جنرل اسمبلی کے مذکورہ اجلاس میں شریک ہوتے اور اپنا اپنا نقطہ نظر اِس عالمی فورم کے پلیٹ پر پیش کرتے ہیں ۔ عالمِ اسلام سمیت پاکستان بھی ہر سال UNGA کے اجلاس میں شریک ہوتا ہے اور خصوصاً مقبوضہ کشمیر اور مقبوضہ فلسطین بارے اپنا دیرینہ محکم موقف پیش کرتا ہے۔ مگر اب تک مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین کو پاکستان و عالمِ اسلام کتنا اور کہاں تک حل کروا سکا ہے ، یہ ہم سب کے سامنے ہے ۔
لیکن اِس کا ہر گز ہر گز یہ مطلب و معنی نہیں ہے کہ پاکستان اپنے انصاف بر مبنی دیرینہ، تاریخی اور محکم قومی موقف بارے خاموش ہو جائے ۔ یہ درست ہے کہ مقبوضہ کشمیر اور مقبوضہ فلسطین میں ہنود و یہود کی دراز دستیاں ، ستمرانیاں اور خونریزیاں مسلسل جاری ہیں، لیکن اِس ظلم و استحصال کے باوجود پاکستان کے ہر حکمران اور نمایندہ کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ستمبر میں منعقدہ سربراہی اجلاس میں اپنے موقف کو دہراتے رہنا ہے ۔
کبھی تو عالمی ضمیر مجرمانہ جہل و غفلت سے جاگے گا۔ جناب شہباز شریف اِس بار بڑے اعتماد کے ساتھ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں یوں بھی شریک ہو رہے ہیں کہ پاکستان نے مئی کی چار روزہ جنگ میں بھارت کو عبرتناک شکست دی ہے ۔ بھارت نے اِس بار مون سون میں جس وحشت وبربریت سے پاکستان پر آبی جارحیت کی ہے اور جس کارن پاکستانیوں کو اربوں روپے کے مالی اور بے پناہ جانی نقصانات اٹھانا پڑے ہیں ، اُمید ہے اِس بارے بھی جناب شہباز شریف UNGAکے فورم پر بھارت کی دانستہ زیادتیوں کا ذکر کریں گے ۔
اُمید تھی کہ UNGAکے اِس اجلاس میں پاک، بھارت وزرائے اعظم کی ، راہ چلتے ہی سہی، ملاقات ہو جائے گی ، لیکن اب معلوم ہُوا ہے کہ نریندر مودی جی نیویارک جا ہی نہیں رہے ۔ اُن کی جگہ بھارت کی نمائندگی بھارتی وزیر خارجہ، جئے شنکر، کررہے ہیں ۔بھارت جس طرح مسلسل بلوچستان میں خونریز پراکسی وار کررہا ہے اور فتنہ الخوارج کی پشت پناہی کررہا ہے، جناب شہباز شریف اِس بارے بھی اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے رکن ممالک کی آنکھیں کھول سکیں گے ۔جنوبی ایشیا میںبھارت، پاکستان کی قیامِ امن کی متنوع ، مسلسل اور متعدد کوششوں کو جس انداز میں بلڈوز کررہا ہے ، وزیر اعظم پاکستان اِس بارے بھی دُنیا کو بتائیں گے ۔
غزہ( فلسطین) میں پچھلے دو برسوں کے دوران ظالم و غاصب صہیونی اسرائیل نے نہتے اہلِ غزہ پر جو متنوع قیامتیں ڈھا رکھی ہیں ، اُن پر قحط مسلّط کررکھا ہے ، جس طرح پچھلے دو برسوں کے دوران 65ہزار سے زائد اہلِ غزہ کو شہید اور پندرہ لاکھ سے زائد اہلِ غزہ کو بے گھر کر چکا ہے ، جناب شہباز شریف یہ کتھا بھی عالمی ضمیر کے سامنے رکھیں گے ۔دُنیا اِس وقت صہیونی اسرائیل کے مظالم سے مکمل طور پر آگاہ ہو چکی ہے ، مگر صہیونی اسرائیل کا سب سے بڑا پشتی بان( امریکا ) اسرائیلی مظالم کو مان رہا ہے نہ اِس کی مالی و عسکری امدادواعانت سے ہاتھ کھینچنے پر تیار ہے۔
9ستمبر 2025 کو صہیونی اسرائیل نے جس بربریت سے قطر کے دارالحکومت پر حملہ کیا ہے، اُمید ہے یو این او کے پلیٹ فارم سے پاکستان اِس پر بھی حملہ آور کے خلاف احتجاج کریگا، اگرچہ15ستمبر2025 کو دوحہ میں منعقدہ ایمرجنسی ’’عرب اسلامک سمّٹ‘‘ کے پرچم تلے اکٹھے ہونے والے کئی مسلمان سربراہانِ مملکت( سمّٹ کے بعد جاری متفقہ اعلامئے کے مطابق) جارح اسرائیل کے خلاف کوئی مضبوط لائحہ عمل نہیں بنا سکے۔
امکانات ظاہر کیے جارہے ہیں کہ شائد UNGAمیں جناب شہباز شریف کی ملاقات ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی ہو جائے ، لیکن ٹرمپ کے حکم پر امریکی محکمہ خارجہ نے فلسطین اتھارٹی کے صدر جناب محمود عباس اور اُن کے 80ساتھیوں کے امریکی ویزے جس انداز میں منسوخ کیے ہیں، عالمِ اسلام میں ناراضی پائی جارہی ہے ( بیہودہ امریکی الزام یہ ہے کہ محمود عباس امن دشمنی کررہے ہیں ) محمود عباس اپنے وفد کے ہمراہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہونا چاہتے تھے ۔ اسرائیل ڈونلڈ ٹرمپ کے اِس ظالمانہ فیصلے پر انتہائی خوش ہے، مگر محمود عباس غصے میں ہیں ۔ سچی بات یہ ہے کہ فلسطین اتھارٹی اور اس کے سربراہ کے غصے کی بھلا امریکا کو کیا پروا ہے؟ مگر دُنیا بھر میں ، بالخصوص مغربی دُنیا میں، مذکورہ امریکی فیصلے پر شدید ناراضی پائی جا رہی ہے ۔
خاص طور پر اس لیے بھی کہ یہ کہا جارہا ہے کہ ستمبر2025کے آخری ہفتے UNGAمیں منعقدہ سربراہی اجلاس میں کئی مغربی ممالک فلسطین کو باقاعدہ آزاد ریاست کے طور پرتسلیم کرنے جا رہے تھے ۔ یہ بھنک پا کر ہی (اور اسرائیل کی خوشنودی کی خاطر) امریکا نے جناب محمود عباس اور اُن کے وفد پر پابندیاں عائد کی ہیں تاکہ وہ جنرل اسمبلی میں آ ہی نہ سکیں ۔ جناب محمود عباس UNGAمیں سعودی عرب اور فرانس کی جانب سے بلائے گئے ایک ذیلی اہم اجلاس میں بھی شریک ہو رہے تھے ۔
مگر اِس امریکی فیصلے کے بعد دُنیا میں یہ بحث ہو رہی ہے کہ آیا امریکا قانونی طور پر فلسطین اتھارٹی کے صدر اور اُن کے وفد کو جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہونے سے روک سکتا ہے؟کہا جاتا ہے کہ1947 کا ’’اقوامِ متحدہ ہیڈکوارٹر معاہدہ‘‘ کے تحت امریکا، فلسطین اتھارٹی کے صدر اور اُن کے وفد کو UNGAکے سالانہ اجلاس میں شرکت سے روک سکتا ہے ۔حالانکہ اِس معاہدے کی شِق نمبر11 واضح طور پر امریکا کو پابند کرتی ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک کے نمائندوں، اقوامِ متحدہ کے اہلکاروں اور اس کی خصوصی ایجنسیوں کے اہلکاروں کے ہیڈکوارٹر تک رسائی میں رکاوٹ نہ ڈالے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیایہ معاہدہ فلسطینی اتھارٹی (PA) پر لاگو ہوتا ہے؟
امریکی جواب یہ ہے کہ چونکہ فلسطینی اتھارٹی مکمل رکن ملک نہیں ہے اوراِسے 2012 میں جنرل اسمبلی کی ووٹنگ کے بعد ’’غیر رکن مبصر ریاست‘‘ کا درجہ ملا، اس لیے اِس کمزور عالمی حیثیت کے کارن امریکا اِسے جنرل اسمبلی میں آمد سے روک سکتا ہے ۔ لیکن اِس کے باوصف فلسطینی وفد کو ویزا سے انکار کو اقوامِ متحدہ کے کام میں مداخلت اور معاہدے کی روح کی خلاف بھی ورزی سمجھا جا سکتا ہے۔امریکا کے پاس یہ اختیار بھی ہے کہ وہ ’’قومی سلامتی‘‘کی بنیاد پر( فلسطین اتھارٹی کے صدر اور وفد کو) جنرل اسمبلی میں داخلے سے انکار کردے۔ جیسا کہ ماضی میں امریکا نے اپنے کئی ناپسندیدہ ممالک یا تنظیموں کے نمائندوں کو ویزا دینے سے انکار کیا ہے (جیسے ایران، پی ایل او، کیوبا)۔اِن مثالوں کے باوجود فلسطینی صدر بارے امریکی فیصلہ زیادتی ہی سے معنون کیا جارہا ہے۔
اب بھی عالمی سطح پر اُمید کی جارہی ہے کہ شائد فلسطین اتھارٹی بارے امریکی فیصلے کو سفارتی گفت و شنید کے ذریعے تبدیل کروایا جا سکے ۔ خدانخواستہ اگر ایسا نہ ہُوا تو یہ امریکا کی جانب سے مظلوم فلسطینیوں پر ایک اور ظلم ہوگا۔ (بقول امریکی میڈیا) امریکا کی جانب سے ایک اور ظلم و زیادتی یہ بتائی جارہی ہے کہ جب UNGAمیں ایرانی صدر ( پزشکیان صاحب) اپنے وفد کے ہمراہ نیویارک پہنچیں تو اُنہیں کسی بھی ہول سیل اسٹور ( جہاں سے ہیوی ڈیوٹی سامان خریدا جا سکتا ہے) میں جانے سے روکا جائے ۔